صرف ایک پیغام

صرف ایک پیغام!: اس کتابچہ میں اللہ کی توحید کے اس مشترکہ پیغام کو ذکر کیا گیا ہے جس کے ساتھ آدم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک سبھی نبی ورسول بھیجے گئے۔ اورآج یہودیوں اورعیسائیوں کے ہاتھوں میں موجود بائبل(عہدنامہ قدیم وعہد نامہ جدید) کے حوالے سے اللہ کی توحید کو ثابت کیا گیا ہے۔ضرورت ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس کتابچہ کی نشرواشاعت کرکے اس مشترکہ پیغام کو عام کیا جائے تاکہ لوگ حقیقت حال سے واقف ہوکرصرف معبود برحق کی عبادت کرکے دنیا وآخرت کی ابدی سعادت سے ہمکنار ہوسکیں۔

صِرف ایک پیغام!
رسالة واحدة فقط
(بالأردية)
تحریر: ڈاکٹرناجی بن ابراہیم  العرفج ۔حفظہ اللہ۔
ترجمہ: شفیق الرّحمن ضیاء اللہ مدنیؔ
مراجعہ:عطاء الرّحمن ضیاء اللہ مدنیؔ
ناشر: دفترتعاون برائے دعوت وارشاد،ربوہ،ریاض

 


 
۲۰۱۶ء¬---۱۴۳۷ھ

ہدیہ  

    ان لوگوں کے نام جو صدق واخلاص کے ساتھ حقیقت کے متلاشی ہیں۔
     جو بیدارمغز اور روشن ضمیروالے ہیں۔

 

مشتملاتِ کتاب

مطالعہ سے پہلے چند سوالات                                                     ۵                                             
                
اصل موضوع                                                                      ۶

بائبل(عہدنامہ قدیم) میں ایک اللہ کا ذکر                                ۲۳                      
بائبل (عہد نامہ جدید) میں ایک اللہ کا  ذکر                         ۲۵      

قرآن کریم میں ایک اللہ کا ذکر                                              ۲۷                      

خاتمہ                                                                                31

حرفِ آخر                                                                                                                        ۴۲                

مولّف کے  دیگر رسائل واعمال                                                                                           ۴۳         
مطالعہ سے پہلے چند سوالات:
۱۔اس ایک پیغام سے کیا مقصود ہے؟
۲۔اس  کے بارے میں بائبل کا کیا  کہناہے؟
۳۔اس کے بارے میں قرآن کریم کیا کہتا ہے؟
۴۔اس کے بعد اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟


اصل موضوع کا بیان :
سیّدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک اصلی پیغام لوگوں کی جانب بھیجا گیا۔ اس پیغام  کے بارے میں لوگوں کو یاددہانی کرانے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف  واپس لانے کے لیے واحد معبود برحق نے نبیوں اور رسولوں  جیسے آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ اورمحمد علیہم الصلاۃ والسلام  کوصرف ایک پیغام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا،اور وہ پیغام  یہ ہے کہ:
سچا معبود صرف ایک ہے، لہذا تم اسی کی عبادت کرو۔
برحق الٰہ واحد ہی (خالق) اوروہی معبود ہے

              اس  نے   :
۱۔نوح علیہ السلام کو اس پیغام کی تبلیغ کے لئے بھیجا  کہ اللہ ایک ہے، لہذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔
 ۲۔ابراہیم علیہ السلام کو اس پیغام کی تبلیغ کے لئے بھیجا  کہ اللہ ایک ہے، لہذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔
۳۔موسیٰ علیہ السلام کو اس پیغام کی تبلیغ کے لئے بھیجا کہ اللہ ایک ہے، لہذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔
۴۔ عیسیٰ علیہ السلام کو اس پیغام کی تبلیغ کے لئے بھیجا کہ اللہ ایک ہے، لہذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔
۵۔اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیغام کی تبلیغ کے لئے بھیجا کہ اللہ ایک ہے،لہذا تم صرف اسی کی عبادت کرو۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم  رسولوں  اور ان کے علاوہ دیگر نبیوں اور رسولوں   کوجن میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں اور بعض کو نہیں، کچھ  کاموں کی ادائیگی کے لئے مبعوث فرمایا ،جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱۔وحی الٰہی کو حاصل کرنا اور اس کو اپنی قوموں اور متبعین تک پہنچانا۔
۲۔لوگوں کو توحید اورہرطرح کی عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرنے کی تعلیم دینا۔
۳۔ قول وعمل میں اچھا نمونہ  بننا،تاکہ اللہ کی  راہ  پرچلنے میں لوگ ان کی اقتدا کرسکیں۔
۴۔اپنے پیروکاروں کو اللہ کا تقویٰ اختیارکرنے،اس کی اطاعت کرنے اور اس کے احکام کی تابع داری  کرنے کی طرف رہنمائی کرنا۔
۵۔اپنے پیروکاروں کو دین کے احکام،اور اخلاق حسنہ کی تعلیم دینا۔
۶۔ نافرما نی کرنے والوں اورمشرکوں جیسے بتوں کے پجاریوں وغیرہ کی ہدایت کرنا۔
۷۔لوگوں  کو اس بات سے آگاہ کرانا کہ وہ  مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جائیں گے،اور بروز قیامت ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا، پس جو شخص صرف اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کیا تو اس   کا بدلہ جنت ہے، اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو  شریک کیا،اور اس کی نافرمانی کی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
ان تمام نبیوں اور رسولوں کو صرف ایک معبود نے پیدا کیا اور مبعوث فرمایا ہے۔کائنات اور اس کے اندر موجودسبھی مخلوقات  اللہ خالق کے وجودپر ناطق ہیں،اور اس کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہیں۔چنانچہ اللہ ہی   کائنات اور اس کے اندر جتنے بشر،چوپائے اور کیڑے مکوڑے ہیں سب کا خالق ہے۔نیز وہی موت اورحیات فانی و حیات جاودانی کا خالق ہے۔
یہود ونصاریٰ اور مسلمانوں کی مقدّس کتابیں سبھی اللہ کے وجود اور اس کی توحید(ایک ہونے) پر شاہد ہیں۔
حق کا متلاشی اگر اخلاص  اورغیرجانبداری سے بائبل اور قرآن کریم میں الٰہ(معبود) کے مفہوم کا مطالعہ کرے تو وہ  ان یگانہ صفات کی پہچان کرسکتا ہے جو اللہ کے لئےخاص ہیں اوران میں کوئی نام نہاد وباطل معبود اس کاشریک نہیں ہے۔ان صفات میں سے چند یہ ہیں:
۱۔سچا معبود خالق ہے مخلو ق نہیں۔
۲۔سچا معبود ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں،اور نہ ہی وہ متعدد ہے،اور نہ ہی وہ کسی کا باپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کا  بیٹا ہے۔
۳۔اللہ رب العزّت مخلوق کے تصوّرات سے پاک ہے،اس  دنیا میں نگاہیں اس کا ادراک واحاطہ نہیں  کرسکتی ہیں۔
۴۔اللہ ازلی ہے اسے موت نہیں لاحق ہوتی،اورنہ ہی وہ کسی چیز میں حلول کرتا،اور نہ ہی وہ  اپنے مخلوقات میں سے کسی چیز کا شکل  وروپ اختیار کرتا ہے۔
۵۔اللہ بے نیاز اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے، تمام مخلوق سے  بے نیاز ہے، ان  کی حاجت نہیں رکھتا۔چنانچہ نہ اس کا باپ ہے اورنہ اس کی ماں ہے،نہ اس کی کوئی بیوی ہے نہ اس کا کوئی بیٹا ہے، نہ اسے کھانا یا پانی کی حاجت ہے اور نہ کسی کی مدد کی ضرورت ہے،لیکن  اللہ کی پیدا کردہ تمام مخلوقات  اس کی محتاج ہیں۔
۶۔اللہ جلال وکمال  اورجمال وخوبصورتی کی صفات میں یکتا وبے نظیر ہے،ان میں اس کا کوئی بھی شریک ومشابہ نہیں ہے، لہذا اس کے مثل کوئی چیز نہیں۔
ہم ان کسوٹیوں اورصفات کو( اور دیگر ان صفات  کوجن سے اللہ منفرد ہے) کسی بھی نام نہاد اورباطل معبود کی ابطال وتردید میں استعمال کرسکتے ہیں۔
اب میں اوپر ذکر کردہ ایک پیغام کے بارے میں گفتگو کی طرف لوٹتا  ہوں،تاکہ بائبل اور قرآن کریم  کے حوالوں سے بعض ان نصوص  کو نقل کروں جو اللہ کی وحدانیت کی تاکید کرتے ہیں۔لیکن اس سے پہلے میں آپ کے ساتھ اس فکر وسوچ کو بانٹنا چاہتا ہوں:
بعض عیسائی تعجب  کے طور پر یہ سوال کر سکتے ہیں کہ : یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ  ایک ہے،اورہم ایک معبود پر ایمان رکھتے ہیں،تو  پھرمعاملہ کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ عیسائی مذہب کے بارے میں بہت ساری کتابوں کے پڑھنے اور گہرا مطالعہ کرنے  نیز عیسائیوں کے ساتھ  بہت زیادہ بات چیت اور بحث ومباحثہ  کرنے کے بعد میں نے یہ پایا ہے کہ ان کے نزدیک’’اللہ‘‘ (جیسا کہ ان میں سے بعض لوگو ں کا خیال ہے)درج ذیل چیزوں کو شامل ہے:
۱۔ اللہ باپ.
۲۔اللہ بیٹا.
۳۔اللہ روح القدس.
 عام علم   اور منطق سلیم  ایک انصاف پسند ریسرچر  سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان عیسائیوں سے سوال کرے کہ:
    تمہارےقول ’’اللہ ایک ہے‘‘  کا کیا مطلب ہے جبکہ تم تین معبودوں کی طرف اشارہ کرتے ہو؟
    کیا اللہ ایک ہے جو تین میں حلول کیے ہوئے ہے،یا تین  ہے جو ایک میں حلول کیے ہوئے ہے۔( ایک تین میں ہے یا تین  ایک  میں )؟
مزید برآں ، بعض عیسائیوں کے عقائد  کے مطابق ان تینوں معبودوں کے مختلف وظائف، ڈھانچے اور اشکال وصورتیں ہیں جو اس طرح  ہیں:
۱۔ اللہ باپ =  یہی خالق ہے۔
۲۔ اللہ بیٹا = یہی نجات دہندہ  ہے۔
۳۔اللہ روح القدس =  یہ صلاح کار (محافظ و حمایتی )ہے۔
یہ  گمان رکھنا کہ مسیح اللہ کا بیٹا،یا وہ خود اللہ، یا اللہ کا  ایک حصہ ہیں، پورے طور سے اس بات کے خلاف ہے جسے توریت اور انجیل نے ثابت کیا ہے کہ  اس دنیا میں اللہ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا :
’’تم  لوگوں  نےاس کی آواز  کبھی نہیں سنا  اور نہ تم نے اس کا چہرہ دیکھا ہے‘‘۔(انجیل  یوحنا ۵:۳۷)
’’اسے  نہ کسی نے کبھی دیکھا  ہے اور نہ ہی کوئی اسے دیکھ سکتا ہے۔‘‘ (تیموتھیوس ون۶:۱۶)
’’کوئی بھی مجھے دیکھ نہیں سکتا اور اگر دیکھ بھی لے تو وہ زندہ  نہیں رہ سکتا  ہے‘‘ (الخروج ۳۳:۲۰)۔
میں ان  نصوص اور ان کے علاوہ  بائبل کے دیگر نصوص  کی بنیاد پر تعجب کرتے ہوئے پوری سچائی اور امانت داری سے یہ سوال کرتا ہوں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی اللہ (معبود) ہیں اور بائبل کے ان نصوص  کے درمیان جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے اللہ کو دیکھا ہو یا اس کی آواز سنی ہو، ان دونوں  متعارض باتوں کے درمیان کیسے تطبیق دیں گے؟!
    کیا اس وقت یہودیوں،عیسیٰ کے اہل خانہ اور ان کے پیروکاروں  نے عیسیٰ مسیح (بعض عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق اللہ بیٹا) کو نہیں دیکھا اور ان کی آواز نہیں سنی؟
    یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ توریت وانجیل تو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اللہ کو نہ کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ اس کی آواز سن سکتا ہے ،پھر ہم ایسے شخص کو پاتے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ عیسیٰ  جس کی شخصیت کو انہوں نے دیکھا او ر اس کی آواز سنی ہے وہی اللہ یا اللہ کا بیٹا ہے؟کیا اللہ کی حقیقت سے متعلق کوئی مخفی راز ہے؟
توریت تو بالکل اس کے برعکس بات کو زور دے کر بیان کرتی ہے، چنانچہ اللہ کے متعلق اس کا بیا ن ہے کہ: ’’بے شک میں ہی رب ہوں ،میرے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے، اور میں  پوشیدہ بات نہیں کرتا اور نہ ہی میرا مقصد پوشیدہ ہے۔۔۔ میں  اللہ ہوں اور میں سچ بولتا ہوں، اور جوکچھ سچ ہےاس کا اعلان کرتا ہوں‘‘۔ (اشعیاء ۴۵: ۱۸-۱۹ )
اس لئے: حقیقت وسچائی کیا ہے؟
ازراہ کرم! بائبل کے سابقہ نص کو بار بار پڑھیں اور دیرتک اس میں غوروفکر کریں۔
آئیے،اب ہم ایک ساتھ بائبل اور قرآن کریم میں اللہ کی حقیقت  کی کھوج کریں، امید ہے کہ آپ ان آیات ونصوص  میں تدبر کرنے اور اس کتابچہ کو نقد وانصاف  کےساتھ پڑھنے کے بعد اپنی آراء ونقطہ نظر سے مجھے نوازیں گے۔
موضوعیت وانصاف پسندی کا خیال کرتے ہوئے  میں بغیرکسی تعلیق وتبصرہ کے دلائل پیش کررہا ہوں، امید ہے کہ  آپ  مکمل توجہ اور انصاف کے ساتھ بغیرکسی سابقہ  رائے اور تصوّر قائم کئے ہوئے ان میں غوروفکر کریں گے۔
بائبل (عہد نامہ قدیم) میں ایک برحق اللہ  کا  ذکر:
    اے اسرائیل سن! رب ہمارا معبود ہے،رب ایک ہے۔(التثنیہ۶:۴)
    کیا اللہ واحد نے ہمارے لئے زندگی کی روح نہیں پیدا کیا اور ہمیں روزی دیا؟ (ملاخی۲:۱۵)
    تاکہ تم جان لو اور مجھ پر ایمان لاؤ،اور یہ جان لو کہ میں ہی وہ اللہ ہوں،مجھ سے پہلے کوئی معبود نہیں  تھا اور نہ ہی میرے بعد کوئی معبود ہو گا،میں  خود ہی رب ہوں،میرے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ (اشعیاء۴۳ :۱۰-۱۱)
    میں ہی اول وآخرہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ میرے جیسا کون ہے؟(اشعیاء۴۴:۶)
    کیا میں رب نہیں ہوں اور میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے؟ بھلائی کرنے والا اور نجات دینے والا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ (اشعیاء۴۵:۲۱)
کیا آپ کو اس جیسے دوسرے نصوص یاد ہیں؟

بائبل(عہد نامہ جدید) میں ایک برحق اللہ  کا ذکر:
    ابدی زندگی یہ  ہے کہ وہ  تجھ  صرف اللہ واحد حق  اور یسوع مسیح   کو ،جسے تونے بھیجا ہے جانے۔(انجیل یوحنا۱۷:۳(
    اپنے معبود اللہ کی عبادت کرو اور صرف اسی کی خدمت کرو۔(انجیل متی۴: ۱۰)
    اے اسرائیل سن! فقط ہمارا رب ہی ایک تنہا اللہ ہے ۔۔ ۔  کیونکہ اللہ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔(انجیل مرقس۱۲:۲۸-۳۳(
    کیونکہ اللہ ایک ہے، اور اللہ اورلوگوں کے درمیان واسطہ ایک ہے، اور وہ انسان یسوع مسیح ہیں۔ (تیموتھیوس کے نام پہلا خط ۲:۵)
    ایک آدمی عیسیٰ علیہ السلام  کے پاس آیا اور کہا: میرےنیک سردار،ابدی زندگی پانے کیلئے مجھے کیا اچھا کام کرنا چاہئے؟ تو (عیسیٰ علیہ السلام )نے اس سے فرمایا : ’’مجھے صالح (نیک) کہہ کر کیوں بلاتے ہو؟ صالح تو صرف ایک ہے اور وہ اللہ عزو جل ہے۔(انجیل متی ۱۹: ۱۶-۱۷ ،جیسا کہ شاہ جیمس کے نسخہ میں ہے)۔
کیا آپ  دوسرے نصوص بتاسکتے ہیں جن میں اس بات کی تاکید ہو کہ اللہ صرف ایک ہے؟(نہ کہ تین!)
قرآن کریم میں ایک برحق اللہ  کا ذکر:
    ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ  اللَّـهُ الصَّمَدُ  لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ  وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾
 ’’ آپ کہہ دیجئے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وه کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے ‘‘(سورہ اخلاص:۱۔۴)
     ﴿ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ ﴾ [الأنبياء:25]
’’ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو‘‘۔
    ﴿ لَّقَدْ كَفَرَ‌ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَـٰهٍ إِلَّا إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾[المائدہ:۷۳]
’’وه لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے، دراصل سوا اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔‘‘
    ﴿إِنَّ إِلَـٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ ﴾[الصافات:4]                      ’’یقیناً تم سب کا معبود ایک ہی ہے‘‘۔
    ﴿ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْ‌هَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴾ [النمل:64]
’’  کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل ﻻؤ‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ (اللہ کی توحید )کا پیغام ہی قرآن کریم کا بنیادی موضوع ہے۔  

 

خاتمہ
بائبل اور قرآن کریم  کی متذکرہ بالا نصوص اور ان کے علاوہ سینکڑوں دلیلیں،اس بات کی اس طرح تاکید کرتی ہیں کہ کوئی شک نہیں رہ جاتاکہ اللہ ایک ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا  برحق معبود نہیں، جیسا کہ بائبل  کہتا ہے:  ’’اے اسرائیل سن! رب ہمارا معبود ہے،رب ایک ہے ... کیونکہ اللہ ایک ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے‘‘۔(انجیل مرقس۱۲:۸-۳۳)
اور قرآن کریم اسی بات کو اللہ کے اس قول میں  بیان کرتا ہے:
﴿ قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾‘‘(سورہ اخلاص113:۱)
’’ آپ کہہ دیجئے کہ وه اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے‘‘۔
کتاب مقدّس صرف اس بات کی ہی تاکید نہیں کرتا کہ اللہ ایک ہے،بلکہ اس بات کی بھی تاکید کرتا ہے کہ اللہ ہی خالق   اور تنہا نجات دہندہ ہے،’’تاکہ تم جان لو کہ وہ میں ہی  ہوں، اور مجھ پرایمان رکھو، میں ہی اللہ  ہوں، مجھ سے پہلے کوئی معبود نہیں تھا اور میرے بعد بھی کوئی معبود نہیں ہوگا،میں خود ہی رب ہوں، میرے علاوہ کوئی نجات دہندہ نہیں ہے‘‘۔ (اشعیاء43:۱۰-۱۱)
اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام یا روح القدس یا ان کے علاوہ  کسی کی الوہیت کے قول کی کوئی دلیل وسند نہیں ہے،وہ سب صرف اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں،وہ کسی بھی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں۔ اس لئے وہ نہ تو معبود ہیں،اور نہ ہی اللہ کے تجلی وظہور ہیں، اور نہ ہی اس کے اوتار یا ہم مثل  ہیں،کیونکہ اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں  ہےجیسا کہ بائبل اور قرآن کریم نےذکر  کیا ہے۔
اللہ  تعالیٰ  یہودیوں   پر ان کے گمراہ ہوجانے اور غیراللہ کی عبادت کرنے کی وجہ سے غصّہ ہوا ہے: ’’ان پررب سخت غضبناک ہوا‘‘ (عدد۲۵:۳)
نیز موسیٰ علیہ السلام نے ان کے (خودساختہ) سونےکے بچھڑے کو توڑپھوڑ ڈالا۔
دوسری جانب،عیسائیوں میں سے توحید پرست جماعت کوعذاب اورظلم وستم کو برداشت کرنا پڑا،کیونکہ وہ اللہ کی توحیدپر ایمان لائی،اورعیسیٰ علیہ السلام کی حنیفیت (اللہ کی وحدانیت)کی تعلیمات کو تبدیل کرنے سے انکار کردیا،اور پال(Paul) اور اس کے متبعین کے ہاتھوں ظاہر ہونے والی تثلیث کی بدعت  کومسترد کردیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ اللہ  تعالیٰ نے آدم،نوح،ابراہیم،موسیٰ ،عیسیٰ ،محمد اور  دیگر تمام نبیوں اور رسولوں (ان سب پراللہ کی رحمت وسلامتی نازل ہو) کواس لئے بھیجا  تاکہ وہ لوگوں کو اللہ پر ایمان لانے اور ہر قسم کی عبادت کو صرف اسی کے لئے خاص کرنے کی دعوت دیں جس کا کوئی ساجھی وشریک نہیں، چنانچہ ان سب  کا صرف ایک پیغام یہی تھا کہ:
 سچا معبود صرف ایک ہے، لہذا  تنہااسی کی عبادت کرو۔
جب نبیوں اور رسولوں کا پیغام ایک ہی ہے، تو ان کا دین بھی ایک ہوا،  اس لئے سوال  اٹھتا ہے  کہ ان نبیوں اور رسولوں کا دین کیا ہے؟
ان کے پیغام کا جوہر وخلاصہ اپنے معاملہ کو "اللہ کےسپردکرنے‘‘ پرقائم ہے، یہی کلمہ عربی زبان میں  ’’اسلام‘‘ کے معنی و مفہوم کی تعبیر کرتا ہے۔
اورقرآن کریم نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ اللہ کے تمام نبیوں اورسولوں کا سچا مذہب اسلام ہی تھا، قرآن کی اس حقیقت   کو ہم بائبل میں بھی تلاش کرسکتے ہیں،(اگر اللہ نے چاہا ،تو بائبل میں اس حقیقت کی تلاش ہم آئندہ کتابچہ میں کریں گے)۔
آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ نجات حاصل کرنے کیلئے  ہمارے اوپر اس پیغام کو قبول کرنا اور سچائی واخلاص کے ساتھ اس پر یقین رکھنا ضروری ہے،لیکن صرف اتنا ہی  کافی نہیں ہوگا! بلکہ اللہ کے تمام انبیاء ورسولوں پر ایمان لانا (جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا بھی شامل ہے۔)اور ان کے طریقوں کی اتباع  کرنااور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے، یہی ابدی سعادت مندزندگی کا راستہ ہے۔
لہٰذا : اے اخلاص کے ساتھ حقیقت کے متلاشی اور نجات کے خواہاں،تجھے اس معاملے میں سوچناچاہئے اور آج ہی اس میں غوروفکر کرنا چاہئے اس سے پہلے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے ۔ اس  موت کے چنگل میں پھنسنے سے پہلے جس کا حملہ اچانک ہی ہوتا ہے!  کسے معلوم کہ موت کا بلاوا کب آجائے؟
اس  اہم اور فیصلہ کن امر  میں فکروتدبر اور نظرثانی کے بعد،آپ بصیرت افروز عقل اور سچے دل سے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک وساجھی نہیں ،اور نہ ہی اس کا  کوئی بیٹا ہے، اورآپ اس پر ایمان لے آئیں اور صر ف اسی کی عبادت کریں، اور اس بات پر بھی ایمان لائیں کہ نوح،ابراہیم،موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک  نبی ورسول ہیں۔
    اور اب آپ -اگر چاہیں تو-ان کلمات کی ادائیگی اپنی زبان سے کریں:
أشهد أن لا إله إلا الله و أشهد أن محمداً رسول الله
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں،اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘‘۔
یہ گواہی دائمی سعادت مند زندگی کے راستہ کا پہلا عملی قدم ہے،اور یہی جنت کے دروازے کی حقیقی کنجی ہے۔
اگر آپ نے اسلام کی راہ کو اپنانے کا من بنا لیا ہے ،تو آپ اپنے مسلمان دوست یا پڑوسی،یا قریب ترین مسجد یا اسلامی سنٹر  کی مدد لے سکتے ہیں، یا آپ   خود مجھ سے رابطہ قائم کریں یا خط لکھیں(اس سے میں سعادت محسوس کروں گا)۔
﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَ‌فُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّ‌حْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ‌ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ  وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَ‌بِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُ‌ونَ وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُ‌ونَ﴾  [الزمر: 53-55]
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے تم (سب) اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کئے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آ جائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے ‘‘۔
نیز ایک دوسری چیز بھی ہے...

حرفِ آخر
غوروفکراورتدبّر سے  اس ایک پیغام  کو پڑھنے کے بعد  سچے  اورسنجیدہ لوگ سوال کرسکتے ہیں کہ :
    حقیقت کیا ہے؟
    غلط کیا ہے؟
    کیا کرنا چاہئے؟
اگر اللہ نے چاہا تو ان مسائل وغیرہ کے بارے میں اپنے آنے والی کتاب میں بحث کروں گا۔
مولّف کے دیگررسائل واعمال
اوّل: تلاشِ حق سیریز
(محاسن اسلام  اورتقابل ادیان کے سلسلے میں ایک علمی مطالعہ)
۱۔وہ کون ہے؟
۲۔عیسائیت میں معبود کی طبیعت کیا ہے؟
۳۔صرف ایک پیغام!
۴۔حقیقت کیا ہے؟
۵۔غلط کیا ہے؟
۶۔جمالیاتِ اسلام
۷۔ابجدیات ِاسلام
۸۔اس کے بعد کیا ہوگا؟
دوم: مستقبل میں لکھے جانے والے رسائل:
    ابدی سعادت وفلاح کی کنجیاں
    جانیٹ کے نام ایک خط(Message to Janet)
    کیوں  ’’ہم ‘‘؟
سوم: دیگراعمال:
•    ہفتہ واری ٹیلیویژن پروگرام
•    آڈیوزاور ویڈیوزٹیلیویژن ایپی سوڈ
•    اسلام سے متعلق عمومی لکچرز
مزید معلومات یا سوالات  یا تجاویز  وآراء کے لئے درج ذیل عنوان پر مولف کتاب سے رابطہ قائم کرنے میں  کوئی تردّد نہ کریں :
ص. ب. ۴۱۸،ہفوف،احساء،۳۱۹۸۲،مملکت سعودی عرب
ایمیل: [email protected]
[email protected]
یا آفس کی طرف رجوع کریں ....  
ہم کسی بھی تعدیل واصلاح کو نہایت شرح صدر کے ساتھ قبول کریں گے۔                                                                       مترجم: ( شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنیؔ)
                    [email protected]