اسلام میں عورت کا مقام

اسلام میں عورت کا مقام

اسلام میں عورت کا مقام

المرأة في ظلال الإسلام باللغة الأردية

 

 

تالیف

ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبد الکریم الشیحہ

 

 

مترجم

المركز الأوروبي للدراسات الإسلامية

و نظام الدین یوسف

نظرثانی

وسيم على سيال

 

www.islamland.com

 

 

اسلام میں عورت کا مقام

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين وبعد:

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ([1]).

یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے کہ اسلام کی طرف وہ باتیں منسوب کی جائیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ، ان ہی باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام و مرتبہ اور کوئی عزت و احترام نہیں ، اور یہ کہ اسلام نے عورت کے حقوق غصب کیے ہیں ، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ([2]).

ترجمہ: گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کر دے۔

اسی طرح فرمایا: ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ([3]).

ترجمہ: ور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔

اس دور میں ہر طرف عورت کے حقوق کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں ، مرد کے ساتھ مساوات کے مطالبے کیے جارہے ہیں ، ممکن ہے کہ اس طرح کی آوازیں اور مطالبے ان معاشروں میں قابل قبول ہوں ، جن میں عورت کے ساتھ انصاف نہ ہوتا ہو،اسے اس کے حقوق نہ ملتے ہوں ، لیکن ایک ایسے اسلامی معاشرے میں ان حقوق کا مطالبہ کرنا کہ جس میں روز اول سے عورت کو اس کے حقوق اور آزادی اس کے مطالبہ کرنےسے پہلے دیئے گئے ہوں اور ا ن حقوق کو شرعی واجبات میں سے قرار دیا گیا ہوکہ جس پر سمجھوتہ ناممکن ہو، بڑی ہی عجیب بات ہے، ہاں ممکن ہے کہ کوئی شخص انفرادی طور پر عورت کے ساتھ بدسلوکی اور اس کی حق تلفی کرتا ہو ، اگر ایسا ہے تو یہ اسلامی تعلیمات سے روگردانی اور اعراض کا نتیجہ ہے۔

بزعم خود([4]) جو لوگ عورت کی آزادی اور اس کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ، ان کے سارے مطالبات تین محور کے اردگرد گھومتے ہیں :

  1. عورت کی آزادی کا مطالبہ۔
  2. عورت کی مرد کے ساتھ برابری کا مطالبہ۔
  3. عورت کے حقوق کا مطالبہ۔

 

 

عورت کی آزادی کا مطالبہ

لفظ آزادی تقاضہ کرتی ہے کہ کوئی چیز مقید ہو جو آزادی کی محتاج ہو، اس لفظ آزادی میں ہی بہت بڑا مغالطہ ہے کہ انسان کو لگتا ہے کہ شاید عورت باندی ہے جسے اس کی غلامی سے آزاد کرانا ضروری ہے۔

آزدی مطلق مفہوم کے ساتھ ایک ناممکن چیز ہے، انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے مقید ہے ، اس لئے کہ اس کی امکانیات اور قدرات محدود ہیں ، چناچہ سب انسان اپنے اپنے معاشروں میں ، چاہے وہ معاشرے ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر کچھ قوانین کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں ، اپنے معاشی امور چلاتے ہیں ،اور اپنی زندگی کو ان قوانین کے ذریعے منظم کرتے ہیں ، تو کیا اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ آزاد نہیں ہیں ؟

معلوم ہوا کہ آزادی کی کوئی حد نہیں اور اگر اس سے تجاوز کیا جائے تو انسان حیوانیت پر اتر آتا ، جو نہ تو کسی سسٹم کو فالو کرتی ہے اور نہ ہی کسی قانون پر عمل کرتی ہے۔

پروفیسر ہنری ماکوو(Ph.D Henry Makow ) ( موصوف مفکر ، امریکی تعلیم کے ماہر ، محقق، اور عورت کے عالمی سطح پر معاملات کے متخصص ہیں ) کہتے ہیں([5]): عورت کی آزادی یہ نئے انٹرنیشنل سسٹم کا ایک دھوکہ ہے ، ایک بدترین دھوکہ کہ جس نے امریکی عورتوں کو اغوا کیا اور مغربی ثقافت کو تہس نہس کیا۔

یہ حقیقی بات ہے کہ اسلام و ہ پہلادین ہے جس نے عورت کو معاشرے کے ساتھ براہ راست لین دین کرنے کی آزادی دی ،اس سے پہلے عورت اپنی ولی یا وکیل کے ذریعے لین دین کر تی تھی ۔اسلام نے عورت کو صرف بے شرمی اور بے حیائی کے کاموں کی آزادی سے محروم رکھا ہے ،اور اس میں مرد بھی اس کے برابر ہے۔

 اسلام میں حریت کے مفہوم کی تحدید نبی کا یہ فرمان کر رہا ہے کہ :" اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے ( یعنی خلاف کرنے والے ) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا حصہ ملا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں ( دریا سے ) پانی لینے کے لئے اوپر والوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کرلیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے سب ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی([6])۔

اسلام میں حریت کا یہی مفہوم ہے کہ شخصی تصرفات شرعی ضوابط کے ساتھ بندھے ہوں جو ایک شخص کو اپنے اور معاشرے کے نقصان سے محفوظ رکھتے ہیں۔

عورت کی آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ کونسا نظام عورت کی حرمت کی حفاظت اور معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے ؟یہ اسلامی نظام کہ جس نے عورت کو مرد کے لئے تکمیل اور اس کا آدھا حصہ قرار دیا ہے یاوہ وضعی نظام اور عالمی قوانین کہ جس کے پیچھے خاص اہداف اور مقاصد ہیں کہ جن کی وجہ سے عزتیں پامال ہوئیں ، محارم کی بے حرمتی کی گئی ، معاشرے منہدم ہوگئے اور ملک اجاڑ دیے گئے؟

عورت کا مرد کے ساتھ مساوات کا مطالبہ

 عورت کا مرد کے ساتھ ہر چیز میں برابری کا مطالبہ ایک ناممکن امر ہے،اس لئے کہ مرد و عورت میں سے ہر ایک کی بناوٹ مختلف ہے چاہے وہ جسمانی ہو یا عقلی یا نفسیاتی۔

 جب ایک ہی جنس ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، میں فرق اور اختلافات کی وجہ سے مساوات ناممکن ہے تو جنس کے مختلف ہونے میں مساوات کا پایا جانا بالاولی مستحیل ہے، اللہ کا فرمان ہے: ﴿وَمِنْ كُلِ شَيءٍ خَلَقْنَا زَوًجَيْنِ لَعَلَّكُمْ َتَذَكَرٌوْنْ﴾ ([7])۔

ترجمہ: ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

اللہ تعالی نے جب دونوں جنسوں ،مرد وعورت کو پیدا کیا تو ہر ایک کو ایک مختلف ساخت پر بنایا جو بیک وقت اس کے لئے مکمل ساخت تھی۔

پھر جب ہم انسان کو دو مختلف قسموں میں تقسیم شدہ پاتے ہیں تو ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہ تقسیم دو مختلف ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے رکھی گئی ہے ،اس لئے کہ اگر ذمہ داری ایک ہوتی تو جنس بھی ایک ہی ہوتی اور اس کی دو الگ الگ قسمیں نہ ہوتیں۔ چناچہ انسان کا دومختلف جنسوں میں تقسیم ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ہر قسم کی، ذات اور جنس کے اعتبار سے خصوصیت ہے ۔

اسی طرح مثلا: رات اور دن ایک ہی جنس زمانہ کی دو مختلف قسمیں ہیں ،اس تقسیم کا تقاضہ ہے کہ رات کا ایک مقصد ہو او روہ اطمینان اور سکون ہے جبکہ دن کا ایک اور مقصد ہو اور وہ محنت و مشقت ہے ۔

 مرد اور عورت بھی اسی طرح جنس انسان کی دومختلف قسمیں ہیں، چناچہ کچھ چیزوں کا ان دونوں سے بحثیت انسان ہونے کے مطالبہ کیا جاتا ہے ، اور کچھ چیزوں کا صرف مرد سے جبکہ کچھ چیزوں کا صرف عورت سے مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ مردوعورت ایک جنس کی دو قسمیں ہیں باعتبار جنس ان کی کچھ مشترک ذمہ داریاں ہیں اور باعتبار قسم کے ہر ایک کی مختلف ذمہ داریاں ہیں([8])۔

مندرجہ بالا باتوں سے واضح ہے مرد وعورت کے درمیان ہر چیز میں مساوات ایک ناممکن امر ہے، اور اس کے لئے کوشش کرنا بھی فضول ہے اس لئے کہ یہ فطرت اور طبیعت کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے، اور یہ عورت کی اہانت اور ذلت بھی ہے، کیونکہ اس میں عورت کی اپنی فطرت کے خلاف بغاوت کرتی ہےجس پر اللہ تعالی نے اسے پیدا فرمایا ہے، جس کا معاشرے پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے۔

عورت کے حقوق کا مطالبہ

ایسا کوئی بھی قدیم یا جدید قانون یا نظام نہیں ہے جس نے عورت کے حقوق کا تحفظ اور اسے اس طرح اعلی مقام عطا کیا ہو جس طرح اسلام نے اسے عطا کیا ہے ۔چناچہ جیسے ہی رسول اللہ کی بعثت سے اسلام کا نور روشن ہوا، اس نے آپ پر ایمان لانے والوں کے نفوس میں ایسا حادثہ بپا کر دیا جو انسانی تاریخ کا سب سے عجیب حادثہ تھا ۔یہ حادثہ ہر اعتبار سے عجیب تھا ،سرعت انتشار میں، شمولیت میں، باریک بینی میں، عام فہم ہونے میں اور بشری فطرت کی موافقت میں۔

اس میں نہ تو کوئی پیچیدگی تھی، نہ التباس تھا ،اور نہ ہی بشری فطرت سلیمہ کے ساتھ اس کا کوئی تصادم تھا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس حادثے کے نتیجے میں عورت کی حیثیت اور اس کے حقوق میں کیا تبدیلی آئی جو کہ ہماری بحث کا مقصد بھی ہے۔

 کتاب "تمدن عرب "کے مصنف لکھتے ہیں ([9]): اسلام کا فضل محض عورت کے مقام کو بلند کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی اضافہ کرنا پڑے گا کہ یہ پہلا دین ہے جس نے یہ کیا۔

اسی کتاب میں دوسری جگہ صفحہ نمبر 497 پر لکھتے ہیں : میاں بیوی کے حقوق جنہیں قرآن کریم اور اس کے مفسرین نے بیان کیا ہے وہ یورپین حقوق زوجیت سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔

 عورت کے حقوق کا مطالبہ ان معاشروں سے کرنا چاہیے جنہوں نے اس کے حقوق چھینے ہیں یا ان معاشروں سےکرنا چاہیےجس میں عورت کو اس کے حقوق بغیر کسی ضابطے کے دیئے گئے ہیں ، جن کی وجہ سے عورت ذلت و فساد کی راہ پر چل پڑی ہے ، جن کی وجہ سے عورت محض کھلونا اور شہوت پوری کرنے کا آلہ بن چکی ہے۔

 جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اسلام نے عورت کے ساتھ انصاف کیا ہے ، اس کے حقوق محفوظ کیے ہیں ، اور اسے ہر عام وخاص حقوق عطا کیے ہیں، جن کے ذریعے سے وہ پرمسرت اور امن و سلامتی والی زندگی بسر کرکے اس ذمہ داری کو اداکر سکتی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔

 

 

مختلف ادوار میں عورت کی حالت

دور جاہلیت میں عورت کی حالت

بلاشبہ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں عورت ظلم وستم کا نشانہ تھی، اس کے حقوق غصب کیے جاتےتھے، اس کا مال ہڑپ کیا جاتاتھا ،اور اسکی حیثیت ایک سستے سامان کی تھی ،وہ وارث نہیں بن سکتی تھی ،اس لئے کہ میراث صرف اسی کو دی جاتی جو گھڑسواری کر سکتا اور مال غنیمت حاصل کر سکتا تھا ،بلکہ عورت تو خود اپنے شوہر کی وفات کے بعد میراث بن جاتی ،جس طرح دیگر سامان میراث بن جاتا تھا، اور اگر اس کے شوہر کی دوسری بیوی سے اولاد ہوتی تو اس کا بڑا بیٹا دوسروں کی بنسبت اپنے باپ کی بیوی کا زیادہ حقدار ٹھہرتا ،وہ اس کا اسی طرح وارث بنتا جس طرح مال کا وارث ہوتا ہے ،وہ اس کے گھر سے اس وقت تک نہیں نکل سکتی تھی جب تک کہ اپنا فدیہ ادا نہ کردے۔ طلاق کے بعد اسے رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ مرد جتنا چاہتا بغیر کسی حد کے شادیاں کرسکتا تھا۔عورت کو اپنا شوہر چننے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ ان کا اپنے شوہروں پر کوئی حق نہیں تھا۔ ایسا کوئی نظام نہیں تھا جو مرد کو عورت پر ظلم کرنے سے روک سکے۔

دور جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش پر خوش نہیں ہوتے تھے ، بلکہ وہ اسے منحوس سمجھتے اوراسے بُرائی اور آزمائش خیال کرتے تھے، جب ان میں سے کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اسے پریشانی اور غم ڈھانپ لیتے،بیٹیوں کیساتھ نفرت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ وہ انہیں زندہ درگور کر دیتے ،زندہ درگور کرنا قبائل عرب کے ہاں عام تھا ،جس کے خاندان کی اجتماعی حالت کے مختلف ہونے وجہ سے مختلف اسباب تھے، کچھ لوگ بیٹیوں کو عار کے خوف سے زندہ درگور کر دیتے تھے اور کچھ اس میں عیب یابیماری کی وجہ سے اسے زندہ درگور کر دیتے تھے ،اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (58) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ﴾ ([10])۔

ترجمہ: ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں.

اور کچھ فقر و فاقہ کے ڈر سے زندہ درگور کر دیتے تھے ،یہ عرب کے فقراء تھے، قرآن کریم نے اسے اس طرح بیان کیا ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا﴾([11])۔

ترجمہ: اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

یہاں تک کہ عورت اپنے فطری حقوق سے بھی محروم تھی ،چناچہ کچھ چیزیں مردوں کے لئے خاص تھیں جبکہ عورتوں پر حرام تھیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَى أَزْوَاجِنَا﴾([12])۔

ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ جو چیز مویشی کے پیٹ میں ہے وہ خالص ہمارے مردوں کے لئے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہیں۔

ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس پر عورت فخر کر سکتی ہو سوائے اسکے کہ مرد اس کی حفاظت کرتا اور اسکی بے حرمتی اور شرف کی حفاظت کی خاطر بدلہ لیتا تھا۔

قدیم ہندو معاشرے میں عورت کی حالت

"وید "جو کہ ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے، جو برہمن دین کی اساسیات پر مشتمل ہے، اس نے عورت کے متعلق لکھا ہے کہ([13]) :برہمی شریعت مرد اور عورت کے درمیان انسانی قدر و قیمت اور تمام حقوق میں فرق کرتی ہے،بنابریں عورت کو اس کی شہری اہلیت سے مجردکرکے اس کی زندگی کے مختلف مراحل میں اسے مرد کے زیر تسلط دیتی ہے، جیسا کہ مانو قوانین اس پر دلالت کرتے ہیں ،چناچہ اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ عورت کو اس کی زندگی کے مختلف مراحل میں سے کسی بھی مرحلے میں اپنی چاہت کے مطابق کوئی بھی معاملہ کرنا ،چاہے وہ اس کے گھر کے اندرونی معاملات میں سے کوئی معاملہ ہی کیوں نہ ہو اسے اس کا حق نہیں ہے ۔

بچپن کے مرحلے میں وہ اپنے باپ کے تابع ہوتی اور جوانی کے مرحلے میں اپنے شوہر کے تابع ہوتی ،جب اس کا شوہر فوت ہو جاتا تو اس کی ذمہ داری اس کے چچاؤں کی طرف منتقل ہوجاتی، اگر اس کے چچا نہ ہوتے تو حاکم وقت کی طرف اس کی ذمہ داری منتقل ہوجاتی ،عورت کو اس کی زندگی کے مراحل میں سے کسی بھی مرحلے میں آزادی ،خود مختاری اور تصرف کا کوئی حق نہیں تھا۔ ہندو معاشرے میں عورت کی حیثیت ایک لونڈی کی تھی جس کی کوئی چاہت نہیں تھی، جسے خود کے کسی بھی معاملے پر کوئی اختیار نہیں تھا بلکہ اس کا شوہر اسے جوئے میں ہرا دیتا تھا([14])۔

وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد شادی نہیں کر سکتی تھی ، بلکہ اسے اپنے شوہر کی وفات کے بعد زندہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں تھا ، اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد اسی کی چتا میں جل جائے۔

ان کی دینی کتب کہتی ہیں([15]): عورت کے لئے بہتر ہے کہ وہ خود کو انہی لکڑیوں پر ڈال دے جو اس کےفوت شدہ شوہر کو جلانے کیلئے رکھی گئی ہوں۔ چناچہ جب اس کے شوہر کی لاش کو لکڑیوں پر رکھ دیا جاتا تو اس کی بیوی نقاب اوڑھے آگے بڑھتی، کاہن اور پنڈت اس کا نقاب اتارتے ،وہ اپنے زیورات اتار کر اپنے رشتے داروں پر تقسیم کرتی ،پھر اپنی مینڈھیاں کھولتی ، اور سب سے بڑا برہمن اس کا ہاتھ پکڑتا اور لکڑیوں کے اردگرد اسے تین چکر لگواتا ،پھر وہ لکڑیوں کو اوپر چڑھ جاتی ،پھر ایک مرد اس کے مردہ شوہر کو اٹھا کر اس کی پیشانی تک لے آتا جو اس عورت کا اپنے شوہر کے لئے عاجزی کا اشارہ ہوتا ،پھر وہ اپنے شوہر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتی ،پھر اس کو آگ لگا دیتے اور اسے اس کے شوہر کے ساتھ ہی جلا دیتے۔ ان کی یہ سوچ ہوتی تھی کہ ایسا کرنا اس عورت کو اپنے شوہر کو ساتھ ہمیشہ کی نعمتوں سے ہمکنار کر دے گا، اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ پانچویں آسمان میں 35 ملین سال رہے گی ،اور وہ خود کو آگ لگا کر اپنے ننھال ،ددہیال ، سسرال، اور اپنے شوہر کو گناہوں سے پاک کر دے گی ۔اور ایسی عورت کو تمام عورتوں سے بڑھ کر پاکیزہ سب سے زیادہ با عزت اور باکردار تصور کرلیا جاتا ۔یہ عادت ان کے ہاں اتنی عام ہو چکی تھی کہ انہوں نے محض دس سالوں میں 1518 سے 1525 تک تقریبا چھ ہزار(6000) عورتیں جلادیں، اور اس شریعت پر سترہویں صدی تک عمل ہوتا رہا، یہاں تک کہ ہندو مذہب کے دینی عمائدین کی ناپسندیدگی کی بنا پر اسے چھوڑ دیا گیا ۔

اس وقت ہندو عورت جس بدترین حالت میں زندگی بسر کرتی تھی اس کی وجہ وہ باتیں بھی ہیں جو ہندو شریعت میں وارد ہوئی ہیں کہ: تقدیر، طوفان، موت، جہنم ،زہریلے سانپ، ان میں سے کوئی اس قدر خراب نہیں ہے جتنی عورت"([16])۔

اور بسا اوقات ایک عورت کے بیک وقت کئی شوہر ہوتے اور اس کی حالت مکمل طور پر ایک طوائف کی سی ہوتی([17])۔

قدیم چینی معاشرے میں عورت کی حالت

کتاب "قصۃ الحضارۃ" کے مولف W. Durant ، قدیم چینی معاشرے میں عورت کے مقام کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ([18]): وہ اپنے شوہر کے تابع ہوتی، اس کی اطاعت و فرماں برداری میں اپنی عمر گزار دیتی، اپنے مالی اور معاشرتی تمام حقوق سے یکسر محروم تھی، وہ اس قدر معمولی تھی کہ اسے خود کے کسی بھی معاملے پر کوئی اختیار نہیں تھا بلکہ مرد ہی اس کے ہر معاملے کا نگران ہوتا، اسے ثقافت و تعلیم کا کوئی حق نہیں تھا بلکہ اس پر لازم تھا کہ گھر میں قید رہے، خدمت کرے، کام کاج کرے، سلائی اور خدمت کرنے کے مختلف وسائل سیکھے اور اس پر لازم تھا کہ 15 سال کی عمر کو پہنچے تو اپنے بال کاٹ دے اور جب 20 سال کی ہوجائے تو شادی کرلے اور اس کا والد دلال کی مدد سے اس کے لئے شوہر تلاش کرتا ، اس کی ولادت کو نحوست خیال کیا جاتا۔

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ([19]): باپ اپنی عبادتوں میں دعا ئیں کرتے کہ انہیں بیٹے دیے جائیں اور ماؤں کے لئے ذلت کے سخت ترین اور دائمی اسباب میں سے تھا کہ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو، اس لئے کہ یہ بیٹیوں کی بنسبت کھیتوں میں کام کرنے کی زیادہ طاقت رکھتے ہیں اور میدان قتال میں ان سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، اور بیٹیاں اپنے باپوں پر بوجھ تصور کی جاتیں اس لئے کہ ان کی سوچ تھی کہ وہ ان کی مارپیٹ کرکے، تربیت کرتے ہیں ، پھر انہیں ان کے شوہروں کے گھر بھیج دیتے ہیں (جس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا)۔

یہاں تک کہ بیٹیوں کو قتل کرنے کی عادات بھی موجود تھیں ،جب کسی خاندان میں ضرورت سے زیادہ بیٹیاں پیدا ہوجاتیں اور اس خاندان کےمالی معاملات مشکل ہونے کی بنا پر ان کے لئے ان کی کفالت کرنا مشکل ہوجاتا تو وہ انہیں کھیتوں میں چھوڑ دیتے تاکہ رات کی ٹھنڈ یا وحشی درندے اسے ختم کر دیں، اور قبیلے کے افراد کے ضمیر میں ذرا برابر خلش نہ ہوتی ۔

قدیم چینی کہاوت ہے کہ([20]): اپنی بیوی کی باتوں کو خاموشی سے سنو لیکن اس کی تصدیق نہ کرو۔

قدیم رومن معاشرے میں عورت کی حالت

کتاب" قصۃ الحضارۃ" کے مؤلف لکھتے ہیں([21]): بچی کی پیدائش ناپسندیدہ تھی، بلکہ معروف عادات کے مطابق باپ کو اجازت تھی کہ اگر اس کے گھر ناقص الخلقت بچہ یا بچی پیدا ہو تو اسے ماردے، اس کے برعکس انہیں شدید رغبت ہوتی تھی کہ ان کے ہاں نرینہ اولاد پیداہو ۔

رومن معاشرے میں عورت اس قدر مجبور تھی کہ اسے خود کےکسی معاملے پر کوئی اختیار نہیں تھا ،مرد جس طرح چاہتا اس کے ساتھ سلوک کرتا ،تمام اختیارات اور فیصلےاکیلے مرد کے ہاتھ میں تھے، اسے اس کے خاندان کے تمام افراد پر مکمل حقوق حاصل تھے، اس کے اختیارات میں سے یہ بھی تھا کہ کسی تہمت کی بنا پر اپنی بیویوں کو قتل کرنے کا حکم صادر کر سکتا تھا([22])، اسے اپنی بہوؤں اور بیٹوں کی بہو ؤں پر بھی مکمل اختیار تھا کہ وہ جسے چاہے بیچ دے یا عذاب دے یا ملک بدر کردے یا قتل کردے،عورت کا کام محض یہی تھا کہ وہ سنے اور اطاعت کرے اور بجالے آئے ،اسے اعتراض اور مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا،وہ میراث سے محروم رکھی جاتی، کیونکہ میراث بڑے بیٹے کو دی جاتی، بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا تھا کہ آدمی کے اختیارمیں تھا کہ خاندان میں کسی ایسے شخص کو داخل کردے جو خاندان میں سے نہ ہو اور اپنے بیٹوں میں سے جسے چاہے بیچ کر نکال دے([23])۔

قدیم یونانی معاشرے میں عورت کی حالت

یونانی معاشرے میں عورت کا مقام سابقہ قوموں کے ہاں عورت کے مقام سے کچھ زیادہ بہتر نہیں تھا، مقام ذلت یہاں تک تھا کہ اسے عاریتا مانگ لیا جاتا ۔

ترویلونگ کہتا ہے([24]):" زیادہ بچے جننے والی عورت اس کے شوہر سے عاریتا لی جاتی تا کہ وہ کسی اور مرد سے ملک کے لئے بچے پیدا کرے ،وہ ثقافت سے محروم تھی، اس درجہ تک حقیر تھی کہ اسے ناپاک اور شیطان کہا جاتا تھا([25])، ایسا کوئی نظام نہیں تھا جو اس کی حفاظت کرتا ، وہ میراث سے محروم تھی، اسے خود کے مال میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں تھا ،آزادی اور اظہار رائے سے وہ یکسر محروم تھی، مرد کی حکمرانی کے سامنے پوری زندگی جھکی ہوئی ،اسے طلاق کا مطالبہ کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا بلکہ وہ مطلقا مرد کا حق تھا([26])۔

بلکہ ان کے ہاں معاملہ یہاں تک پہنچ چکا تھا کہ ان کے بعض مفکرین نے مطالبہ کر ڈالا تھا کہ: ضروری ہے کہ لفظ عورت کوگھرمیں قید کیا جائے جس طرح عورت کے جسم کو گھر میں قید کیا تا ہے([27])۔

یونانیوں کے ہاں عورت ایک انتہا درجے کی پستی میں گری پڑی مخلوق تھی۔

 کتاب" تمدن عرب " کے مؤلف لکھتے ہیں ([28]):عموما قدیم یونانی لوگ عورت کو ایک حقیر چیز خیال کرتے جس کا نسل بڑھانے اور گھر کے کام کاج کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں تھا، اگر عورت کسی بد شکل بچے کو جنم دیتی تو عورت کو ختم کر دیتے ۔

مشہور خطیب ادیب ڈموسٹن ([29])نے عورت کی حالت کی یوم منظر کشی کی ہے کہ: ہم زانی عورتوں سے لذت کی خاطر تعلق رکھتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی صحت کی خاطر عورتوں سے دوستیاں رکھتے ہیں اور شادی اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمارے جائز بیٹے پیدا کریں۔

 جس معاشرے کے مہذب لوگ یہ باتیں کرتے ہو اس معاشرے میں عورت کا کیا مقام ہوگا؟

قدیم یہودی معاشرے میں عورت کی حالت

یہودیوں کے ہاں عورت گناہ کی جڑ اور اس کی بنیاد تھی، جس طرح تورات کی نصوص میں وارد ہوا ہے کہ([30]) عورت خطا کی ابتدا ہے، اور اسی کے سبب سے سب گمراہ ہوگئے۔

چناچہ یہودی معاشرے میں عورت کی حالت بھی اچھی نہیں تھی ،ان کے قوانین نے عورت کے مقام کو انتہائی نیچے گرا دیا تھا، اور اس سے ڈرایا تھا۔

جیساکہ سفرالجامعہ میں ہے([31]):

 25 میں نے اپنے دل کو متوجہ کیا کہ جانوں اور تفتیش کروں اور حکمت اور خرد کو دریافت کروں اور سمجھوں کہ بدی حماقت ہے اور حماقت دیوانگی ۔ 

26 تب میں نے موت سے تلخ تر اس عورت کو پایا جس کا دل پھندا اور جال ہے اور جس کے ہاتھ ہتھکڑیاں ہیں۔ جس سے خدا خوش ہے وہ اس سے بچ جائے گا لیکن گناہگار اس کا شکار ہوگا۔

باپ کو اپنے خاندان پر مطلق حکمرانی حاصل تھی ،بالخصوص عورتوں پر ،وہ جسے چاہتا اس کے ساتھ ان کا بیاہ کردیتا، اور جسے چاہتا اسے عورتیں ہبہ کردیتا، اسے اختیارحاصل تھا کہ اگر وہ انہیں بیچنا چاہے تو بیچ بھی سکتا ہے ، جیساکہ سفر الخروج اصحاح 21 میں فقرہ 7 سے فقرہ 11 تک وارد ہوا ہے ۔

کتاب قصۃ الحضارۃ کے مؤلف لکھتے ہیں([32]): باپ کو خاندان کے تمام افراد پر مکمل اختیار حاصل تھا ،جیسے کوئی ختم نہیں کر سکتا تھا، چناچہ زمین اس کی ملکیت تھی، اور اس کے بیٹوں کوزندہ رہنے کا اختیار اسی صورت میں تھا جب وہ اس کے حکم کی اطاعت کریں ، باپ ہی حکومت تھا، اگر وہ غریب ہوتا تو اسے اختیار تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو بلوغت سے پہلے بیچ دے تاکہ وہ کسی کی لونڈی بن جائے ، اسی طرح اسے مطلق حق حاصل تھا کہ وہ جس کے ساتھ چاہتا اس کے ساتھ اس کی شادی کرا دیتا ،اگرچہ بسااوقات وہ اپنے حق سے تنازل کرتا اور اس سے مطالبہ کرتا کہ وہ اس شادی پر راضی ہوجائے۔

جب یہودی عورت شادی کرتی تو اس کی ولایت اس کے باپ سے اس کے شوہر کی طرف منتقل ہوجاتی، اور وہ عورت اس مرد کی ملکیت بن جاتی جس طرح گھر ،غلام ،لونڈی اور دیگر مال اس کی ملکیت ہوتے۔ کیونکہ اسی پر تورات کے اوامر دلالت کرتے ہیں، جیساکہ سفر الخروج اصحاح 20 میں فقرہ 17 میں ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ یہودی شریعت نے بیٹی کو اپنے باپ کے ترکہ سے محروم کر دیا تھا، جب اس کے باپ کی نرینہ اولاد ہو جس طرح سفر عدد میں اصحاح 27 مئی فقرہ نمبر آٹھ میں ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو تم اس کی ملکیت کو اس کی بیٹی کی طرف منتقل کر دو۔

اور ان کے ہاں بیوی اپنے شوہر کی وفات کے بعد خودبخود اپنے شوہر کے بھائی کی طرف منتقل ہوجاتی، چاہے وہ راضی ہو یا نہ ہو، الا یہ کہ وہ خود اس سے بری ہو جائے، جس طرح کتاب مقدس عہد قدیم میں آیا ہے([33]):

اگر کئی بھائی مل کر ساتھ رہتے ہوں اور اُن میں سے ایک بے اولاد مر جائے ،تو اُس کی بیوی کسی اجنبی سے بیاہ نہ کرے، بلکہ اُس کے شوہر کا بھائی اس کے پاس جا کر اسے اپنی بیوی بنا لے، اور شوہر کے بھائی کا جو حق ہے وہ اس کے ساتھ ادا کرے ۔ 

جب عورت حائضہ ہو جاتی تو وہ نہ اس کے ساتھ کھاتے نہ پیتے اور نہ ہی اس کے ساتھ رات گزار تے، بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کرتے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جاتی ، اس معاملے میں ان کے قوانین کہتے ہیں([34]): جس دن عورت کو محسوس ہو کہ اس کے ماہانہ ایام شروع ہو چکے ہیں، اسی دن سے وہ ناپاک ہو جاتی ہے، اگرچہ بظاہر کوئی نشان نہ بھی ہو، اور شوہر پر لازم ہے کہ وہ اسے نہ چھوئے، یہاں تک کہ اپنی چھوٹی انگلی سے بھی نہیں ،اور اسے اجازت نہیں کہ کی اپنی بیوی کو کوئی چیز پکڑا ئے، اگرچہ وہ چیز لمبی کیوں نہ ہو ، اور نہ ہی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس سے کوئی چیز لے ،اور اپنے ہاتھ سے اس کی طرف کوئی چیز پھینکنا اور اس کے برعکس بھی جائز نہیں ،اور شوہر کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر کھائے، الا یہ کہ شوہر اور بیوی کے تھال کے درمیان کوئی رکاوٹ ہو، اور شوہر کو اجازت نہیں کہ اپنی بیوی کے بچے ہوئے پانی کےگلاس میں سے پیئے، اوردونوں کو ایک ہی چارپائی پر رات گزارنے کی بھی اجازت نہیں، اور نہ ہی ایک ہی بگھی میں سوار ہو نے کی اجازت ہے، اور نہ ہی ایک کشتی میں سوار ہونے کی، اور جب دونوں ایک ہی جگہ پر کام کر رہے ہوں تو ان کے لئے شرط ہے کہ ایک دوسرے نہ چھوئیں، اور اگر اس کا شوہر بیمار ہوجائے اور اس کے علاوہ اس کی خدمت کیلئے کوئی دوسرا نہ ہو تو اسے اجازت ہے کہ وہ اپنے شوہر کی خدمت کرے ،لیکن اس وقت تک جب تک وہ اس کو بغیر رکاوٹ کے چھوئے ،اور اگر عورت بیمار ہوجائے تو شوہر کو اجازت نہیں کہ وہ اس کی خدمت کرے، اگرچہ اسے نہ چھوئے، اور جب عورت بچہ پیدا کرتی ہے تو وہ ناپاک ہو جاتی ہے، اگروہ بچہ لڑکا ہے تو سات دن تک ناپاک رہتی ہے اور اگر لڑکی ہے تو چودہ دن تک ناپاک رہتی ہے، وہ بیٹے کی پیدائش کے چالیس دن بعد غسل کرے گی اور بیٹی پیدائش کے اسی دن بعد غسل کرے گی۔

قدیم مسیحی معاشرے میں عورت کی حالت

قرون وسطی میں کنیسہ کے پوپ نے عورت کے معاملے میں حد سے زیادہ مبالغہ کردیا تھا، وہ اس طرح کہ وہ لوگ عورت کو خطاء کی اصل ،گناہ کی جڑ اور پریشانیوں کا اصل سبب قرار دیتے جو تمام انسانیت کو پہنچا۔

اسی بنا پر مرد اور عورت کے درمیان تعلقات نجس ہو گئے جن سے بچنا واجب تھا ،اگرچہ وہ نکاح اور قانونی عقد کے ذریعے سے ہی کیوں نہ ہو۔

 ٹرٹلین کہتا ہے: عورت انسان کے نفس کی طرف شیطان کے داخل ہونے کا دروازہ ہے، اوراسی نےمرد کو لعنت کیئے ہوئے درخت کی طرف دھکیلا، وہ اللہ تعالی کے قوانین توڑنے والی ہے، اور اللہ کی صورت جو مرد کی شکل میں ہے اسے بگاڑنے والی ہے۔

ڈنمارکی کاتب Wieth Knudesen قرون وسطیٰ میں عورت کی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: کیتھولک مذہب کی رہنمائی کی وجہ سے عورت پر انتہائی محدود توجہ تھی جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق شمار کرتا تھا([35])۔

بولس رسول کہتا ہے :میں چاہتا ہوں کہ تم جان لو کہ ہر مرد کا سر مسیح ہے، اور عورت کا سر مرد ہے ، اور مسیح کا سر اللہ ہے، بلاشبہ مرد کے لئے لائق نہیں کہ وہ اپنے سر کو ڈھانپے کیونکہ وہ اللہ کی صورت اور اس کی بزرگی ہے ،جہاں تک عورت کا معاملہ ہے تو وہ مرد کی بزرگی ہے اس لئے کہ مرد عورت سے نہیں ہے بلکہ عورت مرد سے ہے، اور اس لئے بھی کے مرد عورت کے لئے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ عورت مرد کے لئے پیدا کی گئی ہے ،اس لئے فرشتوں کی وجہ سے عورت کےسر پر حکمران ہونا چاہیے۔

مسیحی تعلیمات عورت کے اوپر لازم کرتی تھیں کہ وہ مرد کے سامنے جھکے اور اس کی اندھی اطاعت کرے، بولس کہتا ہے([36]) : اے عورتو !تم اپنے مردوں کے لئے جھک جاؤ جس طرح رب کے لئے جھکتی ہو اس لئے کہ مرد عورت کا سر ہے ،جس طرح مسیح کنیسہ کا سر ہے۔

انگریز مصنف برناڈ شا کہتا ہے: جس لمحے عورت شادی کرتی ہے انگریزی قانون کے مطابق اس کی تمام تر ملکیت اس کے شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے۔

 اس پر مستزاد یہ کہ یہ شادی ہمیشہ ہمیشہ رہتی ، جسے دین اور قانون مسلط کرتا ، چناچہ اگر زوجین کے درمیان نفرت اور بغض کتنا ہی بڑھ کیوں نہ جائے، مشاکل اور پریشانیاں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوجائیں لیکن طلاق نہیں ہو سکتی ،بلکہ وہ دونوں جسمانی طور پر علیحدگی اختیار کریں گے، جس کا ظاہری نتیجہ ہے کہ مرد اجنبی عورتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا اور چھپ کر دوستیاں کرے گا، اسی طرح عورت بھی اپنے لئے چھپ کر دوست بنائے گی۔

اسی طرح اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک کی وفات ہو جاتی تو دوسرا جو زندہ ہوتا اسے دوبارہ شادی کی اجازت نہیں تھی ،جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ عورت کا مقام گر گیا، اس کی اہمیت ختم ہوگئی، اور بالآخر نئے مغربی معاشرے میں اس کا برا ردعمل سامنے آیا کہ ان کے مفکرین اور مہذب لوگوں نے یہ مطالبہ کردیا کہ معاشرے کے تمام افراد میں سے ہر فرد، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ،اسے مکمل حقوق اور مطلق آزادی دی جائے ،بغیر کسی قید کے، جس کا بدترین نتیجہ وہی نکلا جس میں آج کے یہ معاشرے رہ رہے ہیں کہ اخلاقی پستی ہے ،خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، یہ سب کنیسہ کے تشدد بے جا سختی اور ظالمانہ اور فطرت سے متصادم قوانین کا نتیجہ ہے۔

 

 

اسلام میں عورت کے حقوق

اسلام سے قبل انسانی معاشروں میں عورت کا جو مقام تھا اسے مختصرا بیان کرنے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے؟ اور وہ کون کون سے حقوق ہیں جو اسلام نے عورت کے لئے واجب قرار دیئے ہیں؟۔

 اسلام میں عورت کے عام وخاص ہر دو طرح کے حقوق ہیں ،اسلام میں عورت کے عام حقوق یہ ہیں:

  1. شرعی احکامات کی تکلیف میں عورت مرد کی طرح ہے، جس طرح شریعت اسلامیہ نے مرد کو احکامات شرعیہ، جیسے نماز ،روزہ، حج اور زکاۃ کا مکلف ٹھہرایا ہے، جب اس میں مکلف ٹھہرائےجا نے کی شروط پائی جائیں جو کہ: اسلام ،بلوغت اور سمجھداری ہیں، اسی طرح عورت کو بھی مکلف ٹہرایا ہے ،ہاں یہ الگ بات ہے کہ شریعت نے بعض احکامات شرعیہ میں عورت کو خصوصی تخفیف دی ہے ، جیسے حالت حیض اورنفاس میں نماز اور روزہ معاف کردیا ہے ،اور جب وہ پاک ہو جائے تو روزوں کی قضا دے یہ محض حالت حیض و نفاس میں اس کی جسمانی اور نفسیاتی کیفیت کا خیال کیا گیا ہے۔
  2. دنیاوی اور اخروی جزاوسزا میں عورت مرد کے برابر ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ([37]

ترجمہ: جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور ضرور دیں گے۔

  1. بحثیت انسان عورت مرد کے برابر ہے، وہ نہ تو گناہ کی جڑ ہے ، نہ آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کا سبب ہے، اور نہ ہی مرد سے کمتر جنس ہے، جیسا کے سابقہ ادیان کے مرد کہا کرتے تھے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا﴾([38])۔

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔

ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ اس نے دونوں جنسوں ،مردوعورت دونوں کو ایک ہی مصدر سے پیدا کیا ہے، حمل ،پیدائش اور اہلیت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ،دونوں برابر ہیں۔

 اس طرح اسلام نے عورت کے متعلق ان کے پھیلے ہوئے ظالم قوانین کو ختم کردیا ، بالخصوص جو عورت کو مرد سے کمتر ثابت کرنے کے متعلق تھے ،جس بنا پر عورت کو بہت سارے انسانی حقوق سے محروم کیا جاتا تھا، رسول اللہ کا فرمان ہے:" عورتیں مردوں کی مثل ہیں"([39])۔

  1. عزت، مقام و مرتبہ، اور وقار کی حفاظت میں عورت مرد کے برابر ہے ،اس پر تہمت لگانا اور اس کی عزت کے درپے ہونا سزا کا موجب ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾([40]).

ترجمہ: جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو انھیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں ۔

  1. میرا ث میں عورت مرد کی طرح ہے، اس کا بھی میراث میں حق ہے جس طرح مرد کا اس میں حق ہے ،اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا﴾([41])۔

ترجمہ: ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔

جاہلیت میں عورت کو حق وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا، اسلام نے اسے میراث کا حق دیا، بلکہ عورت خود دیگر سامان کی طرح مال وراثت تھی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ﴾([42]).

ترجمہ: ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے ورثے میں لے بیٹھو انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم ہم عہد جاہلیت میں عورتوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے حق میں جو نازل فرمانا تھا نازل فرمایا اور جوان کے لئے تقسیم کرنا تھا تقسیم کیا([43])۔

  1. کمال اہلیت اور مالی معاملات میں تصرف کی آزادی، جیسے ملکیت ،خریدوفروخت اور دیگر مالی تصرفات میں عورت مرد کے برابر ہے، اور اس کے تصرفات میں کوئی حد نہیں ، سوائے اسکے جس میں اس کا نقصان اور شریعت کی مخالفت ہو ،اللہ تعالی کا فرمان ہے: " ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾([44])۔

ترجمہ: اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾([45]).

ترجمہ: بیشک مسلمان مرد اور عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں (ان سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع مغفرت) اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

  1. اسلام نے عورت کی تکریم کو مکمل اور بہترین شخصیت کی علامت قراردیا ہے، رسول اللہکا فرمان ہے: کامل ایمان والاوہ شخص ہے جو اخلاق میں اچھاہو اور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جواپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہوں([46]).
  2. اسلام نے عورت کے لئے تعلیم وتعلم اسی طرح واجب قرار دیا ہے جس طرح مرد کے لئے واجب قرار دیا ہے، رسول اللہکا فرمان ہے :علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے([47])

اور علماء کا اجماع ہے کہ لفظ مسلم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں۔

  1. تربیت کے حق میں عورت مرد کے برابر ہے، دونوں میں سے ہر ایک کا حق ہے کہ ان کی اچھی تربیت اور نیکی پر نشونما کی جائے، بلکہ اسلام نے بیٹیوں کی تربیت اور ان پر خرچ کرنے کو جنت میں داخلے کا سبب قرار دیا ہے، رسول اللہکا فرمان ہے: جس کے تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور محنت و کوشش کر کے ان کو کھلائے پلائے اور انہیں پہنائے، تو وہ اس کے لئے روز قیامت آگ سے آڑ ثابت ہوں گی۔([48])
  2. معاشرہ کی اصلاح، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں عورت کی مسؤلیت مرد کے برابر ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾([49])۔

ترجمہ: ومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں نمازوں کی پابندی بجا لاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔

  1. کسی کو پناہ دینے میں عورت مرد کے برابر ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ﴾([50]).

ترجمہ: اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے۔

رسول اللہکا فرمان ہے: مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے ان میں سے ایک آدمی بھی یہ کر سکتا ہے، اورجس نے کسی مسلمان کے ذمہ کو توڑا، اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، روزِقیامت اللہ تعالیٰ اس کی کوئی فرضی و نفلی عبادت کو قبول نہ کرے گا([51])۔

اور یہ حق مردوعورت دونوں کے لئے یکساں ثابت ہے، ام ہانی بنت ابی طالب کہتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ کے پاس آئی اور آپ کو نہاتے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی صاحبزادی ایک کپڑے سے آپ کی آڑ کئے ہوئے تھیں۔ پھر میں نے سلام کیا۔ آپ نے فرمایا: ”کون؟میں نے عرض کیا کہ ابوطالب کی بیٹی ام ھانی۔ آپ نے فرمایا: ”خوش آمدید ام ہانی۔پھر نہا چکے تو کھڑے ہو کر آٹھ رکعت پڑھیں ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے۔ پھر جب پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے علی بن ابی طالب ایک آدمی کو مارے ڈالتے ہیں جس کو میں نے امان دی ہےوہ ہبیرہ کا بیٹا فلاں ہے۔ آپ نے فرمایا:” جس کو تو نے امان دی اس کو ہم نے امان دی اے ام ہانی، سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ نماز چاشت تھی([52])۔

اسلام میں عورت کا مقام اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے دشمن قوم کو پناہ دی سکتی ہے ، چناچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:' مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ([53])۔

ساتھ ہی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کچھ امور عورتوں کے علاوہ مردوں کے ساتھ خاص ہیں اور ان معاملات میں اسلام نے مرد وعورت دونوں کو برابر نہیں کیا ان مسائل کو ہم عورت کے متعلق اٹھائے گئے شبہات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ذکر کریں گے، لیکن ہم نے مناسب سمجھا کہ اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد عورت کی حالت کا ذکر کیا جائے تاکہ اسلام میں عورت کا جو محترم مقام ہے اس کی وضاحت ہوجائے۔

 جہاں تک خصوصی حقوق کا تعلق ہے تو اسلام نے عورت کا ہر لحاظ سے خیال رکھا ہے ،اسلام نے دعوت دی ہے کہ عورت پر توجہ دی جائے، اور پیدائش سے لے کر وفات تک اس زندگی کے تمام مراحل میں اسے سارے حقوق دیئے جائیں ،صرف کسی ایک مرحلے میں نہیں، اسلام نے عورت کی بحیثیت بیٹی، بیوی ،ماں اور بالآخر عام مسلمان عورت ہونےکے لحاظ سے خیال رکھا ہے۔

ہم اجمالی طورپر عورت کے حقوق کا ذکر کریں گے اور طوالت کے ڈر سے اختصار سے کام لیں گے مزید معلومات کے لئے ان فقہ کی کتب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے یہ موضوع تفصیل سے بیان کیا ہے۔

اسلام میں عورت کے حقوق بحیثیت بیٹی

  1. زندگی کا حق

 اللہ تعالی نے والدین پر واجب قرار دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد ،چاہے وہ بیٹے ہو یا بیٹیاں، ان کی زندگی کی حفاظت کریں ،اور ان کا قتل عظیم جرم قرار دیا ،اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا﴾([54]).

ترجمہ: اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو، ان کو تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

اوربیٹے اور بیٹی دونوں پر خرچ کرنے کا حق اور ان کی کفالت تب سے واجب ہے جب وہ اپنی ماؤں کے پیٹ میں ہوں، اللہ فرمان ہے: ﴿وَإِنْ كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾([55])۔

ترجمہ: اور اگر وہ حمل سے ہوں تو جب تک بچہ پیدا ہولے انہیں خرچ دیتے رہا کرو۔

  1. رضاعت کا حق

اللہ تعالی نےاولاد پر، چاہے وہ بیٹے ہو یا بیٹیاں ان پر احسان کرنا واجب قرار دیا ہے، اور یہ کہ ان کے معاملات کا خیال رکھا جائے، ان کی ضروریات پوری کی جائیں اور انھیں اچھی زندگی دی جائے ،اسلام نے اسے اولاد کا والدین پر حق قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ([56])۔

ترجمہ: مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو دستور کے مطابق ہو۔

  1. پرورش اور تربیت کا حق

 اسلام نے والدین پر واجب قرار دیا ہے کہ وہ اپنی اولادچاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں، ان کی جسمانی، عقلی، اورشرعی تربیت کا اہتمام کریں، رسول اکرمکا فرمان ہے: انسان کے گناہ گار ہونے کے لئے یہ (عمل) کافی ہے کہ جن کے رزق و اخراجات کا یہ ذمہ دار ہو، انہیں ضائع کر دے([57])۔(یعنی ان کے نان و نفقہ میں کوتاہی کرے )۔

اسی طرح آپنے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا([58])۔

اسی طرح ان کے لئے اچھے اور مناسب ماحول کا اہتمام کرنا چاہیے، اور اگر شوہر اور بیوی میں اختلاف پیدا ہو جائے توما ں اولاد کی پرورش کی زیادہ حقدار ہے ،اور پرورش کا حق اسلام نے مرد کی بجائے عورت کو اس لئے دیا ہے کہ اس میں کمال شفقت اور نرمی پائی جاتی ہے۔

 سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرا یہ بیٹا، میرا پیٹ اس کے لئے برتن ، میرا سینہ اس کے لئے مشکیزہ اور میرا دامن اس کے لئے پناہ گاہ رہا ہے ۔ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اس کو مجھ سے چھین لے ۔ رسول اللہ نے اس سے فرمایا: تو اس کی زیادہ حقدار ہے جب تک کہ نکاح نہ کرے ۔ ([59])

  1. شفقت و نرمی اور رحم کرنے کا حق

اولاد کو رحمت، شفقت اور نرمی کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی ہوتی ہے، اس لئے کہ یہ ان کے سلوک اور رویہ پر اثر انداز ہوتی ہیں ، اور اسلام نے تو غیروں کے لئے بھی رحمت و شفقت، باہمی نرمی اور محبت کا دین ہے تو اپنوں پر اس کی رحمت و شفقت کا کیا عالم ہوگا۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا ۔ آپ کے پاس سیدنا اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ سیدنا اقرع رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے دس لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں دیا ۔ آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ: جو مخلوق خدا پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا ([60])۔

  1. تعلیم کا حق

اسلام نے طلب علم کو ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے ، رسول اللہکا فرمان ہے :علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے([61])۔

اور بیٹیوں کوتعلیم دینا اجر ثواب میں اضافےکا سبب قرار دیا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم نے فرمایا: جس شخص کے پاس لونڈی ہو وہ اسے تعلیم دے ،اور خوب اچھی طرح دے ، اسے ادب سکھا ئے اور پوری کوشش اور محنت کے ساتھ سکھائے، اور اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اسے دہر اثواب ملتا ہے([62])۔

  1. مساوات و برابری کا حق

 شریعت نے اولاد کے درمیان عدل و مساوات کو اپنی تمام تر مفہوم کے ساتھ واجب قرار دیا ہے اور والدین کے رحمت و شفقت کا معاملہ کرنے میں تما م اولاد یکساں ہے، بیٹی اور بیٹیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ،اللہ تعالی کافرمان ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾([63]).

ترجمہ: اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ منبر پر بیان کررہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ ( نعمان کی والدہ ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ( حاضر خدمت ہوکر ) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عط یہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنالوں، آپ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہد یہ واپس لے لیا([64])۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کے حقوق غصب کئے ہیں کیاانہیں یہ حدیث نظر نہیں آتی؟

  1. شوہر کو اختیار کرنے کا حق

 اسلام نے شادی کے معاملے میں عورت کی رائے کا احترام کیا ہے ،اور اسے نکاح کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط قرار دیا ہے، جو بھی اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے اسلام نے عورت کو اختیار دیا ہے کہ چاہے تو قبول کرے اور چاہے تو انکار کردے، رسول اللہکا فرمان ہے: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے ،اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی([65])۔

اور اس کے والد یا اس کے ولی کو کوئی حق نہیں کہ وہ اسے کسی ایسے شخص کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور کرے جسے وہ ناپسند کرتی ہے، اور جس عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر کروایا گیا اسے فسخ نکاح کا حق ہے۔

خنساء بنت خذام رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا اور یہ بیوہ تھیں، یہ شادی انہیں پسند نہ آئی تو وہ رسول اللہ کے پاس آئیں، تو آپ نے ان کا نکاح رد کر دیا([66])۔

آپ کی بنیادی تعلیمات میں سے تھا کہ بیٹیوں کا خصوصی خیال رکھا جائے، ان کا وجوبا اکرام و احترام کیا جائے، ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، بالخصوص ان کی ضروریات پوری کی جائیں ۔

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس کے پاس تین لڑکیاں، یا تین بہنیں، یا دولڑکیاں، یادوبہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لئے جنت ہے ([67])۔

 اسلام نے بیٹیوں پر توجہ،ان کا خیال اور ان پر احسان کرنے کو جنت میں داخلہ کے اسباب میں سے ایک سبب قرار دیا ہے، تاکہ والدین کو رغبت دلائی جاسکے کہ وہ اجر کی خاطر اور اللہ تعالی سے جنت کی امید میں بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کریں۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ایک فقیرنی میرے پاس آئی اپنی دونوں بیٹیوں کو لئے ہوئے، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں۔اس نے ہر ایک بیٹی کو ایک ایک کھجور دی اور تیسری کھجور کھانے کے لئے منہ سے لگائی اتنے میں اس کی بیٹیوں نے (وہ کھجور بھی کھانے کو مانگی) اس نے اس کھجور کے جس کو خود کھانا چاہتی تھی دو ٹکڑےکیے ان دونوں کے لئے، مجھے یہ حال دیکھ کر تعجب ہوا، جو اس نے کیا تھا میں نے رسول اللہ سے بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے اس کے لئے جنت واجب کر دی یا اس کو جہنم سے آزاد کر دیا([68])۔

شریعت اسلامیہ نے اولاد کے درمیان جس طرح حسی معاملات میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح مادی معاملات میں بھی اولاد کے درمیان عدل ومساوات کا حکم دیا ہے ،اس لئے عطیہ یا ہدیہ کرنے میں بیٹوں کو بیٹیوں پر یا بیٹیوں کو بیٹوں پر فوقیت نہیں دی بلکہ سب برابر ہیں ۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما منبر پر بیان کررہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ ( نعمان کی والدہ ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ( حاضر خدمت ہوکر ) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنالوں، آپ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہد یہ واپس لے لیا([69])۔

عدل وہ مساوات صرف ظاہری امور میں ہی کافی نہیں بلکہ ان جزوی اور معمولی امور میں بھی واجب ہے جن کے بارے میں بسا اوقات انسان سوچتا بھی نہیں ہے چناچہ اولاد کو بوسہ دینے میں بھی عدل کا حکم دیا گیا ہے، انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کے ساتھ بیٹھا تھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اسے پکڑ کر اس کا بوسہ لیا اور اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی آئی اور اسے پکڑ کر اپنےپہلو میں بٹھا لیا، نبی نے فرمایا: تم نے ان کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا۔ یعنی بیٹے اور بیٹی کے درمیان بوسہ لینے میں([70])۔

جب ہم اسلام کا اولاد کے متعلق اہتمام کا ذکر کر رہے ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ اسلام کا یتیم کے ساتھ اہتمام بھی ذکر کیا جائے اس لئے کہ یتیمی کا بچے پر ایک خطرناک نفسیاتی اثر پڑتا ہے بالخصوص جب معاشرہ اس کے حقوق ادا نہ کرتا ہو اور اس کے واجبات کی حق تلفی کرتا ہو اور اسے شفقت و رحمت کی نظر سے نہ دیکھتا ہو۔

بلاشبہ اسلام نے یتیم بچے کا چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی بہت زیادہ خیال رکھا ہے،وہ اس طرح کہ اس کی پرورش اور اس کی نگہداشت سب سے زیادہ قریبی رشتہ داروں پر واجب کی ہے ،اگر اس کے رشتہ دار نہ ہوں تو یتیم بچے کا حکومت وقت پر حق ہے کہ وہ اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے۔

اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے ان لوگوں کے لئے شدیدترین وعید وارد ہوئی ہے جویتیم کا مال کھاتے ہیں اور اس کے حقوق ضائع کرتے ہیں ،اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا﴾([71])۔

ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔

رسول اللہ نے فرمایا: بلاشبہ میں دو کمزور افراد کے حقوق کی سنگینی کا اعلان کرتا ہوں : ایک یتیم اور دوسری عورت۔ ([72])

حدیث میں لفظ حرج وارد ہوا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ :میں سنگینی اور گناہ کو ان لوگوں کے لئے لازمی قرار دیتا ہوں جو ان دونوں کے حقوق ضایع کرتےہیں، ان پر ظلم کرتے ہیں اور انہیں تکلیف دیتے ہیں ۔

اسی طرح یتیم بچے کو ڈانٹنے اور اس پر سختی کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے ،اللہ کا فرمان ہے: ﴿فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ ﴾([73])۔

ترجمہ: پس یتیم پر تو سختی نہ کیا کر۔

شری نصوص میں یتیم کی کفالت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وصیت وارد ہوئی ہے، رسول اللہ کا فرمان ہے: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ، آپ نے اپنی دو انگلیوں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا ، اور ان دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ پیدا کیا([74])۔

اسی طرح اس پر رحمت و شفقت کی بھی ترغیب دلائی گئی ہے، رسول اللہنےفرمایا: کیا تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے اور تیری حاجتیں پوری ہوں ؟ تو یتیم پر رحم کیا کر اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اور اپنے کھانے میں سے اس کو کھلایا کر ایسا کرنے سے تیرا دل نرم ہو گا اور حاجتیں پوری ہوں گی ([75])۔

اسی طرح اسلام نے لاوارث بچہ، چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اس کے لئے بھی اہتمام کرنے کی رغبت دلائی ہے اور اس کا مسلمانوں اور اسلامی مملکت پر حق قرار دیا ہے کہ اس کا بھی اسی طرح خیال رکھا جائے جس طرح یتیم بچے کا خیال رکھا جاتا ہے،رسول اللہکا فرمان ہے: ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے([76])۔

اس طرح ہم معاشرےکو دوا سے فعال رکن دے سکتے ہیں جو اپنی ذمہ داری ادا کریں گے اور عام آدمی کی طرح مکمل زندگی بسر کرسکیں گے ۔

 

 

 

اسلام میں بحیثیت بیوی عورت کے حقوق

اللہ تعالی کا فرمان ہے: " ﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ([77])۔

ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے انسانوں کےلئے انہی میں سے بیویاں بنائیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے جسمانی اور نفسیاتی سکون حاصل کرسکیں، اسلام میں بیوی معاشرے کا وہ ستون ہے جس پر معاشرہ قائم ہے اور وہ ایسی بنیاد ہے جس پر اسلامی گھر تعمیر کیا جاتا ہے۔

جس طرح اسلام نے اس پر حقوق واجب کیے ہیں، اسی طرح اس کے مقابلے میں اس کے لئے بھی حقوق واجب کیے ہیں ،چناچہ اس کے حقوق اور واجبات میں سے ہے کہ:

  1. مہر کا حق

 یہ وہ واجبی حق اور لازمی عطیہ ہے جسے شریعت نے مرد پر عورت کے لئے واجب قرار دیا ہے ،عورت کے سب سے زیادہ قریبی کو بھی حق حاصل نہیں کہ اسکی رضا اورموافقت کے بغیر اس میں سے کچھ لے، اور اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا ،جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورت کو ملکیت کا حق ہے، اور وہ ساقط نہیں ہوتا، اگرچہ عورت راضی ہو، الا یہ کہ عقد نکاح ہو چکا ہو، تو عورت کو اپنی چاہت کے مطابق اس میں تصرف کا پورا پورا حق حاصل ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا﴾([78])۔

ترجمہ: اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔

یہ عورت کا حق ہے،اگر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے کر علیدگی اختیار کرنا چاہے، اور یہ علیحدگی مرد کی طرف سے ہو تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اس نے اپنی بیوی کو جو مہر دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لے ،اللہ تعالی نے اس معاملے کی قباحت کو اس طرح بیان فرمایا ہے: ﴿وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (20) وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا ﴾([79]).

ترجمہ: اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں کسی کو تم نے خزانے کا خزانہ دے رکھا ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے لو گے تم اسے کیسے لے لو گے۔ حالانکہ تم ایک دوسرے کو مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ ([80])۔

ترجمہ: ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کر دے۔

اس عظیم آیت میں بیوی کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے، جسے اللہ سبحانہ و تعالی نے بیان فرمایا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • عورتوں کو اگر ناپسند ہو تو زبردستی ان کا وارث بننا حرام ہے، اسلام سے قبل عرب میں- جیسا کہ گزر چکاہے- جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تھا ،تو اس کے رشتے دار اس کی بیوی کے وارث بنتے، اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اس سے نکاح کرتا یا جہاں چاہتا اس کا نکاح کروا دیتا، اور اگر چاہتا تو اسے معلق کر دیتا اور نکاح سے روک دیتا، اس طرح عورت کے سسرالی اس کے میکےسے زیادہ حقدار تھے، گویا عورت کی حیثیت ایک سامان کی تھی ،اس کا بطور میراث وارث بنایا جاتا تھا۔
  • پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مرد کے لئے عورت کو معلق رکھنا حرام قراردیا ہے، اس طور پر کہ ا سے پریشان کرنے کے لئے تنگ کرے، اسے مارے پیٹے، گالیاں دے ،یاس کا مال کھائے،یا اسے باہر نکلنے سے روکے تاکہ عورت خود مال دے کر اپنا راستہ صاف کرے۔
  • شریعت نے یہ سب کام مرد کے لئے اس صورت میں مباح رکھے ہیں جب اس کی بیوی زنا کرے، تاکہ اس سے اپنا حق مہر وصول کرسکے اور پھر اسے طلاق دے دے۔

پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مرد کو پابندکیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ معروف طریقے سے زندگی بسر کرے، اور ایسی باتیں اور کام کرے جو اس کی بیوی کو پسند ہوں۔

  1. بیوی کا عدل و مساوات کا حق

اگر مرد کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ ان کے درمیان کھانے پینے، پہننے اوڑھنے ،رہنے اور رات گزارنے میں عدل و انصاف کرے۔

رسول اللہکا فرمان ہے:جس شخص کی دو بیویاں ہوں، اور وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہو، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئیگا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا([81])۔

  1. نان و نفقہ میں بیوی کا حق

شوہر پر واجب ہے کہ اپنی بیوی پر معروف طریقے سے خرچ کرے ،جیسے مناسب رہائش اور تمام بنیادی ضروریات ، مثلا: کھانا پینا اور لباس وغیرہ، اگرچہ اس کی بیوی پہلے سے مالدار کیوں نہ ہو۔

رسول اللہکا فرمان ہے:تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ([82])۔

اور حسب استطاعت اپنی بیویوں کو اپنا مال دے ،اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا﴾([83])۔

ترجمہ: کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے (اپنی حسب حیثیت) دے، کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی طاقت اسے دے رکھی ہے، اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کر دے گا۔

اگر کوئی شخص خرچ کرنے پر قادر ہے لیکن پھر بھی اپنی بیوی پر خرچ نہیں کرتا اوراس کی بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے بغیر اجازت کے لے سکتی ہو تو اس کے لئے بقدر حاجت وکفایت لینا جائز ہے۔

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوسفیان کی بیوی ہندبنت عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی کے پاس آئی اورکہنے لگی :

اے اللہ تعالی کے رسولابوسفیان بہت حریص اور بخیل آدمی ہے مجھے وہ اتنا کچھ نہيں دیتا جوکہ مجھے اور میری اولاد کے لئے کافی ہو الا یہ کہ میں اس کا مال اس کے علم کے بغیر حاصل کرلوں ،( توکیا ایسا کرنا میرے لئے گناہ تونہیں ؟)۔

رسول اکرم فرمانے لگے :

تواس کے مال سے اتنا اچھے انداز سے لے لیا کرجوتمہیں اورتمہاری اولاد کوکافی ہو([84]) ۔

اگر شوہر اس قدر تنگ دست ہوکہ اسے اپنی بیوی پر خرچ کرنے کی استطاعت نہ ہو، یا شوہر غائب ہو اور بیوی کو اس حوالے سے پریشانی ہو،اور شوہر کا کوئی پتہ نہ ہو تو عورت اگر چاہے تو نکاح فسخ کرنے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

 ابوالزنادفرماتے ہیں میں نے سعید بن المسیبسے اس آدمی کے متعلق سوال کیا جسے اپنی بیوی پر خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں ملتا تو اس کی بیوی کیا کرے؟ فرمایا :ان دونوں کے درمیان جدائیگی کرادی جائے ۔تو میں نے کہا یہ سنت ہے (یعنی سنت سے ثابت ہے) ؟تو سعیدنے فرمایا: (ہاں یہ) سنت سے (ثابت) ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :سعید رحمہ اللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ کی سنت ہے([85])۔

  1. شب باشی اور حسن معاشرت کا حق

بیوی کے پاس رات گزارنا ان اہم ترین حقوق میں سے ہے جس کی ادائیگی اور خیال رکھنے کا شریعت نے شوہر سے مطالبہ کیا ہے، تاکہ عورت ان امور کی طرف مجبور نہ ہو جائے جن کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ بحیثیت بیوی عورت کو ایسے دل کی ضرورت ہوتی ہے جو اس پر نرمی اور شفقت کرے اور اسے ایسے مرد کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرے،اس کے جذبات سیر کرے، اور اس کی جنسی خواہش پوری کرے،اور شریعت اسلامیہ نے اس واجب کی ادائیگی کی خاطر عبادت میں منہمک ہونے سے منع کیا ہے ۔

ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرادءرضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لئے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام درداءرضی اللہ عنہا کو بہت پھٹے پرانے حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام درداءرضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداءرضی اللہ عنہ ہیں جن کی دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداءرضی اللہ عنہ بھی آگئے او ران کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں توروزے سے ہوں، اس پر سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہوگے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہوگئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداءرضی اللہ عنہ عبادت کے لئے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لئے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا([86])۔

ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: آدمی پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے ،جس کی کم از کم مدت یہ ہے کہ اگر اسے طاقت ہے تو ایک توہفتےمیں ایک مرتبہ وگرنہ بصورت دیگر وہ اللہ تعالی کا نافرمان ہے، جس کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے:﴿ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ﴾([87])۔

ترجمہ: جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے۔

  • عورت کا اپنے شوہر پر حق ہے کہ جب وہ سفر پر جائے اور اپنی بیوی کو پیچھے چھوڑ جائے تو چھ مہینوں سے زیادہ نہ رہے،اگر اس کی بیوی چھ مہینوں سے زیادہ صبر کر سکتی ہے اور اپنے حق سے دست بردار ہو جاتی ہے تو کوئی حرج نہیں ،یہ اس صورت میں ہے جب اس کی شہوت کمزور ہو بصورت دیگر شوہر پر واجب ہے کہ جب اس کی بیوی اس سے مطالبہ کرے تو وہ حاضر ہو اور انتہائی پریشان کن عذر کے علاوہ تاخیر نہ کرے۔

خلیفہ ثانی امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ راتوں کو مدینہ شریف کی گلیوں میں گشت لگاتے رہتے۔ ایک رات کو نکلے تو آپ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ ایک عورت اپنے سفر میں گئے ہوئے شوہر کی یاد میں کچھ اشعار پڑھ رہی ہے:

 تطاول هذا الليل واسود جانبه****وأرقني أن لا خليل ألاعبه

فوالله لولا الله أني أراقبه**** لحرك من هذا السرير جوانبه

ترجمہ: افسوس ان کالی کالی اور لمبی راتوں میں میرا شوہر نہیں ہے جس سے میں ہنسوں، بولوں۔ قسم اللہ کی اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس وقت اس پلنگ کے پائے حرکت میں ہوتے۔

آپ اپنی صاحبزادی ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا: بتاؤ زیادہ سے زیادہ عورت اپنے شوہر کی جدائی پر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے؟ فرمایا چھ مہینے یا چار مہینے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اب میں حکم جاری کر دوں گا کہ مسلمان مجاہد سفر میں اس سے زیادہ نہ ٹھہریں([88])۔

  • عورت کا اپنے شوہر پر حق ہے کہ وہ اس کے رازوں کی حفاظت کرے، اور اس کے عیوب کسی کے سامنے ذکر نہ کرے ،اور جو کچھ اس میں دیکھے یا اس سے سنے اسے چھپائے، اور ان دونوں کے درمیان جو خاص تعلق ہوتا ہے اس کی پردہ پوشی کرے ،اور دوستوں کی مجلسوں میں اسے بیان نہ کرے ،رسول اللہ کا فرمان ہے: سب سے زیادہ برا لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہے جو اپنی عورت کے پاس جائے اور عورت اس کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے) اور پھر اس کا بھید ظاہر کر دے ([89])۔
  1. حسن معاشرت اور اچھے سلوک میں بیوی کا حق

بیوی کا حق ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اسکا شوہر اس کا اکرام کرے اگرچہ اس کی بعض عادات شوہر کو نا پسند کیوں نہ ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾([90])۔

ترجمہ: ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت بھلائی کر دے۔

اور اگر شوہر کو بیوی ناپسند ہو تو شوہر کو چاہیے کے بجائے اس کی اہانت کرنے اور ذلیل کرنے کے اس پر رحمت، نرمی اور شفقت کرے یا پھر احسان کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾([91])۔

ترجمہ: طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا۔

عورت کا ہر لحاظ سے مکمل ہونا ناممکن ہے اس لئے رسول اللہ فرماتے ہیں: عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے ۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی رہ جائے گی اس لئے میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں ([92])۔

چونکہ ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں، اس لئے شوہر کو بیوی سے سرزد ہونے والے نا پسندیدہ امور کوازدواجی زندگی کی حفاظت کی خاطر برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،اگر شوہر کو بیوی کی ناپسند باتیں یاد آجائیں تو اس کے مقابلے میں اس کی اچھائیاں یاد کر لے، رسول اللہ نے فرمایا: دشمن نہ رکھے کوئی مؤمن مرد کسی مؤمن عورت کو اگر اس میں ایک عادت ناپسند ہو گی تو دوسری پسند بھی ہو گی([93]) ۔

  • شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی ،محبت و شفقت کرے۔

رسول اللہ نے فرمایا : ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو ، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو([94])۔

  • شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود ہنسی مذاق اور دلجوئی کرے ۔

سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ( وہ ایک سفر میں جناب رسول اللہ کے ساتھ تھیں) میں نے نبیکے ساتھ پیدل دوڑ لگائی اور میں جیت گئی پھر جب میرا جسم ذرا بھاری ہو گیا تو میں نے آپ کے ساتھ پھر دوڑ لگائی اور اس مرتبہ آپ جیت گئے اور فرمایا :آج کی یہ جیت پچھلی ہار کا بدلہ ہے([95])۔

بلکہ اسلام نے اسے حق قرار دیا ہے

رسول اللہکا فرمان ہے: ہر وہ چیز جو ذکر اللہ میں سے نہ ہو وہ بے کار ہے سوائے چار کاموں کے ( ۱ ) آدمی کا تیر دو ہدفوں کے درمیان چلنا ( ۲ ) اپنے گھوڑے کو تربیت دینا ( ۳(  بیوی سے دل لگی کرنا ( ۴ ) تیراکی سیکھنا([96])۔

  • شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے خاص مال کی حفاظت کرے اور اس کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف نہ کرے ،اور اس کے لئے جائز نہیں کہ بیوی کی رضا اور اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال میں سے کچھ لے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾([97])

ترجمہ: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو ۔

  • شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ گھریلو اور اولاد کے مشترکہ معاملات میں مشورہ کرے ،یہ حکمت نہیں کہ شوہر اپنی رائے مسلط کرے اور بیوی کی رائے، اگر وہ درست ہو تو اس کی طرف التفات بھی نہ کرے، کیونکہ مشورہ ایک ایسا عمل ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کیلئے محبوب بنا دے گا ،اللہ تعالی کا فرمان ہے ﴿وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ﴾([98])۔

ترجمہ: اور ان کا (ہر)کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔

  • شوہر کو چاہیے کہ گھریلو کام کاج میں بیوی کی مدد کرے، اور خود کو ان امور سے اعلی تر نہ سمجھے، بلاشبہ رسول اللہخود کے کپڑے سیتے، اپنے جوتے کو پیوند لگاتے، اور اپنے اہل خانہ کی بعض امور میں مدد کرتےتھے۔

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللی عنہاسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً (کام کاج چھوڑ کر) نماز کے لئے چلے جاتے تھے ([99])۔

اور ہمارے لئے رسول اللہ میں بہترین نمونہ ہے۔

  • شوہر اپنی بیوی کے پاس اس کی پراگندہ حالت میں اچانک نہ آئے ۔

رسول اللہکا فرمان ہے: اگر تم میں سے کوئی شخص زیادہ دنوں تک اپنے گھر سے دور ہو تو یکایک رات کو اپنے گھر میں نہ آ جائے([100])

اس کا معنی یہ ہے کہ شوہر اپنے اہل خانہ کی غفلت اور لاعلمی میں سفر سے رات کو اچانک ان کے پاس نہ آئے، اس لئے کہ ممکن ہے کہ اپنے اہل خانہ کوایسی ہیئت میں دیکھے جو اسے ناپسند ہو، اور وہ ان سے نفرت کا سبب بن جائے۔

  • شوہر اپنی بیوی کو کسی طرح بھی تکلیف نہ دے چاہے باتوں سے ہی سہی اور اس کے جذبات زخمی نہ کرے اور نہ ہی اسے غمگین کرے، رسول اللہ سے پوچھا گیاکہ:اے اللہ کے رسول ! ہمارے اوپر ہماری بیوی کا کیا حق ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” یہ کہ جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ ، جب پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ ، چہرے پر نہ مارو ، برا بھلا نہ کہو ، اور گھر کے علاوہ اس سے جدائی اختیار نہ کرو([101])۔
  • اگر بیوی اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہے تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنے کا حق ہے ،بشر طیکہ وہ اپنے شوہر کو حق مہر واپس کرے ،الایہ کی شوہر خود حق مہر سے دستبردار ہو جائے۔

عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہانے نبی اکرم کے پاس آ کر عرض کیا : اللہ کی قسم میں (اپنے شوہر) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ نہیں کر رہی ہوں ، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر (شوہر کی ناشکری) کو ناپسند کرتی ہوں ، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے ناپسند ہیں ، تو نبی اکرم نے ان سے فرمایا : ” کیا ان کا دیا ہوا باغ واپس لوٹا دو گی؟ انہوں نے کہا : ہاں ، آپ نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ لے لیں ، اور زیادہ نہ لیں([102]) ۔

  • شوہر اپنی بیوی کی ان تمام امور سے حفاظت کرے جو اس کی عزت و حرمت میں خلل کا سبب بنتے ہوں، رسول کا فرمان ہے: تین( قسم) کے لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے: (1)والدین کا نافرمان (2) دیوث(وہ مرد جو اپنے اہل درجہ بندی ميں زناکاری ديکھـ کر اس پر خاموش رہے)اور (3)مردوں کی مشابہت اختیارکرنے والی عورت([103])۔
  • شوہر کو چاہیئے کہ اپنی بیوی کے معاملے میں غیرت مند ہو، وہ اپنی بیوی کو برائی کی جگہوں سے دور رکھے، اور اسے ایسے مقامات پر نہ لاجائے جہاں بیہودگی، عریانی ، فحاشی اور فساد ہو۔

رسول اللہ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس میں غیرت آتی ہے کہ مومن وہ کام کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا ([104])۔

لیکن ضروری ہے کہ یہ غیرت اعتدال کے ساتھ ہو ۔

رسول اللہ نے فرمایا : ” بعض غیرت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور بعض ناپسند ، جو غیرت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے وہ یہ ہے کہ شک و تہمت کے مقام میں غیرت کرے ، اور جو غیرت ناپسند ہے وہ غیر تہمت و شک کے مقام میں غیرت کرنا ہے([105]) ۔

 

 

اسلام میں عورت کےحقوق بحیثیت ماں

اسلام نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے اور اللہ سبحان و تعالیٰ نے انکے حق کو اپنے حق کے ساتھ ذکر کیا ہے تاکہ ان کے حقوق کی عظمت اور فضیلت ظاہر ہو، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾([106])۔

ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔ (23) اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔

  • والدہ پر احسان ، نیکی ، اس کے سامنے عاجزی ،محبت و شفقت اور اسکی نافرمانی سے اجتناب جنت میں داخلہ کے اسباب میں سے قرار دیا ہے ۔

معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان کے ابو نے خدمتِ رسالت میں حاضر ہوکر غزوہ میں شرکت کے لئے مشورہ طلب کیا- تو آپ نے عرض کیا تمہاری ماں زندہ ہیں، ؟ کہا - ہاں ! جواب دیا تم انہیں کی خدمت کو لازم پکڑو کہ جنت ان کے قدموں تلے ہے([107])۔

اور چونکہ معاشرے میں غالبا عورت کو کمزور سمجھا جاتا ہے جو عورت کا ناجائز فائدہ اٹھانے اور اس کے حقوق کے زیاں کا سبب بن سکتا ہے ،اسلام نے ماں کو باپ پر نیکی، احسان نرمی، حسن صحبت اور حسن سلوک میں مقدم رکھا ہے تاکہ اس کے حقوق محفوظ رہیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے ۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے ؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے ۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون ؟ نبی کریم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے ۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے ؟ نبی کریم نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے ([108])۔

اور حدیث کا تقاضا ہے جیسا کہ شارحین حدیث نے ذکر کیا ہے کہ باپ کے مقابلے میں ماں کے ساتھ تین گنا زیادہ حسن سلوک کرنا چاہئے ،کیونکہ حمل، وضع حمل اور رضاعت یہ تین ایسے امور ہیں جواکیلی ماں ہی برداشت کرتی ہے ،پھر وہ باپ کے ساتھ مل کر اولاد کی تربیت میں بھی شریک ہو جاتی ہے ۔

آپ کو آپ کی والدہ نے اپنے بطن میں اٹھایا اور اس کی غذا اور صحت پر نو مہینے زندہ رہے اور اس کے بعد اکثر و بیشتر دو سال تک مدت رضاعت جو دو سال مکمل کرنا چاہیں، جیساکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ﴾ ([109]).

ترجمہ: ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

ماں کی نافرمانی اور اس کے حقوق کی عدم ادائیگی کو حرام قرار دیا ہے ۔

رسول اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام قرار دی ہے اور (والدین کے حقوق) نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے ، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا (بھی حرام قرار دیا ہے) اور فضول باتیں ،کثرت سوال اور مال کی بربادی کو بھی ناپسند کیا ہے([110]) ۔

والدہ کا حق ہے کے اس کی فرمانبرداری کی جائے، اس کے حکم کو بجا لایا جائ، اور جب تک وہ کسی گناہ کا حکم نہ دے ،اس کی نافرمانی نہ کی جائے ،اگر وہ کسی گناہ کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہیں کی جائیگی، کیونکہ اللہ تعالی رضا اور اس کی طاعت والدہ کی رضا اور اس کی اطاعت پر مقدم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کے اس کے ساتھ بے ادبی کی جائے، اسے ڈانٹا جائے ،بلکہ نرمی اور محبت کے ساتھ اسے سمجھایاجائے، جیسا کہ اللہ تعالی نے اسے واضح فرمایا ہے: ﴿وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ﴾([111])۔

ترجمہ: ) اور اگر وه دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اور اس کی راه چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کروں گا۔

  • اللہ تعالی نے والدین کے حق کی عظمت کو واضح کرنے کے لئے اپنی رضا کو والدین کی رضا میں اور اپنی ناراضگی کو ان کی ناراضگی میں رکھ دیا ہے ،تاکہ اولاد کوشش کریں کہ اپنے والدین کو ایک عزت بھری زندگی دیں اور انہیں ہر رنج و غم سے دور رکھیں ،رسول اللہ کا فرمان ہے: الله کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور الله کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے([112]) ۔

ابوالدرداء ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ” باپ جنت میں جانے کا بہترین دروازہ ہے ، اب تم اپنے والدین کے حکم کی پابندی کرو ، یا اسے نظر انداز کر دو۔

چناچہ ان کی رضا اور ان کیساتھ نیکی جنت میں داخلہ کا سبب ،ہے جبکہ ان کی نافرمانی اور ناراضگی جہنم میں جانے کا سبب ہے جیسا کہ رسول اللہ نے اسے واضح فرمایا ہے، چناچہ سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ نے کبیرہ گناہوں کا بیان فرمایا ،یا آپ سے کسی نے کبیرہ گناہوں کا پوچھا ، آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ناحق خون کرنا اور ماں باپ کے متعلق نافرمانی ۔

اور آپ نے فرمایا : ” میں تم کو بتلاؤں سب کبائر میں کبیرہ وہ جھوٹ بولنا ہے یا جھوٹی گواہی دینا ([113])۔

  • اسلام نے ماں باپ کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کو نفلی عبادات جیسے نماز وغیرہ پر مقدم قرار دیا ہے ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایاگود میں تین بچوں کے سوا اور کسی نے بات نہیں کی ۔ اول عیسیٰ علیہ السلام (دوسرے کا واقعہ یہ ہے کہ) بنی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے ، نام جریج تھا ۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی ماں نے انہیں پکارا ۔ انہوں نے ۔ (اپنے دل میں) کہا کہ میں والدہ کا جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں ؟ اس پر ان کی والدہ نے (غصہ ہو کر) بددعا کی : اے اللہ ! اس وقت تک اسے موت نہ آئے جب تک یہ زانیہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ۔ جریج اپنے عبادت خانے میں رہا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ان کے سامنے ایک فاحشہ عورت آئی اور ان سے بدکاری چاہی لیکن انہوں نے (اس کی خواہش پوری کرنے سے) انکار کیا ۔ پھر ایک چرواہے کے پاس آئی اور اسے اپنے اوپر قابو دے دیا اس سے ایک بچہ پیدا ہوا ۔ اور اس نے ان پر یہ تہمت دھری کہ یہ جریج کا بچہ ہے ۔ ان کی قوم کے لوگ آئے اور ان کا عبادت خانہ توڑ دیا ، انہیں نیچے اتار کر لائے اور انہیں گالیاں دیں ۔ پھر انہوں نے وضو کر کے نماز پڑھی ، اس کے بعد بچے کے پاس آئے اور اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کون ہے ؟ بچہ (اللہ کے حکم سے) بول پڑا کہ چرواہا ہے اس پر (ان کی قوم شرمندہ ہوئی اور) کہا ہم آپ کا عبادت خانہ سونے کا بنائیں گے ۔ لیکن انہوں نے کہا ہرگز نہیں ، مٹی ہی کا بنے گا، تو انہوں نے بنادیا([114])۔

بلکہ اگر جہاد فرض عین نہ ہو تو والدین کے ساتھ نیکی کو جہاد فی سبیل اللہ پر بھی مقدم کیاگیا ہے ۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور عرض کیا :میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں ، اللہ سے اس کا ثواب چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : ”تیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے ۔وہ بولا : دونوں زندہ ہیں ، آپ نے فرمایا : ”تو اللہ سے ثواب چاہتا ہے .“ وہ بولا : ہاں ۔ آپ نے فرمایا : تو لوٹ جا اپنے ماں باپ کے پاس اور ان سے نیک سلوک کر ([115])۔

  • اسلام چونکہ لوگوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے اور آپسی رابطہ کو قوی کرنے کے لئے آیا ہے، لہذا اسلام نےواجب قرار دیا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلو ک کیا جائے ،ان پر خرچ کیا جائے، انہیں تحفے تحائف دیے جائیں، ان سے اچھی باتیں کی جائیں اور انہیں اچھی طرح رکھا جائے اگرچہ ان کا دین، دین اسلام کے علاوہ ہی کیوں نہ ہو ۔

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ رسول اللہ کے زمانے میں میری والدہ (قتیلہ بنت عبدالعزیٰ) جو مشرکہ تھیں ، میرے یہاں آئیں ۔ میں نے آپ سے پوچھا ، میں نے یہ بھی کہا کہ وہ (مجھ سے ملاقات کی) بہت خواہشمند ہیں ، تو کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں اپنی والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کر ([116])۔

  • اور مسلمانوں کو اپنے والدین کیساتھ احسان کرنے پر رغبت دلانے کیلئے آپ نے واضح فرمایا ہے کہ والدین کےساتھ نیکی اور حسن سلوک دعاوں کی قبولیت کا سبب ہے۔

آپ نے فرمایا کہ: پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جا رہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لئے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، اور اس میں اندر داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہو گئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ (میرے ماں باپ( سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کے لئے شام کا دودھ نکالا۔ جب ان کے پاس لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لئے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لئے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی۔ اب میں اس پر قابو پا چکا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لئے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آ گیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لئے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے۔ چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی، لیکن اب بھی اس سے باہر نہیں نکلا جا سکتا تھا۔ نبی کریم نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ کے بندے! مجھے میری مزدوری دیدے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ کے بندے! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ تو اے اللہ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لئے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کر دے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے([117])۔

  • اسلام نے والدین کیساتھ حسن سلوک ا ورنیکی کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ قرار دیا ہے، اللہ تعالی بندے کے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔

عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ ()مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوگیا کیا میرے لئے توبہ کی گنجائش ہے؟ رسول اللہ نے ان سے دریافت فرمایا: "کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟اس نے کہا نہیں۔ آپنے پوچھا: "کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟" اس نے جواب دیا: ہاں، آپ نے فرمایا : " پس تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو([118])۔

  • اسلام نے والدین کے حق کو ان کی موت کے بعد بھی جاری رکھا ہے ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ نے فرمایا : ”جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ۔ ایک صدقہ جاریہ کا ۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو اس کے لئے دعا کرے ([119]) ۔

اسلام میں عورت کے ایک عمومی عورت کی حیثیت سے حقوق

  • اسلام نے مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے کہ ایک عام عورت کے ساتھ بھی معروف طریقے سے پیش آئیں اور حسن سلوک کریں، اس لئے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے:ایک مومن دوسرے مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے ۔ اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا ([120])۔
  • اگر وہ پھوپھی ہے یا خالہ ہے یا کوئی اور قرابت دار ہے تو وہ ان رشتے داروں میں سے ہے جن کی ساتھ اللہ تعالی نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے، اور قطع رحمی کرنے والے کو انتہائی سخت وعید سنائی ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ﴾ ([121]).

ترجمہ: اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔

آپ کا فرمان ہے:" قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا([122])۔

  • ان پر احسان کرنا ان امور میں سے ہے جن پر مسلمانوں کو دہرا اجر ملتا ہے ۔

رسول اللہ کا فرمان ہے: مسکین پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے اور رشتہ دار پر صدقہ کرنا دوہرا ثواب ہے ، ایک( ثواب ) صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا([123])۔

  • اگر عورت پڑوس کی ہے تو اس کا دہرا حق ہے، ایک اسلام کا حق اور دوسرا پڑوس کا حق

اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ﴾([124])۔

ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راه کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں، (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا۔

لہٰذا اس کے پڑوسیوں پر واجب ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کریں، اس کا خیال رکھیں، اس کی حاجات و ضروریات پوری کریں اور جس چیز کی اسے ضرورت ہے اس معاملے میں اس کی مدد کریں۔

رسول اللہ کا فرمان ہے: جبرائیل علیہ السلام مجھے اس طرح باربار پڑوسی کے حق میں وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک نہ کر دیں([125]) ۔

  • اسی طرح مسلمانوں پر واجب ہے کہ نہ تو اسے کوئی تکلیف دیں، نہ جارحانہ کلام کریں، اور نہ ہی سخت معاملہ کریں۔

رسول اللہ نے بیان کیاواللہ ! وہ ایمان والا نہیں ۔ واللہ ! وہ ایمان والا نہیں ۔ واللہ ! وہ ایمان والا نہیں ۔ عرض کیا گیا کون : یا رسول اللہ ؟ فرمایا :وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ([126])۔

  • بحیثیت عورت اس کے حقوق کی حفاظت اور مسلمانوں کو اس کی خدمت اور اسکی ضروریات پوری کرنے پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے اسلام نے محتاج عورتوں حاجات پوری کرنے کے لئے کوشش کرنے کو افضل ترین عمل شمار کیا ہے ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ: بیواؤں اور مسکینوں کے لئے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔

 امام مالک نے اس حدیث میں یہ بھی کہا تھا اس شخص کے برابر ثواب ملتا ہے جو نماز میں کھڑا رہتا ہے تھکتا ہی نہیں اور اس شخص کے برابر جو روزے برابر رکھے چلا جاتا ہے افطار ہی نہیں کرتا ہے([127]) ۔

  • صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھتے، ان کی خبر گیری کرتے ،بالخصوص جوان میں سے محتاج ہوتے ،خاص طور پر عورتیں ۔

طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نکلے اور کسی گھر میں داخل ہوئے، (وہاں سے نکل کر) ایک اور گھر میں داخل ہوئے، جب صبح ہوئی تو میں اس گھر کے پاس آیا اور جیسے ہی داخل ہوا ،میں نے دیکھا کہ ایک معذور نابینا بڑھیا ہے، میں نے اس سے پوچھا کہ گزشتہ رات والے آدمی کا کیا معاملہ ہے ( وہ کون ہے اور کیوں آتا ہے)؟اس نے کہا وہ آدمی اتنے عرصے سے میرا خیال رکھ رہا ہے میری ضروریات پوری کرتا ہے ، میرے گھر کو جھاڑو لگاتا ہے ، اور مجھ سے گندگی کو صاف کرتا ہے ، تو طلحہ رضی اللہ عنہ نے خود سے کہا : کیا تم عمر کی غلطیاں تلاش کر رہے ہو؟([128])۔

مندرجہ بالا سطور میں ہم نے کچھ اہم حقوق و واجبات کی طرف اشارہ کیاہے جن کے ذیل میں دیگر حقوق و واجبات بھی ہیں جنہیں ہم نے طوالت کے ڈر سے ذکر نہیں کیا ،ان باتوں سے ہمارے معزز قارئین کے سامنے واضح ہوگیا ہوگا کہ اسلام نے عورت کو کس قدر عزت، مقام او ر مرتبہ بخشاہے، جو قدیم یا جدید کسی دور میں عورت نے نہیں دیکھا ،اور اسے یہ اسلام کے سائے میں اور اسکے احکامات پر عمل پیرا ہونے کے علاوہ کہیں نظر نہیں آئے گا۔

 

 

اسلام میں عورت کے حقوق کے متعلق شبہات

ہم عورت کے حقوق کے متعلق گفتگو کررہے ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض شبہات کا ذکر بھی کر دیا جائے ،جو اسلام میں عورت کے حقوق کے متعلق اٹھائے جاتے ہیں ،جن کا مقصد اسلام پر طعنہ زنی اور اس خوبصورت اور روشن صورت کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے جس میں اسلام کے ظہور سے عورت کی عزت، شرف اور عفت کی حفاظت ہوئی۔

اسلام میں عورت کے حقوق کے متعلق جو شبہات اٹھائے جاتے ہیں اور اس کی خاطر جو کانفرنس اور جلسے منعقد کئے جاتے ہیں، ان کا مقصد صرف عورت کی آزادی نہیں بلکہ ان کے کچھ مخفی اہداف بھی ہیں۔

معلوم نہیں یہ لوگ بچوں، معذور ں ،بے روزگاروں اور محتاجوں کے حقوق کے متعلق گفتگو کیوں نہیں کرتے، اور وہ لوگ جنہیں معاشرے میں نظر انداز کیا جاتا ہے ، جن کے گھر اجاڑ کر انھیں بیدخل کیا جاتا ہے، ان کے لئے کانفرنس اور جلسے کیوں نہیں منعقد کرتے، تاکہ عوام کا خون چوسنے والوں سے عوام کے چھینے گئے حقوق کا مطالبہ کریں۔

اسی طرح صرف اس پہلو کوہی کیوں اٹھایا جاتا ہے، جس کے بارے میں دین اسلام کی حقیقت سے ناواقف لوگوں کا خیال ہے کہ یہ درست نہیں،اور اسلام کے روشن پہلو کیوں نہیں سامنے لائے جاتے؟۔

 اختصار کے ساتھ اس کے اسباب یہ ہیں:

  1. اسلامی یا غیراسلامی ہر طرح کی رائے عامہ کو ان مقاصد سے دور رکھ کر مصروف کرنا ہے جن مقاصد کی خاطر شخصی مصلحت اور ذاتی اہداف رکھنے والے پلاننگ کرتے ہیں، اس لئے کہ ان کی مصلحت اسی میں ہے کہ معاشروں کو مصروف رکھا جائے اور ان کی صلاحیتوں اور طاقتوں کو دوسری جگہوں پر کھپایا جائے ،اور ان کی توجہ ایسے معاملات کی طرف مبذول کروائی جائے جس کے بارے میں تصور یہی ہے کہ یہ اہم ترین مسائل ہیں، حالانکہ انہوں نے اس سے اہم ترین مسائل ترک کیے ہوئے ہیں۔

 ہم مسلمانوں کا یہ یقین ہے اور ہم بالجزم کہتے ہیں کہ یہ ا یسے مسائل ہیں جو اس قابل ہی نہیں کہ انہیں اٹھایا جائے ،کیونکہ اسلام نے ان کی وضاحت کر دی ہے، لہٰذا وہ ایک خیر خواہ اور محقق کے روپ میں سامنے آتے ہیں ،جو بظاہر عورت کے حقوق کا دفاع کرتے ہیں، تا کہ عورت کا اعتماد حاصل کرکے اسے اپنے ساتھ ملا لیں تاکہ اسکی حیثیت شطرنج کے مہروں کی ہو جائے،اور وہ جس طرح چاہیں اسے حرکت دیں، اور جس کا شکار کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے عورت کو بطور چارہ استعمال کرسکیں۔

  1. معاشروں میں فساد اور بے حیائی کو پھیلانے کی کوشش ،کیونکہ جن معاشروں میں بے حیائی عام ہو جاتی ہے، اخلاقی اقدار مٹ جاتے ہیں، ان معاشروں کا استعمار اور ان کی املاک پر ان کے لئے گھات لگائے ہوئے دشمنوں کے لئے قبضہ کرنا آسان ہو جاتا ہے، اس لئے کہ ان کی افرادی قوت جو ایک ڈھال کا کام دیتی ہے، کھیل کود اور حرام شخصی لذتوں میں کھپ ر ہی ہوتی ہے اور مالی و معاشرتی اقدار کی انہیں کوئی پروا نہیں رہتی۔

پروفیسر Henry Makow Ph.D کہتے ہیں ([129]):

عربی اور اسلامی امت پر مغربی جنگ سیاسی ،ثقافتی اور اخلاقی مقاصد کی حامل ہے، اس جنگ کا مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ کی ملکیتوں اور ان کے ذخائر پر قبضہ کیا جائے، اور ان کی قیمتی ترین چیز جو کہ دین ہے اسے مغلوب کیا جائے، اور ان کی ثقافتی اور اخلاقی خزانے پامال کیے جائیں، اور عورت کو برقع کے بجائے بکنی پہنائی جائے، اور اس کے وقار کو ختم کیا جائے۔

اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے بھی ہیں تو عورت کے حقوق کا مطالبہ اس کی عمر کے ایک مخصوص حصے تک ہی محدود ہوتا ہے اور جب اس کی عمر کا وہ حصہ گزر جاتا ہے تو اسے ایک کونے میں پھینک کر نظر انداز کیا جاتا ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر عورت کے بحیثیت ماں اس کے حقوق کے مطالبے کیوں نہیں کیے جاتے اور اس وقت اس کے حقوق کے مطالبے کیوں نہیں کیے جاتے جب وہ عمر رسیدہ ہو جاتی ہے، اور اپنی زندگی کے اس مرحلے میں پہنچ جاتی ہے جس میں وہ خیال رکھے جانے کی زیادہ محتاج ہوتی ہے؟۔

ساتھ ہی معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام نے ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو بالخصوص جب وہ عمر رسیدہ ہو جائے ، اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بتلایا ہے، جبکہ ان ملکوں میں اولڈ ہاوسزیادہ نظر آتے ہیں جو عورت کی آزادی اور اسکے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

وہ حقوق کس قدر خوبصورت اور پائیدار ہو سکتے ہیں جن کی ادائیگی کے وقت انسان کی نیت اللہ تعالی سے اجر کی ہو، اس کی رضا کا قرب مقصود ہو اور ان کی ادائیگی میں کوتاہی سے اس کی سزا کا ڈر ہو، بمقابلہ ان حقوق کے جو محض قانون کی قوت کے ذریعے حاصل کیے جائیں ،اور قانون کی عدم موجودگی میں ان کی پامالی کی جائے ۔

مجھے ان میگزین پر تعجب ہوتا ہے خوبصورت اور پر فتن عورتوں کی تصویریں تو شایع کرتے ہیں اور ان سے کم خوبصورت اور عمر رسیدہ خواتین کی تصویریں لگانا بھول جاتے ہیں ،کیا وہ سب عورتیں نہیں ہیں؟۔

یا یہ عورت کی عزت و شرف کو بیچ کر سامان تجارت کو فروغ دینے اور لوگوں کو پھانسنے کا جال ہے؟۔

  1. دیگر ادیان کے متعصب پیروکاروں کے دلوں میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف پرانی نفرت وبغض ۔

صموئیل زویمر، جو ایک مشہور مستشرق ہے اور تنصیری جمعیات کا رئیس ہے، وہ القدس کانفرنس میں 1935 م ([130])میں عیسائی مشینری سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:" اسلامی ملکوں میں تبشیر([131]) کی ذمہ داری جو مسیحی ملکوں نے تمہارے ذمے لگائی ہے، وہ یہ نہیں کہ تم مسلمانوں کو عیسائیت میں داخل کرو، اس لئے کہ اس میں تو ان کی ہدایت و تکریم ہے، تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم مسلمانوں کو اسلام سے خارج کر دو،یہاں تک کہ مسلمان ایک ایسی مخلوق بن کر رہ جائیں جن کا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو، نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کا اخلاق سے رابطہ ختم ہو جائے گا، جس پر امتوں کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے، اور یوں تم اسلامی ممالک میں استعمار کی فتح کا ہراول دستہ بن جاؤ گے"۔

ایک اور کہتا ہے:" جب ہم عورت کو گھر سے نکال سکیں گے یا اسے اپنی طرف مائل کر سکیں گے تو کیا ہم اس سے اپنے ہدف تک پہنچ جائیں گے؟" ۔

 اور ان کا ہدف اور مقصد ایک ہی ہے کہ شہروں اور عوام پر غاصبانہ تسلط جمانے کیلئے فساد اور بے حیائی کو عام کیا جائے، اوریہ جو آئے دن شبہات اٹھاتے رہتے ہیں درحقیقت ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ اسلام اور اس کے حقائق کو بگاڑ کر پیش کیا جائے ،اور ہمیں یہ سازشیں اور دشمنی صرف اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ہی ملتی ہیں، سچ فرمایا اللہ تعالی نے: ﴿وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ([132]

ترجمہ: آپ سے یہود ونصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے ،اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار۔ (120) جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اور وه اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں، وه اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وه نقصان والا ہے۔

  1. وقتا فوقتا اسلام میں عورت کے حقوق کے متعلق شبہات اٹھائے جانے کا مقصد یہ ہے کہ عورت کو اس کی عظمت اور وقار سے نکال کر ذلت و رسوائی کی طرف دھکیلا جائے ،اور اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مغرب کی عورت کو بطور رول ماڈل پیش کیا جائے، تاکہ ان کی سوچ کے مطابق عورتیں اس کی پیروی کریں ،اور ہر وہ عورت جو یہ کتاب پڑھ رہی ہے، چاہے وہ مسلم ہے یا غیر مسلم ،وہ خود سے سوال کرے اور عقل سے فیصلہ کرے کہ مغرب کی عورت جس حال میں آج ہے وہ حالت مقام شرف و فخر ہے یا عورت کے لئے تکلیف دہ مقام ذلت و رسوائی؟۔

پروفیسر ( (Henry Makow Ph.D کہتے ہیں: ([133])امریکن لڑکی ایک جنونی زندگی بسر کر رہی ہے، شادی سے پہلے اسے دسیوں مرد جانتے ہیں، وہ اپنی عصمت کا جوہر گنوا بیٹھتی ہے، جو اس کی کشش کا ایک حصہ ہوتا ہے ،دریں اثناء وہ بےحس اور دھوکے باز بن جاتی ہے، اس میں محبت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے،امریکن معاشرے میں عورت خود کو اس حال میں پاتی ہے کہ اسے مردانہ سلوک کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، لہذا وہ نفسیاتی طور پر پریشان ہو جاتی ہے، وہ بیوی یا ماں بننے کے قابل نہیں رہتی ،بلکہ محض جنسی لذت کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے، ناکہ محبت اور اولاد کے حصول کاذریعہ، جبکہ ممتا تو انسانی ترقی کی چوٹی ہے۔

یہ مرحلہ ہے کہ ہم شہوات میں ڈبکیاں لگانے کے بجائے اس سے جان چھڑائیں، تاکہ ہم اکیلے اللہ کے بندے بن کر خود کی تربیت کرتے ہوئے نئی زندگی کا آغاز کریں، جبکہ یہ جدید عالمی نظام نہیں چاہتا کہ ہم سمجھ داری کے اس درجہ تک پہنچ جائیں ،بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اکیلے تنہا اور جنسی بھوک کے ساتھ زندگی بسر کریں، اور ہمارے سامنے شادی کے مقابلے میں ایک شرمناک تصور پیش کرتا ہے۔

ہر عقلمند جانتا ہے کہ عورت سے گندہ اور ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی مدت کیا ہوتی ہے ،جب تک خوبصورتی اور رونق برقرارہے تو اس کی سامنے دروازے بھی کھلتے ہیں، لیکن جیسے ہی خوبصورتی ڈھل گئی اور رونق ختم ہوگی تو گھٹلی کی طرح اسے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے، وہ چاہتے ہیں میڈیا کے ذریعے عورت کو ایک ایسے سامان کی طرح پیش کیا جائے جس کی خرید و فروخت ہو، تاکہ یہ لذت اور شہوت پوری کرنے کا ذریعہ بن سکے، حقیقت یہ ہے کہ انہی لوگوں نے عورت سے اس کے حقوق اور اس کی آزادی چھینی، اسے ذلت کی گھاٹیوں میں دھکیل دیا کیا ، کیا انہیں رسول اللہ کا یہ قول نظر نہیں آیا؟

"خواتین کے ساتھ بھلائی کی وصیت مجھ سے لے لو"([134])۔

مغربی معاشرے میں عورت جس بے راہ روی کی آزادی کو پہنچ چکی ہے وہ درحقیقت قرون وسطی میں کنیسہ کے عورت کے حقوق مقرر کرنے کا رد فعل ہے،ایسے حقوق جن میں سختی، ظلم ،اور انسانیت سوز سلوک تھا ، چناچہ خوفناک اہداف ومقاصد رکھنے والوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا تاکہ اس معاشرے کو دینی قیادت کے ساتھ ختم کیا جاسکے اور تمام تر اخلاقی حدود و قیود سے آزاد معاشرہ جنم لے، جسے اس کے دشمنوں کے لئے مسخر کرنا آسان ہو۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس میں نہ تو بے جا سختی ہے نہ ظلم ہے اور نہ ہی عورت کے حقوق کی حق تلفی ہے، بلکہ وہ ہر معاملے میں مرد کے برابر ہے،سوائے ان چیزوں کے جس میں جنس مرد کو جنس عورت پر فوقیت دی گئی ہے، جو مرد اور عورت کے درمیان پائے جانے والے جسمانی اور نفسیاتی فرق پر قائم ہے، کیونکہ کسی کو انکار نہیں کہ مردوعورت دو الگ الگ جنس ہیں ، چناچہ اسی بنا پر فوقیت قائم ہے۔

 Dr.G-lebon اپنی کتاب "تمدن عرب" میں لکھتے ہیں: اگر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ عورت کے معاملے میں قرآن نے کیا اثر دکھایا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اسے ان ایام میں دیکھیں جن ایام میں اسلامی ثقافت کا غلبہ تھا ،مورخین نے بیان کیا ہےکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو ان دنوں وہی مقام حاصل تھا جو جدید یورپین دور میں عورت کو حاصل ہوا، یورپین لوگوں نے عربوں سے بہادری اور شجاعت کی مبادیات لیں ، اور انہی سے عورت کا احترام کرنا سیکھا ،چنانچہ اسلام نے عورت کو پستی کی گہرائی سے نکالا، نہ کہ نصرانیت نے، جیسا کی عام اور معروف ہے، اگر آپ قرون وسطی کے پہلے دور میں نصاریٰ کی طرف دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ نصاریٰ کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس کا نام عورت کا احترام تھا۔

اگر آپ کتب تاریخ میں ان دنوں کو تلاش کریں تو آپ کا شک ختم ہو جائے گا اور آپ جان جائیں گے کہ قرون وسطیٰ میں جاگیردارانہ نظام کے تحت نصاریٰ ، عربوں سے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سیکھنے سے پہلے ان کے معاملے میں انتہائی سخت تھے۔

ہر وہ انسان جو عقلمند ہےاور فطرت سلیمہ کا مالک ہے، وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی عزت ، شرف اور وقار ایک ایسا سامان ہو جیسے انسانی بھیڑیے نوچ کھائیں، جن کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اپنی حیوانی بھوکھ کو سیر کر سکیں، اسی طرح ہر عقلمند اور فطرت سلیمہ کی مالک عورت کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ خریدوفروخت کا سامان ہو، یا ایک ایسا پھول ہو کہ جو چاہے اسے سونگھ لے، اور پھر جب وہ مرجھا جائے تو اسے پرانے اور بوسیدہ کپڑے کی طرح پھینک دیا جائے ۔

اسلام کی اپنے پیروکاروں کی حفاظت کے حوالے سے جو تعلیمات ہیں وہ واضح ، منطقی اور فطرت و عقل کے موافق ہیں ،جو رہنمائی کرتی ہیں کہ سب سے پہلے خود پر توجہ دی جائے، اپنی ذات سے آغاز کیا جائے، وہ اس طرح کہ خیر کو تمام لوگوں کے لئے پسند کیا جائے۔

اسلام اپنے پیروکاروں کی تربیت کرتا ہے کہ وہ عفت و پاکدامنی اور عزت وشرف سے محبت کریں ،اور ان کی راہنمائی کرتا ہے کہ اصلاح کا آغاز اپنی ذات سے کریں، اس طرح اللہ تعالی کے حکم سے ان کے سلوک اور رویہ کی اصلاح یقینی ہوگی۔

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے ۔لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے،لیکن نبی نےاس سے فرمایا :میرے قریب آجاؤ، وہ نبی کے قریب جا کر بیٹھ گیا،نبی نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کروگے؟۔اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا: کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں،نبی نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند نہیں کرتے،پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں نبی نے فرمایا:لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں،میں آپ پر قربان جاؤں، نبی نے فرمایا :لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر نبی نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اوردعاء کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔

راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی([135])۔

 

 

عورت کے اسلام میں حقوق کے متعلق شبہات

عموما جو شبہات اٹھائے جاتے ہیں ان میں سے کچھ شبہات درجہ ذیل ہیں:

1۔ تعداد ازواج کا معاملہ

تعدد ازواج ربانی شریعت ہے، ہر وہ شخص جو اللہ تعالی اور آسمانی رسالت پر ایمان رکھتا ہے،اسے لائق نہیں کہ ان کا انکار یا ان پر اعتراض کرے۔

تعدد ازواج سنت ہے، جیسا کہ اسلام سے قبل سابقہ ادیان میں سنت تھا، چناچہ یہ اسلام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ ایک قدیم شریعت ہے، جو سابقہ ادیان میں معروف تھی ،جن میں سرفہرست تورات وانجیل ہیں ۔

محمد رسول اللہ کی بعثت سے قبل بہت سارے انبیاء کرام کی بغیر ضابطہ کے متعدد شادیاں تھیں، جیسےسیدناابراہیم علیہ السلام کی دو بیویاں تھیں،اسی طرح سیدنا یعقوب علیہ السلام کی 4 بیویاں تھیں، جبکہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی تو بہت ساری بیویاں تھیں، چنانچہ تعدد ازواج کوئی ایسا معاملہ نہیں ہےجو یکایک پیش آیا ہے ،بلکہ زمانہ قدیم سے رائج ہے۔

تورات

یہودیوں کی مقدس کتاب تورات ،عہد قدیم میں لکھا ہے کہ:" عورت کو اسکی بہن کے ساتھ اس کی زندگی میں ( ایک ہی مرد کے نکاح میں ) نہ دیا جائے کہ اس کی بہن اس کی سوکن بنے کہ اس کے عیوب اس (کی بہن) کے سامنے واضح ہوتے ہیں"۔

چناچہ تورات نے تعدد ازواج سے منع نہیں کیا ،بلکہ دو بہنوں کو ایک شخص کے نکاح میں دینے سے منع کیا ہے۔

اسی طرح تورات میں ہی سفر صموئیل میں ہے کہ نبی داؤد علیہ السلام کی لونڈیوں کے علاوہ متعدد بیویاں تھیں ،اسی طرح سفر الملوک میں آیا ہے کہ نبی سلیمان علیہ السلام کی آزاد سات سو بیویاں تھیں جبکہ تین سو لونڈیاں تھیں۔

اسی طرح جب موسیٰ علیہ السلام مبعوث کئے گئے تو انہوں نے بھی مرد کے لئے متعین تعداد کی تحدید کے بغیر تعدد ازواج کو برقرار رکھا ،ہاں یہ الگ بات ہے کہ بنی اسرائیل کے بعض علماء نے تعدد ازواج سے منع کیا ،جبکہ کچھ نے بیوی کی بیماری یا بانجھ پن کے سبب اسے جائز کہا۔

انجیل

عیسی علیہ السلام ،موسی علیہ السلام کی شریعت مکمل کرنے آئے تھے اور انجیل میں ایک بھی ایسی نص نہیں ہے جو تعدد ازواج کو حرام کہتی ہو۔

آئرلینڈکے بادشاہ Diarmait([136]) کی دو بیویاں تھیں، اسی طرح فریڈرک دوئم کی کنیسہ کی اجازت سے دو بیویاں تھیں، چناچہ حلت یا حرمت کا مسئلہ نصرانی دین کی طرف سے نہیں بلکہ کنیسہ کے علماء کی طرف سے تھا۔

پروٹسٹنٹ مذہب کے بانی مارٹن لوتھر تعدد ازواج کو مسیحی شریعت سے غیر متصادم قرار دیتے تھے بلکہ تمام مواقع پر اس کی دعوت دیتے تھے، چناچہ تعدد ازواج کے متعلق لکھتے ہیں([137]):" جی ہاں بلاشبہ اللہ تعالی نے زمانہ قدیم سے مخصوص حالات میں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے اور ہر وہ مسیحی جو ان کی اقتداء کرنا چاہے جب اسے یہ یقین ہو کہ اس کے ظروف بھی ان کے ظروف کے مشابہ ہیں تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ کرے کیونکہ بہرحال تعدد ازواج ہر حال میں طلاق سے بہتر ہے"۔

نصرانی دین میں تعدد ازواج کی تحریم مذہبی پیشواؤں کی بنائی گئی شریعت سے آئی ،اور یہ اصل نصرانی دین کا حصہ نہ تھی چناچہ جدیدکنیسہ پاپائے روم کی قیادت میں تعدد ازواج کو حرام قرار دیتا ہے مثلا:

  • آرتھو ڈکس مذہب میاں بیوی میں سے کسی کیلئے جائز قرار نہیں دیتا کہ جب تک رشتہ ی ازدواج برقرار ہے کسی اور سے رشتہ ازدواج قائم کریں۔
  • آرمینین آرتھوڈکس مذہب عقد ثانی کی اسی صورت میں اجازت دیتا ہے جب عقد اول فسخ ہوچکا ہو۔
  • رومن آرتھو ڈکس مذہب موجود رشتہ ازواج کو جدید رشتہ ازدواج کے لئے رکاوٹ قرار دیتا ہے۔

 

دور جاہلیت میں عربوں میں تعدد ازواج

اسلام سے قبل دور جاہلیت میں تعدد ازواج بغیر کسی تحدید کے عام اور رائج تھا بلکہ مرد جتنی عورتوں سے چاہتا شادی کرتا۔

اسی طرح تعداد ازواج مصریوں، فارسیوں، آشوریوں ،جاپانیوں ،اور ہندوؤں کے ہاں معروف تھا جیساکہ روس ، جرمانی قبائل، اور رومن بادشاہوں کے ہاں بھی رائج تھا۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ تعدد ازواج اسلام کا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سابقہ امتیں اس پر عمل پیرا تھیں، اور جب اسلام آیا تو اسلام نے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ،لیکن اس کے لئے کچھ شروط وضوابط مقرر کردیے، چناچہ تعدد ازواج کی بنیادی شرطیں یہ ہیں:

  1. مرد چار عورتوں سے زیادہ شادی نہیں کر سکتا

 غیلان بن سلمہ ثقفی نے اسلام قبول کیا، جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں، وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں ، تو نبی اکرم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چار کو منتخب کر لیں([138])۔

  1. عدل و مساوات

 اللہ سبحانہ وتعالی نے تعدد ازواج کی اجازت دی ہے تو اس کے لئے عدل ومساوات کی شرط بھی رکھی ہے کہ بیویوں کے درمیان ظلم وجور اور ناانصافی نہ کی جائے ۔

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا : جب کسی شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا([139])۔

عدل و مساوات سے مراد مادی امور ہیں، جیسے نان ونفقہ، خرچہ، اور رات گزارنا وغیرہ، جہاں تک دلی محبت اور اس کا ایک بیوی کی طرف مائل ہونے کا تعلق ہے تو اس میں گناہ نہیں کیونکہ یہ انسانی ارادہ و اختیار سے باہر کی چیز ہے، بشرطیکہ باقی بیویوں کے حقوق میں ضرر کا سبب نہ ہو ۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے : اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتا ہوں ، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے ، میں نہیں رکھتا ، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا ([140]) ۔

  1. دوسری بیوی اور اس کی اولاد پر خرچ کرنے کی طاقت ہو

اگر مرد کو علم ہے کہ دوسری بیوی اور اس کی اولاد پر خرچ کرنے کی اس میں طاقت نہیں تو اس حالت میں اس کے لئے دوسری شادی کرنا ناجائز ہے۔

ہم مندرجہ ذیل سطور میں اختصار کے ساتھ ان بعض امور کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جن سے غالبا کوئی بھی معاشرہ خالی نہیں ہوتا ،پھر، ہم غور کرتے ہیں کہ تعدد ازواج معاشرے اور عورت کی مصلحت میں ہے یا یہ بگاڑ اور فساد کا سبب ہے:

  1.  بیوی بانجھ ہےجو اولاد نہیں جن سکتی، جبکہ شوہر کو اولاد کی خواہش ہے، ایسی صورتحال میں عورت کے لئے زیادہ بہتر اور مناسب کیا ہے؟ یہ کہ مرد ایک اور عورت سے شادی کرے اور پہلی بیوی اس کے نکاح میں رہے، یا اسے بغیر کسی جرم کے طلاق دے دے کیونکہ اولاد کے حصول کا جتنا حق عورت کا ہے اتنا ہی مرد کا بھی ہے؟۔
  2. بیوی کو دائمی مرض لاحق ہے اور اس وجہ سے وہ ازدواجی تعلق نبھانے سے قاصر ہے، تو عورت کے حق میں بہتر کیا ہے؟ یہ کہ اس کا شوہر دوسری شادی کرلے اور اس کی بھی عزت کی حفاظت کرے، یا اسے طلاق دے دے ،یا پھر چوری چھپے اجنبی عورتوں کے ساتھ معاشقے رکھے؟۔
  3. کچھ مردوں کے پاس اتنی جنسی قوت ہوتی ہے کہ ایک عورت اس جنسی قوت کی حفاظت کے لئے ناکافی ہوتی ہے، یا بسا اوقات اس کے حیض ونفاس کی مدت عام روٹین سے طویل ہوتی ہے، یا عورت جنسی طور پر کمزور ہو تی ہے،اورشوہر کی جنسی خواہش پوری نہیں کرپاتی،تو مرد کے لئے کیا بہتر ہے؟ یہ کہ مرد دوسری شادی کرلے یا یہ کہ اس جنسی قوت کو حرام جگہ صرف کرے؟۔
  4. اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ و جدال کی کثرت اور بہت سارے معاشروں کی اندرونی مشاکل کی بنا پر غالبا مرد ہی کام آتے ہیں، جس کی مثال جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم ہیں، جس میں کئی ملین مرد ختم ہوگئے ،اگر ہر مرد ایک عورت پر اکتفا کرے تو کیا باقی عورتوں کو اجازت دی جائے گی کہ حرام طریقے سے اپنی خواہش پوری کریں، یا پھر وہ لذت اور جنسی خواہش ختم کرنے کے لئے شرعی طریقہ اپنا سکتی ہیں جو ان کی عزت کی حفاظت اور حقوق کے عدم ضیاع کاضامن ہو اور جائز اولاد پیدا کریں؟۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی معاشرے میں غیر شادی شدہ عورتوں کی کثیر تعداد مردوں کے لئے فحاشی کے راستے پر چلنے میں آسانی کر دیتی ہے۔

  1. معاشرے میں بہت ساری بیواؤں، طلاق یافتہ، اور عمر رسیدہ غیر شادی شدہ عورتوں کا پایا جانا، اس صورتحال میں عورت کے لئے کیا بہتر ہے؟ بغیر شوہر کے زندگی بسر کرنا، یا ایک مرد کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا جو اس کی عفت کا محافظ ہو اور ساتھ دوسری عورت کی عفت کا محافظ ہو؟۔

 

کیا تعدد ازواج جدید اور ترقی یافتہ معاشروں میں موجود ہے؟۔

تعدد ازواج تمام جدید معاشروں میں موجود ہے لیکن غیر اسلامی معاشروں میں اسے بیوی کا نام دینے کے بجائے گرل فرینڈ ،معشوقہ اور محبوبہ وغیرہ کےنام دیئے جاتے ہیں ، اور اس تعدد کی کوئی حد نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس پر کوئی قانون لاگو ہوتا ہے، اسی طرح مرد جن عورتوں کے ساتھ رہتا ہے، ان کی مرد پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہوتی، بلکہ مرد کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اس سے اپنی شہوت پوری کرے، اس کی عزت خاک میں ملائے، اور حمل اور وضع حمل کی تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لئے اسے تنہا چھوڑ دے، اسی طرح مرد کے لئے لازمی نہیں کہ اس تعلق سے پیدا ہونے والی اولاد کا اعتراف بھی کرے۔

جہاں تک اسلامی معاشرے میں تعدد ازواج کا معاملہ ہے تو وہ چار بیویوں تک محدود ہے، جو کہ شرعی عقد کے ذریعے ہوتا ہے، جس میں مرد کے لئے ضروری ہے کہ عورت کو مہر ادا کرے ،اور دونوں کے تعلق سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے ،مرد پر ضروری ہے کہ عورت اور اس کی اولاد کا نان و نفقہ برداشت کرے۔

ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ اگر تعدد ازواج مردوں کے لئے جائز ہے تو عورتوں کے لئے کیوں جائز نہیں؟۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تعدد ازواج میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کا مطالبہ فطری اور طبعی دونوں لحاظ سے ناممکن ہے۔

فطری لحاظ سے اس طرح ناممکن ہے کہ اس دنیا کے تمام معاشروں میں مردکے حاوی ہونے کی بنا پر گھر کی حکومت کا حق اسے ہی ہوتا ہے ،اور اس قاعدے سے ہٹ کر اگر کہیں عورت مرد سے زیادہ قوی ہے تو ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

اگر عورت کے دو شوہر ہو تو گھر کی حکومت کی کس شوہر کے ہاتھ میں ہو گی ؟۔

اور عورت دونوں شوہروں میں سے کس کی خواہش پوری کرے گی؟۔

اگر تمام شوہروں کے خواہشیں پوری کرے گی تو یہ ناممکن ہے، کیونکہ سب کی خواہشیں مختلف ہوتی ہیں۔

اور اگر ان میں سے کسی ایک کی خواہش پوری کرے گی تو یہ دوسرے شوہرو ں کو غصہ دلائے گا۔

طبعی لحاظ سے اس طرح ناممکن ہے کہ عورت کی طبیعت ہے کہ وہ سال میں ایک ہی مرتبہ حاملہ ہوتی ہے، برخلاف مرد کے کہ اس کے لئے ممکن ہے کہ اسکی بیک وقت متعدد عورتوں سے متعدد اولاد ہو، اگر عورت کو تعدد ازواج کی اجازت ہو تو بچہ کس شوہر کی طرف منسوب ہوگا؟

 

بعض مغربی مفکرین کی طرف سے تعدد ازواج کا مطالبہ

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بعض مغربی مفکرین کے کچھ اقوال ذکر کریں، جو تعدد ازواج کا مطالبہ کرتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ یہ ان کی بہت ساری معاشرتی مشکلات اور پریشانیوں کا واحد حل ہے۔

چناچہ ان کا ایک فلسفی گستاولی بان اپنی کتاب" تمدن عرب" میں کہتا ہے کہ: تعدد ازواج معاشرے کو گرل فرینڈ کی تباہ کاریوں، نقصانات اور بغیر باپ کے اولاد یعنی لاوارث بچوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

Mrs. Annie Besant اپنی کتاب ہندوستان میں رائج ادیان ([141])میں لکھتی ہیں:میں عہد قدیم (تورات) میں پڑھتی ہوں کہ اللہ تعالی کا دوست ،جن کا دل اللہ تعالی مشیئت کے مطابق دھڑکتا تھا ،ان کی متعدد بیویاں تھیں، اس پر مستزاد یہ کہ عہد جدید( انجیل) تعدد ازواج کی تحریم نہیں کرتا ،سوائے راہب اور کنیسہ کے خدام کے لئے، کیونکہ وہ مکلف ہیں کہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کریں ،اسی طرح تعدد ازواج کا معاملہ مجھے قدیم ہندی کتب میں بھی ملتا ہے، اور لوگ اسلام پر الزام تراشی محض اس لئے کرتے ہیں کہ انسان کے لئے دوسرے کے عقائد میں عیوب تلاش کرنا اور اسے مشہور کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن مغربی لوگ مشرقی لوگوں کے ہاں محدود تعدد ازواج کے خلاف مظاہرہ کرنے کی جرات کیسے کرسکتے ہیں ،حالانکہ ان کے ملکوں میں زناکاری عام ہے ۔

غوروفکر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی بیوی پر اکتفا صرف چند معدودے پاک باز لوگ ہی کرتے ہیں، تو کسی ایسے معاشرے کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں کہ اس معاشرے کے لوگ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرتے ہیں ،جبکہ بیوی کے ساتھ پس پردہ ان کی معشوقائیں بھی ہوں، اگر میزان عدل کے ساتھ کیا موازنہ کیا جائے تو ہمارے سامنے ظاہر ہوگا کہ اسلامی تعدد ازواج جو تحفظ فراہم کرتا ہے،عورتوں کو نان ونفقہ دیتا ہے، لباس دیتا ہے،یہ پلڑا باعتبار وزن کے بھاری ہے اس مغربی زناکاری کے مقابلے میں جو مرد کو اجازت دیتی ہے کہ وہ محض جنسی بھوک مٹانے کے لئے عورت کے ساتھ تعلق قائم کرے، اور جنسی بھوک مٹتے ہی اسے سڑک کے کنارے پھینک دے ،اگر لوگوں سے سوال کیا جائے کہ دونوں میں سے کونسا طریقہ بہتر ہے تو وہ صراحتا کہیں گے کہ دونوں معاملے ناپسند ہیں([142]) لیکن کسی مسیحی کو اجازت نہ دو کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو کسی ایسے معاملے میں ملامت کرے جس کے ارتکاب میں وہ خوداس کے ساتھ شریک ہے۔

 

 

2۔ عورت کی گواہی کا معاملہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى﴾ ([143])۔

ترجمہ: اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی نے واضح کیا ہے کہ حقوق کے اثبات کے لئے گواہی اسی وقت پوری ہو گی جب وہ دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی ذریعے سے آئے۔

اور حکمت الہی کا تقاضہ تھا کی عورت نفسیاتی اعتبار سے پرجوش جذبات اور باریک ا حساس کی حامل ہو تاکہ وہ زندگی میں اپنی فطرتی ذمہ داری جو حمل، رضاعت اور پرورش کی صورت میں ہوتی ہے ،اسے ادا کر سکے جن میں زیادہ ضرورت نرم دل، احساس رکھنے والے مزاج،اور کھلے جذبات کی ہوتی ہے۔

اور چونکہ عورت طبعی لحاظ سے جذباتی اور حساس ہوتی ہے، اور اپنے تصرفات میں آزاد نہیں ہوتی جوممکن ہے کہ اس کے مشاہدہ اور گواہی کے معاملات پر اثرانداز ہو، لہذا عدل الہی کا تقاضہ تھا کہ عورت کی گواہی کے متعلق احتیاط برتی جائے، اسی وجہ سے خطرناک امور جیسے قصاص کا معاملہ ہے، ان میں عورت کی گواہی کو دور رکھا گیا ہے، اس لئے کہ اگر عورت کسی جھگڑے کی جگہ پر موجود ہو، جو قتل جیسے جرم پر اختتام پذیر ہوا ہو،ایسے حالات میں غالبا عورت خود پر کنٹرول کر کے، دل کو تھام کر، جرم کے اختتام تک باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ حتی الامکان وہ بھاگنے کی کوشش کرے گی، اور اگر بھاگنا ممکن نہ ہو تو اپنی آنکھیں بند کر لے گی تاکہ ممکنہ حادثے کی قباحت نہ دیکھے ،اور یہ اسی وجہ سے ہے ،جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا، اور یہ بہرحال اس کی گواہی پر اثر انداز ہوگا۔

باوجود اس کے کہ اسلام نے عورت کو تمام مالی معاملات کی اجازت دی ہے، اور اسے مرد کے برابر اختیارات دیے ہیں ،لیکن عورت کی طبعی حالت اور معاشرے کا بلند پیغام اس سے یہی تقاضہ کرتا ہے کہ وہ اکثر اوقات گھر میں ہی رہے، تاکہ گھریلو معاملات اور خاندانی ذمہ داریوں کی نگرانی کرسکے ،جن کی ادائیگی عورت کے بہت سارے وقت کی متقاضی ہوتی ہے، جو عورت کو خرید وفروخت کے مراکز سے دور رکھتا ہے،جن میں غالبا جھگڑے اور مالی اختلافات ہوتے ہیں، اور بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ جھگڑے اور اختلافات کی جگہ پر ہو، اور اس جھگڑے اور اختلافات کا تعلق عورت سے نہیں ہوتا، اور نہ ہی عورت کو رغبت ہوتی ہے کہ انہیں یاد رکھے، اور اگر اس سے گواہی طلب کی جائے تو اس کے بھول جانے یا شک میں پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ ایک اور عورت گواہی دے تو بھول اور غلطی کا احتمال زائل ہوجاتا ہے، اسی بناء پر دو عورتوں کی گواہی کی علت اللہ تعالی کے اس فرمان میں وارد ہوئی ہےکہ : ﴿أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى ([144]).

ترجمہ: تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے۔

یعنی اس ڈر سے کہ کہیں اگر ایک غلطی کرے یا بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے، صرف اتنا ہی معاملہ ہے، ایسا بالکل بھی نہیں جیساکہ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ یہ عورت کی حیثیت میں کمی اور اس کے لئے ذلت کی بات ہے ،اگر ایسا ہوتا تو عورتوں کے ساتھ مخصوص معاملات میں اس کی گواہی قبول نہ کی جاتی، جنہیں غالبا عورتوں کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا ،ان معاملات میں اکیلی عورت کی گواہی بغیر دیگر گواہوں کے قبول کی جائے گی، جیسے بکارت( کنوارا پن )کے اثبات میں ، ولادت کے اثبات میں، جنسی عیوب کے اثبات میں وغیرہ وغیرہ ،جبکہ ایک مرد کی گواہی معمولی مالی معاملے میں بھی قبول نہیں کی گئی، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورت مالی معاملات سے زیادہ خطرناک امور میں اکیلے گواہی دینے کے معاملے میں مرد کے مقابلے میں زیادہ خصوصیت کی حامل ہے۔

تو یہ معاملہ احکامات کے اثبات میں یقین کا ہے۔

اسی طرح مالی معاملات میں اکیلے مرد کی گواہی قبول نہیں کی جاتی، بلکہ حق کے اثبات کے لئے اس کے ساتھ ایک اور مرد کی گواہی ضروری ہے، اور کسی نے بھی ایک مرد کی گواہی کے ساتھ ایک اور مرد کی گواہی کو مرد کی شان میں کمی اور اس کے لئے باعث ذلت قرار نہیں دیا۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گواہی کوئی حق نہیں کہ جسے حاصل کرنے کے لئے لوگ کوشش کرتے ہیں ،بلکہ گواہی ایک بھاری ذمہ داری ہوتی ہے، جس سے عموما لوگ دور بھاگتے ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالی نےگواہی کی ادائیگی سے بھاگنے سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا﴾.

ترجمہ: اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں ۔

یہ خطاب مردوعورت دونوں کیلئے یکساں ہے ،جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ گواہی ایک بھاری ذمےداری ہوتی ہے اور لوگ اس سے عموما دور بھاگتے ہیں، کیونکہ بسا اوقات گواہی دینے سے نقصان لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، اور کبھی عدالت کی طویل مجلسوں کی وجہ سے جسمانی اور مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،اس لئے اسلام اپنی نظر سے عورت سے بقدر امکان زندگی کے بوجھ کم کرنا چاہتا ہے، بلکہ بہت سارے بوجھ ختم کر دیے ہیں، جیسے گھر اور خاندان کے نان و نفقہ کی ذمہ داری، تاکہ وہ اپنے کندھوں پر ڈالی گئی عظیم مسؤولیت کے لئے فارغ ہو سکے، تو یہ عورت کی تکریم اور شان میں اضافے کا سبب ہے کے نہ کہ کمی کا ۔

 اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شریعت اسلامیہ نے عورت کی گواہی کو مرد کی گواہی کے مقابل اور برابر قرار دیا ہے، یہ اس صورت میں ہے جب مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کے پاس گواہ نہ ہوں اور عورت مرد کی گواہی لعان کے ذریعے باطل کرنا چاہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (6) وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (7) وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (8) وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ([145])۔

ترجمہ: اورجو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لائیں اور ان کا کوئی گواه بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وه سچوں میں سے ہے۔ (6) اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وه جھوٹوں میں سے ہو۔ (7) اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وه چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔ (8) اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا شوہر سچوں میں سے ہو۔

 

 

3۔ مرد کی حاکمیت

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ([146])۔

ترجمہ: مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔

آیت میں لفظ قوام دراصل القیام على الشيء سے ماخوذ ہے، جس کا معنیٰ ہے کسی چیز کی نگرانی اور اس کی ذمہ داری ، اور یہ عورتوں کی بجائے مردوں کو دی گئی ہے ،اس لئے کہ مردکی جسمانی اور عقلی بناوٹ اسےذمہ داری اور مسؤولیت کے حق کے لئے اہل بناتی ہے۔

تو یہ ذمہ داری بیک وقت فطری اور کسبی ہے، کیونکہ مردوں پر عورتوں کے حقوق جیسے :خرچ کرنا ،نان و نفقہ دینا ،اس کی ضروریات کی ادائیگی ، اس کا تحفظ ،اورزندگی گزارنے کے لئے ضروری اشیاء کی فراہمی مرد کے اوپر فرض کیے گئے ہیں، چنا چہ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ،اور اپنی رعایا کا مسؤول ہے، جیسا کہ رسول اللہ نے واضح کر دیا۔

جہاں تک عورت کا معاملہ ہے تو وہ جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے کمزور ہے ،کیونکہ اس کے ساتھ بہت سارے عوارض ہوتے ہیں، جیسے حیض، حمل، ولادت ،رضاعت، پرورش اور ان امور کی بنا پر عورت کماحقہٗ قوام کی ذمہ داری ادا نہیں کر سکتی۔

حیض: اس کا عورت کی نفسیات اور اس کے مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے، ہر ماہ خون کی کمی کے باعث عورت کا جسم کمزور ہو جاتا ہے۔

حمل: عورت حمل کی وجہ سے کافی پریشانیوں کا سامنا کرتی ہے، چاہے وہ جسمانی تکلیفیں ہوں کیونکہ جنین اس کے پیٹ میں نشوونما حاصل کرتا ہے، اور کافی حد تک اس کی غذا اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، اس لئے وہ تھک جاتی ہے، اور معمولی کام بھی اس پر اثر انداز ہوتا ہے، یا وہ تکلیفیں نفسیاتی ہوں ،جیسے جنین کے ضائع ہونے کا ڈر اور پیش آنے والی تکلیف کا ڈر، جس کا اس کی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے نتیجتا اس کے رویہ اور سلوک پر بھی اثر پڑتا ہے۔

وضع حمل اور اس کے بعد کے مراحل: اس وجہ سے عورت جن شدید ترین تکلیفوں کا سامنا کرتی ہے وہ عورت سے تقاضا کرتے ہیں کہ عورت ایک مخصوص مدت تک بغیر کسی محنت و مشقت کے آرام کرے،اور وہ مدت عورتوں کی طبیعت کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے۔

رضاعت: عورت جب اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کے اس کی غذا کا ایک حصہ جو وہ لیتی ہے بچے کی طرف چلا جاتا ہے، اور بلاشبہ یہ معاملہ ان امور میں سے ہے جو عورت کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں، مدت رضاعت میں کچھ عورتوں کے بال گرتے ہیں یا ان کے رنگ تبدیل ہوجاتے ہیں یا انہیں سر درد اور چکر آنے لگتے ہیں۔

پرورش: بچے کی پرورش، اس کی ضروریات کا خیال اور شب بیداری میں عورت کے وقت کا اکثر حصہ صرف ہو جاتا ہے۔

عباس محمود عقاد کہتے ہیں([147]): عورت کی ایک مخصوص جذباتی بناوٹ ہوتی ہے ،جو مرد کی بناوٹ سے مشابہ نہیں ہوتی ،اس لئے کہ نومولود بچے کے ساتھ رہنا کچھ امور کا متقاضی ہوتا ہے،جیسے بچے اور ماں کے مزاج میں تناسب،ان دونوں کے فہم میں تناسب اور دونوں کے جسمانی اور جذباتی اتار چڑھاؤ میں تناسب وغیرہ۔

اسی طرح عورت کا دل اسے احساسات اور جذبات کے جلد ہی تابع کر دیتا ہے، لہذا اس پر وہ کام مشکل ہوتے ہیں جو مرد پر آسان ہوتے ہیں، جیسے عقل سے فیصلہ لینا ،جذبات پر کنٹرول، اور عزم کی پختگی وغیرہ۔

ڈاکٹر الیکسس کارل جو نوبل انعام یافتہ تھے وہ مرد و عورت کے درمیان اعضاء کی تفریق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں([148]): جو امور مرد اور عورت کے درمیان فرق کرتے ہیں وہ ان کے جنسی اعضاء اور رحم و حمل کی شکلوں کا اختلافی ہی نہیں ہے اور نہ ہی محض سیکھنے کے طریقوں کا اختلاف ہے ،بلکہ ان کے درمیان فرق اساسی طبیعت و نوعیت کے حامل ہیں، جیسے دونوں کے جسم کے خلیات مختلف ہوتے ہیں ،اسی طرح وقت ملاپ پورا جسم جو مختلف قسم کے کیمیاوی غدود خارج کرتا ہے وہ بھی مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح عورت کے جسم میں رحم سے جو بیضہ کیمیاوی مادہ خارج کرتا ہے وہ مرد سے قطعاً مختلف ہوتا ہے ،اور جو لوگ اس حساس جنس کے لئے مردکے ساتھ مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں وہ ان بنیادی فرق سے لاعلم ہیں، چناچہ وہ اس بات کی طرف بلاتے ہیں کے مرد و عورت دونوں کے لئے تعلیم، مسؤولیت ،اور کام ایک ہی نوعیت کے ہونے چاہیئیں ،لیکن درحقیقت عورت مرد سے کلی طور پر مختلف ہے، اس کے جسم کا ہر خلیہ مادہ کی چھاپ لئے ہوئے ہوتا ہے، اسی طرح اس کے اعضا مرد سے مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح اس کا عصبی نظام مرد سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔

بلاشبہ اعضاء کی کارگردگی کے قوانین اور اس کائنات کے قوانین محدود اور منضبط ہوتے ہیں، جن میں تبدیلی محض انسانی خواہش سے نہیں ہوتی، اور ہم پر ضروری ہے کہ ہم غیر فطری تگ و دو کرنے کی بجائے وہ قوانین جیسے ہیں انہیں ویسا ہی تسلیم کرلیں ،اور عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی فطری طبیعت کے لحاظ سے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں، اور مردوں کی اندھا دھندھ تقلید نہ کریں۔

یہ بات تو مشاہدے میں ہے اور ہر ایک کو معلوم ہے کے مرد کے پٹھے عورت کے پٹھوں سے مضبوط ہوتے ہیں چناچہ اکثر اوقات عورت جن پر مشقت اور تھکا دینے والے کاموں سے عاجز آ جاتی ہے اسے مرد ہی ادا کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا باتوں سے مرد کا عورت پر حکمرانی کا سبب واضح ہے۔

 

 

4۔ میراث کا حق

اسلام نے عورت کو میراث کا حق دیا ہے، جبکہ اسلام سے پہلے وہ حق وراثت سے محروم تھی ،کیونکہ وراثت کا حق صرف ان مردوں کو حاصل تھا جو قبیلے کی حفاظت اور اس پر سرکشی کرنے والوں سے

اس کا دفاع کر سکتے ہوں ، کاش معاملہ صرف یہیں تک رہتا، لیکن وہاں تو عورت کا بھی وارث بنا جاتا، جس طرح دیگر ساز و سامان کا وارث بنا جاتا۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ﴾ ([149]).

ترجمہ: ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں کہتے ہیں : جب کوئی شخص فوت ہو جاتا تھا،تو اس کے رشتے دار اس کی بیوی کے حقدار ٹہرتے، اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اس سے نکاح کرتا یا جہاں چاہتے اس کا نکاح کروا دیتے، اور اگر چاہتے تو اس کا نکاح نہ کرواتے ، اس طرح وہ( عورت کے سسرالی) اس کے میکےسے زیادہ حقدار تھے، تو اللہ تعالی نے یہ آیت اس بارے میں نازل فرمائی([150])۔

جب اسلام آیا تو اس نے اسے حرام قرار دیا اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ﴾ ([151]).

ترجمہ: ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو۔

اور عورت کو وراثت میں حق دیاِ، اور جو اس کے لئے فرض کرنا تھا فرض کیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا([152]).

ترجمہ: ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔

سید قطب رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ([153]):یہ وہ عام اصول ہے جس کی رو سے اسلام نے آج سے پورے چودہ سو سال قبل عورتوں کو وہ حقوق دیے جو اس وقت مردوں کو حاصل تھے یہ فیصلہ اصولی فیصلہ تھا جس طرح یتیموں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا، جبکہ اس وقت کے معاشرے میں عموما چھوٹوں اور یتیموں کے حقوق مارے جاتے تھے، اور یہ حقوق اس لئے مارے جاتے تھے کہ ایام جاہلیت میں انسانوں کی قدروقیمت کا تعین انسانی لحاظ سے نہیں بلکہ اس کا تعین اس لحاظ سے کیا جاتا تھا کہ وہ پیداواری عمل میں کس قدر کام آتے ہیں ،اور پھر جنگ میں وہ کس قدر کام آتے ہیں، ان حالات میں اسلام نے ایک ربانی نظام پیش کیا، جس نے سب سے پہلے انسانوں کو بحیثیت انسان دیکھا ،اس لئے کہ انسان کو انسانی حیثیت سے کسی حال میں بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ،اور ایک خاندان کے اندر یا ایک سوسائٹی کے اندر تمام دوسری حیثیات کا لحاظ اس کے بعد آتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ([154])۔

ترجمہ:ا للہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔

ممکن ہے جو شخص اسلام کی حکمت سے ناواقف ہو ،اس آیت کو پڑھتے وقت اس کے ذہن میں ایک اشکال پیدا ہو کہ اسلام نے تو عورتوں کا حق مارا ہے ،اور عورت کو مرد کے مقابلے میں آدھی میراث کیوں دی گئی ہے؟۔

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے عورت کی میراث مکمل تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہے، اور اس کی میراث کی تین حالتیں ذکر کی ہیں:

  1. میراث میں عورت کا حصہ مرد کے حصہ کے برابر ہے۔
  2. میراث میں عورت کا حصہ مرد کے حصہ کے برابر یا اس سے تھوڑا کچھ کم ہے۔
  3. میراث میں عورت کا حصہ مرد کہ حصہ سے نصف ہے اور اکثر و بیشتر یہی ہوتا ہے۔

اس موضوع کے متعلق مزید معلومات کے لئے علم میراث کی کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے، جس میں یہ موضوع مکمل تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم اسلام پر یہ حکم لگائیں کہ اس نے عورت کا میراث میں حق مارا ہے یا نہیں ،ہم ایک مثال لیتے ہیں جس سے عورت کی میراث ،مرد کی میراث کے مقابلے میں نصف ہونے کی حکمت واضح ہوگی۔

مثال: ایک شخص فوت ہوا اور اس نے اپنے پیچھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی وارث چھوڑے،اور مال میں تین ہزار ریال چھوڑے،تقسیم کے وقت بیٹے کو دو ہزار ریال اور بیٹی کو ایک ہزار ریال دیے گئے، اب اگر ایک مدت کے بعد ہم اس مال کی مرد اور عورت کے پاس کیفیت دیکھیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ جس مال کا وارث مرد بنا تھا، وہ کم ہوچکا ہے اس لئے کہ مرد سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ جس عورت سے وہ نکاح کرنا چاہتا ہے، اس کا حق مہر ادا کرے، اسی طرح گھر تیار کرنے، گھرکی ضروریات مہیا کرنے، خاندان کے افراد کے علاج معالجہ کروانے ،اور بیوی اور اولاد پر خرچ کرنے کا اسی سے مطالبہ کیا جاتا ہے، جبکہ بیوی سے مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ گھر کے خرچہ اور گھریلو ضروریات میں وہ حصہ ڈالے، چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح مرد سے ہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین، چھوٹے بہن بھائی، اور اگر آدمی صاحب حیثیت ہے تو رشتے داروں میں سے فقراء اور مساکین کا خرچ ،جن کی اس نے ذمے داری قبول کی ہو، ان سب پر خرچ کرے، جہاں تک عورت کا معاملہ ہے، تو وہ معزز ومکرم ہے، اسے محبت دی جائے گی، اس کا خیال رکھا جائے گا، اور اسکے نان و نفقہ کا انتظام کیا جائے گا،اس پر مالی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈالا گیا ،یہاں تک کہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کا بھی اس سے مطالبہ نہیں، تو جس مال کی وہ وارث بنتی ہے وہ زیادہ ہوگا اور بڑھے گا کیونکہ جب وہ نکاح کرے گی تو اپنے شوہر سے حق مہر وصول کرے گی ،یہاں تک کہ اگر زوجین میں علیحدگی ہوجاتی ہے، تو شرعا شوہر سے مطالبہ کیا جائے گا کہ اپنی اولاد پر خرچ کرے، اور ان کی ضروریات پوری کرے، عورت اپنے مال کو تجارت اور کاروبار میں لگا کر بڑھا سکتی ہے۔

اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کا حصہ اس کے کفیل کے نہ ہونے کی صورت میں اس کے پاس بطور ذخیرہ محفوظ رہے گا ،جبکہ مرد کا حصہ اس کے کندھوں پر لا دی گئی ذمہ داریوں کی وجہ سے ہمیشہ خرچ کرنے کی زد میں ہو گا۔

شریعت اسلامیہ اس دنیا میں موجود دیگر قوانین سے یکسر مختلف ہے ،جن میں بیٹی اگر ایک مخصوص عمر کو پہنچ جاتی ہے تو باپ کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے ،اور وہ زندگی گزارنے اور پیٹ بھرنے کے لئے مختلف راستے تلاش کرتی ہے۔

جبکہ اسلام میں بیٹی کا معاملہ یہ ہے کہ شرعا اس کا باپ مکلف ہے کہ اس کی شادی کروانے تک اس کی کفالت کرے ،پھر شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تمام تر ضروریات پوری کرے، پھر شوہر کے بعد یہ ذمہ داری اولاد کی ہے۔

جو قوانین مرد و عورت کے درمیان میراث کو برابر تقسیم کرتے ہیں ،وہی قوانین ان دونوں کے درمیان تمام ذمہ داریوں اور مالی بوجھ کو بھی برابر تقسیم کرتے ہیں۔

اگر محض میراث میں عورت کو مرد کے برابر حصہ دینے کا مطالبہ ہو اور مرد کی طرح مرد کے برابر مالی اخراجات کی ذمہ داری کا مطالبہ نہ ہو تو یہ عدل و انصاف نہیں کیوں کہ اس میں مرد پر ظلم ہے جو شریعت اسلامیہ کو ناپسند ہے۔

اگر میراث میں مرد کو عورت پر فوقیت دی جا رہی ہے تو عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ عورت سے مالی معاملات کی ذمہ داریاں ختم کر دی جائیں، جیسے گھر اور بچوں پر خرچ وغیرہ ،بلکہ ہمارے سامنےاسلام کی وسعت اور اس کی عورت کے لئے تکریم اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ جب اسلام نے عورت سے تمام تر مالی ذمہ داریاں ختم کردی ہیں، اور مرد کو ان کا مکلف ٹھہرایا ہے ،اس کے باوجود اسے میراث سے محروم نہیں رکھا ،بلکہ مرد کے مقابلے میں اسے نصف میراث کا حقدار ٹھہرایا ہے، کیا یہ عدل و انصاف نہیں؟۔

اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مردوعورت دونوں میں سے ہر ایک کا میراث میں حصہ ہے اور کوئی انہیں اس سے محروم نہیں کر سکتا، اسی بنا پر اسلامی وصیت کو مال کے تیسرے حصے یا اس سے کم پر محدود کر دیا گیا ہے، تاکہ موروث کے ترکہ سے وارثوں کو محروم نہ کیا جا سکے ،اور وہ نقصان سے محفوظ رہیں ۔

عامر بن سعد سے روایت ہے کہ ان سے ان کے باپ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مکہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ میری عیادت کیلئے تشریف لائے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے لیے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے الٹے پاؤں واپس نہ کر دے (یعنی مکہ میں میری موت نہ ہو) آپ نے فرمایا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں صحت دے اور تم سے بہت سے لوگ نفع اٹھائیں ۔ میں نے عرض کیا میرا ارادہ وصیت کرنے کا ہے ۔ ایک لڑکی کے سوا اور میرے کوئی (اولاد) نہیں ۔ میں نے پوچھا کیا آدھے مال کی وصیت کر دوں ؟ آپ نے فرمایا کہ آدھا تو بہت ہے ۔ پھر میں نے پوچھا تو تہائی کی کر دوں ؟ فرمایا کہ تہائی کی کر سکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے یا (یہ فرمایا کہ) بڑی (رقم) ہے ۔ چنانچہ لوگ بھی تہائی کی وصیت کرنے لگے اور یہ ان کیلئے جائز ہو گئی ([155])۔

چناچہ رسول اللہ نے اپنی رہنمائی اور حکم کے ذریعے عورت کے حقوق کی حفاظت فرمائی، جو اس کے لئے پاکیزہ زندگی کی ضامن ہیں، اس کے ساتھ ساتھ دیت اور اس جیسے دیگر مالی معاملات جو قتل جیسے حوادث سے پیش آتے ہیں ،ان میں بھی مردوں کو ہی مکلف ٹھہرایا گیا ہے نہ کہ عورتوں کو۔

5۔ دیت

شریعت اسلامیہ میں ایک حالت میں عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہے، اور وہ قتل خطا کی حالت ہے ،جس میں معاملہ قصاص تک نہ پہنچا ہو تو دیت واجب ہوتی ہے ، جہاں تک قتل عمد کا تعلق ہے، اگر مقتول کے وارث دستبردار نہ ہو رہے ہوں تواس میں قاتل سے قصاص واجب ہوتا ہے، تواس صورتحال میں مردوعورت دونوں برابر ہیں چاہے قاتل مرد ہو یا عورت یا پھر مقتول مرد ہو یا عورت کیونکہ انسانی اعتبار سے دونوں برابر ہیں جہاں تک قتل خطا کا تعلق ہے جس میں دیت واجب ہوتی ہے تو شاید اس میں عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہونے کا تعلق اس نقصان سے ہے جو مرد یا عورت کے قتل ہونے کی صورت میں ان کےخاندان کو لاحق ہوتا ہے۔

چناچہ وہ خاندان جن کا باپ غلطی سے قتل کیا گیا ،وہ ایک ایسے شخص سے محروم ہوجاتے ہیں جو ان کے معاملات کی دیکھ بھال اور ان پر خرچ کرنے والا اور تمام تر ضروریات مہیا کرنے والا تھا، بناں بریں وہ خاندان مادی لحاظ سے محروم ہو جائے گا جیسے کفالت ،تحفظ، اور خیال رکھنا وغیرہ، اسی طرح معنوی لحاظ سے بھی محروم ہو جائے گا جیسے نرمی، اور شفقت وغیرہ،لیکن والد کی شفقت اور نرمی ماں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتی ہے۔

جہاں تک اس خاندان کا تعلق ہے جن کی ماں کو غلطی سے قتل کر دیا گیا تو وہ ماں سے صرف معنوی لحاظ سے محروم ہو جائیں گے جیسے محبت، شفقت، نرمی اور پرورش وغیرہ، اور اس کے علاوہ دیگرمعاملات جو عورت کے ذمے ہوتے ہیں ،اور جنہیں مردوں کی اکثریت ادا نہیں کر پاتی، اور یہ ایک ایسا پہلو ہے کہ اگر اس کے لئے ڈھیروں مال بھی خرچ کیا جائے تو اس کا نعم البدل نہیں ہوسکتا ۔

دیت بذات خود مقتول کی قیمت نہیں ہوتی ،بلکہ اس نقصان کا تخمینہ ہوتا ہے جو مقتول کے خاندان کو لاحق ہوا ہے، اگر ہم اس نقصان کو پہچان لیں جو ایک خاندان کو ماں یا باپ سے محروم ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے تو ہمارے سامنے عورت کی دیت مرد کے مقابلے میں نصف ہونے کی حکمت واضح ہو جائے گی۔

 

 

6۔ عورت کا کام کرنا

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو نر اور مادہ سے پیدا فرمایا اور ان دونوں کے درمیان محبت اور رحمت ڈال دی تاکہ اس کے ذریعے سے وہ اس کائنات کی آبادی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکیں، جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مرد کو قوت برداشت کے ذریعے خصوصیت بخشی ہے، جس کے ذریعے وہ زمین پر کمانے کی تگ و دو کرتا ہے،اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے عورت کو بھی ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جن کے ذریعے سے وہ حمل، وضع حمل، رضاعت ،اور پرورش اور اس کے لئے نرمی، محبت، رحمت اور شفقت جیسے لازمی امور ادا کرتی ہے۔

اس ربانی تخلیق کے مطابق مرد کے لئے فطری مقام گھر سے باہر کام کرنا ہے اور عورت کے لئے فطری مقام گھر کے اندر کام کرنا ہے۔

اسلام نے عورت کو کام کرنے سے منع نہیں کیا ،اسلام نے عورت کے لئےعقود، تجارتی اور مالی تصرف جیسے خرید و فروخت وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے، اور ولی اور شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اسے صحیح اور نافذ قرار دیا ہے، لیکن اسے منظم کیا ہے، اور اسکی حدیں مقرر کی ہیں ،اور اس کے لئے ضابطے اور شرائط رکھی ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ضابطہ میں خلل یا کوئی شرط مفقود ہو تو یہ اجازت منع میں تبدیل ہوجائے گی ،ان شرائط میں سے کچھ شرائط درج ذیل ہیں:

  1. ضروری ہے کہ عورت کا بیرونی کام گھر کے اندرونی کام کاج میں روکاوٹ نہ بنتا ہو، اس طرح کہ وہ کام عورت پر اس کے شوہر اوراس کی اولاد کے حقوق کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی کا سبب نہ بنتا ہو ،اس لئے کہ اسلام میں جس طرح عورت کے اپنے شوہر پر حقوق ہیں ،اسی طرح شوہر کے بھی اپنی بیوی پر حقوق ہیں، اور اولاد کے ان دونوں پر حقوق ہیں ،رسول اللہ کا فرمان ہے:" عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا([156])۔

اسی طرح ضروری ہے کہ اس عورت کا کام عورتوں میں ہی ہو اور مردوں کے ساتھ اختلاط اور مڈبھیڑ سے دور ہو، تاکہ وہ محفوظ رہے ،اور ان انسانی بھیڑیوں سے دور رہے ،جو اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کی عزت وشرف کو خاک میں ملا سکتے ہیں، رسول اللہ کا فرمان ہے:" خبردار ! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے "([157])۔

مصنفہ لیڈی کوک (lady mary coke ) مجلہ ایکو میں لکھتی ہیں([158]):" اختلاط مردوں کی عادت ہوتی ہے اسی وجہ سے عورت اپنی فطرت کے خلاف کام کی چاہت کرتی ہے اور جتنا زیادہ اختلاط ہو گا اسی قدر اولاد الزنا بڑھے گی اور یہاں تو اختلاط مرد حضرات پسند کرتے ہیں اور اسی بنا پر عورت ایسی چیز کی طرف راغب ہوئی جو اس کی فطرت کے مخالف ہے اور کثرت اختلاط کی وجہ سے اولاد زنا کی کثرت ہوئی بس یہیں پر عورت عظیم مصیبت میں گرفتار ہوئی ہے"۔

سید قطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مردوں کا حق ہے، جس طرح عورتوں کا حق ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک اپنے رفیق حیات کے معاملے میں مطمئن ہو اور وہ ہر قسم کے فتنوں سے دور ہو، جو انہیں بہلاپھسلا کر غلطی کی طرف نہ بھی لے جائے تو اس کے اپنے شریک حیات کیلئے جذبات منحرف کردے، جو اس پاکیزہ بندھن کو توڑنے اور اعتماد واطمینان کی فضا ختم کردے ،جذبات کا یہ انحراف اور اس سے آگے تک پھسل جانا ان معاشروں میں ہر روز ہو رہا ہے جن میں اختلاط مرد و زن رائج ہے، اور عورت زیب و زینت اختیار کرکے بے پردہ باہر نکلتی ہے ،اور اس کے ساتھ ہی فتنہ پرور شیطان بھی نکلتے ہیں ،اور وہاں کے طوطے (مغرب کی ترجمانی کرنے والے) اور وہاں کے پناہ گزین ،جنہیں اپنے ملکوں سے بے دخل کیا گیا، جو ہر وقت یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ اختلاط جذبات و احساسات کو مہذب بناتا ہے، مقید اور بند صلاحیتوں کو کھول کر عمل میں لاتا ہے، اور دونوں جنسوں کو آداب گفتگو اور آداب معاشرت سکھاتا ہے، اور انسان کو ایسا تجربہ مہیا کرتا ہے جس سے انسان غلطی سے محفوظ رہتا ہے ،اور میاں بیوی ایک دوسرے کو مکمل تجربہ کے بعد اختیار کرتے ہیں جو اس بات کی ضمانت ہوتا ہے کہ ان دونوں کا رشتہ مضبوط ہوگا کیونکہ دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی مرضی سے چنا ہوتا ہے، یہ ایسی فضول اور واہیات باتیں ہیں جن کی امر واقع تکذیب کرتا ہے، انسان ہمیشہ فکری انحراف اور جذبات میں اتار چڑھاؤکا سامنا کر رہے ہیں ، گھر طلاق کی وجہ سے اور طلاق کے بغیر برباد ہو رہے ہیں، اور ان معاشروں میں ازدواجی خیانت عام ہو رہی ہے۔

جہاں تک ملاقات اور اور تصرف کی وجہ سے اس خیالی تہذیب کا معاملہ ہے تو اس بارے میں امریکہ کی ثانوی تعلیم کی حاملہ طالبات سے پوچھا جا سکتا ہے جن کی تعداد ایک ادارے میں 48% تک پہنچ چکی ہے۔ اور جہاں تک اس مطلق اختلاط اور مکمل اختیار کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی کا تعلق ہے تو اس بارے میں امریکا میں طلاق کے ذریعے سے اجڑنے والے گھروں کے اعدادوشمار دیکھے جاسکتے ہیں کہ جس قدر اختلاط زیادہ ہو رہا ہے اور شریک حیات کا اختیار عام ہو رہا ہے اسی قدر شرح طلاق تیزی سے اوپر کی طرف جارہی ہے۔

  1. کام اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہواور عورت کی طبیعت سے موافق ہو ،چناچہ عورت وہ کام نہیں کر سکتی جو اس کی طبیعت اور مزاج کے مخالف ہوں جیسے بھاری بھرکم صنعتی کام کاج اور دائمی جنگی کام ،اور وہ کام جن میں عورت کی ذلت ہو، جیسے صفائی کرنا ،جو مردوں کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے، اسی طرح عام شاہراہوں کی صفائی ،جس سے شریعت اسلامیہ عورت کے لئے منع کرتی ہے۔

لیکن یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کام کیوں کرے ؟۔

 اگر وہ زندگی گزارنے اور خود پر خرچ کرنے کی خاطر کما رہی ہے ،تو اسلام نے اس کا یہ حق محفوظ رکھا ہے،اسلام میں نفقات کا نظام یہ ہے کہ باپ پر لازم ہے کہ بیٹی پر خرچ کرے، یہاں تک کہ اس کی شادی ہو جائے، اور شادی کے بعد اس کا اور اس کی اولاد کا نفقہ اس کے شوہر کے ذمے واجب ہے، اگر اس کا شوہر فوت ہو جاتا ہے تو اسکے نفقہ کی ذمہ داری اس کے والد پر لوٹ آئے گی، اگر اس کا باپ نہ ہو تو عورت کی اولاد پر ،اور اگر اولاد چھوٹی ہے تو اس کے بھائیوں پر، پھر جو جتنا زیادہ قریبی ہو۔

 عورت پیدائش سے لے کر وفات تک ، اس ذمہ کی داری اور کفالت دوسروں کی ذمے ہوتی ہے، اسے ضرورت ہی نہیں کہ کھانے پینے اور زندگی گزارنے کے لئے کام کرے۔

 یہ محض اس لئے ہےکہ عورت اس اعلیٰ اقدار کی حامل معاشرتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے مکمل فارغ ہو، جس ذمہ داری پر اس سے مغربی خواتین حسد کرتی ہیں، جس میں گھر کی نگہداشت، اور نسل نو کی نیک پرورش و تربیت داخل ہیں جو عورت سے کافی محنت و مشقت کا تقاضہ کرتی ہیں، اور ان کے بارے میں غور و فکر میں ہی عورت کا اکثر وقت گزر جاتا ہے۔

انگریز عالم صموئیل سمائلس جو انگریزی ترقی کے دور کے اہم رکن تھے کہتے ہیں([159]):" جو سسٹم عورت سے فیکٹریوں میں کام کا مطالبہ کرتا ہے چاہے اس سے ملکی آمدن میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ ہوتی ہو، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گھریلو زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے ،اس لیئے کہ اس سسٹم نے گھر کے ڈھانچے پر حملہ کر دیا ہے اور خاندان کے ستونوں کو ڈھا دیا ہے اور معاشرتی روابط کو ریزہ ریزہ کردیا ہے یہ سسٹم بیوی کو اپنے شوہر سے اور اولاد کو اپنے قرابت داروں سے علیحدہ کرکے ایک مخصوص نوعیت کا ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ عورت کے اخلاق کی پستی کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلتا، عورتوں کی حقیقی ذمہ داری یہ ہے کہ گھریلو واجبات ادا کریں ،جیسے گھر کی ترتیب ،اولاد کی تربیت ،وسائل معیشت میں میانہ روی ساتھ گھریلو حاجات کی ادائیگی، جبکہ فیکٹریوں نے عورت کی یہ تمام تر ذمہ داریاں سلب کرلیں، اب گھر گھر نہیں رہے، اولاد بغیر تربیت کے پروان چڑھ رہی ہے جنہیں فراموشی کے کونوں میں پھینکا جارہا ہے، ازدواجی محبت بجھ چکی ہے، اور عورت ایک شریف،عقلمند، اور محبت کرنے والی بیوی کے روپ سے نکل کر کام کاج اور محنت و مشقت میں مرد کی ساتھی بن چکی ہے، اور مسلسل ایسے اثرات کے نشانےپر رہتی ہےجو فکری اور اخلاقی اقدار مٹا دیتے ہیں، جس پر شرافت کی حفاظت کا مدار ہوتا ہے۔

 

 

7۔ طلاق کا عورت کے بجائے مرد کو اختیار

ایام جاہلیت میں طلاق کے کوئی ضابطے مقرر نہیں تھے، مرد جب چاہتا اپنی بیوی کو طلاق دیتا، اور جب چاہتا اس سے رجوع کرتا ،چناچہ اسلام نے آکر ایسے ضوابط مقرر کردیے کہ جن کے ذریعہ سے عورت ظلم سرکشی اور کھلواڑ سے محفوظ رہے ۔

ایام جاہلیت میں مرد جتنا چا ہتا بیوی کو طلاقیں دیتا ،اگر دوران عدت وہ اس سے رجوع کرلیتا تو وہ اس کی بیوی ہی رہتی چاہے ،اسے سو یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ طلاق دے چکا ہو، یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا :اللہ کی قسم میں نہ تو تجھے طلاق دوں گا اور نہ ہی تجھے بیوی بنا کر رکھوں گا۔ اس نے کہا وہ کیسے؟ کہا میں تجھے طلاق دوں گا ،اور جیسے ہی تمہاری عدت پوری ہونے لگے گی، میں تم سے رجوع کر لوں گا، تو قرآن کریم یہ کہتے ہوئے نازل ہوا کہ: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾([160]).

ترجمہ: طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔

اسلام نے بوقت حاجت و ضرورت اور جن حالات میں عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا مشکل ہو، طلاق کو جائز قرار دیا ہے، جبکہ شریعت اسلامیہ کوشش کرتی ہےکہ ازدواجی اختلافات کو حل کرنے کے لئے ابتدائی حل پیش کرے تاکہ طلاق واقع نہ ہو،اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ([161])۔

ترجمہ: اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد دماغی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں جو صلح کر لیں اس میں کسی پر کوئی گناه نہیں۔ صلح بہت بہتر چیز ہے، طمع ہر ہر نفس میں شامل کر دی گئی ہے۔ اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری کرو تو تم جو کر رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ پوری طرح خبردار ہے۔

طلاق مرد کے ہاتھ میں کیوں ہے؟۔

فطرت اور منطق بھی یہی کہتے ہیں کہ طلاق عورت کے بجائے مرد کے ہاتھ میں ہو اس لئے کہ بیوی اور گھر کے مالی لوازمات کی ذمہ داری مرد پر ہے۔

اور چونکہ مہر کی ادائیگی ،گھر کی تیاری، سازو سامان، عورت پر خرچ، یہ سب مرد کے ذمے ہے ،لہٰذا اس کا حق ہے کہ ازواجی زندگی کو ختم کرنے کا اختیار بھی اسی کے ہاتھ میں ہو، اگر وہ طلاق سے ہونے والے مالی اور معنوی نقصان برداشت کرنے کے لئے تیار ہو، اس لئے کہ اسے معلوم ہوگا کی طلاق اس کا مالی خسارہ کر سکتی ہے، جیسے وہ مہر جو اس نےادا کیا وہ اسے واپس نہیں ملے گا ،اسی طرح اس نے جو مال شادی کی تیاری میں خرچ کیا وہ بھی ضائع ہو جائے گا ،اور طلاق کے بعد جو بیوی کو ایک مدت تک نان و نفقہ دے گا اور نئے نکاح کے لئے خرچ اور دیگر معاملات ہوں گے ان سب کا اسے علم ہو گا،اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مرد غالبا اپنے غصہ کو کنٹرول کرنے اور اپنے اور بیوی کے درمیان ہونے والے جھگڑے اور اختلاف کے موقع پر اپنے جذبات کو قابو رکھنے میں زیادہ اختیار رکھتا ہے۔

اور اکثر و بیشتر مرد آخری حل کے لئے طلاق کا سہارا نہیں لیتا، الا یہ کہ اپنی ازدواجی زندگی کی خوشیوں کو اپنی بیوی کے ساتھ برقرار رکھنے سے مایوس ہو چکا ہو۔

اس کے باوجود شریت اسلامیہ نے عورت کو علیحدگی کے حق سے محروم نہیں رکھا، بلکہ اسے حق حاصل ہے کہ نکاح کے موقع پر یہ شرط رکھے کہ طلاق کا حق اسی کے ہاتھ میں ہوگا ،اور اس پر اس کا شوہر راضی ہو تو یہ عورت کا حق ہے۔

اور چونکہ شریعت اسلامیہ فطری شریعت ہے ،جسے انسانی نفس کی حقیقت اور اس میں پیدا ہونے والا احساسات وجذبات کا اچھی طرح ادراک ہے، تو اس نے جس طرح مرد کو یہ حق دیا ہے کہ اپنی بیوی کو ناپسند کرنے کی صورت میں اس سے علیحدگی اختیار کرے، اسی طرح شریعت اسلامیہ نے یہ حق عورت کو بھی دیا ہے کہ اپنی شوہر کو ناپسند کرنے کی صورت میں اس سے علیحدگی اختیار کرے مثلا:اس کا شوہر اس کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہو،یا اسے گالی گلوچ کرتا ہو، یا مارپیٹ کرتا ہو، یا اس میں کوئی پیدائشی عیب ہو، جیسے وہ نا مرد ہو، یا اپنی بیوی سے ازدواجی زندگی بسر نہ کررہا ہو، یا اسے شادی کے بعد خطرناک مرض لاحق ہو جائے ،جیسے کوڑھ یا برص یا ٹی بی یا آتشک، یا اس کے علاوہ کوئی اور بیماری لاحق ہو جائے ،اور عورت نقصان برداشت کر رہی ہو، تو اسے نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن ایک اور کیفیت کے ساتھ ،جسے خلع کہا جاتا ہے، اور یہ ایک قسم کا بدلہ ہے جو عورت مرد کو مہر اور شادی کے موقع پر دیگر اخراجات کے عوض باہمی اتفاق سے ادا کرتی ہے، اور یہی عدل کا تقاضہ ہے کیونکہ وہی ازدواجی بندھن کو کھولنا چاہ رہی ہے، اور اگر شوہر خلع پر راضی نہ ہوتو عورت اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرکے اپنا حق حاصل کرسکتی ہے ۔

 

 

8۔ عقد نکاح کی آزادی میں مرد و عورت کے درمیان عدم مساوات

مرد کا نکاح کے لئے مناسب عورت کو اختیار کرنے کا عمل انتہائی پرمشقت ہوتا ہے ،اور اس سے زیادہ پرمشقت کام عورت کے لئے مناسب شوہر اختیار کرنا ہے، اس لئے کہ مرد جب ایک نامناسب عورت کے ساتھ شادی کرتا ہے، تو بآسانی اسے تبدیل کرسکتا ہے، اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ تمام انسانی معاشروں میں عورت ہی کمزور فریق ہوتی ہے ،لہذا اسلام نے اسے ہرطرح کی تکلیف اور برائی سے بچانے کا اہتمام کیا ہے، اور اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے، اور حکم دیا ہے کہ اس کے لئے مناسب شوہر کا انتخاب کرنے کے لئے مکمل احتیاط اور غور وفکر کیا جائے ،تاکہ ناکام شادی کی صورت میں اسے زیادہ نقصان نہ اٹھانا پڑے ،اسی لئے اسلام نے عقد نکاح کے صحیح ہونے کے لئے ولی یا اس کے نائب کے موجود ہونے کی شرط رکھی ہے، اور عقد نکاح ان کی موجودگی میں ہی منعقد ہوسکتا ہے اس لئے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے :" ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اور اگر کوئی نکاح اس کے بغیر ہوا تو وہ باطل ہے اوراگر وہ آپس میں جھگڑا کریں تو جس کاولی نہیں حکمران اس کا ولی ہوگا([162])۔

جس طرح شریعت نے عقد نکاح کی صحت کے لئے ولی کی شرط رکھی ہے اسی طرح عقد نکاح کی صحت کے لئے عورت کا شوہر کو قبول کرنا اور عقد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ولی کو اجازت دینے کی بھی شرط رکھی ہے، اگر عورت کو زبردستی قبول کروایا گیا ہے، تو اسے اختیار حاصل ہے کہ اس نکاح کو فسخ کرنے کے لئے اپنا معاملہ عدالت میں پیش کرے، اس لئے کہ خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کی شادی کر دی، ان کی ایک شادی اس سے پہلے ہو چکی تھی (اور اب بیوہ تھیں) اس نکاح کو انہوں نے ناپسند کیا اور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر (اپنی ناپسندیدگی ظاہر کر دی) تو نبی کریم نے اس نکاح کو فسخ کر دیا([163]) ۔

صحت نکاح کے لئے ولی کی شرط اس لئے ہے کہ غالبا اس کی مکمل کوشش ہوتی ہے کہ ایسا کام کرے جس میں عورت کی مصلحت ہو۔

اور جو شخص یہ دعوی کرتا ہے کہ اس میں عورت کے لئےجسے چاہے بطور شوہر پسند کرنے کی آزادی میں رکاوٹ ہے، تو اسے کہا جائے گا کہ : اسلام نے ہر عاقل و بالغ عورت، چاہے وہ کنواری ہو یا مطلقہ ، یا بیوہ،اسے یہ حق دیا ہے کہ جو اس کی طرف نکاح کا پیغام بھیجے، چاہے تو اسے قبول کرے اور اگر چاہے تو اسے انکار کردے،اور اس کے ولی کو اجازت نہیں دی کہ عورت پر کسی قسم کا عملی یا نفسیاتی دباؤ ڈالے ،تا کہ جسے وہ بطور شوہر پسند نہیں کرتی ،اس پر موافقت کرے، اس لئے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے: بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے ۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی ۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے ۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی ([164])۔

شریعت اسلامیہ نے جب نکاح کرنےکی رغبت دلائی ہے ،تو اس کا ہدف ومقصد یہ نہیں کہ وقتی جنسی بھڑکاؤ اور ابھرنے والی شہوت کو پورا کیا جاسکے، بلکہ اس کا ہدف یہ ہے کہ ایک دائمی اور مسلسل تعلق ہو، اور چونکہ عورت اس رشتے کا دوسرا حصہ ہوتی ہے ،لہذا شریعت نے اس کی موافقت اور رضامندی کو لازمی قرار دیا ہے۔

اور چونکہ خواتین جذباتی ہوتی ہیں ،اور ارد گرد کی حوصلہ افزائی کا اثر آسانی سے قبول کرلیتی ہیں، اپنے ردعمل میں غیر مختار اور اکثر دھوکا کھا جاتی ہیں، لہذا شریعت نے اس کے سرپرست کو اختیار دیا ہے کہ جو اس سے شادی کیلئے آتے ہیں اور اس کے لئے موزوں نہیں ہیں تو انہیں انکار کردے، کیونکہ مرد غالبا مردوں کے بارے میں عورتوں کے بنسبت زیادہ علم رکھتے ہیں، کیونکہ ان کی جنس ایک ہی ہے، لیکن اگر کوئی مناسب آدمی شادی کے لئے آتا ہے ،اور عورت کی جانب سے اسے قبول کیا جاتا ہے، اور اس کا سرپرست بغیر کسی وجہ کے محض اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے مسترد کردیتا ہے، تو اس کی سرپرستی ختم ہوکر قریبی رشتے دار کی طرف منتقل ہو جائےگی، اگر عورت کے قریبی رشتے دار نہ ہوں تو قاضی اس کی شادی کروا دے گا ۔

بلاشبہ اسلام عورت کو صرف نامعقول اور اپنے اور اپنے خاندان کے لئے نا مناسب شخص سے شادی کرنے سے روکتا ہے، کیونکہ عورت اور اس کا خاندان نا معقول شخص سے شادی کرنے کی وجہ سے عار اٹھائیں گے، اور اس کے سبب سے انہیں ذلت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا، چناچہ عورت کا کسی ایسے شخص سے شادی کرنا جسے اس کا سرپرست اور اس کے رشتے دار ناپسند کرتے ہوں، اس کا نتیجہ رشتے داروں میں قطع رحمی کی صورت میں نکلے گا ،جس سے جوڑنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور مناسب شوہر کا حقیقی پیمانہ وہی ہے جس پر احادیث رسول دلالت کرتی ہیں:" رسول اللہ نے فرمایا کہ :جب تمہارے پاس (بہن ، بیٹی کے لئے) کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو ، تو اِس سے (اپنی بہن ، بیٹی) کا نکاح کر دو ، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا([165])۔

 کیونکہ ایک دیندار اور بااخلاق شخص اپنی بیوی سے محبت کرے گا تو اس کی عزت و احترام کرے گا، اور اگر محبت نہیں کرے گا تو اس کی توہین اور اس سے نفرت نہیں کرے گا ،بلکہ اس کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرے گا۔

 

 

9۔ بغیر محرم عورت کا سفر

اسلام میں عورتیں محفوظ اور غیر معمولی ذات ہیں، انہیں چھونا یا نقصان پہنچانا کسی طور قبول نہیں سوائے ان کے جو انھیں چھونے کا حق رکھتے ہیں، اسی لئے اسلام احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے، اور احتیاط علاج سے بہتر ہے، اسی لئے اسلام میں عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے، جیسے شوہر یا باپ یا بھائی یا ایسا قریبی جس پر عورت نکاح کے ذریعے حرام ہے ،اس لئے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ: کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے اور کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہ جائے جب تک وہاں ذی محرم موجود نہ ہو ۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میں فلاں لشکر میں جہاد کے لیے نکلنا چاہتا ہوں ، لیکن میری بیوی کا ارادہ حج کا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تو اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جا ([166])۔

کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ پابندی خواتین کی آزادی کو محدود اور ان کے حقوق کا خاتمہ کرتی ہے ،کیونکہ پہلی نظر میں یہی بات ذہن میں آتی ہے ،لیکن اگر ہم وجہ جان لیں اور اس حرمت کا سبب پہچان لیں تو یہ شبہ ختم ہو جائے گا، اور ہمارے لئے واضح ہوجائےگا کہ اسلام عورت کے وقار کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، نہ کہ اس کی توہین اور اس کی آزادی کو محدود کرنا۔

غالبا سفر میں اکثر اوقات مشقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور عورت جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے جیساکہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ اکثر اسے نا گہانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے حیض، حمل ،اور رضاعت وغیرہ ،اسی طرح عورت سادہ لوح ہوتی ہے، کیونکہ اپنے جذبات اور تصورات کے سامنے جلد ہی جھک جاتی ہے، اور اردگرد کے اثرات اس پر تیزی سے اثر انداز ہوتے ہیں، اور یہ اس کا عیب نہیں بلکہ رسول اللہ نے عورتوں کو شیشے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ان کے نازک اندام ہونے اور احساسات کی شفافیت سے کنایہ ہے ۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ایک سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ آپ کا ایک حبشی غلام تھا ۔ ان کا نام انجشہ تھا وہ حدی پڑھ رہا تھا (جس کی وجہ سے سواری تیز چلنے لگی) ۔ نبی کریم نے فرمایاافسوس اے انجشہ ! شیشوں کے ساتھ آہستہ آہستہ چل([167]) ۔

عورت کو دوران سفر ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اسے ایسے شریر الطبع لوگوں سے محفوظ رکھے جو اسکے مال یا اس کی عزت پر غلط نگاہ ڈالے بیٹھے ہیں، اس لئے کہ عورت غالبا اپنی جسمانی بناوٹ کی کمزوری کی وجہ سے خود کا دفاع نہیں کرسکتی ،جس طرح اسے دوران سفر ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی ضروریات کی حفاظت کرے ،اس کی حاجات پوری کرے، اس کے معاملات کی نگرانی کرے، اور اسے مکمل سہولت فراہم کرے۔

اور اسلام میں عورت کے محرم سے ان تمام چیزوں کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ وہ دوران سفر کسی اجنبی شخص کی محتاج نہ رہے۔

اصل میں عورت کا محرم اس کا خادم ہوتا ہے، جو اس کی خدمت کرتا ہے ،اور ایک ایسا محافظ ہوتا ہے جو برے لوگوں سے اس کی حفاظت کرتا ہے تو اس میں عورت کی کونسی توہین ہے؟۔

یہ توعورت کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ دوران سفر ایک ایسا شخص اس کے ساتھ ہو جو اس پر غیرت دکھائے ،اس کے وقار کا بدلہ لے، اور فضول لوگوں کی فضولیات سے اسے محفوظ رکھے، اس کی خدمت کرے اور اس کی حاجات و ضروریات پوری کرے

اسلام میں عورتوں کو مارنے کی پابندی

تحريم ضرب النساء في الإسلام

أحمد الأمير & تساكورا فيفيان

مقدمہ

 الحمد لله الذي أرسل محمدا بشيرا ونذيرا، وداعيا إلى الله بإذنه وسراجا منيرا، وفضل صحابته ومنحهم فضلا كبيرا، فصلى الله وسلم على محمد وآله وصحبه صلاة وسلاما متتابعا كثيرا.

میں نے یہ کتاب ان لوگوں کے شبہات کی تردید میں لکھی ہے، جنہیں شیطان نے بہکایا اور گمراہ کیا ہے۔ بہت ساری مجلسوں میں عورتوں کو مارنے کا مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے، اور ہم نے کئی ویب سائٹس دیکھی ہیں ، جو اس بارے میں ناسمجھ اور بغیر بصیرت کے فتوی دے رہی ہیں، اور اسلام سے بغض رکھنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لئے ہیں، اور ایسے ایسے جھوٹ گھڑے ہیں جن کے نہ سر ہیں اور نہ پاؤں، تو میں نے چاہا کہ اپنے معزز قارئین کے سامنے واضح کردوں کہ اسلام کا بیوی کو مارنے اور اس سے اختلاف کرنے کے حوالے سے کیا مؤقف ہے ،اور دیگر مذاہب کا اس حوالے سے کیا موقف ہے، کیونکہ دین اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کو مارنے سے منع کیا ہے، چاہے وہ بچیاں ہو یا بالغ، ہم آپ کے سامنے پوری تفصیل بیان کریں گے پھر آپ بصیرت کے ساتھ خود ہی فیصلہ کر لیجئے۔

 

مؤلف أحمد الامیر۔

 

 

پہلی فصل

اسلامی قوانین کے مطابق اعمال کی درجہ بندی

اسلامی قوانین کے تحت تمام انسانی اعمال کی مندرجہ ذیل اقسام میں درجہ بندی کی جاتی ہے، تاکہ ایک کام پر جائز اور ناجائز ہونے کے اعتبار سے حکم لگایا جا سکے۔

  1. فرض : یہ مکلف ٹھہرائے جا نے کی اعلی ترین سطح ہے، اس کی تعریف یہ ہے کہ :وہ کام جس کا شریعت نے قطعی دلیل کے ساتھ بغیر کسی شبہ کے کرنے کا لازمی مطالبہ کیا ہو، جیسے: نماز ،روزہ، اور قرآن پڑھنے کا حکم۔

حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ اسے کرنا لازمی ہے ،اور اس کے بجا لانے والے کو اجر اور ترک کرنے والے کو سزا دی جائیگی۔

  1. مستحب: ہر وہ کام کہ جس کا شریعت نے لازمی طور پر حکم نہیں دیا ،چنانچہ اس کے بجا لانے والے کو اجر دیا جائے گا اور ترک کرنے والا گناہگار نہ ہوگا، جیسے :نماز سے پہلے مسواک کرنا۔
  2. مباح: ہر وہ کام کہ نہ تو اس کے کرنے کا ثواب ملتا ہے، اور نہ ہی اس کے ترک پر سزا ،جیسے چلنا،سوار ہونا وغیرہ جن کی ہمیں عام روزمرہ کی زندگی میں عادت ہے۔
  3. مکروہ : ہر وہ کام کہ جس سے شریعت نے لازمی طور پر منع نہیں کیا ،چنانچہ حکم کو بجالاتے ہوئےاس کے ترک کرنے والے کو ثواب دیا جائےگا اور اس کا کرنے والا گناہگار نہ ہوگا ،لیکن اس سے اور اس کے تقاضوں سے دور رہنا، اور اسے اپنانے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے، جبکہ اس کے کرنے والے کو ثواب نہیں ملتا لیکن بسا اوقات اس کا تکرار اور اس کی عادت اللہ تعالی کی حدود کی پامالی اور اس کے حرام کردہ کاموں کےارتکاب کرنے کا سبب بن جاتے ہیں ،اور اس کے مکروہ ہونے کے باوجود اس کے فاعل کے گناہگار نہ ہونے کے پیچھے سبب یہ ہے کہ فعل کے شرعا مکروہ ہونے کے باوجود بسا اوقات شخص کی حقیقی زندگی میں اس مکروہ کام کےکرنے کا انتہائی ضروری تقاضہ ہوتا ہے، مثلا :اللہ تبارک وتعالیٰ نے طلاق کو مکروہ قرار دیا ہے لیکن اسے حرام قرار نہیں دیا تاکہ بوقت ضرورت ان پر وسعت ہو۔
  4. حرام: ہر وہ کام کہ جس سے شریعت نے قطعی دلیل کے ذریعے، جس میں کوئی شبہ نہ ہو اس کے کرنے سے لازمی طور پر منع کیا ہو، چناچہ اس کا کرنے والا گنہگار ہوگا، اور حکم کو بجالاتے ہوئے اس کے ترک کرنے والا ثواب کا حقدار ہوگا، جیسے: شراب پینے کی حرمت۔

حلال اور حرام کے درمیان فرق

حلال کا علم اور حرام کی تفریق، اسلام کے مضبوط اور ایمان کے قوی ہونے کی علامت ہے، اس کا تعلق دل کے افعال کے ساتھ ہے۔

تمام چیزوں کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ مباح اور حلال ہیں، حرام صرف وہی ہے جس کی حرمت کی کوئی نص وارد ہوئی ہو، کیونکہ حلت و حرمت اللہ تعالی کا حق ہے اس لئے کہ وہ خالق، مربی ،سہولتیں اور نعمتیں دینے والا ہے، وہ اپنے بندوں کے لئے جو چاہتا ہے حلال کرتا ہے ،اور جو چاہتا ہے حرام کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت اور ان پر اس کا فضل ہے کہ اس نے حلت و حرمت کچھ معقول و مناسب اسباب اور وجوہات کی بنا پر کی ہے، جس کا فائدہ خود انسانوں کو پہنچتا ہے، چناچہ اس نے صرف وہی حلال کیا ہے جو پاکیزہ ہو اور صرف وہی حرام کیا ہے جو ناپاک ہو۔

فعل کا ایک درجہ بندی سے دوسری درجہ بندی کی طرف منتقل ہونا

  1. جائز فعل کا جائز کی درجہ بندی سے حرام کی طرف منتقل ہونا اور اس کے برعکس۔

بسااوقات جائز کام، حرام کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، جب ایسےاسباب پائے جائیں کہ جن کی بنا پر وہکام اچھا اور نفسوں کے لئے خوش کن ہو نے کی بجائے ناپاک اور نفس کے لئے نقصان دہ ہو، مثلا سڑکوں پر گھومنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ وہ جائز ہے ،لیکن بسا اوقات یہ کام جائز کی درجہ بندی سے حرام کی درجہ بندی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، جب شرعی حاکم، مجاز حکمران کسی شہر کے لئے یہ حکم صادر کرے کہ امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ سڑکوں یا شہروں میں دس بجے کے بعد گھومنا پھرنا منع ہے، جو ایک شخص کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

اور بسا اوقات ایک حرام کام حرمت کی درجہ بندی سے نکل کر جائز کی درجہ بندی میں چلا جاتا ہے، جب نفس کو نقصان سے بچانا ضروری ہو، جیسے: شراب نوشی حرام ہے ،لیکن کبھی یہ جائز ہوتی ہے مثلا:ایک شخص صحرا میں راستہ کھو بیٹھا ہے، اور قریب ہے کہ پیاس سے ہلاک ہوجائے ،اور اس کے سامنے شراب کے علاوہ کچھ نہیں، تو اس وقت وہ صرف اتنی مقدار پی سکتا ہے جس سے خود کو ہلاکت سے محفوظ رکھے اور اس سے تجاوز نہ کرے۔

  1.  واجب فعل کا واجب کی درجہ بندی سے حرام کی درجہ بندی کی طرف منتقل ہونا اور اس کے برعکس۔

بسا اوقات فرض کام واجب کی درجہ بندی سے حرام کی درجہ بندی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، سابقہ مثال کی طرز پر اس کی تشریح یہ ہے کہ مثلا: نماز فرض ہے، لیکن کبھی حرام ہوتی ہے، جیسے ایک انسان شدید زلزلے کے دوران اپنے گھر میں نماز پڑھ رہا ہے، اور نماز پڑھنے والے کو یقین ہے کہ اگر وہ اس گھر سے جلدی سے نہ نکلا تو ہلاکت یقینی ہے، اسی طرح کسی شخص پر ظلم کرتے ہوئے اس کی ٹانگ کاٹنا حرام ہے ، لیکن ڈاکٹر مریض کو اسی صورت میں بچا سکتا ہے کہ اسکی ٹانگ کاٹ دے ورنہ وہ مریض ہلاک ہو جائے گا ،تو ایسی صورت میں ڈاکٹر پر فرض ہو جاتا ہے کہ اس کی ٹانگ کاٹ دے، اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ گنہگار ہوگا ہو اور اسے مریض کی ٹانگ نہ کاٹنے کی سزا دی جائے گی۔

  1. مکروہ کام کا کراہت کی درجہ بندی سے استحباب کی طرف منتقل ہونا اور مستحب فعل کا استحباب کی درجہ بندی سے حرام کی درجہ بندی کی طرف منتقل ہونا۔

بسا اوقات مکروہ فعل کراہت کی درجہ بندی سے استحباب، بلکہ بسا اوقات واجب اور فرض کی طرف منتقل ہوتا ہے، مثلا طلاق کافعل شریعت کے حکم میں مکروہ ہے، اللہ تعالی اسے نا پسند کرتا ہے لیکن بسا اوقات بیوی کو طلاق نہ دینا کسی شرعا ممنوع کام کی طرف لے جاتا ہے، جسے طلاق کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے ،مثلا: ایک عورت عفت و پاکدامنی میں کوتاہ ہو اور انسان اس کی اصلاح سے عاجز آچکا ہو، توہم یہاں کہیں گے کہ افضل یہ ہے کہ آپ اسے طلاق دے دیں اور اس طرح ایک مکروہ کام مستحب ہو جائے گا۔

اور کبھی مستحب کام حرام کی درجہ بندی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے مثلا: مسواک کرنا مستحب کام ہے، اور کبھی یہ مکروہ ہوتا ہے، بلکہ حرام بھی ہو سکتا ہے ،جب انسان کی دانت گرنے کے قریب ہوں ،اور اسے یقین ہو کہ اگر اس نے مسواک کیا تو اس کے دانت گر جائیں گے، تواس صورتحال میں مسواک سے گریز کرنا واجب ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں قاعدہ ہے کہ "نہ نقصان دو اور نہ نقصان اٹھاؤ" ۔

خلاصہ

مندرجہ بالا بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام ایک اندھا دین نہیں ہے، جو نہ دیکھتا ہے اور نہ ہی اسے لوگوں کے حالات کا اندازہ ہے، اور نہ ہی ان کی روزمرہ کی زندگی کی صلاحیتوں کا اندازہ ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اندھیرا دشمنوں کے دلوں میں ہے، جو اسلام کے متعلق شبہات اور جھوٹی باتیں پھیلاتے رہتے ہیں، وہ اللہ تعالی کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔

 

 

 دوسری فصل

قرآن و سنت کی روشنی میں بیوی کےساتھ سلوک

قرآن کریم کی نصوص کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بیوی کے ساتھ احسان وکرام اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے ،یہاں تک کے دلی محبت نہ بھی ہو تب بھی، اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ ([168])

ترجمہ: ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔

اور رسول اللہ کا فرمان ہے: کوئی مؤمن مرد کسی مؤمن عورت کو دشمن نہ رکھے اگر اس میں ایک عادت ناپسند ہو گی تو دوسری پسند بھی ہو گی ([169]

اللہ عزوجل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عورت کے اپنے شوہر پر حقوق ہیں جس طرح شوہر کے اس پر حقوق ہیں اللہ تعالی نے فرمایا:" ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ([170]).

ترجمہ: اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔

 

رسول اللہ نے اپنی موت سے قبل عورت کا خیال اس کا اکرام کرنے اور اس کی حق تلفی نہ کرنے کی وصیت فرمائی ،فرمایا:" : عورتوں سے خیر خواہی کرو([171]) .

اسی طرح آپ نے فرمایا: ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو ، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو([172]).

ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : ” تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں([173]).

رسول اللہنے عورت کی فطرت کی وضاحت کرتے ہوئے ،جس پر اللہ تعالی نے ا سے پیدا فرمایا ہے، اس کی غلطیوں پر صبر کرنے ،اس کی خطاؤں کو برداشت کرنے اور اس کی غلطیوں سے درگزر کرنے کا حکم دیا ، چنا چہ فرمایا: عورت پسلی کی ہڈی سے پیدا ہوئی ہے اور کبھی تجھ سے سیدھی چال نہ چلے گی پھر اگر تو اس سے کام لے تو لیے جا اور وہ ٹیڑھی کی ٹیرھی رہے گی اور اگر تو اس کو سیدھا کرنے چلا تو توڑ ڈالے گا اور توڑنا اس کا طلاق دینا ہے ([174])۔"نیز فرمایا : عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا ، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی ۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو ، عورتوں سے اچھا سلوک کرو ([175])۔

 

کیا رسول اللہ نے اپنی بیویوں کو کبھی بھی مارا تھا؟

رسول اللہ مسلمانوں کے لئےعملی نمونہ ہیں، اور اللہ تعالی نے انہیں آپ کی سنت کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے، فرمایا: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾([176])۔

 ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود)ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔

چناچہ آپ اعلی مثال، اور بلند اخلاق کے حامل تھے ،اللہ تعالی نے انہیں آسان شریعت کے ساتھ بھیجا اور انہیں بلند آداب سکھلائے ،حسن اخلاق اور حسن آداب آپ کی فطرت کا حصہ تھے ،اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾ ([177]) .

ترجمہ: اور بیشک تو بہت بڑے (عمده) اخلاق پر ہے۔

آپ نے اپنی عملی زندگی میں اس زمین پر اخلاق کو لاگو کیا، جسے دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا تھا ،آپ فرماتے ہیں: میں تو اعلٰی اخلاقی اقدار کو ہی مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں ([178]).

آپکی زوجہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا جوآپ کے سلوک کو آپ کے صحابہ کی بنسبت زیادہ جانتی تھیں وہ آپ کے متعلق فرماتی ہیں:"آپ کا اخلاق قرآن ہی تھا([179]).

یعنی اس کے اوامر کو بجا لانے والے اور اس کے نواہی (منع کردہ امور) سے رک جانے والےتھے۔ قرآن کریم نے جس بھی حسن خلق کی ترغیب دلائی ہے وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ میں موجود تھا ،اور قرآن کریم نے جس بھی برے اخلاق سے روکا ہے، رسول تمام لوگوں سے بڑھ کر اس سے بچنے والے تھے، آپ کی سیرت طیبہ میں یہ کہیں بھی ذکر نہیں کہ آپ نے کبھی کسی عورت یا بچے کومارا ہو، بلکہ آپ کی سوانح کی پیروی کرنے اور آپ کی احادیث مبارکہ میں غور فکر کرنے والے کے سامنے واضح ہو گا کہ آپ نے اس سے منع فرمایا ،اور انتہائی سختی کے ساتھ ڈرایا، آپ کے متعلق آپ کی زوجہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا ، نہ عورت کو نہ خادم کو ، البتہ جہاد میں اللہ کی راہ میں مارا اور آپ کو جو کسی نے نقصان پہنچایا اس کا بدلہ نہیں لیا ، البتہ اگر اللہ کے حکم میں خلل ڈالا ، تو اللہ کے واسطے بدلہ لیا (یعنی شرعی حدوں میں جیسے چوری میں ہاتھ کاٹا ، زنا میں کوڑے لگائے یا سنگسار کیا) ([180])۔

یہاں تک کہ آپ کے دشمن، آپ کی دعوت کو بگاڑ کر پیش کرنے والے، اسے ختم کرنے کی کوشش کرنے والے بھی ہماری ذکر کردہ باتوں کی خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کرسکتے۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ کے سب سے زیادہ قریبی اور سب سے زیادہ ساتھ رہنے والے آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیوں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے سے انسان کی فطرت اور اس کا اخلاق واضح ہو جاتا ہے، سیدنا انس ؓ سے روایت ہے ، میں نے رسول اللہ کی خدمت کی نو برس تک ۔ میں نہیں جانتا آپ نے کبھی مجھ سے فرمایا ہو ، یہ کام تو نے کیوں کیا اور نہ کبھی مجھ پر عیب لگایا ([181])۔

 

 

تیسری فصل

اسلام میں بیوی کو مارنے کا حکم

شریعت اسلامیہ کا مصدر اللہ تعالی کی کتاب کی نصوص اور نبی کریم کی صحیح سنت ہے ،ان دونوں سے استدلال اور ان دونوں کی روشنی میں ہم واضح کریں گے کہ اسلام میں بیوی کو مارنے کا کیا حکم ہے، کیا یہ فرض ہے ،یا مستحب ہے ،یا مباح ہے، یا مکروہ یا حرام ہے، جیساکہ حدیث میں مذکور ہے، ایاس بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : ” اللہ کی بندیوں کو نہ مارو، چنانچہ عمررضی اللہ عنہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: (آپ کے اس فرمان کے بعد) عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہو گئی ہیں ، تو آپ نے انہیں مارنے اور تادیب کی رخصت دے دی ، پھر عورتیں اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر ازواج مطہرات کے پاس پہنچنے لگیں ، تو نبی اکرم نے فرمایا : ” بہت سی عورتیں اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر محمد کے گھر والوں کے پاس پہنچ رہی ہیں ، یہ (مار پیٹ کرنے والے) لوگ تم میں بہترین لوگ نہیں ہیں([182])۔

حدیث شریف کے تجزیہ سے ہمارے سامنے مندرجہ ذیل امور واضح ہوتے ہیں:

رسول اللہ نے یہ حدیث ایک ہی موقع پر ایک ہی مدت میں بیان نہیں فرمائی، بلکہ تین مختلف مواقع پر یہ فرمایا۔

پہلا موقعہ :اس میں آپ نے فرمایا:" اللہ کی بندیوں کو نہ مارو ۔ یہاں پہلا موقع اور پہلا زمانہ ختم ہوتا ہے، اور اس موقعے پر ہر وہ شخص جس نے رسول اللہ کا یہ فرمان سنا،اسے یقینی علم ہو گیا کہ اسلام میں عورتوں کو مارنے کا حکم تحریم کا ہے، اس لئے کہ رسول اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے، اور اس کا مرتکب گناہگار اور مجرم ہے، کیونکہ اس نے رسول اللہ کے حکم کی مخالفت کی ہے۔

دوسرا موقعہ: عمر رضی اللہ عنہ کا اس وقت کے علاوہ دوسرے وقت آنا جس وقت رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ: اللہ کی بندیوں کو نہ مارو- اور یہ کہہ کر عورتوں کی شکایت کی کہ عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہو گئی ہیں، جس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے شوہروں سے لڑنے بھڑنے ،سرکشی کرنے ،اور شوہروں پر قابو پانے لگی ہیں یہاں رسول اللہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت کرتے ہوئے جو صورتحال سے واقف تھے، اور ضروریات زندگی کو جانتےتھے جن کے بغیر ازدواجی زندگی کا توازن قائم نہیں رہ سکتا ، رسول اللہ نے ان کی آرائی کی موافقت کرتے ہوئے عورتوں کو مارنے کی اجازت دی۔

لیکن اس مارنے کی کیفیت کیا ہو گی ؟اسے ہم آگے بیان کرتے ہیں۔

تیسرا موقعہ :جب رسول اللہ نے شوہروں کو اپنی ان بیویوں کو مارنے کی اجازت دی جو سرکشی اور نافرمانی کرتی ہیں، تو بہت ساری عورتیں رسول اللہ کے پاس آکر اپنے شوہروں کی شکایت کرنے لگیں، تو رسول اللہ نے فرمایا:" بہت سی عورتیں اپنے شوہروں کی شکایتیں لے کر محمد کے گھر والوں کے پاس پہنچ رہی ہیں ، یہ (مار پیٹ کرنے والے) لوگ تم میں بہترین لوگ نہیں ہیں۔

اس آخری موقعے پر اسلام میں عورتوں کو مارنے کا آخری حکم واضح ہو گیا ،اور وہ کراہت ہے،اور اگر شوہر بیوی کو مارنے میں اللہ تعالی کی حدود۔جن کی ہم بعد میں تشریح کریں گے۔ کو پامال کردے تو حرام ہے۔

کیانص حدیث سے یہ سمجھا جائے گا کہ رسول اللہ نے عورتوں کو مارنے کی ترغیب دی ہے ؟ یا اس آدمی کی تعریف کی ہے جو اپنی بیوی کو مارتا ہے؟۔

 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ کی بات کا مقصد سمجھتے تھے، اور انہیں یقینی علم تھا کہ جو شخص اپنی بیوی کو مارے گا وہ رسول اللہ کی رضا اور آپ کی اطاعت حاصل نہیں کر سکے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بات رسول اللہ کو ناپسند ہو وہ سخت کراہیت کے حکم میں داخل ہے،جو بسا اوقات حرمت کے درجے تک پہنچ سکتی ہے، بلکہ جب فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر نے طلاق دی اور معاویہ، ابو جہم اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو رسول اللہ نے ان سے فرمایا: معاویہ تو مفلس ہے کہ اس کے پاس مال نہیں اور ابوجہم عورتوں کو بہت مارنے والا ہے مگر اسامہ ۔سو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اسامہ ، اسامہ اور رسول اللہ نے ان سے فرمایا : کہاللہ تعالیٰ اور رسول کی فرمانبرداری تجھے بہتر ہے ([183])۔

کیا یہ ممکن ہے کہ عورتوں کو مارنے کاحکم کراہیت کے درجہ بندی سے تحریم کے درجہ بندی کی طرف منتقل ہو جائے؟

ہم نے دیکھ لیا کہ اسلام میں اصل اور پہلا حکم عورتوں کو مارنے کے حوالے سے تحریم کا ہے، پھر مخصوص اسباب اور تقاضوں کی بنا پر وہ مباح کی درجہ بندی کی طرف منتقل ہواپھر سخت کراہیت کی طرف منتقل ہوا ،تو پھر عورتوں کو مارنا حرام کب ہوتا ہے؟

عورتوں کو مارنا اس وقت حرام ہوتا ہے جب وہ ظلم و زیادتی اور ناحق ہو، اس لئے کہ اسلام میں ظلم و سرکشی کی تمام اقسام حرام ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ظلم کی تمام اقسام سے ڈراتے ہوئے فرمایا ہے:" ﴿ وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا([184]).

ترجمہ: تم میں سے جس جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔

رسول اللہ فرماتے ہیں: تم ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں تاریکیاں ہیں ([185]).

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے ڈرو اگرچہ وہ کافر ہو، اس لئے کہ اس کے اس بد دعا اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی([186])۔

اسلام میں کسی کو بھی کسی بھی قسم کی تکلیف دینا حرام ہے، چاہے وہ لفظی ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ ‏‏إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ ([187])۔

ترجمہ" جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وه دنیا وآخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔

یاوہ تکلیف حسی ہو ،جیسے کسی کو ناحق مارنا پیٹنا ،اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ المُؤْمِنِينَ وَالمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ﴾([188]).

ترجمہ: اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه ( بڑے ہی)بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔

یا وہ تکلیف کسی کا ناحق طریقے سے مال کھانے کے ذریعے سے ہو ،اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ([189])۔

ترجمہ: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔

اس میں تمام انسان برابر ہیں، چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں ، چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان ہوں یا کافر۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : ” مسلمان (کامل) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ، اور مومن (کامل) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں([190])۔

پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام جارحیت پسند ہے ،یا عورتوں کو مارنے کی ترغیب دیتا ہے ،تو اس نے اللہ تعالی کے دین پر بہت بڑا بہتان لگایا۔

عورتوں کو مارنے پر شریعت کا حکم

اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو مارتا ہے، تو اسلامی عدلیہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتی ہے، چناچہ اس پر ظلم اور سرکشی کرنے والے شوہر سے اسے انصاف دلاتی ہے ،اگر ایسے معاملات کو عدالت میں پیش کیا جائے تو عدالت اسے عملا بھی نافذ کرتی ہے، مثال کے طور پر مندرجہ ذیل کیس:

ریاض اخبار نے اپنی ویب سائٹ پر 12/12/2012 کو یہ خبر شائع کی کہ: سعودی عرب میں قطیف کے صوبے کی عدالت نے ایک شوہر کو کہ جس نے اپنی بیوی کے ساتھ ناحق مار پیٹ کی تھی، یہ سزا سنائی کہ اسے عوامی مقام پر تیس کوڑے مارے جائیں، تاکہ دیگر شوہر جو اپنی بیویوں پر ظلم کرتے ہیں ،ان کے لئے اس میں سبق ہو، اسی طرح اسے یہ بھی سزا سنائی گئی کہ بیوی کے ساتھ سلوک اورخاندانی امور سے نمٹنے کا فن سکھانے والے اداروں میں سے ایک ادارے میں دس دن تک تعلیم حاصل کرے، اور اس کے بعد ایک امتحان دے جو مقدمہ کی فائل میں شامل کیا جائے۔

 اس معاملے کی طرح تمام مسلم ممالک میں تمام عدالتیں اس شوہر کو سزا سناتی ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ مار پیٹ کرتا ہے۔

بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ عورتیں اپنے شوہروں پر ظلم کرتے ہوئے انہیں ڈرانے دھمکانے، اور ان کے خلاف سازشیں کرنے کے لئے ،اپنے جسم کو معمولی زخم لگا کر کہ محکمہ جاتی ہیں،تاکہ غیر قانونی اور ناجائز طریقے سے اپنے شوہروں کے کا ریکارڈ بنائیں، حالانکہ ان کے شوہر ان تہمتوں سے بری ہوتے ہیں۔

اس معاملے سے جس بات کی طرف توجہ مبذول کروانا مقصد ہے وہ یہ کہ ہر عقلمند اور اسلامی تعلیمات کی پیروی کرنے والا مسلمان، اسے یہ ہرگز پسند نہیں کہ عورت پر ظلم یا اس سے بد سلوکی کرے، کیونکہ نہ تو ہمارے دین نے اس کا حکم دیا ہے، اور نہ ہی اس کی تعلیم دی ہے، بلکہ اسے ہم پر حرام قرار دیا ہے، اور اسے ظلم بتلایا ہے ،بلکہ ہمیں تو حکم دیا گیا ہے کہ ہم معافی ، درگزر، صبر، اور رواداری سے کام لیں ،برائی کا بدلہ نیکی سے دیں۔

یاد رکھیں کہ اسلام نے عورتوں کو مارنے کو مباح قرار نہیں دیا، بلکہ یہ اس صورت میں استثنائی حکم ہے جب ازدواجی زندگی اس کے بغیر درست نہ ہو رہی ہو، اور اسے ایسی شرطوں کے ساتھ مقید کردیا ہے کہ اس کی طرف رجوع انتہائی کم حالات میں ہو سکے، تاکہ ایک مقصد حاصل ہوسکے، اور وہ یہ ہے کہ معاشرے میں گھر محفوظ ہوں اور تمام اخلاقیات پوری ہوں۔

 

 

چوتھی فصل

بیوی کی نافرمانی کی حالت میں شرعی احکامات

اگر کوئی کہے کہ یہ بہتر نہیں کہ آدمی اپنی نافرمان بیوی کو مارنے کے بجائے اسے نصیحت کرے؟۔

ہم کہیں گے کہ کیوں نہیں یہی تو اللہ عزوجل کا حکم ہے۔ جسے اس نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے: ﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا﴾([191])۔

ترجمہ: اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وه تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والاہے۔

اور رسول اللہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: سنو ! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک (و برتاؤ) کرو ۔ کیونکہ وہ تمہارے پاس بے کس ولاچار بن کر ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں، اگر وہ کوئی قبیح گناہ کر بیٹھیں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم و زیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو، خبردار ہو جاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں([192])۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ عزوجل نے جو اپنے حکم میں حکیم اور اپنے بندوں کے معاملات سے باخبر ہے، اور اس کے رسول نے نافرمان بیوی کے علاج کا طریقہ واضح کیا ہے، اور اسے بتدریج تین مراحل میں رکھا ہے۔

  • پہلا مرحلہ: یہ ہے کہ شوہر بستر علیحدہ کرنے سے پہلے نافرمان بیوی کی اصلاح کے لئے وعظ و نصیحت کا طریقہ اختیار کرے، یہ ترتیب جمہور فقہاء کے نزدیک واجب ہے، چناچہ شوہر پر واجب ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ نرم گفتگو کرے، اس کے دل کے قریب ہو، اور اس سے ایسی باتیں کرے جس سے اس کا دل نرم پڑجائے، اور اسے اپنے ہاں اہمیت کا احساس دلائے، اور یہ کہ وہ بھلائی چاہتا ہے اور اس کا خیر خواہ ہے، اسے چاہیے کہ بیوی کی اصلاح میں وعظ و نصیحت کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

یاد رکھیں کہ نصیحت خشک دل ،اور کھردرے انداز سے نہیں کی جاتی ،بلکہ نرم گفتگواور ا علی سلوک سے کی جاتی ہے ،جیسے بیوی کے لئے تحفہ خریدے، تاکہ بیوی دل کی رضا اور اچھی سوچ سے شوہر کی بات سنے۔

اور ظاہر ہے کہ ایک عقلمنداور حسن اخلاق کی حامل بیوی پر بھی واجب ہے کہ اپنے سامنے اپنے گھر اور بچوں کا مستقبل رکھ کر اپنے شوہر کی نصیحت قبول کرے۔

تاہم اگر بیوی جھگڑالو اوربد فطرت ہو، اسے وعظ و نصیحت فائدہ نہ دے رہے ہوں ،اور شوہر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر چکا ہو تو شوہر ترتیب کے لحاظ سے دوسرے مرحلہ میں منتقل ہوگا، جیسا کہ ہمیں اللہ عزوجل نے اس کا حکم دیا ہے۔

  • دوسرا مرحلہ: یہ ہےکہ شوہر بستر میں قطع تعلقی کا راستہ اختیار کرے، جیسے اس کی طرف پیٹھ کر دے، لیکن زیادہ سے زیادہ تین دن تک اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم نہ کرے،اس لئے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے: کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی مسلمان کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑ دینا حلال نہیں([193])۔

تاکہ بیوی کو احساس ہو جائے کہ اس کا شوہر اس کے طرز عمل سے ناراض ہے، یہ حل گویا بیوی کے لئے دوسرا موقعہ ہوتا ہے، تاکہ وہ اس مدت کے دوران خود کے معاملات پر غور وفکر کرے، اس لئے کہ اگر اس کے شوہرنے اس سے زیادہ بے رخی اختیار کیے رکھی تواس سے بیوی کو تکلیف ہوگی، اور شوہر اس کی اصلاح نہیں کر پائے گا، اگر وہ خود پر غور کرکے اصلاح کر لیتی ہے، تو شوہر پر واجب ہے کہ اس سے بے رخی ختم کردے، اسے معاف کر دے، اور اس سے درگزر کرے، اور اگر بیوی سرکشی، نافرمانی اور تکبر میں مزید بڑھ جاتی ہے، اور شوہر کا قطع تعلق اسے کوئی فائدہ نہ دے رہا ہو تو وہ تیسرے مرحلے کی طرف منتقل ہوگا۔

  • تیسرا مرحلہ : اگر شوہر اپنی نافرمان بیوی کی وعظ و نصیحت، اچھی طرح سمجھانے، اور تحفے تحائف دے کر اصلاح کی کوشش کر چکا ہو ،اور کوئی فائدہ نہ ہوا ہو، اسی طرح بستر میں قطع تعلقی کرکے شوہر اپنی بیوی کے ردعمل پر عدم رضا کا اظہار کرنے کی بھی کوشش کر چکا ہو، اور کوئی فائدہ نہ ہوا ہو تو اس وقت شوہر کو اجازت ہے کہ اپنی بیوی کو بدترین اور نشانات چھوڑنے والی مار مارنے کے بجائے ہلکی مار مارے تاکہ اسے ادب سکھاسکے ۔

جمہور علماء کا اجماع ہے کہ نافرمان بیوی کی اصلاح میں ترتیب پر چلنا واجب ہے، اور وہ یہ ہے کہ پہلے وعظ و نصیحت کرے پھر بستر میں قطع تعلقی کرے پھر مارے۔

عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ:" بدترین مار نہ مارنے سے کیا مراد ہے؟" تو انہوں نے کہا :"مسواک وغیرہ سے مارنا"۔

حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :"اس سے مراد یہ ہے کہ مار غیر موثر ہو"۔

ہم اپنے معزز قاری سے پوچھتے ہیں کہ بھلا مسواک سے مارنے سے بھی درد ہوتا ہے؟ مسواک ایک چھوٹی سی لکڑی ہوتی ہے، جس کی لمبائی اور چوڑائی پنسل سے زیادہ نہیں ہوتی، کیا یہ درست ہے کہ مسواک سے مارنے کو خاندانی تشدد کہا جاسکے؟۔

اگر آپ شوہر کا بیوی کو مسواک سے مارنے کو گھریلو تشدد خیال کرتے ہیں تو آئیےہم دیکھتے ہیں کہ ہالی ووڈ میں کتنی مغربی فلمیں تیار ہوتی ہیں، جو ہمارے لئے ایک غضبناک آدمی کی دوسرے سے اور ایک آدمی کی ایک عورت سے اور مینیجرکی اپنے ماتحت کام کرنے والوں سے گفتگو کی منظر کشی پیش کرتی ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک شخص دوران گفتگو دوسرے شخص کے سینے پر اپنی انگلی رکھتا ہے، تاکہ اسے ڈرائے اور کبھی اپنی انگلی یا ہاتھ میں پکڑی پین سے اس کے سینے کو کھٹکھٹاتا ہے ،اور اکثر اوقات یہ شخص دوسرے کو تھپڑ مارتا ہے، ان کی اکثر فلموں میں ایک بیوی اپنی شوہر سے بات کرتے ہوئے اس قدر غصہ میں آتی ہے کہ اپنے شوہر کے چہرے پر زور سے مارتی ہے، یا پھر شوہر کو گفتگو کے دوران اتنا غصہ آتا ہے کہ وہ زور سے اپنی بیوی کے چہرے پر تھپڑ مار کر وہاں سے چلا جاتا ہے، ان سب باتوں کو مغرب گھریلو تشدد خیال نہیں کرتا، بلکہ ان کے نزدیک یہ جذبات ہیں ، جن کی رو میں بہہ کر شوہر یا بیوی نے دوسرے کو تھپڑ مارا ہوتا ہے، بلکہ ایسے شوہر یا بیوی کو وہ لوگ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔

یاد رکھیں کہ اسلام میں چہرے پر مارنا حرام ہے، مگر وہ لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تشدد پسند دین ہے، اگرچہ اسلام نے مرد کو اجازت دی ہے کہ اگر وہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں اپنی صلاحیتیں صرف کر چکا ہو تو تیسرے مرحلے میں منتقل ہو سکتا ہے، مگر اسلام نے عورت کو بھی حق دیا ہے کہ اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے پہلے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے ،جس کا نام خلع ہے، اگر وہ خلع کو صلح پر فوقیت دیتی ہے تو اس صورت میں جو اس کے ساتھ معاملات ہوں گے اسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ نصیحت ،پھر قطع تعلق، پھر مارنا یہ مراحل ازواجی زندگی کے روزمرہ کے حل کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان بڑے بڑے معاملات کے حل کے لئے ہیں مثال کے طور پر اگر شوہر بیوی سے کہے کہ آج ہمارے لئے مچھلی چاول بناؤ اور عورت مرغی چاول بنا دے تو کیا اس پر سابقہ آیت لاگو کی جائے گی کہ شوہر پہلے نصیحت کرے پھر قطع تعلقی کرے اور پھر اسے مارے؟۔

ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ یہ معمولی معاملات ہیں جو لازمی ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ کے بغیر ہی حل ہوجائیں، لیکن اگر عورت بدخلق ہو، خودسر ہو ،اور شوہر اس میں اخلاقی آوارگی، زوال، فجور یا نافرمانی اور تکبر دیکھے، تو یہاں ہمارے سامنے ایک نافرمان عورت ہے ،جس کی اصلاح و تربیت اور اس کی پریشانیوں کے علاج کی ضرورت ہے، جس طرح ایک بیمار کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

ذرا تصور کریں کہ عورت کا ایسے کام پر مسلسل اصرار جو اس کے گھر کو ڈھا سکتے ہیں، اور اسے طلاق تک پہنچا سکتے ہیں، اور شوہر اس کے ساتھ وعظ و نصیحت اور بستر میں قطع تعلقی میں کافی وقت لگا کر اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کر چکا ہے، اور عورت پر اس کا کوئی اثر نہیں ،تو زیادہ بہتر کیا ہے طلاق یا غیر جارحانہ مار؟۔

اگر مارنا کانا پن ہے تو طلاق دینا اندھا پن ہے، اور کانا پن بہرحال اندھے پن سے بہتر ہے ،اور اگر ایسی عورت کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو ایسی عورت خاندان اور بالآخر پورے معاشرے کو ختم کر دے گی۔

 

 

پانچویں فصل

اسلامی لفظ ضرب ( مارنا) کا معنیٰ و مفہوم

دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے خاندانی تشدد کی مذمت سے پہلے اسلام نے اس کی مذمت کی ہے ،اسے حرام قرار دیا ہے، اور ایسے شخص کو دنیاوی و اخروی سزا کا مستحق قرار دیا ہے، اور صرف اس فعل کو ہی حرام قرار نہیں دیا، بلکہ نامناسب الفاظ کا استعمال بھی جرم اور اسے حرام قرار دیا ہے۔

 تو اس لحاظ سے اسلام دیگر نظاموں سے زیادہ جامع اور مکمل ہے، جو صرف دنیا وی سزا پر اکتفا کرتے ہیں۔

چودہ سو سال قبل رسول اللہ نے فرمایا تھا:مسلمان (کامل) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ، اور مومن (کامل) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں([194])۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : ” مومن طعنہ دینے والا ، لعنت کرنے والا ، بےحیاء اور بدزبان نہیں ہوتا ہے([195]) ۔

وہ پوچھ سکتے ہیں کہ کس طرح اسلام میں تشدد کی نفی کی ہے، جبکہ اسی وقت نافرمان بیوی کو مارنے کی اجازت بھی دی ہے؟۔

اس سوال کا جواب دینے سے قبل ہمارے لئے سب سے پہلے اپنی روز مرہ کی زندگی میں لفظ ضرب کے معنیٰ ومفہوم اور اسلام میں اس کے معنیٰ و مفہوم کے درمیان فرق واضح کرنا ضروری ہے۔

ہماری معاصر زندگی میں جب ایک شخص یہ سنتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو مارا ہے، تو اس کے دماغ میں شوہر کے لئے ایک بدصورت، وحشی، ظالم ،اور تشدد پسند شخص کی صورت آتی ہے، جس نے اپنی بیوی کو مکے اور لاتیں ماری ہو ں اوراس بیوی کی صورت اس مظلوم کی ہوتی ہے، جس پر حملہ کیا گیا ہو، اس کا جسم زخموں اور چوٹوں سے بھرا ہوا ، اور جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا ہو، ہماری معاصر زندگی میں مارنے کا یہی مفہوم ہوتا ہے، جسے ہم نے اپنی زندگی کے تجربات سے حاصل کیا ہوا ہوتا ہے، اور ہمارے سامنے ایسے ظالم مردوں کی تصویر ہوتی ہے جنہوں نے اپنی بیویوں پر وحشیانہ تشدد کیا ہوتا ہے۔

اگر میں آپ سے کہوں کہ میں نے دروازے کی گھنٹی ماری ،تو کیا آپ اس سے یہ سمجھیں گے کہ میں نے دروازے پر تشدد کیا؟ اسی طرح اگر میں آپ کے سامنے کہوں کہ میں ضرب المثل (کہاوت) پیش کرنے والا ہو تو کیا آپ اس سے یہ سمجھیں گے کہ میں مثال پر تشدد کرنے والا ہوں؟۔

لہذا مارنے کے لفظ کا معنیٰ لغوی استعمال کے لحاظ سے اور گفتگو کرنے والا شخص کی شخصیت اور اخلاق کے لحاظ سے پوری طرح تبدیل ہو جاتا ہے۔

 یہ سب ہمارے ذہن میں واضح کرتا ہے کہ اس کا مارنے کے لفظ سے کیا مقصد ہے، لہذا ہماری معاصر زندگی میں مارنے کے لفظ کا مفہوم، اسلام میں مارنے کے مفہوم سے یکسر مختلف ہے، معاصرزندگی میں "مارنے" کا جو مفہوم ہے وہ اسلام میں شدت کے ساتھ حرام اور جرم ہے، لہٰذا دونوں مفہوم کبھی بھی یکجا نہیں ہوسکتے ،اس لئے کہ ہر ایک دوسرے کے خلاف ہے، اگر ہم انصاف سے بات کریں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ اسلام میں بیوی کو مارنے اور اس کی توہین کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ اسلام میں اس کی بیعزتی کرنے ،بدسلوکی کرنے، اور بد کلامی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

 اسلام میں بیوی کو "مارنے" کا مفہوم معمولی کھٹکھٹانے کی طرح ہے ،جسے ہم نے گھنٹی کی مثال سے واضح کیا،جس کا واحد مقصد بیوی کو مطلع کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے معاملے میں غلطی پر ہے اور اس کے شوہر کواس کی اصلاح کرنے کا حق ہے۔

 اسلام نے بیوی کی مشکلات حل کرنے کے لئے شوہر کے لئے مراحل قائم کیے ہیں ،اور یہ مراحل مارنے سے پہلے ہیں، اور مارنے کو اس شخص کے لئے آخری حل قرار دیا ہے، جسے دوسرے حل فائدہ نہ دے رہے ہوں ۔

اسلام نے شوہر پر متعدد شرعی رکاوٹیں رکھی ہیں، اگر وہ ان کی پامالی کرتا ہے، تو گنہگار اور سرکش کہلائے گا ،اور دنیا و آخرت میں سزا کا مستحق ہوگا، وہ مراحل یہ ہیں:

مارنے کے ذریعے ادب سکھلانے کے قواعد

  1.  پریشانی کو حل کرنے کے لئے بتدریج آگے بڑھے، وہ اس طرح کہ پہلے دو مرحلوں میں وعظ و نصیحت اور بسترے میں قطع تعلقی کے لئے اپنی تمام ترصلاحیتیں صرف کردے۔
  2. مار مسواک سے ہو جس کی لمبائی اور چوڑائی پنسل سے زیادہ نہ ہو۔
  3. اس کے چہرے اور اس کے جسم کے حساس مقامات کو نہ چھوئے، اس لئے کہ اسلام میں چہرے پر مارنا حرام ہے، جسے مارا جارہا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت یا حیوان، اس لئے کہ چہرہ عزت کی جگہ ہے اور اسے نقصان پہنچانے سے حواس کو تکلیف ہوتی ہے۔

 اسی طرح اسلام جسم کے حساس مقامات کو تکلیف دینے کو بھی حرام قرار دیتا ہے، اور اس پر سختی کرتا ہے،یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں، جو انہیں پامال کرے گا وہ گنہگار ہوگا۔

  1. تادیب کسی بھی صورت لوگوں کے سامنے نہیں ہونی چاہیے ،اس لئے مرد کو اپنی بیوی کو لوگو ں کے سامنے بالخصوص اس کے بچوں کے سامنے مارنے کی اجازت نہیں، کیونکہ یہ عورت کی توہین ہے، اور بچوں کی بری تربیت کا سبب بنتا ہے ،پھر یہ شوہر اپنے بچوں کی کیسے تربیت کر سکے گا جو ان کی ماں کو ان کے سامنے یا ان کی موجودگی میں مارتا ہے۔
  2. مار وحشیانہ نہ ہو کہ بیوی کے جسم پر نشان چھوڑے ،جیسے خون بہے یا اس کے جسم پر زخم یا ٹوٹنے کا کوئی اثر چھوڑے، چناچہ جو شوہر اپنی بیوی کو ایسا مارے گا جو نشان یا زخم چھوڑےیااس سے خون بہنے کا سبب بنے، تو وہ گنہگار ہے، ایسا شخص وحشی جانور ہے، جو بیوی کی اصلاح نہیں بلکہ اس سے انتقام لینا چاہتا ہے، اور اسے معذور کرنا چاہتا ہے، لہذا شریعت اسلامیہ کے قانون کے مطابق اس شخص سے بازپرس اور اسے سزا دینا ضروری ہے۔

 

 

 چھٹی فصل

دیگر ادیان میں عورتوں کو مارنے کا معاملہ

بیوی کو مارنے کا مسئلہ ایک جگہ یا زبان کا مسئلہ نہیں ہے جو کسی خاص وقت یا معاشرے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ وہ بلا استثناء تمام معاشروں میں، ہر دور میں موجود رہا ہے، اگر آپ قدیم معاشروں میں عورت کی حیثیت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں بہت سی کتابیں موجود ہیں، اسی طرح یونانی،رومن، چینی، اور قدیم بھارتی سماج میں خواتین کی حیثیت پر کتب موجود ہیں۔

یہودیوں اور عیسائیوں نے کس طرح عورتوں کو مارنے کے مسئلے کا سامنا کیا، جو تمام قدیم معاشروں میں رائج تھا ،کیا یسوع مسیح نے کبھی بھی عورت کو مارنے کی حرمت بیان کی؟۔

کیا نصاریٰ کی مقدس کتاب بائبل چاہے وہ عہدنامہ قدیم ہو یا جدید، اس کی نصوص عورت کو مارنے کی حرمت یا کراہت بیان کرتی ہیں؟۔

 تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتابوں میں ایسا کچھ بھی نہیں جو اس طرف اشارہ بھی کرے۔

اگر ایک عیسائی اپنی بیوی کو مارتا ہے، تو کیا وہ گنہگار ہوگا؟اور مذہبی لحاظ سے وہ مجرم ہوگا ؟اور بائبل کے مطابق اس کی سزا کیا ہوگی؟۔

ظاہر ہے کہ وہ گناہگار نہیں ہوگا ،اس لئے کہ بائبل میں، چاہے وہ عہد نامہ قدیم ہو یا جدید، اس میں ایسی کوئی بھی نص نہیں ہے جو اس بات کی طرف نشاندہی کرے۔

اسی طرح وہ قانونی طور پر بھی مجرم نہیں ہو گا ،الا یہ کہ بیوی پر تشدد کے نشانات ہوں، جیسے فریکچر ہو، یا نشانات ہوں یا زخم وغیرہ ہوں ۔

اور اگر عورت کے جسم پر نشانات نہیں ہیں تو وہ کس طرح ثابت کرے گی کہ اس کے شوہر نے اسے مارا ہے؟ ۔

دوسرے الفاظ میں غیر جارحانہ مار مارنے پر مرد کے لئے مذہبی اور قانونی طور پر کوئی سزا نہیں ہے۔

اسی طرح ہم یہودیت اور بدھ مت کی طرف دیکھتے ہیں ،کیا ان کے ہاں ایسی نصوص ہیں جو عورت کو مارنے کو حرام قرار دیتی ہوں؟ یقینا کسی بھی مذہب میں ایسی کوئی دینی نصوص موجود نہیں ہیں جو بیویوں کو مارنے کو حرام قرار دیتی ہوں سوائے اسلام کے۔

یہاں تک کہ اگر بیوی کو مارنے کا معاملہ حرام کے درجہ سے نکال کر مکروہ کی صف میں لاکھڑا کیا جائے تب بھی اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کو مارنے کو ناپسند کیا ہے ،اور اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ جہاں تک باقی مذاہب کا معاملہ ہے تو انہوں نے اس کا مطلقا ذکر ہی نہیں کیا، نہ تحریم کے طور پر اور نہ کراہت کے طور پر۔

اسی طرح اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب نے عورت کو مارنے کے ضوابط اور حدود مقرر نہیں کیئے، بالفاظ دیگر اگر ایک عیسائی شوہر کسی وقت خود پر اختیار کھو بیٹھے اور بیوی کو مارے تو کونسے ضابطے اور حدیں ہیں جن سے تجاوز نہ کرے؟۔

کیا نصرانی شوہر کے لئے کچھ حدود مقرر ہیں کہ بیوی کے چہرے کو نہ مارے یا اس کے جسم پر مارنے کا کوئی نشان نہ چھوڑے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔

اگر کوئی اس حقیقت پر غور کرے جس میں ہم جی رہے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ریکارڈ نمبر ہیں جو اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔

آپ خود امریکی اور یورپی عدالتوں میں پولیس کے رکارڈ اور مقدمات دیکھیں، آپ کو ایسے شوہروں کی غیر معمولی تعداد ملے گی جو اپنی بیویوں اور بچوں کے خلاف خاندانی تشدد میں ملوث ہیں، یہاں تک کہ اسلام سے قبل ایام جاہلیت میں عرب اپنی بیویوں کو غلاموں کی طرح کوڑے لگاتے تھے، اور یہ عام اور معمولی تھا، کسی بھی قانون یا شریعت کے تحت حرام یا جرم نہیں تھا ،جب رسول اللہ مبعوث کئے گئے تو اس پر شدید تنقید کی اور فرمایا:" تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہمبستری بھی کرتے ہیں"([196])۔

اس حدیث مبارکہ میں رسول نے اس شخص پر تنقید کی جو دن کے وقت اپنی بیوی کو مارتا ہے پھر رات کو آکر اس سے ہمبستری کرنا چاہتا ہے،بالفاظ دیگر شوہر بیوی کے ساتھ دن کے وقت سختی سے کیوں پیش آتا ہے جبکہ رات کے وقت اس کی محبت اور انسیت چاہتاہے۔

 

کتاب مقدس عہدنامہ قدیم و جدید میں عورت کی حیثیت کے متعلق اقتباسات

اکثر و بیشتر عیسائیت مذہب کے پیروکار عیسی علیہ السلام کو "خواتین کے حقوق کا پہلامحافظ" کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور یہ کہ انہوں نے ہی عورتوں کو وہ حقوق دئیے جو کسی اور مذہب نے نہیں دیئے اور یہ کہ کتاب مقدس نے عورتوں کو انصاف اور اعلیٰ مقام دیا، لیکن کیا یہ باتیں حقیقت کے مطابق ہیں؟ یہ ہر کوئی جانتا ہے۔

 کتاب مقدس ،چرچ کے اندر ہیکل میں خواتین کو داخل ہونے سے منع کرتی ہے، جو مقدس جگہ یا مقدس قربان گاہ ہے ،چاہے وہ عورت ایک بچی ہو، یا جوان ،ہو یا بوڑھی ہو،دراصل یہ معاملہ عمر کا نہیں بلکہ عورتوں کی جنس کا ہے، اور کتاب مقدس عہدنامہ قدیم وجدید نے ایسا کوئی اشارہ ذکر نہیں کیا جس میں عورت کے ہیکل میں داخلہ کا امکان ہو یہاں تک کہ عورت کو کہانت کے راز معلوم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

ایک عورت کو کلیسا میں بات کرنے یا چرچ کے اندر کسی کو تعلیم دینے کی اجازت نہیں، اسی طرح کاہن کا کوئی منصب لینے کی بھی اسے اجازت نہیں، اس کے لئے صرف یہی ممکن ہے کہ شماسہ کے رتبہ پر رہے اور یہ خادمہ کا رتبہ ہے نہ کہ پادری کا۔

بائبل نے ہمارے سامنے جتنے بھی کاہن پیش کیے ہیں وہ سب کے سب مرد تھے، چاہے وہ رسول ہوں، جیسے نوح، ایوب، ابراہیم، اسحاق ،یعقوب، یاوہ ہارونی کا ہن ،یا ملکی صارف کاہن ،یا رسولوں کے جانشین کاہن ہوں ،یہ سب کے سب مرد تھے، اور اگر کوئی عورت کہانت کے عہدہ پر فائز ہوسکتی تو سیدہ مریم علیہ السلام اس کی زیادہ حق دار تھیں، لیکن عیسائی تعلیمات کے مطابق عورت اس سے محروم ہے۔

 ہم بائبل کی کچھ نصوص پیش کر رہے ہیں تاکہ عیسائیوں کے ہاں عورت کا مقام اور اس کی حیثیت معلوم کرسکیں۔

  1. عورت کو مرد کے گناہ کے سبب سزا دی جائے گی :

سفریرمیاہ (23 : 34) : " اور نبی اور کاہِن اور لوگوں میں سے جو کوئی کہے خُداوندکی طرف سے بارِنبُوّت مَیں اُس شخص کو اور اُس کے گھرانے کو سزا دُوں گا۔

  1. زانیہ عورت کو آگ میں جلانا:

سفراحبار (21 : 9) : اور اگر کاہِن کی بیٹی فاحِشہ بن کر اپنے آپ کو ناپاک کرے تو وہ اپنے باپ کو ناپاک ٹھہراتی ہے ۔ وہ عَورت آگ میں جلائی جائے۔

  1. غیر معقول اسباب کی بناء پر عورت کا ہاتھ کاٹنا:

سفر استثنا (25 : 11) : جب دو شخص آپس میں لڑتے ہوں اور ایک کی بِیوی پاس جا کر اپنے شَوہر کو اُس آدمی کے ہاتھ سے چُھڑانے کے لِئے جو اُسے مارتا ہو اپنا ہاتھ بڑھائے اور اُس کی شرمگاہ کو پکڑلے۔ 12تو تُو اُس کا ہاتھ کاٹ ڈالنا اور ذرا ترس نہ کھانا۔

  1. طلاق یافتہ ، بیوہ اور زانیہ یہ سب عورتیں برابر ہیں:

سفر احبار (21 : 9) : وہ اپنے خُدا کے لِئے پاک بنے رہیں اور اپنے خُدا کے نام کو بے حُرمت نہ کریں کیونکہ وہ خُداوند کی آتِشِین قُربانیاں جو اُن کے خُدا کی غِذا ہیں گُذرانتے ہیں ۔ اِس لِئے وہ پاک رہیں۔ 7وہ کِسی فاحِشہ یا ناپاک عَورت سے بیاہ نہ کریں اور نہ اُس عَورت سے بیاہ کریں جِسے اُس کے شَوہر نے طلاق دی ہو کیونکہ کاہِن اپنے خُدا کے لِئے مُقدّس ہے۔ 8پس تُو کاہِن کو مُقدّس جاننا کیونکہ وہ تیرے خُدا کی غِذا گُذرانتا ہے ۔ سو وہ تیری نظر میں مُقدّس ٹھہرے کیونکہ مَیں خُداوند جو تُم کو مُقدّس کرتا ہُوں قُدُّوس ہُوں۔ 9

  1. عورت کی مرد کے لئے مطلق عاجزی و فرمانبرداری :

افسیوں کے نام پولس کا خط (5 : 22) : اَے بِیوِیو! اپنے شَوہروں کی اَیسی تابِع رہو جَیسے خُداوند کی۔ 23کیونکہ شَوہر بِیوی کا سر ہے جَیسے کہ مسِیح کلِیسیا کا سَر ہے اور وہ خُود بدن کا بچانے والا ہے۔ 24لیکن جَیسے کلِیسیا مسِیح کے تابِع ہے وَیسے ہی بِیوِیاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابِع ہوں۔

  1. عورت پر لازم ہے کہ کنیسہ میں خاموش رہے:

کرنتھیوں کے نام پولس کا خط (14 : 34) :34عَورتیں کلِیسیا کے مجمع میں خاموش رہیں کیونکہ اُنہیں بولنے کا حُکم نہیں بلکہ تابِع رہیں جَیسا تَورَیت میں بھی لِکھا ہے۔ 35اور اگر کُچھ سِیکھنا چاہیں تو گھر میں اپنے اپنے شَوہر سے پُوچھیں کیونکہ عَورت کا کلِیسیا کے مجمع میں بولنا شرم کی بات ہے۔

  1. عورت گمراہی کا سبب ہے:

 تیمتھیس کے نام پولس کا خط(2 : 11) : 12اور مَیں اِجازت نہیں دیتا کہ عَورت سِکھائے یا مَرد پر حُکم چلائے بلکہ چُپ چاپ رہے۔ 13کیونکہ پہلے آدم بنایا گیا ۔ اُس کے بعد حوّا۔ 14اور آدم نے فرِیب نہیں کھایا بلکہ عَورت فرِیب کھا کر گُناہ میں پڑ گئی۔ 15لیکن اَولاد ہونے سے نجات پائے گی بشرطیکہ وہ اِیمان اور مُحبّت اور پاکِیزگی میں پرہیزگاری کے ساتھ قائِم رہیں۔

  1. مرد کی عورت پر حکمرانی:

پطرس کا پہلا خط (3 : 1) : 1اَے بِیوِیو! تُم بھی اپنے اپنے شَوہر کے تابِع رہو۔ 2اِس لِئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تَو بھی تُمہارے پاکِیزہ چال چلن اور خَوف کو دیکھ کر بغَیرکلام کے اپنی اپنی بِیوی کے چال چلن سے خُدا کی طرف کِھنچ جائیں۔ 3اور تُمہارا سِنگار ظاہِری نہ ہو یعنی سر گُوندھنا اور سونے کے زیور اور طرح طرح کے کپڑے پہننا۔ 4بلکہ تُمہاری باطِنی اور پوشِیدہ اِنسانیّت حِلم اور مِزاج کی غُربت کی غَیر فانی آرایش سے آراستہ رہے کیونکہ خُدا کے نزدِیک اِس کی بڑی قدر ہے۔ 5اور اگلے زمانہ میں بھی خُدا پر اُمّید رکھنے والی مُقدّس عَورتیں اپنے آپ کو اِسی طرح سنوارتی اور اپنے اپنے شَوہر کے تابِع رہتی تِھیں۔ 6چُنانچہ سار ہ ابرہا م کے حُکم میں رہتی اور اُسے خُداوند کہتی تھی ۔ تُم بھی اگر نیکی کرو اور کِسی ڈراوے سے نہ ڈرو تو اُس کی بیٹِیاں ہُوئِیں۔

سفر پیدایش (3 : 16) : " 16پِھر اُس نے عَورت سے کہا کہ مَیں تیرے دردِ حمل کو بُہت بڑھاؤں گا ۔ تُو درد کے ساتھ بچّے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شَوہر کی طرف ہو گی اور وہ تُجھ پرحُکومت کرے گا۔

  1. زانیہ عورت کو رجم کرنا یہاں تک کہ وہ مرجائے:

سفر استثنا (22 : 13) : اگر کوئی مَرد کِسی عَورت کو بیاہے اور اُس کے پاس جائے اور بعد اُس کے اُس سے نفرت کر کے۔ 14شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہے اور اُسے بدنام کرنے کے لِئے یہ دعویٰ کرے کہ مَیں نے اِس عَورت سے بیاہ کِیا اور جب میں اُس کے پاس گیا تو مَیں نے کُنوارے پن کے نِشان اُس میں نہیں پائے۔15تب اُس لڑکی کا باپ اور اُس کی ماں اُس لڑکی کے کُنوارے پن کے نِشانوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر بزُرگوں کے پاس لے جائیں۔ 16اور اُس لڑکی کا باپ بزُرگوں سے کہے کہ مَیں نے اپنی بیٹی اِس شخص کو بیاہ دی پر یہ اُس سے نفرت رکھتا ہے۔ 17اور شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں نے تیری بیٹی میں کُنوارے پن کے نِشان نہیں پائے حالانکہ میری بیٹی کے کُنوارے پن کے نِشان یہ مَوجُود ہیں ۔ پِھر وہ اُس چادر کو شہر کے بزُرگوں کے آگے پَھیلا دیں۔ 18تب شہر کے بزُرگ اُس شخص کو پکڑ کر اُسے کوڑے لگائیں۔ 19اور اُس سے چاندی کی سَو مِثقال جُرمانہ لے کر اُس لڑکی کے باپ کو دیں اِس لِئے کہ اُس نے ایک اِسرائیلی کُنواری کو بدنام کِیا اور وہ اُس کی بِیوی بنی رہے اور وہ زِندگی بھر اُس کو طلاق نہ دینے پائے۔20پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کُنوارے پن کے نِشان نہیں پائے گئے۔ 21تو وہ اُس لڑکی کو اُس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نِکال لائیں اور اُس کے شہر کے لوگ اُسے سنگسار کریں کہ وہ مَر جائے کیونکہ اُس نے اِسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحِشہ پن کِیا ۔ یُوں تُو اَیسی بُرائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔

سفر استثنا(22 : 22) : 22اگر کوئی مَرد کِسی شَوہر والی عَورت سے زِنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مار ڈالے جائیں یعنی وہ مَرد بھی جِس نے اُس عَورت سے صُحبت کی اور وہ عَورت بھی ۔ یُوں تُو اِسرائیل میں سے اَیسی بُرائی کو دفع کرنا۔

سفر استثنا (22 : 23) : 23اگر کوئی کُنواری لڑکی کِسی شخص سے منسُوب ہو گئی ہو اور کوئی دُوسرا آدمی اُسے شہر میں پا کر اُس سے صُحبت کرے۔ 24تو تُم اُن دونوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر نِکال لانا اور اُن کو تُم سنگسار کر دینا کہ وہ مَر جائیں ۔

  1. عورت کا درجہ مرد سے کم ہے:

کرنتھیوں کے نام پولس کا پہلا خط (11 : 3) : 3پس مَیں تُمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہُوں کہ ہر مَرد کا سر مسِیح اور عَورت کا سر مَرد اور مسِیح کا سر خُدا ہے۔ 4جو مَرد سر ڈھنکے ہُوئے دُعا یا نبُوّت کرتا ہے وہ اپنے سر کو بے حُرمت کرتا ہے۔ 5اور جو عَورت بے سر ڈھنکے دُعا یا نبُوّت کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حُرمت کرتی ہے کیونکہ وہ سرمُنڈی کے برابر ہے۔ 6اگر عَورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے ۔ اگر عَورت کا بال کٹانا یا سر مُنڈانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔ 7البتّہ مَرد کو اپنا سر ڈھانکنا نہ چاہئے کیو نکہ وہ خُدا کی صُورت اور اُس کا جلال ہے مگر عَورت مَرد کا جلال ہے۔ 8اِس لِئے کہ مَرد عَورت سے نہیں بلکہ عَورت مَرد سے ہے۔ 9اور مَرد عَورت کے لِئے نہیں بلکہ عَورت مَرد کے لِئے پَیدا ہُوئی۔ 10پس فرِشتوں کے سبب سے عَورت کو چاہئے کہ اپنے سر پر محکُوم ہونے کی علامت رکھّے۔ 11تَو بھی خُداوند میں نہ عَورت مَرد کے بغَیر ہے نہ مَرد عَورت کے بغَیر۔ 12

  1. خواتین کے لئے مسیحی تعلیمات

مقالہ دسقولیہ (رسولوں کی تعلیمات) کے دوسرے باب کا عنوان ہے: عورتوں پر واجب ہے کہ اپنے شوہروں کی فرمانبرداری کریں ،اور حکمت کے ساتھ چلیں

کہتے ہیں :عورت کو چاہیئےکہ اپنے شوہر کے تابع رہے اس لیئے کہ عورت کا سر اس کا شوہر ہے ،اے عورت! تم اپنے شوہر سے ڈرو، اور اس سے حیا کرو ،اور اللہ تعالی کے بعد اسی کو راضی کرو، جیسا کہ ہم نے کہا ہے اپنی خدمت سے اپنی شوہر کو آرام دو، تاکہ تمہارا شوہر بھی تمہیں اپنے پاس پناہ دے، اگر تم اللہ تعالی پر ایمان لانے والی اور اس کی پسندیدہ بننا چاہتی ہو تو اجنبی مردوں کو خوش کرنے کے لئے زینت اختیار نہ کرو ،اور ایسی اوڑھنیاں اور لباس پہننے کی خواہش نہ کرو جو ہلکے ہوتے ہیں، اور صرف زانی عورتوں کے لئے موزوں ہوتے ہیں ،تاکہ تمہارے پیچھے وہ لوگ نہ چل پڑیں جو اس طرح کی عورتوں کا شکار کرتے ہیں، اور اگرچہ تم گناہ کے کام بدستور نہیں کرتی ہو لیکن تم بناؤ سنگھار کرکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کر رہی ہو، کیونکہ اس طرح تم دیکھنے والے کو مجبور کردیتی ہوکہ وہ تمہارے پیچھے چلے، اور تمہیں چاہنے لگے، تم خود کی حفاظت کیوں نہیں کرتی تاکہ تم خطا میں واقع نہ ہو اور نہ ہی کسی کو اجازت دو کے تمہاری وجہ سے شک یا غیرت میں پڑے ،اور اگر تم اس عمل کو اختیار کرکے گناہ کرتی ہو تو تم بھی گر جاؤ گی کیونکہ اس شخص کے نفس کی ہلاکت کا سبب تم ہی بنو گی، پھر اگر تم نے کسی شخص کے ساتھ ایک مرتبہ یہ غلطی کی تو اس سبب سے تم بہت سارے لوگوں کے ساتھ یہ غلطی کرو گی اور تم میں امید کی کمی ہوگی، جس طرح بائبل نے کہا ہے کہ اگر منافق بہت سی برائیوں میں گر جاتا ہے تو وہ انہیں معمولی سمجھتا ہے اور خود پر درد اور عار لاتا ہے۔

جو بھی ایسا کرتی ہے، گناہ کی وجہ سے ہلاک ہو جاتی ہے، اور جاہل اور بے وقار لوگوں کا شکار کرتی ہے، ایسی عورت کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کے لوگوں پر گناہ مسلط کرنے والے کے متعلق بائبل کیا کہتی ہے "جاہل عورت سے موت سے زیادہ نفرت کی جائے کیونکہ یہ جاہلوں کا جال ہے "اسی طرح ایک اور جگہ کہتی ہے" جس طرح دیمک لکڑی کھا جاتا ہے، اسی طرح ایک بری عورت اپنے شوہر کو تباہ کر دیتی ہے " اسی طرح بائبل یہ بھی کہتی ہے" گھر میں چھت کے کنارے پر رہنا، بدزبان اور نافرمان عورت کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے".

اے مسیحی عورت ! اگر تم مومنہ بننا چاہتی ہو تو ان عورتوں کی مشابہت سے بچو،اور صرف اپنے شوہر کا خیال رکھو، تاکہ اسے راضی کر سکو، اور اگر تم راستے میں چلو تو اپنا سر چادر سے ڈھانپ کر رکھو، اور اگر تم عفت کے ساتھ خود کو ڈاھانپ لو گی تو برے لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہو گی، اپنے چہرے کو مزین نہ کرو اس لئے کہ اللہ تعالی نے جسے بھی پیدا کیا ہے، اس میں زینت کی کمی نہیں ہے، وہ بہت خوبصورت ہے، زینت کا محتاج نہیں اور جو خوبصورتی سے زیادہ ہو وہ خالق کی نعمت کو تبدیل کر دیتا ہے،

تمہارا چلنا اس انداز میں ہو کہ تمہارا چہرہ نیچے دیکھ رہا ہو، اور تم ہر طرف سے ڈھکی ہوئی ہو، پھر اس گہری سہیلی سے بچو جو اس کے لائق نہیں ،جو مردوں کے ساتھ حمام اور اکثر فاسقوں کے ساتھ شریک ہوتی ہو، مومنہ عورت مردوں کے ساتھ نہ نہائے اور اپنے چہرے کو اجنبی لوگوں کی نظروں سے جلدی سے ڈھانپ لے ،اور اگر تم مومنہ بننا چاہتی ہو تو ہر طرح کی فضولیات اور بہت سی نظروں سے دور رہو۔

صحرا ور بیابان میں رہنا زبان دراز اور نافرمان عورت کے ساتھ رہنے سے زیادہ بہتر ہے

 

 

ساتویں فصل

مغربی عیسائی معاشروں میں عورتوں کو مارنا

اسلام کے بہت سے دشمنوں نے اسلام کے بارے میں کچھ شبہات پھیلانے کی کوشش کی ہے، انہی میں سے عورت کو مارنے کا مسئلہ بھی ہے ،جس پر معمول کے مطابق وہ اپنی جادوئی قینچیوں کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیات اور احادیث رسول میں سے ہر وہ بات کاٹ دیتے ہیں، جوان کے شبہات کی تردید کرتی ہو، اور صرف وہی کلام رہنے دیتے ہیں جو ان کے شبہ کے کام آسکے، چناچہ مارنے کا لفظ سیاق و سباق سے کاٹ کر ذکر کیا جاتا ہے، تاکہ اپنے ردی اور کمتر حیلو ں کے ذریعے ،جو حقیقت اور معقولیت سے یکسر دور ہوتے ہیں، اسلام کے متعلق جھوٹے شبہات اٹھا سکیں ، چناچہ موضوع کو مکمل پیش کرنے کے بجائے اسے کانٹ چھانٹ کر پیش کرتے ہیں جس سے غلط مفہوم اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، جس کے ذریعے وہ اسلام پر تہمتیں لگانے کی خدمات سر انجام دیتے ہیں، اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کا عورتوں کے ساتھ بالخصوص اپنی بیویوں کے ساتھ اعلی قسم کا سلوک ہے اور وہ ترقی یافتہ ہیں ،جبکہ درحقیقت وہ مندرجہ ذیل حقائق سے لاعلم ہیں۔

  1. بلاشبہ اسلام وہ واحد دین ہے جس نے زوجین کے درمیان رحمت اور شفقت کے تعلق کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ واحد دین ہے جو بدسلوکی اور ایذارسانی سے روکتا ہے چاہے وہ قول کے ذریعے سے ہو یا فعل کے ذریعے سے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ([197]).

ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی۔

معلوم ہونا چاہیے کہ یہ شفقت اور رحمت شرعا جائز نکاح کے ذریعے ہی آسکتی ہے۔

  1. اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو مارنے، اس کی توہین کرنے، اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنے پر چودہ سو سال پہلے تنقید کی، اور اسے مرد کی ناکامی شمار کیا ہے، اگر ہم نصاریٰ کی مقدس کتاب ،چاہے وہ عہدنامہ قدیم ہو یا جدید، میں تلاش کریں تو قریب و بعید کا ایساکوئی اشارہ نہیں ملتا جو عورتوں کو مارنے کو حرام قرار دیتا ہو۔
  2. اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دلائی ہے ،تمام قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ جوزوجین کے تعلق کے حوالے سے ہیں، وہ زوجین کو ایک دوسرے کی ساتھ حسن معاملہ اور احسان کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾ ([198]).

ترجمہ: اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔

  1. اسلام نے اعلی انسانی سلوک بالخصوص جوزوجین کے درمیان ہو، اسے اجر و ثواب کا باعث قرار دیا ہے رسول اللہ نے فرمایا: تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہو گی تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا ثواب دے گا ، اللہ تمہیں اس لقمہ پر بھی ثواب دے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے ([199])۔
  2. اسلام نے عورت کو استثنائی صورت میں مارنے کی اجازت دی ہے اور اسے قاعدہ نہیں بنایا، اور اسے اسی شروط کے ساتھ مقید کردیا ہے جسے ایک مرد صرف استثنائی حالات میں بطور آخری حل اختیار کر سکتا ہے ،اور ایک بڑے فساد کو ختم کرنے کے لئے ناگزیر اور آخری حل کے طور پر اپنا سکتا ہے، اس لئے کہ تمام عورتیں تمام ہر زمانے معاشرے اور خاندان میں ایک ہی عادات و اطوار کی حامل نہیں ہوتیں، کیونکہ کبھی ایک معاملہ جو ایک معاشرے کیلئے درست ہوتا ہے، وہی دوسرے معاشرے کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، اور بسااوقات ایک عورت کے ساتھ ایک سلوک دوسری عورت کے ساتھ دوسرے معاشرے یا زمانے میں وہی سلوک درست نہیں ہوتا، چاہے آپ اس کے لئے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کر لیں ،اور یہ اسلام کے عالمگیر ہونے اور تمام احتمالات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہونے کی دلیل ہے۔
  3.  گھریلو تشدد کا معاملہ موجودہ دور میں سب سے زیادہ ترقی پسند اور مہذب ممالک میں وسیع پیمانے پر پایاجاتا ہے ،کتنے ہی مغربی عیسائی مردوں نے علی الاعلان لوگوں کے سامنے، ہوائی اڈوں، ہوٹلوں، یا دکانوں میں یہاں تک کہ عمومی شاہراہوں پر گزرنے والوں کے سامنے اپنی بیویوں پر تشدد کیا، اور یہ کوئی راز کی باتیں نہیں بلکہ الیکٹرونک میڈیا پر گردش کرتی خبریں ہیں۔

امریکا، کینیڈا ،یورپ اور آسٹریلیا میں کتنی مغربی خواتین پولیس اسٹیشن کا رخ کرتی ہیں، تاکہ اپنے شوہروں کے خلاف اندراج کروائیں، جنہوں نے انہیں مارا تھا، اور یہاں ریکارڈ صرف ظاہری ثبوت کی موجودگی میں ہیں استعمال کیے جا سکتے ہیں ،جیسا کہ ہم نے ذکر کیا چاہے ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہوں، یا آنکھ کے نیچے ،یا چہرے پر مار پیٹ کے نشان ہوں ،اور جو بھی امریکا، یورپ اور آسٹریلیا میں پولیس کے محکموں کے سرکاری عداد و شمار تلاش کرے گا، اس کے سامنے یہ بات کھل کر واضح ہو جائے گی۔

 

 

مغربی معاشروں میں عورتوں کو مارنے کا رجحان

مغرب، جو تہذیب اور ترقی کا دعویدار ہے، ان کے ہاں گھریلو تشدد کا رجحان تیزی سے پھیل رہا ہے ، اس کی وضاحت کے لئے مندرجہ ذیل باتیں پیش ہیں:

  1. یورپی ممالک میں سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں اور ادارے عام ہورہے ہیں، جو گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے کام کر رہے ہیں ،جو شوہروں کی طرف سے بیویوں پر ہونے والے تشدد کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
  2.  اسی طرح میڈیا پر ہمیشہ اور بار بار نشر ہونے والے اعلانات کے بارے میں کیا کہیں گے جو اس بات کی ترغیب دلاتے ہیں کہ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی شوہر اپنی بیوی پر تشدد کر رہا ہے تو فورا پولیس کو اطلاع کریں۔
  3. وہ سوالات جو مغربی معاشرے میں رہنے والے افراد سے کیے جاتے ہیں، ان میں سے کچھ سوالات یہ ہیں:
  • کیا آپ نے کبھی بھی اپنی بیوی کو مارا ہے؟۔
  • کیا آپ نے کبھی بھی اپنے والد کو اپنی ماں کو مارتے دیکھا یا سنا ہے؟۔
  • کیا آپ نے سنا ہے کہ آپ کے خاندان میں سے کسی فرد نے اپنی بیوی کو مارا ہے؟۔
  • کیا آپ نے سنا ہے کہ آپ کے پڑوسی نے کبھی بھی اپنی بیوی کو مارا ہو؟۔

ان سوالات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں عیسائی شوہروں کی طرف سے بیویوں پر ہونے والے تشدد کےبڑھتے ہوئے رجحان کو ثابت کیا جا سکے ،جو وسیع پیمانے پر عام ہو رہا ہے۔

آخر میں ہم کہیں گے کہ ہر وہ شخص جو انصاف پسند ہے اس کے سامنے واضح ہے کہ اسلام نے عورت کو کیا فضیلت دی ہے، یہ وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو عزت بخشی اس کا مقام بلند کیا اور اسے ہر اس چیز سے محفوظ رکھا جو اس کے وقار کو کمزور اور اس کی عفت میں خلل پیدا کر سکے، اور انتہائی شدت کے ساتھ اس پر ظلم کرنے سے روکا ہے۔

چناچہ : رسول اللہ نے فرمایا:"بلاشبہ میں دو کمزور افراد کے حقوق کی سنگینی کا اعلان کرتا ہوں : ایک یتیم اور دوسری عورت۔"([200]).

 

 

خاتمہ

اسلام اللہ تعالیٰ کا وہ دائمی پیغام ہے جو اس نے محمد کی زبان پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا۔

 اس ربانی پیغام نے نازل ہوتے ہی انسانوں کی اللہ تعالی کی دیگر مخلوقات پر فوقیت کا اعلان کیا چنانچہ فرمایا: ﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ﴾([201]).

ترجمہ: یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزه چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔

اور اللہ تعالی نے انسان کو اس کی قدروقیمت اور یہ کہ اسے اللہ تعالی کی بہت سی دیگر مخلوقات پر فوقیت حاصل ہے، اس کا تعارف کروانےکے بعد ایک اور اصول بیان کردیا وہ یہ کہ تمام انسان اصل اور پیدائش کے اعتبار سے برابر ہیں ،اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ([202]).

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔

اس اعتبار سے ہر انسان انسانی قدر میں اپنے انسانی بھائی کے برابر ہے، لہذا ہر ایک کو اظہار رائے کی آزادی ہے ،اور اس کائنات میں اللہ تعالی نے جو بھی نعمتیں پیدا کی ہیں ان سے سے فائدہ حاصل کرنے کی سب کو آزادی ہے۔

اگر ان کے درمیان فرق ہے تو نسل،حسب و نسب اور رنگ کی بنیاد پر نہیں اگرچہ انسانی ذات کے اعتبار سے ان کے درمیان معاشی سطح پر اختلاف ہو ،کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں جنس، رنگ یا نسل کے اعتبار سے کسی کو عزت حاصل نہیں، بلکہ سب کے سب اللہ تعالی کے ہاں برابر ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت مالدار ہو یا محتاج معزز ہو یا حقیر ،لیکن ان کے درمیان فرق اللہ تعالی کی شریعت پر عمل پیرا ہونے اور حق کے راستے پر استقامت کے لحاظ سے ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے لوگوں کو مخاطب کر کے اس عظیم اصول کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ([203]).

ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی)مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واہے۔

اسلامی تعلیمات انسان کو اپنےانسانی بھائی کے ساتھ اصل اور انسانی قدر کے عتبار سے برابر حالت میں رکھتی ہیں،اسی طرح عورت کو ہر چیز میں مرد کے برابر قرار دیا ہے، سوائے ان چیزوں کے جن میں مرد کو استثناء کرنے کی واضح ضرورت ہو، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ([204]).

ترجمہ: مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور)دوست ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى﴾ ([205]).

پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواه وه مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں اختصار کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر دوں:

  1. میں کہہ سکتا ہوں اور مجھے اس بات کے درست ہونے کا یقین ہے کہ عورت اپنے حقوق اور حقیقی آزادی صرف اسلام کے زیر سایہ ہی حاصل کر سکتی ہے ،اس لئے کہ یہ آسمانی دین ہے، جیسے تمام انسانوں مردوعورت کے خالق نے بنایا ہے، جوان کی دنیاوی واخروی حالات کو درست کرنے والے امور جانتا ہے۔
  2. ہمیں چاہیے کہ کچھ مسلمانوں کے طرز عمل کے ذریعے اسلام پر حکم نہ لگائیں، کیونکہ بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو اسلام کی طرف منسوب تو ہوتے ہیں ،لیکن اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ اسلام محض زبان سے کلمہ شہادت ادا کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ عقیدہ اور عمل ہے، مثال کے طور پر ہمیں ایسے مسلمان بھی ملتے ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں ،دھوکا دیتے ہیں اور کچھ برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، تواس کا معنیٰ یہ نہیں کہ اسلام ان کا حکم دیتا ہے، یا اسلام انہیں برقرار رکھتا ہے ،اسلام ایک بڑا دائرہ ہے، مسلمانوں میں سے بعض اس کی تمام تر تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں، یہاں تک کے درجہ کمال کے قریب پہنچ جاتے ہیں، اور ان میں سے کچھ کوتاہی کرتے ہیں ،وہ اس طرح کہ مخالفات کا ارتکاب کرتے ہیں ،جن کی بنا پر وہ دنیا اور آخرت میں سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتے، یہ وہی ہیں جنہیں گناہگار مسلمان کہا جاتا ہے۔
  3. میں ہر غیر مسلم کو دعوت دیتا ہوں کہ اسے اپنے فیصلے میں آزاد ہونا چاہیے، اور دوسروں کی سوچ اور توجیہات کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے،اور اسے چاہیئے کہ اسلام اور اس کے نظام کے متعلق معلومات کے لئے قابل اعتبار کتابوں کا مطالعہ کرے، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا دین ہے، اور جو بھی اس کے بارے میں اپنے دینی جذبات اور نسلی تعصب سے دور رہ کر حق کو تلاش کرنے کے لئے پڑھے گا، مجھے اللہ تعالیٰ سےامید ہے کہ وہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہے گا اس کی بصیرت کو روشن کر کے اس کی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرے گا۔

مصنفہ([206])L.Veccia Vaglieri اپنی کتاب "اسلام کا دفاع" میں غیر مسلم ہونے باوجود کہتی ہیں : بدسلوکی پر ابھارنے والے امور اور ان کے نتائج سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک مسلمان عورت پردہ کرے ،اور اپنے پورے جسم کو ڈھانپ لے، سوائے ان حصوں کے جن کو کھول کر رکھنے کی انتہائی ضرورت ہو ،جیسے آنکھیں اور پاؤں، اور اس کا مقصد عورتوں کے احترام میں کمی اور ان کی مرضی ختم کرنے کے لئے نہیں، بلکہ مردوں کی شہوت سے محفوظ رکھنے کے لئے ہے، اور یہ قدیمی ضابطہ ہے جو عورتوں کو مردوں سے علیحدہ کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی اخلاقی زندگی کے سبب اس نے مشرقی ممالک میں زنا کی تجارت کو تقریبا مکمل طور پر نابود کردیا ہے، سوائے ان مقامات کے جہاں غیرملکیوں کا اثر و رسوخ ہے، اور اگر کوئی شخص اس زنا کی تجارت سے حاصل ہونے والی قیمت کا انکار نہیں کرسکتا ،تو ہم پر لازم ہو جاتا ہے کہ ہم واضح کردیں کہ پردہ مسلم معاشرے کا ایک ایسا فائدہ ہے جس کی قیمت کا انداز ہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔

 

../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAML

www.islamland.com

 

 

 

 

../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAMLAND/profil

 

([1]) الحجرات: 13

([2]) النساء: 19

([3])الروم: 21

([4]) وگرنہ یہ لوگ ان لوگوں کے حقوق کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے جنہیں ناحق قتل کیا جارہاہے،ان کے گھر اجاڑےجارہے ہیں ، ان کی ملکیتیں لوٹی جارہی ہیں ، اور ان پسماندہ اور غریب ممالک کے بھوکھوں اور مریضوں کے معمولی حقوق کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے، جبکہ ہمارا ان سے صرف یہی مطالبہ ہے کہ ان اسلامی معاشروں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں تاکہ اللہ تعالی نے انہیں جو دوسروں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے اسے بجالے آئیں جس کے پیچھے محض اللہ تعالی سے اجر وثواب کی امید ہے۔

([5]) مجلة المستقبل الإسلامي العدد 146 - 6/1424هـ The Debuchery Of American Womanhoot Bikini vs. Burka

([6]) صحيح البخاري ج 2 ص 882 رقم الصفحة 2361

([7]) الذاريات: 49

([8]) من كتاب القضاء والقدر للشيخ محمد متولي الشعراوي صفحة 130-132

([9]) Dr. G. Lebon  صفحة 488 تعريب / عادل زعيتر

([10]) النحل: 59

([11]) الإسراء: 31

([12]) الأنعام: 139

([13]( الأسفار المقدسة في الأديان السابقة د/ علي عبد الواحد وافي ص 168

([14]( ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين. للندوي نقلاً عن: قصة مها بهارات ( الملحمة الهندية الكبرى )

([15]( قصة الحضارة ل W. Durant ج3 م1 ص 178،180،181 ترجمة محمد بدران

([16]) حضارة العرب ل Dr. G. Lebon تأثير الإسلام في أحوال النساء في الشرق ص 406

([17]) ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين. للندوي نقلاً عن: R.C.DUTT. 331

([18]) ج3 م1 المرأة في الصين ل W. Durant

([19]) ج 4 م1 المرأة في الصين

([20]) حضارة العرب ص 406 ترجمة زعيترل: Dr. G. Lebon

([21]) ج 1 م 3 ص 119 ل W. Durant

([22]) قصة الحضارة ج9 ص 118، 119 ، 120 ترجمة محمد بدران ل: W. Durant

([23]) مقارنة الأديان . د/ أحمد شلبي ص 188 وكذلك كتاب حضارة العرب ص 408 ترجمة زعيتر ل Dr. G. Lebon

([24]) حضارة العرب ص 406 Dr. G. Lebon

([25]) حضارة العرب ترجمة زعيتر ص 408ل: Dr. G. Lebon

([26]) مقارنة الأديان . د/ أحمد شلبي ص 186

([27]) قصة الحضارة ج7 ص 117، 118 ترجمة محمد بدران ل: W. Durant

([28]) صفحة 406 تعريب / عادل زعيتر لDr. G. Lebon

([29]) دراسات في تاريخ حضارة اليونان والرومان ص 149 د / حسين الشيخ

([30]) سفر التكوين 3 / 1

([31]) الإصحاح السابع الفقرة 25/26

([32]) ج 2 م 1 ص 374 ل W. Durant

([33]) سفر التثنية الإصحاح 25 من سفر التثنية فقرة 5

([34]) مجموعه من القوانين اليهودية والعادات ل : الحاخام رابي سليمان جازفرايد ص 22

([35]) مقارنة الأديان د/ أحمد شلبي ص 187Feminism :translated to the English by Arthur Chater

([36]) الكتاب المقدس العهد الجديد الإصحاح 5 من رسالة بولس إلى أهل أفسس فقره 22 ص 317

([37]) النحل: 97

([38]) النساء: 1

([39]) سنن أ بي داوود ج 1 ص 61 رقم الحديث 236 وصححه الألباني

([40]) النور: 4

([41]) النساء: 7

([42]) النساء: 19

([43]) صحيح مسلم ج 2 ص 1108 رقم 1479

([44]) البقرة: 267

([45]) الأحزاب: 35

([46]) صحيح ابن حبان ج 9 ص 483 رقم الحديث 4176 وصححه الألباني في صحيح سنن أبي داود

([47]) سنن ابن ماجه ج1 ص 81 رقم الحديث 224 وصححه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة

([48]) أخرجه البخاري في الأدب المفرد وابن ماجة وأحمد وإسناده صحيح ، صححه الألباني في السلسلة الصحيحة ( 294 )

([49]) التوبة 71

([50]) التوبة: 6

([51]) صحيح البخاري ج 3 ص 1160 رقم الحديث 3008

([52]) صحيح البخاري ج1 ص 141 رقم الحديث 350

([53]) سنن الترمذي ج 4 ص 141 رقم الحديث 1579 (حسنه الألباني في صحيح الجامع حديث رقم : 1945)

([54]) الإسراء:31

([55]) الطلاق: 6

([56]) البقرة: 233

([57]) صحيح ابن حبان ج 10 ص 51 رقم الحديث 4240 وحسنه الألباني في سنن أبي داود

([58]) صحيح البخاري ج 1 ص 304 رقم الحديث 853

([59]) سنن أبي داوود ج 2 ص 283 رقم الحديث 2276 وحسنه الألباني

([60]) صحيح البخاري ج 5 ص 2235 رقم الحديث 5651

([61]) سنن ابن ماجه ج1 ص 81 رقم الحديث 224 وصححه الألباني في صحيح سنن ابن ماجة

([62]) صحيح البخاري ج 5 ص 1955 رقم الحديث 4795

([63]) النحل: 90

([64]) متفق عليه

([65]) صحيح البخاري ج 5 ص 1974 رقم الحديث 4843

([66]) صحيح البخاري ج 6 ص 2547 رقم الحديث 6546

([67]) صحيح ابن حبان ج 2 ص 189 رقم الحديث 446

([68]) صحيح مسلم ج 4 ص 2027 رقم الحديث 2630

([69]) صحيح مسلم ج 3 ص 1242 رقم الحديث 1623

([70]) رواه البزار في كشف الأستار رقم 1893 والهيثمي مجمع الزوائد ج 8 ص 156 وحسنه الألباني في الصحيحة (2994)

([71]) النساء: 10

([72]) المستدرك على الصحيحين ج 1 ص 131 رقم الحديث 211

([73]) الضحى: 9

([74]) صحيح البخاري ج 5 ص 2032 رقم الحديث 4998

([75]) الطبراني (صحيح) حديث رقم 80 في صحيح الجامع

([76]) صحيح البخاري ج 2 ص 870 رقم الحديث 2334

([77]) الروم: 21

([78]) النساء 4

([79]) النساء: 20

([80]) النساء: 19

([81]) صحيح ابن حبان ج 10 ص 7 رقم الحديث 4207, وفي السلسلة الصحيحة رقم: 2077.

([82]) صحيح مسلم ج 2 ص 886 رقم الحديث 1218

([83]) الطلاق 7

([84]) صحيح البخاري ج 6 ص 2052 رقم الحديث 5049

([85]) سنن البيهقي الكبرى ج 7 ص 469 رقم الحديث 15485

([86]) صحيح البخاري ج 2 ص 694 رقم الحديث 1867

([87]) البقرة: 222

([88]) مصنف عبدالرزاق ج 7 ص 152 رقم الحديث 12594 (مرسل)

([89]) صحيح مسلم ج 2 ص 1060 رقم الحديث 1437

([90]) النساء 19

([91]) البقرة: 229

([92]) صحيح البخاري ج 3 ص 1212 رقم الحديث 3153

([93]) صحيح مسلم ج 2 ص 1091 رقم الحديث 1469

([94]) صحيح ابن حبان ج 9 ص 483 رقم الحديث 4176, قال الشيخ الألباني في سنن الترمذي : حسن صحيح

([95]) صحيح ابن حبان ج 10 ص 545 رقم الحديث 4691, صحيح ، الإرواء ( 1502 ) ، الصحيحة ( 131 )

([96]) سنن النسائي والطبراني, صحيح

([97]) البقرة: 188

([98]) الشورى آيه: 38

([99]) صحيح البخاري ج 1 ص 239 رقم الحديث 644

([100]) صحيح البخاري ج 5 ص 2008 رقم الحديث 4946

([101]) سنن أبو داود ج 2 ص 244 رقم الحديث 2142, وصححه الألباني

([102]) صحيح البخاري واللفظ لابن ماجة.

([103]) المستدرك على الصحيحين ج1 ص 144 رقم الحديث 244, قال الذهبي في التلخيص : صحيح الإسناد

([104]) صحيح مسلم ج4 ص 2114 رقم الحديث 2761

([105]) سنن ابن ماجه ج 1 ص 643 رقم الحديث 1996, حسنه الألباني كما في سنن أبي داود

([106]) الإسراء: 23

([107]) المستدرك على الصحيحين ج 4 ص 167 رقم الحديث 7248, قال الذهبي في التلخيص : صحيح , وقال الألباني : حسن صحيح

([108]) صحيح البخاري ج 5 ص 2227 رقم الحديث 5626

([109]) لقمان 15

([110]) صحيح البخاري ج 5 ص 2229 رقم الحديث 5630

([111]) لقمان 15

([112]) صحيح ابن حبان ج 2 ص 172 رقم الحديث 429, صححه الألباني في سنن الترمذي

([113]) صجيح مسلم

([114]) صحيح البخاري ج 3 ص 1268 رقم الحديث 3253

([115]) صحيح مسلم ج 4 ص 1975 رقم الحديث 2549

([116]) صحيح البخاري ج 2 ص 924 رقم الحديث 2477

([117]) صحيح البخاري ج 2 ص 793 رقم الحديث 2152

([118]) صحيح ابن حبان ج 2 ص 177 رقم الحديث 435, قال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط الشيخين

([119]) صحيح مسلم

([120]) صحيح البخاري ج 1 ص 182 رقم الحديث 467

([121]) محمد: 22

([122]) صحيح مسلم ج 4 ص 1981 رقم الحديث 2556

([123]) صحيح ابن خزيمة ج 3 ص 278 رقم الحديث 2067, وصححه الألباني

([124]) النساء: 36

([125]) صحيح البخاري ج 5 ص 2239 رقم الحديث 5668

([126]) صحيح البخاري ج 5 ص 2240 رقم الحديث 5670

([127]) صحيح البخاري ج 5 ص 2047 رقم الحديث 5038

([128]) أخرجه أبو نعيم فى الحلية

([129]) مجلة المستقبل الإسلامي العدد 146 - 6/1424هـ The Debuchery Of American Womanhoot Bikini vs. Burka

([130]) من كتاب قادة الغرب يقولون : دمروا الإسلام أبيدوا أهله لجلال العالم

([131]) لوگوں کو عیسائی بنانے کی خاطر ان میں اجنیل کی تعلیمات عام کرنا۔

([132]) البقرة:120

([133]) مجلة المستقبل الإسلامي العدد 146 - 6/1424هـ The Debuchery Of American Womanhoot Bikini vs. Burka

([134]) بخاری: (3331) مسلم: (1468).

([135]) مسند الإمام أحمد ج 5 ص 256 رقم الحديث 22265, وصححه الألباني

([136]) تاريخ الزواج / Wester mark/ تعريب عبدالحميد يونس

([137]) المرأة في القرآن الكريم / عباس محمود العقاد

([138]) صحيح ابن حبان ج 9 ص 463 رقم الحديث 4156, وصححه الألباني

([139]) أخرجه أحمد والترمذي وصححه الألباني

([140]) عمدة التفسير , صححه أحمد شاكر في مقدمة تحقيق عمدة التفسير.

([141]) مجلة الأزهر المجلد الثامن 291

([142])ہم مؤلفہ کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اس نے تعدد ازواج کا مقارنہ زنا کاری کے ساتھ کیا ہے،ہاں تعدد ازواج صرف اسی صورت میں ناپسند ہے جب کسی محذور کا ارتکاب کیا جارہا ہو اور وہ یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل نہ کیا جائے۔

([143]) البقرة: 282

([144]) البقرة: 282

([145]) النور 6 - 9

([146]) النساء 34

([147]) المرأة في القرآن الكريم / عباس محمود العقاد

([148]) الإسلام يتحدى / وحيد الدين خان 168 Man The Unknown P.93-

([149]) النساء: 19

([150]) صحيح البخاري ج 4 ص 1670 رقم الحديث 4303

([151]) النساء: 19

([152]) النساء: 7

([153]) في ظلاال القرآن ج 1 ص 588

([154]) النساء: 11

([155]) صحيح البخاري ج 1 ص 435 رقم الحديث 1233

([156]) صحيح البخاري ج 1 ص 304 رقم الحديث 853

([157]) صحيح سنن ابن ماجه: 2363

([158]) عمل المرأة في الميزان . د / عبدالله بن وكيل الشيخ

([159]) نظرات في كتاب الحجاب والسفور / مصطفى الغلاييني 94-95

([160]) البقرة: 229

([161]) النساء 128

([162]) صحيح ابن حبان ج 9 ص 386 رقم الحديث 4075, صححه الألباني والأرنؤوط

([163]) صحيح البخاري ج 6 ص 2547 رقم الحديث 6546

([164]) صحيح البخاري ج 5 ص 1974 رقم الحديث 4843

([165]) المستدرك على الصحيحين ج 2 ص 179 رقم الحديث 2695, حسنه الألباني في سنن ابن ماجة

([166]) صحيح البخاري ج 2 ص 658 رقم الحديث 1763

([167]) صحيح البخاري 6161

([168])النساء: 19.

([169]) مسلم

([170])البقرة : 228.

([171]) مسلم

([172]) رواه الترمذي وابن حبان في صحيحه وقال الترمذي حديث حسن صحيح وهو في صحيح الجامع رقم : 1230

([173]) رواه ابن حبان في صحيحه والترمذي حديث رقم : 3314 في صحيح الجامع .

([174]) صحيح مسلم

([175]) صحيح البخاري

([176]) الأحزاب : 21

([177]) القلم : 4

([178]) أورده مالك في الموطأ و البخاري في الأدب المفرد وهو في " الصحيحة " ( رقم 45 )

([179]) رواه أحمد صحيح الجامع(4811)

([180]) رواه مسلم

([181]) رواه مسلم

([182]) رواه أبو داود وابن ماجه والدارمي. قال الألباني : صحيح

([183]) صحيح مسلم

([184]) الفرقان: 19.

([185]) صحيح مسلم.

([186])أحمد وصححه الألباني.

([187])النور‏: 23‏

([188])الأحزاب : 58

([189])البقرة : 188

([190]) أحمد والترمذي و النسائي قال الشيخ الألباني : حسن صحيح

([191]) النساء: 34

([192]) الترمذي قال الشيخ الألباني : حسن

([193]) متفق عليه

([194]) أحمد والترمذي و النسائي قال الشيخ الألباني : حسن صحيح

([195]) رواه البخاري في الأدب المفرد و الترمذي وصححه الألباني

([196]) متفق عليه واللفظ للبخاري

([197]) الروم :21

([198]) البقرة: 228

([199]) متفق عليه

([200]) المستدرك على الصحيحين ج 1 ص 131 رقم الحديث 211

([201]) الإسراء: 70

([202]) النساء: 1

([203]) الحجرات 13

([204]) التوبة: 71

([205]) آل عمران 195

([206]) موصوفہ اٹلی کی معاصر ریسرچر ہیں جو قدیم و جدید تاریخ اسلام پر دسترس رکھتی ہیں۔