مضمون کے بارے میں

مصنف :

www.eajaz.org

تاریخ :

Thu, Jan 15 2015

قسم :

Scientific Miracles

ڈاؤن لوڈ کریں

پیچھے ھٹنے والے، چلنے اور چھپنے والےستارے

پیچھے ھٹنے والے، چلنے اور چھپنے والےستارے



میں قسم کھاتا ھوں پیچھے ھٹنے والے،چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی۔   ارشاد باری ھے"فلا أقسم بالخنس، الجوار الكنس" (سورة التكوير – آية 15-16).

ترجمہ:میں قسم کھاتا ھوں پیچھے ھٹنے والے،چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی۔

سائنسی حقیقت:

    بڑے ستارے Black Holes کی زندگی میں بڑھاپے کا مرحلہ بڑے کالے سوراخ کے ذریعہ ظاھر ھوتا ھے جو سورج سے پانچ گنا زیادہ بڑا ھوتا ھے۔ اور وہ کالا سوراخ بہت کثیف اور بہت جاذب ھوجاتا ھے۔ اس طرح کہ اس کی جاذبیت کی طاقت سے کوئی چیز چھوٹ نھیں پاتی، یہاں تک خود اس کی روشنی جس کی  رفتار تین سو ھزار کلو میٹر فی سکنڈ ھوتی ھے۔ اسی وجہ سے اس کا یہ نام ھے وہ مختلف علاقوں کےوجود کا عکس لئے ھوۓ ھے جس طرح آسمان میں سوراخ ھوتے ھیں جن میں ھر چیز چھپ جاتی ھے، پھر خالی جگھیں ظاھر ھوتی ھیں اور یہ پوشیدہ بڑے ستارے اپنے راستے سے ھر چیز کو یہاں تک کہ دوسرے ستاروں کو بھی ھٹا دیتے ھیں اور Giants Vacuum -cleaners کے اندازے اس پر دلالت کرتے ھیں جن کا نام بڑے صفائی کرنے والا رکھا گیا اس نظریہ کی رو سے جو کارل شفارز Karl Schwars  نے 1916ء اور چائلڈ Child نے 1934ء میں قائم کیا ۔ اور 1961ء میں روبرٹ اوپن ھائمر Robert Oppen Heimer نے تاکیدی طور پو اس کے وجود کا اندازہ کیا ، اور سائنسداں یہ خیال کرتے ھیں کہ مثال کے طور پر ھمارے کہکشاں کا مرکز کالے سوراخ سے عبارت ھے ۔

سبب اعجاز:

قرآن کریم کے اسلوب کی نفی در اصل اس کی تاکید ھے، گویا کہ اللہ رب العزت یہ فریاتا ھے کہ اس واضح دلیل کی موجودگی میں قسم کی کوئی ضرورت نھیں ھے، اور قسم دلیل کے اس مقام پر آئی ھے کہ قرآن اللہ تعالی کی جانب سے وحی ھے۔

ارشاد باری ھے " فلا أقسم بالخنس،الجوار الكنس , والليل إذا عسعس, والصبح إذا تنفس , إنه لقول رسول كريم" (سورة التكوير آيت 15- 19).

ترجمہ: میں قسم کھاتا ھوں پیچھے ھٹنے والے چلنے پھرنے والے چھپنے والے ستاروں کی اور رات کی جب جانے لگے اور صبح کی جب چمکنے لگے یقینا یہ ایک بزرگ رسول کا کہا ھوا ھے ۔

قسم کی اھمیت وعظمت سے مقسوم بہ کی عظمت کا بھی اندازہ ھوتا ھے جو یہاں ان تمام صفات کے ساتھ مذکور ھے جو مکمل طور پر کالے سوراخوں کی صفات سے ملتی جلتی ھیں، وہ در اصل اپنے دائرہ میں چلنے والے ستارے ھیں جن کیلئے (جوار) کا لفظ استعمال کیا گیا ھے ۔ اور "خنس" کا لفظ لغوی اعتبار سے معنی اس کے مکمل مطابق ھے جس کے معنی چھپ جانے پردہ میں آنے پوشیدہ ھو جانے اور ظاھر ھو جانے کے بعد مٹ جانے اور ختم ھو جانے کے ھیں اور در حقیقت وہ ایسے بڑے بڑے ستارے ھیں جو آخری عمر میں ھیں جن کا مادہ بھی ختم ھونے کو ھے اور جو پوشیدہ ھیں ان کی معمولی سی روشنی کی جھلک دکھائی دیتی ھے ۔ اس کا سبب اسکی قوت جذب کی شدت ھے جو ھر قریبی چیز کو صاف کر لیتی ھے اور نگل جاتی ھے جس سے اسکی قوت میں اضافہ ھو جاتا ھے ۔ یہاں اسی کو لفظ "الکنس"کےذریعہ بیان کیا گیا ھے اور ان اوصاف کا علم عصر جدید ھی میں ھوا ھے لہذا قرآن کریم میں اتنے دقیق الفاظ کے ساتھ اسکی وصف بیانی اس بات کی کھلی دلیل ھے کہ خالق کائنات اللہ رب العزت کا کلام ھے ۔