مضمون کے بارے میں

مصنف :

www.eajaz.org

تاریخ :

Thu, Jan 15 2015

قسم :

Scientific Miracles

ڈاؤن لوڈ کریں

حجر صحی (صحی پتھر)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکشاف ھے

حجر صحی (صحی پتھر)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکشاف ھے

 

ی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ھے: "جب تمھیں کسی سر زمین میں طاعون کا علم ھو تو اس میں نہ داخل ھو۔  اور جب کسی ایسی زمین میں طاعون پھیل جاۓ جہاں تم پہلے سے موجود ھو تو اس سے مت نکلو" بخاری ومسلم۔ اور ارشاد نبوی ھے:" طاعون سے بھاگنے والا ایسا ھی ھے جیسے کوئی شخص لشکر کے ڈر سے بھاگے، اور جو اس پر صبر کرے اس کے لئےایک شہید کے برابر اجر ھے"  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ھے: "جب تمھیں کسی سر زمین میں طاعون کا علم ھو تو اس میں نہ داخل ھو۔  اور جب کسی ایسی زمین میں طاعون پھیل جاۓ جہاں تم پہلے سے موجود ھو تو اس سے مت نکلو" بخاری ومسلم۔ اور ارشاد نبوی ھے:" طاعون سے بھاگنے والا ایسا ھی ھے جیسے کوئی شخص لشکر کے ڈر سے بھاگے، اور جو اس پر صبر کرے اس کے لئےایک شہید کے برابر اجر ھے" مسند احمد۔

سائنسی تحقیق:

سائنس نے ترقی کرلی اور کائنات کے خفیہ عوالم واسرار سامنے آگئے، اور وباءوں اور امراض کی کثرت وانتشار کے ذرائع و وسائل کا بھی علم ھو گیا۔ اور یہ بھی واضح ھوگیا کہ تندرست لوگ جن کے اوپر امراض کے اثرات ظاھر نہیں ھوتے ایسی جگہوں میں جہاں کوئی وباء عام ھو ان لوگوں کے اندر مرض کا مائیکروب ھوتا ھے،اور ان کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ھونے سے اس وباء کے منتقل ھونے کا حقیقی خطرہ ھوتا ھے اور اس حقیقت کے انکشاف سے اس وقت معروف ومشھور حجر صحی کا نظام سامنے آیا جس میں کسی وباء زدہ شھر کے باشندوں کو دوسری جگہ منتقل ھونے کی ممانعت ھے۔اسی طرح نئے آنے والوں کوبھی  اس شھر میں داخل ھونے کی ممانعت ھے اور پندرھویں صدی میں یورپ میں طاعون کی وباء عام ھوئی جس کی وجہ سے وھاں کے چوتھائی باشندے لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کے بر عکس عالم اسلامی میں اس کا تناسب کم رھا۔اور مہلک وبائیں اور لگنے والے امراض کا تناسب عالم اسلامی میں یورپ کے مقابلہ میں بہت کم رھا۔

سبب اعجاز:

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی آپ کے زمانہ میں بھی اور آپ کے بعد بھی میکروبات کے باستیر کے انکشاف سے پہلےـ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خبیث روحیں، جنات اور ستارے امراض کا سبب ھیں، اور نظافت وپاکیزگی، نظام اور سلوک سے اس کا کوئی تعلق نھیں ھے۔ مزید یہ کہ مرض کےجراثیم منتقل ھونے سے اس کا کوئی تعلق نھیں ھے ۔ اور شعبدہ بازی اور خرافات سے وہ اس کا علاج بھی کیا کرتے تھے۔

ایسے حالات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی ضابطہ اور قاعدہ بیان کیا جو امراض اور وباؤں کے اسباب کےانکشاف کے بعد جدید احتیاطی طب کا ایک حجر اساس سمجھا جاتا ھے۔ تا کہ شھروں اور انسانی سوسائٹیوں میں وبائیں اور امراض عام نہ ھوں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " إذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوا عليه وإذا وقع بأرض فلا تخرجوا منها"بخاري ومسلم. یہ فرما کر اس سائنسی حقیقت کا انکشاف فرما دیا۔

اور اس عظیم نبوی وصیت اور حکم کی تنفیذ کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وباء کی جگہ ایک مضبوط فصیل (دیوار) بھی کھڑی کردی ھے، جس میں صابر و محتسب کیلئے اسی جگہ ٹھھرنے پر شھید کے اجر کا وعدہ کیا ھے۔ اور راہ فرار اختیار کرنے والے کو ہلاکت وبربادی سےآگاہ کیا ھے ارشادربانی ..... آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادھے کہ طاعون کی جگہ سے بھاگنے والا جنگ میں پیش قدمی سے بھاگنے والے کی طرح ھے اور جس نے طاعون میں کے علاقے میں رہ کر صبر کیا اس کے لئے شہادت کا ثواب ھے(بخاری ومسلم )    

چنانچہ اگر آج سے صرف دو سو سال قبل اگر کسی صحیح اور تندرست آدمی سے جو لوگوں کو وبائی امراض سے مرتے ھوۓ دیکھـ رھا ھو اور وہ صحیح اور تندرست ھوتا اور کہا جاتا کہ یھیں ٹھرو کھیں مت جاؤ، تو اس کو پاگل پن یا اپنے زندگی کے حق میں اس کو ظلم سمجھتا،اور ایسی جگہ بھاگ نکلتا جہاں یہ وباء نہ ھو، ایسے حالات میں صرف مسلمان ھی ایسے تھے جو اس جگہ سے راہ فرار اختیار نھیں کرتے تھے  اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرتے حالا نکہ ان کو اسکی حکمت بھی نہیں معلوم تھی اور اپنے اس فعل کی بنیاد پر غیر مسلموں کی جانب سے مذاق کا نشانہ بنتے۔ یہاں تک کے جب شفا نے اس بات کی تاکید کردی کہ تندرست اور زبردست مناعت والے لوگ جن پر وباء کے  شھر میں امراض کے آثار ظاھر نہ ھوں۔ ان کے اندر وبا‏ئی مرض کا میکروب موجود ھوتا ھے ۔ اور ان کے دوسری جگہ منتقل ھونے میں وبائی میکروب کے منتقل ھونے سے  شدید خطرہ پیدا ھو سکتا ھے۔ اور چونکہ وہ تندرست لوگوں سے بے جھجھک اور بے خوف وخطر ملتے جلتے ھیں اور مہلک وباء کے جراثیم کو ان کےاندر منتقل کر دیتے ھیں جو حقیقی مریضزں کے ملنے جلنے سے بھی زیادہ خطرناک ھے چونکہ لوگ ان سے ملنے جلنے میں احتیاط سے کام لیتے ھیں۔ کس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حقیقت سےآگاہ کیا ؟

کیا یہ ممکن ھے کہ ایک انسان 1400سال پہلے اس طرح کے باریک حقائق کے متعلق گفتگو کرے؟ الایہ کہ اس کا کلام وحی پر مبنی ھو جو اس ذات کی جانب سے آئی ھے جو اپنی مخلوق کے بارے میں اچھی طرح جانتا ھےاور پوری طرح با خبر ھے ، ارشاد ربانی ھے :

 (وقل الحمد لله سيريكم آياته فتعرفونها وما ربك بغافل عما تعملون) سورہ النمل 93۔

اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم  ؛ آپ کہہ دیجئے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ھیں اور عنقریب وہ اپنی نشانیاں دکھاۓ گا جن کو تم پہچان لوگے ، اور تمہارا رب تمہارے اعمال سے غافل نھیں ھے۔