مضمون کے بارے میں

مصنف :

www.eajaz.org

تاریخ :

Thu, Jan 15 2015

قسم :

Scientific Miracles

ڈاؤن لوڈ کریں

پہاڑ شکل وصورت اور کام کے اعتبار سے بڑی میخیں

پہاڑ شکل وصورت اور کام کے اعتبار سے بڑی میخیں


 ارشاد ربانی ھے :"والجبال أوتاداً"(سورة النبأ آية 7)
ترجمہ:اور کیا ھم نے بہاڑوں کو (زمین کی) میخین نھیں بنایا؟
 (سورة النبا آیت 7) 
سائنسی حقیقت:
 پہاڑوں کے متعلق بہلے صرف اتنا علم تھا کہ سطح زمین سے بلند بہت ساری اونچی اونچی چٹانیں ھیں ۔ اور اس وقت تک یھی مشھور تھا جبکہ بیئر بوگر نے 1835ء میں اسکی طرف اشارہ کیا کہ انڈینز پہاڑوں کے سلسلے کی قوت جذب اتنے بڑے چٹانوں کے مجموعے سے متوقع قوت کے مقابلہ میں بہت کم ھے ۔ اور اس نے یہ تجویز پیش کی کہ بڑا بہاڑی سلسلہ انھیں پہاڑوں سے بنایا جاۓ تا کہ جاذبیت کی مقدار میں شذوذ کی تشریح مکمل ھو اور انیسویں صدی کے وسط میں جورج ایوریسٹ نے ھمالیہ پہاڑ میں دو مختلف جگھوں پر جاذبیت کےناپنے کے نتائج کے سلسلے میں شذوذ کی طرف اشارہ کیا ، اور ایوریسٹ بھی اس حقیقت کو واضح نہ کر سکا تو اس نے اسکا نام ھندوستانی معمہ رکھ دیا اور 1865ء میں جورج ابری نے یہ اعلان کیا کہ کرّہء ارض پرتمام پہاڑی سلسلے زمین کے نچلے چھلکےکے مادوں سے سمندر کے اوپرتیر رھے ھیں اور یہ موجودہ مادے پہاڑی مادوں کے مقابلے میں زیادہ کثیف ھیں ۔ اسی وجہ سے پہاڑوں کو اتنی ھیئت اور سیدھا پن برقرار رکھنے کیلئے ان زیادہ کثافت والے مادوں میں مل جانا ضروری ھے    (سورة النبا آیت 7) 
سائنسی حقیقت:
 پہاڑوں کے متعلق بہلے صرف اتنا علم تھا کہ سطح زمین سے بلند بہت ساری اونچی اونچی چٹانیں ھیں ۔ اور اس وقت تک یھی مشھور تھا جبکہ بیئر بوگر نے 1835ء میں اسکی طرف اشارہ کیا کہ انڈینز پہاڑوں کے سلسلے کی قوت جذب اتنے بڑے چٹانوں کے مجموعے سے متوقع قوت کے مقابلہ میں بہت کم ھے ۔ اور اس نے یہ تجویز پیش کی کہ بڑا بہاڑی سلسلہ انھیں پہاڑوں سے بنایا جاۓ تا کہ جاذبیت کی مقدار میں شذوذ کی تشریح مکمل ھو اور انیسویں صدی کے وسط میں جورج ایوریسٹ نے ھمالیہ پہاڑ میں دو مختلف جگھوں پر جاذبیت کےناپنے کے نتائج کے سلسلے میں شذوذ کی طرف اشارہ کیا ، اور ایوریسٹ بھی اس حقیقت کو واضح نہ کر سکا تو اس نے اسکا نام ھندوستانی معمہ رکھ دیا اور 1865ء میں جورج ابری نے یہ اعلان کیا کہ کرّہء ارض پرتمام پہاڑی سلسلے زمین کے نچلے چھلکےکے مادوں سے سمندر کے اوپرتیر رھے ھیں اور یہ موجودہ مادے پہاڑی مادوں کے مقابلے میں زیادہ کثیف ھیں ۔ اسی وجہ سے پہاڑوں کو اتنی ھیئت اور سیدھا پن برقرار رکھنے کیلئے ان زیادہ کثافت والے مادوں میں مل جانا ضروری ھے۔
       اسی طرح بتدریج جیولوجی علم نے یہ ثابت کردیا ھے کہ زمینی پرت ملے ھوۓ قریبی ٹکڑوں سے عبارت ھے جن کو ھم الواح (تختیاں) یا ٹھرے ھوۓ پٹرے کہہ سکتے ھیں اور بڑے پہاڑ معمولی چٹانوں کے مقابلے میں جو ان سے زیادہ کثیف ھوتی ھیں جو کسی سمندر پرختم ھوتے ھیں ۔ اور پہاڑوں کی بھی جڑیں ھوتی ھیں جو ختم ھونے میں اور ان تختیوں کے جمنے میں معاون ثابت ھوتی ھیں تاکہ پہاڑ تل نہ سکے۔ وان انگلن(Van Anglin) نے اپنی تصنیف (Geomorphology) شائع شدہ 1948ء کے ایڈیشن صفحہ 27 پر رقم طراز ھے " کہ اب یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ رؤے زمین کے اوپر ھر پہاڑ میں ایک جڑ کا پایا جانا ضروری ھے جہاں تک زمینی پرت کے جمانے میں پہاڑوں کا کردار ھے تو زمیں کے ھائیڈرو اسٹیٹی توازن کے اصول سے اس کی تائید ھوتی ھے جیسا کہ امریکی جیولوجسٹ ڈیٹون(Dutton) نے 1889ء میں اس کا ذکر کیا ھے جو یہ ثابت کرتا ھےکہ پہاڑی بلندیاں اپنی بلندی کے اعتبار سے اسی مقدار میں زمین میں گھری ھوتی ھیں اور زمینی تختیوں کی حقیقت کی تائید1969ء میں ھوئی جس میں کہ واضح ھوا کہ پہاڑ زمینی پرت کی ھر تختی کا توازن بر قرار کھتے ھیں۔
سبب اعجاز:
 ایسے وقت میں جب کہ انسان پہاڑوں کی حقیقت سے نا واقف تھا اور انیسویں صدی کے نصف تک نا واقف ھی رھا اس وقت قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں پورے جزم ویقین کے ساتھ  وضاحت کی کہ پہاڑ شکل وصورت اور کام کے اعتبار سے بڑی میخوں کے مشابہ ھیں اور عصر حاضر مین اس دقیق تشبیہ کی سچائی بھی ثابت ھو گئی چونکہ میخ کا ظاھری حصہ زمین کے اوپر اور ایک حصہ زمین کی پرت کے اندر ھوتا ھے اور اس کا کام اپنے متعلقات کو جماۓ رکھنا ھے اور اسی طرح سے پہاڑوں کا ایک حصہ روۓ زمین کے اوپر ظاھر ھے ۔ اور دوسرا حصہ ظاھری بلندی کے اعتبار سے زمین کے اندر پوشیدہ ھے پہاڑوں کا کام زمین کی پرت کی تختیوں کو جماۓ رکھنا اور ان کو نیچے طبقات کے رد فعل کے نتیجہ میں ملنے نہ دینا ھے اس سے یہ واضح طور پر پتہ چلتا ھے کہ قرآن اللہ کا کلام ھے جو پہاڑوں کو اور کائنات کو پیدا کرنے والا ھے اللہ تعالی نے سچ فرمایا:"ألا يعلم من خلق وهو اللطيف الخبير"(سورة الملك آية 14)
ترجمہ: اور کیا وہ جانے گا جس نے پیدا کیا ھے اور وہ باریک بیں (اور) پورا باخبر ھے۔