آسمان میں چڑھنا

آسمان میں چڑھنا

 

ارشاد ربانی ھے:"فمن يرد الله أن يهديه يشرح صدره للإسلام ومن يرد أن يضله يجعل صدره ضيقاً حرجاً كأنما يصعد في السماء كذلك يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون"(سورة الأنعام آية125) 
ترجمہ: سو جس شخص کو اللہ تعالی راستہ پر ڈالنا چاھے اس کے سینہ کو اسلام کیلئے کشادہ کر دیتا ھے اور جس کو بے راہ رکھنا چاھتا ھے اس کے سینہ کو بہت تنگ کر دیتا ھے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ھے اسی طرح اللہ تعالی ایمان نہ لانے والوں پرناپاکی مسلط کر دیتا ھے ۔ (سورہ انعام آیت:125)
سائنسی حقیقت:
فضائی ترکیب کا علم مخفی تھا حتی کہ پاس کال(pascal) نے 1648ء میں یہ ثابت کیا کہ ھوا کا پریشر سمندری سطح کے لیول کےبلند ھونے سے کم ھوتا ھے اس کے ساتھ یہ بھی ثابت ھو گیا کہ ھوا ھوائی غلاف کے مقابلے میں نیچے کے طبقات میں زیادہ اثر اندوز ھوتی ھے۔ جس کی وجہ سے فضائی گیس سطح زمین کے درمیان اور سطح سمندر کے بیس ھزار قدم کی اونچائی کےدرمیان پچاس فیصد جمع ھو جاتی ھے۔  ارشاد ربانی ھے:"فمن يرد الله أن يهديه يشرح صدره للإسلام ومن يرد أن يضله يجعل صدره ضيقاً حرجاً كأنما يصعد في السماء كذلك يجعل الله الرجس على الذين لا يؤمنون"(سورة الأنعام آية125) 
ترجمہ: سو جس شخص کو اللہ تعالی راستہ پر ڈالنا چاھے اس کے سینہ کو اسلام کیلئے کشادہ کر دیتا ھے اور جس کو بے راہ رکھنا چاھتا ھے اس کے سینہ کو بہت تنگ کر دیتا ھے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ھے اسی طرح اللہ تعالی ایمان نہ لانے والوں پرناپاکی مسلط کر دیتا ھے ۔ (سورہ انعام آیت:125)
سائنسی حقیقت:
فضائی ترکیب کا علم مخفی تھا حتی کہ پاس کال(pascal) نے 1648ء میں یہ ثابت کیا کہ ھوا کا پریشر سمندری سطح کے لیول کےبلند ھونے سے کم ھوتا ھے اس کے ساتھ یہ بھی ثابت ھو گیا کہ ھوا ھوائی غلاف کے مقابلے میں نیچے کے طبقات میں زیادہ اثر اندوز ھوتی ھے۔ جس کی وجہ سے فضائی گیس سطح زمین کے درمیان اور سطح سمندر کے بیس ھزار قدم کی اونچائی کےدرمیان پچاس فیصد جمع ھو جاتی ھے۔
    اور سطح زمین اور سطح زمین سے پچاس ھزار قدم کی بلندی پر نوے (90)فیصد جمع ھو جاتی ھے ۔ اسی وحہ سے بلندی کے ساتھ ساتھ کثافت عام طور سے کم ھو جاتی ھے، اور فضا میں ختم ھونے سے پہلے اوپر کے طبقات کی آخری حدوں تک ھوا کا دباؤ پھونچ جاتا ھے ۔ اور سطح سمندر سے دس ھزار قدم کی بلند سے کم پر انسان کےوجود اس کے لئے کسی پریشانی کا باعث نھیں، اور دس ھزار سے لیکر پچیس ھزار قدم کی بلندی تک انسان کےسانس لینے کا نظام اس کا ساتھ دیتا ھےاور جیسے جیسے انسان آسمان میں اوپر کی طرف جاتا ھےتو فضائی پریشر کم ھوتا جاتا ھے، آکسیجن کی مقدار بھی کم ھو جاتی ھے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری اور سینے میں تنگی محسوس ھوتی ھے ۔ اور سانس لینے کی رفتاری آکسیجن کی ضرورت کی بنیاد پر تیز ھو جاتی ھے ۔ تو جب آکسیجن نہ ملے اور جسم کے خلیوں کے ضرورات اور  ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے بڑھ جاتے اور بلندی زیادہ ھو جاۓ تو ایسی صورت میں انسان آکسیجن کی کمی کے سبب سخت حالات کا سامنا کرتا ھے۔ اور اس وقت انسان کے سانس کے نظام کے فیل ھونے کا خطرہ ھوتا ھے جس سے وہ ہلاک ھو سکتا ھے۔
سبب اعجاز:
یہ بات مسلم ھے کہ وحی قرآنی کے زمانہ میں انسان کو یہ علم نھیں تھا کہ فضائی غلاف اور اس کے مختلف طبقات میں گیس کے ترکیبی اجزاء کیا ھیں اسی طرح اس کی اوپر کے طبقات میں پریشر کا کم ھونا اور جیسے جیسے انسان فضا میں اوپر جاتا ھے اسکی زندگی کیلئے ضروری آکسیجن کی مقدار کا کم ھونا اور اسکے نتیجہ میں سانس کے نظام اور انسانی زندگي کی بقا پر اس کا اثر پڑنا اور سانس نظام کا فیل ھو جانا اور پھر مر جانا ان سب چیزوں کا علم نھیں تھا بلکہ اس کے پر عکس لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جیسے جیسے انسان بلندی پر جاتا ھے اس کا سینہ کھل جاتا ھے اور وہ باد نسیم کےجھونکوں سے لطف اندوز ھونے لگتا ھے۔
آیت کریمہ نے وضاحت کے ساتھ ایسی دو حقیقتوں کی جانب اشارہ کیا ھے جدید سائنس نے جنکا ابھی حال ھی میں انکشاف کیا ھے پہلی حقیقت فضائی طبقات میں انسان کے اوپر جانے کے وقت سینے میں تنگی اور تنفس کی شکایت ھے اور یہ اب ظاھر ھو گیا ھے کہ فضا میں ھوا کا پریشر نیچے آنے اور آکسیجن کی کمی کی وحہ سے ایسا ھوتا ھے
   دوسری حقیقت یہ ھے کہ موت سے پہلے انسان گلا گھٹنے کی شکایت اور تنگی محسوس کرتا ھے جب وہ فضا کے طبقات تیس ھزار قدم کی بلندی پر پھونچ جاتا ھے،چونکہ فضائی پریشر بہت کو ھو جاتا ھے اور زندگی کیلئے ضروری آکسیجن بھی یہاں تک کہ پھیپھڑوں کی اندرونی آکسیجن بھی ختم ھو جاتی ھے جس کی وجہ سے انسان مرجاتا ھے یا ہلاک ھو جاتا ھے۔ غور کرنے کی بات یہ ھے کہ عربی زیان میں کلمہ (یصّعّد) چڑھنے میں شدت اور سختی پر دلالت کرتا ھے جو اس حاثے میں پیش آنے والی تکالیف اور پریشانیوں کی صحیح ترجمانی ھے کیااس حقیقت سے آگاھی علیم وخبیر کی وحی کے بغیر ممکن ھے؟