اسلام امن و سلامتی کا دین ہے

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے
الإسلام دين السلام باللغة الأردية

تالیف
ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبد الکریم الشیحہ

مترجم
المركز الأوروبي للدراسات الإسلامية
و نظام الدین یوسف
نظرثانی
ذوالفقار علی طاہر
 

www.islamland.com

 

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
مقدمہ
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
اسلام کا سورج طلوع ہونے سے قبل یہ زمین ایسا ٹکڑا تھا جس میں خونیں جنگیں بھڑکی ہوئی تھیں ، جس نے لاکھوں لوگوں کو نگل لیا تھا، اور اطمینان وسکون کا لفظ انسانی لغت سے غائب کردیا تھا۔
 جب ہم صرف اکیلے براعظم یورپ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ملکوں کی سرحدیں ایک دن بھی اپنی جگہ نہیں رہیں، ہر ملک دوسرے پر زیادتی کرتا ، ان پر فدیہ نافذ کرتا ، جو جنگی صلح اور ولایت کی علامت ہوتا۔
انسانوں میں رنگ ، نسل ، دین ، گروہ بندی اور دنیاوی مفادات کی بناء پر آپس میں نفرت پھیل چکی تھی، انسانی زندگی کی حرمت کا کوئی احترام نہیں تھا، چاہے وہ جنگ کرنے ولے ہوں یا صلح کرنے والے، خاندانی حقوق کا کوئی احترام نہیں تھا، پانی کی طرح ان کا خون بہایا جاتا ۔
لوگوں کے مال اور ان کی عزتوں کا کوئی احترام نہیں تھا، ان کے مال اور ان کی عورتیں لوٹ لیے جاتے اور ان کے بیٹوں کو قیدی بنا کر غلاموں کی منڈیوں میں بیچ دیا جاتا۔
انسانیت عالمی امن و استقرار سے ناآشنا تھی ، اگر واقف تھی تو صرف جنگ، خوف وہراس ، دہشت گردی، استعمار، ظلم وسرکشی اور لوگوں کو غلام بنانے سے۔
اسلام سے قبل قومیں یہ نہیں جانتی تھیں کہ عقائد میں آزادی کیا ہوتی ہے، اور یہ کہ ہر فرد اپنا دین اختیار کرنے میں آزاد بھی ہوسکتا ہے۔
لوگوں کے ہاں عام قاعدہ یہی تھا کہ وہ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں، اسی لیے بیزنطینی شہنشاہیت کے کسی بھی فرد کو اجازت نہیں تھی کہ فارسی سرکش شہنشاہیت کا دین اپنائے، بصورت دیگر اسے خائن تصور کرلیا جاتا، اسی طرح فارسی شہنشاہیت کے کسی بھی فرد کو اجازت نہیں تھی کہ وہ شہنشاہی دین کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرے، ایسی صورت میں اسے خائن تصور کرکے قتل کر دیا جاتا۔
معاملہ یہاں تک پہنچ چکا تھا کہ ایک ہی دین کے ماننے والوں میں نفرت پھیل چکی تھی، جس نے آرتھوڈکس ، کیتھولک اور نصاری کے دیگر فرقوں کے درمیان دینی جنگیں بھڑکا دی تھیں۔
قاعدہ یہ تھا کہ ہر وہ شخص جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے آپ اسے دہشت گرد، بےدین اور خائن کہیں گے جسے قتل کرنا یا قیدی بنانا واجب ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ زمین پر ظلم ، سرکشی ، اور اللہ تعالی کے ساتھ شرک کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :" میری بعثت سے پہلے اللہ تعالی نے اہل زمین کی طرف دیکھا تو ان کے عرب وعجم پر ناراض ہوا سوائے اہل کتاب کے کچھ باقی رہ جانے والے لوگوں کے"  ۔
اسی بناء پر اسلام پوری کائنات کے لیے سلامتی کا پیغام لیکر آیا، اور عام شہریوں پر ظلم وزیادتی کو حرام قرار دیا،یہاں تک کہ قیدیوں تک کے حقوق واضح کردیئےاور یہ سب جینوا معاہدہ جو سن 1400 ھ کو ہوا ، اس سے پہلے ہوا ، اسلام نے عدل و مساوات کا حکم دیا ، اور قابل نفرت تعصب جو رنگ ، نسل، جنس اور قومیت پر قائم تھا ، اسے ختم کیا، حکام کے جبروتشدد پر تنقید کی جو اپنے عوام پر جبرا اپنا دین مسلط کرتے اور اپنی قوم تک توحید اور اسلام کا پیغام پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے تھے۔
اسی طرح اسلام نے لوگوں کی زندگی ، ان کے اموال، اور ان کی عزتوں پر تجاوز حرام قرار دیکر ہر ایک کے حقوق مقرر کردیئے۔
اسی طرح وہ غیر مسلم جو اسلامی مملکت میں رہتے ہیں ان پر بھی کچھ واجبات رکھ دیئے، ان معاہدوں کا احترام لازمی اور دھوکہ، عہد شکنی، اور خیانت کو حرام قرار دیا۔
آنے والی فصلوں میں ہم ان تمام اشیاء کو اللہ تعالی کے حکم سے تفصیل سے بیان کریں گے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس کتابچہ کو ہر اس شخص کے لیے فائدہ مند بنائے جو اللہ تعالی کے دین ، دین اسلام کی معرفت چاہتا ہےاور اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دے ۔ (آمین)۔


اسلام کا معنی
ہمارے معزز قاری کے لیے اسلام میں سلامتی کا معنی واضح کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسے کلمہ " اسلام" کا عام معنی اور مفہوم معلوم ہو ، اس لیے کہ اسلام ایک ایسا کلمہ ہے جو اپنے اندر بہت سارے معنی سمیٹے ہوئے ہےجو انسان کو اطمینان ، سکون، اور انسانی غلامی سے آزادی کا احساس دلاتا ہے، اسلام کا معنی یہ ہے کہ:
اسلام روحانی اور جسمانی طور پر اللہ رب العالمین کے سامنے جھک جانے اور عاجزی اختیار کرنے کا نام ہے ، وہ اس طرح کہ اس کے اوامر کو بجا لایا جائے اور اس کی قضا ء و قدر کے سامنے سر تسلیم خم کیاجائے۔
اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السالم کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے:
إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ  
ترجمہ: اور جب ان کے رب نے ان سے فرمایا: (میرے سامنے) گردن جھکا دو، تو عرض کرنے لگے: میں نے سارے جہانوں کے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا ۔
یہی وہ حقیقی اسلام ہے جسے ہر مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ "
ترجمہ: فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
اور " السلام " اللہ عزوجل کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ "
 ترجمہ: وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (حقیقی) بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، ہر نقص سے سالم (اور سلامتی دینے والا) ہے، امن و امان دینے والا (اور معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے والا) ہے، محافظ و نگہبان ہے، غلبہ و عزّت والا ہے، زبردست عظمت والا ہے، سلطنت و کبریائی والا ہے، اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔
اسی طرح "السلام " جنت کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ "
ترجمہ: انہی کے لئے ان کے رب کے حضور سلامتی کا گھر ہے اور وہی ان کا مولٰی ہے ان اعمالِ (صالحہ) کے باعث جو وہ انجام دیا کرتے تھے.
اسی طرح " السلام" اہل جنت کا آپس میں تحفہ ہوگا، اللہ تعالی مجھے اور آپ کو ان میں سے بنائے (آمین) اللہ تعالی کا فرمان ہے:
تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهُ سَلَامٌ وَأَعَدَّ لَهُمْ أَجْرًا كَرِيمًا "  
ترجمہ: جس دن وہ (مومِن) اس سے ملاقات کریں گے تو ان (کی ملاقات) کا تحفہ سلام ہوگا، اور اس نے ان کے لئے بڑی عظمت والا اجر تیار کر رکھا ہے۔
اسی طرح "السلام" مسلمانوں کا آپس میں سلام ہے(السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ) تم پر اللہ سلامتی ، رحمت اور برکتیں ہوں۔
کس قدر عمدہ سلام اور شیریں کلمہ ہے ، یہ ایک ایسا تحفہ ہے کہ جب اسے پیش کیا جاتا ہے اور سنا جاتا ہے تو یہ دلوں میں قربت پیدا کرتا ہے، بغض اور نفرت کو ختم کرکے نفس کو اطمینان ، سکون اور راحت عطا کرتا ہے، اس لیے کہ یہ سلام درحقیقت امن و امان اور سلامتی سے کنایہ ہوتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے اسے ایمان کو مکمل کرنے والے امور مین سے بتلایا ہے، چناچہ فرمایا: " تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ ، اور ایمان دار نہ بنو گے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے، اور میں تم کو وہ چیز نہ بتلاؤں کہ کہ جب تم اس کو کرو گے تو آپس میں محبت ہوجائے؟ (پس اس کے لیے تم) سلام کو آپس میں رائج کرو"  ۔
اسی رسول اللہ ﷺ نے اسے بہترین اعمال مین سے قرار دیا جب آپ سے پوچھا گیا کہ : اسلام میں کونسا عمل بہتر ہے فرمایا:" تم کھانا کھلاؤ اور جسے پہچانتے ہو اسے اور جسے نہیں پہچانتے اسے سلام کرو" ۔
اسلام اسی لیے آیا ہے کہ لوگوں کی خیر کی طرف رہنمائی کرے، انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور بندوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی بندگی کی طرف لے جائے۔
جو بھی شخص دین اسلام کی پیروی کرے گا، خالص نیت کے ساتھ اللہ تعالی کو راضی کرنے والے اعمال بجا لائے گا، جلد ہی اللہ تعالی اس کی سلامتی کی راہوں کی طرف راہنمائی کرے گا، اپنی مشیئت اسے صراط مستقیم دکھا دے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (15) يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (16) "  
ترجمہ: اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید) آگیا ہے اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہے۔
دین اسلام در حقیقت سلامتی کا دین ہے اس تمام تر مفہوم کے ساتھ جو اس کلمہ (اسلام ) میں پایا جاتا ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:" مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں اور مہاجر وہ جو اس چیز کو چھوڑ دے جس سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے"  ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : " مومن وہ ہے جسے لوگ اپنے خون اور اپنے مال پر امین بنائیں" ۔

کیا اسلام جبرا پھیلا ہے؟
اسلام کی بنیادی تعلیمات اس طرح کی تہمتوں کو ختم کردیتی ہیں جو اسلام سے بغض رکھنے والے لوگوں کی زبانوں پر گھومتی رہتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:" لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ "  
ترجمہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :" وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ  
ترجمہ: اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے، (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:" وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ
ترجمہ" اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:" ' فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ "
ترجمہ: سو اگر (پھر بھی) وہ رُوگردانی کریں تو (اے نبیِ معظم!) آپ کے ذمہ تو صرف (میرے پیغام اور احکام کو) صاف صاف پہنچا دینا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:" فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ (21) لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ (22)
ترجمہ:" پس آپ نصیحت فرماتے رہئے، آپ تو نصیحت ہی فرمانے والے ہیں آپ ان پر جابر و قاہر (کے طور پر) مسلط نہیں ہیں۔
اس معنی میں اور بھی بہت سی آیات ہیں۔
اسلام اس لیے بھی جبرا نہیں پھیلا کہ اسلام ایک عقیدہ ہے اور عقیدے کے لیے دل کا اقرا رلازمی ہے، محض زبان سے الفاظ ادا کردینا کافی نہیں ، اور دل کا اقرار انسان سے جبرا نہیں کروایا جاسکتا، اس لیے کہ بسا اوقات انسان اپنی زبان سے کوئی بات کہہ رہا ہوتا ہے جس پر دل کے ساتھ اس کا اعتقاد نہیں ہوتا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:" مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ "
 ترجمہ :جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے ۔
کیا اسلام بزور قوت پھیلا ہے؟
ہر نظام کے لیے ایک قوت کا ہونا لازمی ہے جو اس نظام کی حفاظت کرے ، اس کے نفاذپر نظر رکھے ، اور جو ان تعلیمات کی خلاف ورزی کرے اس پر اسے باز رکھنے کے لیے سزائیں نافذ کرے، اور یہی قوت اس نظام کی عملی تطبیق اور اسکے تسلسل کی ضامن ہوتی ہے۔
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں :" بلاشبہ اللہ تعالی حکمران کے ذریعے ( کچھ لوگوں کو خلاف شرع کاموں سے ) روکتا ہے جو قرآن کے ذ ریعے نہیں روکتا"(اسے رزین نے روایت کیا ہے اس کی سند منقطع ہے اور مشہور یہی ہے کہ یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے)۔
حدیث کا معنی یہ ہے کہ کچھ لوگ کسی جرم کے ارتکاب سے بسا اوقات اس لیےباز رہتے ہیں کہ انہیں علم ہوتا ہے کہ حکمران انہیں دنیاوی سزا دیں گے، جبکہ وہ لوگ قرآن کریم کا اس جرم کو حرام قرار دینے اور اس پر اخروی سزا کی وعید سے نہیں ڈرتے،اسی بناء پر اللہ تعالی نے حکمرانوں کو اختیار دیا کہ وہ جرائم پیشہ افراد کو سزائیں دیں تاکہ لوگوں کو ان جرائم سے روک سکیں۔
مندرجہ ذیل سطروں میں ہم اسلام کے آغاز کی تاریخ کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں:
محمد رسول اللہ ﷺ مکہ میں تیرہ برس رہے اور لوگوں عمدہ نصیحت کے ذریعے اسلام کی دعوت دیتے رہے، اس دوران آپ اور آپ کے پیروکار تکذیب ، تنگیوں اور پریشانیوں کا سامنا کرتے رہے، جبروتشدد برداشت کرتے رہے، معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ آپ کی قوم آپ پر ایمان لانے والوں کو عذاب دیتی، آپ ﷺ ان کے پاس سے گزرتے وہ لوگ انہیں عذاب دے رہے ہوتے اور آپ ﷺ انہیں صبر کی تلقین کے علاوہ ان کے لیے کچھ نہ کرپاتے۔
 آپ ﷺ کا گزر عمار بن یاسر اور ان کی والدہ سمیہ رضی اللہ عنہما کے پاس سے ہوا ، انہیں عذاب دیا جارہا تھا، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:" آل یاسر صبر کرو ،تم سے جنت کا وعدہ ہے"
معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ وہ لوگ آپ ﷺ کو قتل کرنے اور آپ کی دعوت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشورے کرنے لگے،اور آپ ﷺ ان کے لیے یہی دعا کرتے کہ :" یا اللہ ! میری قوم کو معاف کردے ، پس بیشک وہ نہیں جانتے" ۔
اور آپ کا رب آپ کو بعض آیات کے ذریعے صبر کا حکم دیتا ، آپ کو یہ تسلی دیتا کہ آپ کے علاوہ دیگر رسول بھی جھٹلائے گئے تھے ، انہیں بھی تکلیفیں دی گئی تھیں ، اس لیے کہ دعوت کا راستہ طویل اور پرمشقت ہوتا ہےاور یہ حق و باطل اور خیرو شر کے درمیان جنگ ہوتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:" فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ "   
ترجمہ: (اے حبیب!) پس آپ صبر کئے جائیں جس طرح (دوسرے) عالی ہمّت پیغمبروں نے صبر کیا تھا اور آپ ان (منکروں) کے لئے (طلبِ عذاب میں) جلدی نہ فرمائیں۔
آپ ﷺ ہر سال مکہ آنے والے قبائل پر خود کو پیش کرتے ، یہاں تک کہ اہل مدینہ میں سے کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے اور آپ سے بیعت کی کہ آپ اور آپ پر ایمان لانے والے اگر ان کی طرف ہجرت کر کے آئیں گے تو وہ آپ کی مدد اور آپ کا دفاع کریں گے۔
آپ ﷺ مدینہ کی جانب ہجرت کر گئے اور مکہ میں گزارے ہوئے تیرہ سالوں میں آپ نے خون کا ایک قطرہ تک نہیں بہایا، قریش نے آپ ﷺ اور آپ کے ساتھ ہجرت کرنے والے مسلمانوں کے اموال اور ان کی ملکیتیں روک لیں ۔
آپ ﷺ نے لڑائی کا حکم اس وقت دیا جب مدینہ کی طرف ہجرت کو دو سال کا عرصہ بیت چکا تھا ، ہر طرف آپ کے دشمن پھیلتے جارہے تھے، لوگ آپ اور آپ کی دعوت کے خلاف موقعہ کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھے تھے، اور آپ ﷺ نے کبھی بھی خود سے جنگ کا آغاز نہیں کیا۔
اور چونکہ مدینہ قریش کے شام کی طرف جانے والے تجارتی قافلوں کی راہ میں آتا تھا، لہذا پہلی مڈبھیڑ تب ہوئی جب رسول اللہ ﷺ قریش کے تجارتی قافلے کی طرف نکلے تاکہ ان پر اقتصادی راہ داری کو محصور کر کے انہیں مجبور کرسکیں کہ وہ آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں ، لوگوں کو اس دعوت کے قبول کرنے سے نہ روکیں ، آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو تکلیف مت دیں ، اور اس لیے بھی کہ آپ اور آپ کے صحابہ کا مال جو مکہ میں لوٹا گیا تھا ، اسے واپس لے سکیں ، لیکن وہ قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں جو کہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا ، بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
جب قریش کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے جنگ تیاری شروع کردی ، اپنے جنگجوؤں کو تیار کیا، اور محمد رسول اللہ ﷺ سے جنگ کی خاطر نکل کھڑے ہوئے، پھر اسلام کا وہ پہلا معرکہ بپا ہوا جس میں آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو غلبہ نصیب ہوا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (39) الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (41) "  
ترجمہ: ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔
بلکہ اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ وہ تما م تر فتوحات جو آپ ﷺ کو تیئیس (23) سال کے عرصہ میں حاصل ہوئیں جو آپ ﷺ کی بعثت سے لیکر وفات تک کا عرصہ ہے جس میں آپ ﷺ نے پورے جزیرۃ العرب کو اپنے تابع کردیا ، اس پورے عرصہ میں مسلمانوں اور مشرکوں میں سے مقتولین کی تعداد تین سو پچھتر (375) سے زیادہ نہیں تھی۔
اسی طرح آپ ﷺکےبعد آپ کے خلفائے راشدین بھی آپ کے نقش قدم پر چلے، انہوں نے حسن خلق ، اعلی سلوک اور عمدہ طریقے سے دعوت کے ذریعےملک کے ملک فتح کیے۔
ایک نیا مسلم جس کا نام بشیر احمد شاد ہے کہتا ہے: جو سوال مجھے سب سے زیادہ پریشان کرتا تھا وہ یہ کہ ہم عیسائی سوچتے ہیں کہ اسلام بذریعہ تلوار پھیلا ہے، تو میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اگر ایسا ہے تو پوری دنیا جہاں مسلمان نہیں پہنچے وہاں اسلام کیسے پہنچا، لوگ کیسے مسلمان ہوئے اور ہو رہے ہیں ؟ہر روز بے شمار لوگ کیوں بغیر کسی جبر و تشدد کے اسلام قبول کر رہے ہیں ؟۔
پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا اسلام وہ واحد دین ہے کہ جس نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس دین کی نشر واشاعت اور اس کے دفاع کی خاطر قوت حاصل کریں ؟
تورات میں سفر تثنیہ اصحاح بیس عدد دس اور اس کے بعد یہ لکھا ہے کہ:
10 جب تُو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اُسکے نزدیک پہنچے تو پہلے اُسے صلح کا پیغام دینا ۔
11 اور اگر وہ تُجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگذار بنکر تیری خدمت کریں ۔
12 اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تُو اُسکا محاصرہ کرنا ۔
13 اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا ۔
14 لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور اُس شہر کے سب مال اور لُوٹ کو اپنے لیے رکھ لینا اور تُو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو کھانا ۔
15 اُن سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور اِن قوموں کے شہر نہیں ہیں ۔
16 پر اِن قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا ۔
17 بلکہ تُو اِنکو حتی اور اموری اور کعنانی اور فرزی اور حوی اور یبوسی قوموں کو جیسا خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے بالکل نیست کر دینا۔
اسی طرح انجیل متی اصحاح دس عدد پچیس اور اس کے بعد اسی حوالے لکھا ہے کہ:
34 یہ نہ سَمَجھو کہ مَیں زمِین پر صُلح کرانے آیا ہُوں۔ صُلح کرانے نہِیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہُوں۔
35 کِیُونکہ مَیں اِس لِئے آیا ہُوں کہ آدمِی کو اُس کے باپ سے اور بیٹی کو اُس کی ماں سے اور بہوُ کو اُس کی ساس سے جُدا کردُوں۔
36 اور آدمِی کے دُشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔
37 جو کوئی باپ یا ماں کو مُجھ سے زیادہ عزِیز رکھتا ہے وہ میرے لائِق نہِیں اور جو کوئی بَیٹے یا بیٹی کو مُجھ سے زیادہ عزِیز رکھتا ہے وہ میرے لائِق نہِیں۔
38 اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اُٹھائے اور میرے پِیچھے نہ چلے وہ میرے لائِق نہِیں۔
39 جو کوئی اپنے جان بَچاتا ہے اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطِر اپنی جان کھوتا ہے اُسے بَچائے گا۔
گستاؤلی بان اپنی کتاب " تمدن عرب" صفحہ 127-128 پر لکھتا ہے:قرآن کے پھیلنے میں قوت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، بلاشبہ(اسلام نے جنگ میں )مغلوب ہونے والوں کو اپنے ادیان میں آزادی دی ، پھر جب کچھ نصرانی اقوام نے دین اسلام قبول کیا، اور عربی کو بطور زبان اپنایاتو انہوں نے (جنگوں میں ) غالب ہونے والوں کا ایسا عدل دیکھاجیسا انہوں نے اپنے سابقہ سرداروں کے پاس نہیں دیکھا تھا، اور اسلام میں ایسی ایسی سہولتیں دیکھیں جن سے وہ واقف نہیں تھے۔


کیا اسلامی فتوحات کا سبب مال و دولت کی محبت اور اقوام کی ملکیتیں لوٹنا تھا؟
جو شخص بھی اسلامی تعلیمات ، اس کی اساسیات ، اور اس کے اعلی مقاصد سے واقف نہ ہو، ممکن ہے کہ اس کے ذہن میں یہ سوچ پیدا ہو، اور اس تصور کو جوکہ خالصتا مادی تصور ہے وہ اسے مان بھی لے کہ اسلامی فتوحات کا سبب مال و دولت کی محبت اور اقوام کی ملکیتیں لوٹنا تھا۔
تو ہم کہیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے آغاز میں ہی آپ کی قوم نے آپ کے ساتھ مذاکرات کیے ، ہر طرح کی ترغیبات دیکر آپ کو بہلانا چاہا، آپ کے تمام تر مطالبات کو پورا کرنے کے وعدے کیےکہ اگر آپ سردار بننا چاہتے ہیں تو وہ آپکو سردار بنا دیتے ہیں ، اگر آپ شادی کرنا چاہتے ہیں تو تمام عورتوں سے بڑھ کر خوبصورت عورت سے آپ کی شادی کروا دیتے ہیں ، اگر آپ مال چاہتے ہیں تو آپ کو مال دیتے ہیں بشرطیکہ آپ اس دعوت کو چھوڑ دیں جو ان کے نظریے کے مطابق ا ن کے معبودوں کی قدر و قیمت اور معاشرے میں ان کے مقام و مرتبےکو کم کررہی ہے۔
تو آپ ﷺ نے اپنی رب کی راہنمائی کے ذریعے مکمل اعتماد کے ساتھ ان سے کہا کہ :" میں تمہارے لیے یہ چھوڑ دوں ، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا، الا یہ کہ تم سورج کا شعلہ لاؤ "  ۔
مطلب یہ کہ میں اسلام کی دعوت دینا ترک نہیں کر سکتا ، یہاں تک کہ تم میرے پاس کوئی انتہائی ٹھوس دلیل لاؤ ، اور میرے لیے سورج کا ایک شعلہ بھڑکا کر لاؤ۔
اگر آپ ﷺ جھوٹے اور من گھڑت داعی ہوتے اور دنیاوی سازوسامان اور بشری مقاصد کی لالچ ہوتی تو ان پیش کشوں کو قبول کرتے ،موقعہ سے فائدہ اٹھاتے، اس لیے کہ آپﷺ کو جو پیش کیا گیاوہ ہر انسان کا اعلی مقصد ہوتا ہے۔
اسی طرح جب اللہ تعالی نے آپ کو غلبہ نصیب فرمایا تو آپ کے ارد گرد کے بادشاہوں اور گورنروں سے خطوط کے ذریعے یہی مطالبہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی بادشاہت اور جو کچھ ان کے زیر دست ہے وہ اپنے پاس رکھیں ، بس اسلام قبول کرلیں ۔
ان ہی میں سے رسول اللہ ﷺ کا شہنشاہ روم کی طرف خط بھی تھا جس میں آپﷺ نے فرمایا:" شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔
 اللہ کے بندے اور رسول محمد (ﷺ) کی طرف سے یہ خط ” ہرقل ” کے نام ہے جو روم کا بادشاہ ہے۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو ہے۔ اس کے بعد میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں تو مسلمان ہو جا تو سلامت رہے گا۔ اللہ تجھ کو دو گنا ثواب دے گا۔ اور اگر تو نے روگردانی کی تو رومیوں کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ (يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَلاَ نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ)   "  
 اے اہل کتاب !ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ہم میں سے بعض لوگ دوسرے بعض لوگوں کو رب نہ بنائیں اور اگر تم نہیں مانتے تو گواہ ہوجاؤ کہ ہم مسلمان ہیں !۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :" رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر جس بھی چیز کا سوال کیا جاتا ، آپ اسے وہ چیز عطا کردیتے ، چناچہ آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا ، آپ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان موجود بکریاں دے دیں ، وہ شخص اپنی قوم کے پاس واپس پہنچا تو کہنے لگا : لوگو ! مسلمان ہو جاؤ، پس بیشک محمد ﷺ اتنا دیتے ہیں کہ فقر کا ڈر ہی نہیں رہتا "۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اگرچہ آدمی جب مسلمان ہوتا تو اس کا مقصد دنیا ہوتا لیکن وہ جیسے ہی مسلمان ہو جاتا تو اسلام اسے دنیا اور اس پر موجود ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوجاتا"۔
ایک دن آپ ﷺ کے ساتھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے، انہوں نے اپنی نگاہ کمرے میں دوڑائی تو انہیں حجرے میں کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی ، جس پر رسول اللہ ﷺ لیٹے تھے جس نے آپ کے پہلو پر نشانات چھوڑے تھے، اور گھر کی کل ملکیت میں جو کا ایک صاع جو ایک برتن میں رکھا تھا اور آپ کے قریب کھونٹی پر چمڑے کا مشکیزہ لٹکا ہوا دیکھا ، آدھا جزیرۃ العرب آپ کا مطیع بن چکا تھا اور آپ کی کل ملکیت یہی تھی، جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھا تو اپنی آنکھوں کو آنسو بہانے سے نہ روک سکے ، رسول اللہ ﷺ نے ان سے رونے کا سبب معلوم کیا تو کہنے لگے:میں کیوں نہ روؤں ؟ بیشک قیصر و کسری دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی ملکیت صرف وہی ہے جو میں دیکھ رہاہوں ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:" کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا اور ہمارے لیے آخرت ہو؟" ۔
پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت کے بعد کونسا دنیاوی سازوسامان پیچھے چھوڑا ۔
عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ دینار نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کوئی اور چیز سوائے اپنے سفید خچر اور اپنے اسلحہ اور ایک زمین کے جسے آ پ ﷺ نے صدقہ کردیا تھا ۔
بلکہ رسول اللہ ﷺ جب فوت ہوئے تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جَو کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی۔
تو پھر کہاں ہے دنیا کی طمع اور مال وشہرت کی لالچ؟
یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دوسرے خلیفہ جن کے عہد میں اسلامی فتوحات کیا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا، بھوک کی وجہ سے ان کے پیٹ سے آوازیں آتیں تو وہ اپنا مشہور جملہ کہتے کہ:تم ڈکاریں لو یا نہ لو، اللہ کی قسم تم اس وقت تک سیر نہیں ہو گے جب تک مسلمان سیر نہ ہوجائیں۔
 احد کے دن ، دوران قتال نبی ﷺ نے فرمایا:" جنت کی طرف اٹھ کھڑے ہوں جس کی چوڑائی سارے آسمان اور زمین ہیں "۔
یہ سن کر حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا (شہادت کے عوض) آسمانوں اور زمین کی چوڑائی کے برابر جنت ہے؟
رسول اللہ ﷺنے فرمایا: " ہاں"۔
عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "بخ بخ" ۔
رسول اللہ ﷺنے دریافت فرمایا: "بخ بخ کہنے پر تجھے کس نے ابھارا"؟"
عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! قسم اللہ کی میں نے یہ جنت کی اُمید میں کہا ہے ، رسول اللہ ﷺنے فرمایا :" تم جنت والوں میں سے ہو"۔
اس کے بعد عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ اپنے ترکش سے کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔پھر شوق شہادت میں کہنے لگے: اگرمیں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہوں تو یہ بڑی ہی طویل زندگی ہو جائے گی"۔چنانچہ انہوں نے بقیہ ساری کھجوریں پھینک دیں اور آگے بڑھ کر مردانہ وار جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔
مسلمانوں کو جو آغاز اسلام میں فتوحات حاصل ہوئیں صرف وہ فتوحات ہی ان کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے پرتعیش زندگی بسر کرنے کے لیے کافی تھیں، لیکن وہ وہاں رکے نہیں ، کیوں کہ ان فتوحات کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ اللہ کی دین کی دعوت عام کی جائے اور تمام مخلوق تک اس کی تبلیغ کی جائے، نہ یہ کہ مفتوحہ علاقوں کی ملکیت اور ان کی جائیداد پر قبضہ کیا جائے۔
اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے وہ قوموں کو جنگ کرنے سے پہلے اختیار دیتے کہ یا تو وہ مسلمان ہو جائیں ، اس صورت میں ان کے بھی وہی حقوق ہوں گے جو عام مسلمانوں کے ہوتے ہیں ، اور ان کے ذمے بھی وہی امور ہیں جو عام مسلمانوں کے ذمے ہیں ، اگر وہ اسلام کا انکار کردیتے ہیں تو جزیہ دیں ، جزیہ مال کی معمولی مقدار ہوتی ہے جو اسلامی حکومت ان سے ان کی حفاظت اور عام سہولتوں سے استفادہ کے عوض لیتی ہے، اور ان پر اس کے علاوہ اور کچھ نہ ہوتا ، جبکہ مسلمانوں پر سالانہ زکاۃ ادا کرنا واجب ہوتا جو جزیہ سے کئی گنا زیادہ ہوتی۔
اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کردیتے تو اللہ کے دین کو پہنچانے کی خاطر ان سے جنگ کی جاتی، اس لیے کہ ممکن ہے کہ ایسے لوگ ہوں جو اسلام اور اس کے اعلی مقاصد کو پہچان لیں تو ایمان لے آئیں ، اس لیے اس دین کو پہنچانے کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بنتا اس سے جنگ کی جاتی۔
اسلامی فتوحات کے عظیم قائد ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہیں اسلام سے پہلے یا اسلام میں کسی بھی جنگ میں شکست نہیں ہوئی ، جب وہ فوت ہوئے تو ان کے پاس صرف ایک گھوڑا ، ایک تلوار اور ایک غلام تھے، تو پھر کہاں ہے دنیا کی طمع اور مال وشہرت کی لالچ؟
اس بات کی دلیل کہ اوائل مجاہدین کا مقصد دین کی نشر واشاعت ہوتا تھاوہ واقعہ بھی ہے جسے شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ : ایک اعرابی نبی ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ پر ایمان لایا اور آپ کے تابع ہو گیا پھرکہنے لگا میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں۔ نبی ﷺنے اس کے متعلق اپنے بعض صحابہ کو تاکید فرمائی ۔ جب ایک جنگ ہوئی تو نبی ﷺ کو کچھ غنیمت حاصل ہوئی ۔ آپ ﷺ نے اسے تقسیم کر دیا اور اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا ۔ وہ ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا ۔ جب وہ آیاتو انہو ں نے اس سے وہ دیا ۔ کہنے لگا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا تمہارا حصہ ہے جو نبیﷺ نے تمہارے لئے نکالا ہے ۔ اُ س نے وہ لے لیا اور لے کر نبی ﷺ کے پاس آ یاکہنے لگا یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :" میں نے یہ تمہارا حصہ نکال ہے" کہنے لگا :" میں اس کیلئے آپ کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس ( مقصد ) کیلئے آپ کے پیچھے چلا ہوں کہ مجھے ( حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہاں تیر لگے تو میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں آپ ﷺ نے فرمایا:" اگر تم اللہ سے سچ کہو گے تو اللہ بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا" ۔ اس کے بعد تھوڑی دیر گزری۔ پھر وہ دشمن سے لڑنے کیلئے کھڑے ہوئے، اور اسے اٹھاکر نبی ﷺکے پاس لایا گیا اور اس کو وہیں تیر لگا جہاں اُ نے اشارہ کیا تھا ۔ آپﷺ نے فرمایا ": کیا یہ وہی ہے"؟ صحابہ نے کہا:" جی ہاں ! آپ ﷺنے فرمایا :" اس نے اللہ تعالیٰ سے سچ کہا تو اللہ نے اس سے سچ کا سلوک کیا " ، پھر نبی ﷺنے اسے خود اپنے جبہ میں کفن دیا ۔ پھر اسے آگے رکھ کر اس کا جنازہ پڑھا ۔ تو جنازے میں آپ ﷺکے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند الفاظ یہ تھے:" اے اللہ یہ تیرا بند ہے، ہجرت کر کے تیری راہ میں نکلا پس شہید ہو کر قتل ہوا۔ میں اس بات پر گواہ ہوں ''۔
اسلامی تاریخ کے کتب اس طرح کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں جو اوائل مسلمانوں کے اس دنیا کے ساتھ زہد پر دلالت کرتے ہیں ، جن کا ہدف اور بنیادی مقصد اللہ کے دین کی دعوت اور تمام انسانوں تک اس کی تبلیغ کرنا تھا، اس کامیابی کے حصول کی چاہت میں جس کا رسول اللہ ﷺ نے ان سے وعدہ کیا تھا، فرمایا تھا : " اگر اللہ تعالی تمہارے ذریعے ایک شخص کو ہدایت دےدے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے"۔
بلکہ ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے کہ جن کے مال و جاہ اور سلطنتیں اس دین کو اپنانے کی وجہ سے ختم ہو گئیں، یا تو ان کے اہل اور ان کی قوم کی ان سے لاتعلقی کی وجہ سے ، یا دعوتی امور میں مصرفیت کی وجہ سے جو ان کی تمام تر سوچوں اور مصروفیات پر حاوی ہو گئیں تھیں۔
معرکہ نہاوند کے موقعہ پر جلیل القدر صحابی نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے معرکہ میں داخل ہونے سے پہلے کہا تھا:" یا اللہ ! اپنے دین کو غلبہ عطا فرما، اپنے بندوں کی مدد کر ، اور آج نعمان کو سب سے پہلا شہید کر ، یا اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ آج فتح کے ذریعے میری آنکھیں ٹھنڈی کر، کہ جس میں اسلام کو غلبہ ہو، کہو آمین"۔
کیا بھلا اس دعا میں دنیاکا کوئی لالچ بھی ہے؟
ذرا مقوقس کے قاصد کی بات سنیے جب وہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے واپس آیا جب انہوں نے بابلیو ن کے قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا ، اس نے کہا : ہم نے ایک ایسی قوم دیکھی جسے بلندی سے زیادہ تواضع پسند ہے، ان میں سے کسی کو دنیا کی لالچ نہیں ،وہ مٹی پر بیٹھتے ہیں اور ان کا امیر ان ہی کی طرح ایک عام آدمی ہوتا ہے، ان میں سے کسی بڑے کو چھوٹے پر اور سردار کو غلام پر کوئی تمیز حاصل نہیں۔
اسی کے متعلق تھامس کارلائل Th. Carlyle) ) اپنی کتاب " ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ " میں لکھتا ہے: وہ کہتے ہیں کہ اگر تلوار نہ ہوتی تو اسلام نہ پھیلتا، کہ ہاں واقعی تلوار،لیکن آپ یہ تلوار کہاں سے حاصل کریں گے ؟ ہر نیا نظریہ جب وہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے، تو ایک اقلیت میں ہوتا ہے، صرف ایک شخص کے دماغ میں ہوتا ہے ، یہاں وہ پھلتا پھولتا ہے، پوری دنیا میں ایک انسان ہوتا ہے جو اس پر یقین رکھتا ہے، ایسے میں ایک شخص تما م انسانوں کے مخالف ہوتا ہے، اگر وہ تلوار اٹھےا کر اس کی تبلیغ شروع کردے ، تو یہ اس کو بہت کم نفع دے گا، اور میرا خیال یہ ہے کہ حق عموما خود بخود پھیلتا ہے، کسی بھی طریقے سے جیسے حالات کے تقاضے ہوں ، کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ نصرانیت تلوار استعمال کرنے سے نہیں تھکی تھی، بلکہ کارلیمان نے سکسکون قبائل کے ساتھ جو کچھ کیا وہی کافی ہے، میں حتما نہیں کہہ رہا کہ اسلام کا پھیلاؤ تلوار کے ذریعے تھا یا زبان کے ذریعے یا کسی اور آلہ کے ذریعے، ہمیں حقائق کو چھوڑ دینا چاہیے کہ اس کی قوت پھیلے چاہے خطابت کے ذریعے یا صحافت کے ذریعے یا جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے، ہمیں اسے چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور ناخنوں کے ساتھ جدوجہد کرے، اور اسے شکست صرف وہیں ہوگی جہاں وہ اس کا مستحق ہوگا ۔

اسلام جبر وتشدد کے مخالف ہے
دین اسلام رحمت ، نرمی، اور شفقت کا دین ہے، جس نے جبر وتشدد ترک کرنے کی دعوت دی تاکہ رسول اسلام کی اقتداء کی جائے، جن کے بارے میں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:"
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ "  
ترجمہ: پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔
چناچہ اسلامی تعلیمات نے رغبت دلائی ہے کہ ہر کمزور اور مسکین پر رحمت، شفقت اور نرمی کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:"رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو تم آسمان والا رحم کرے گا"۔
بلکہ اسلامی رحمت تو انسانوں کو بھی تجاوز کر گئی تاکہ اس میں حیوانوں کا بھی حصہ ہو ، چناچہ ان بے زبان جانوروں پر رحم کرنے ہی کی بناء پر ایک شخص کے گناہ معاف کر دیئے گئے اور وہ جنت میں داخل ہوا۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے :" ایک آدمی راستہ میں چل رہا تھا اسی دوران اس کو بہت زور کی پیاس لگی۔اس کو ایک کنواں ملا جس میں اس نے اتر کے پانی پیا۔پھر جب وہ باہر نکلا تو اس نے ایک کتے کو پایا کہ وہ زبان نکالے ہوئے ہا نپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا: اس کتا کی پیاس سے وہی حالت ہے جو میری تھی ۔ لہذا وہ کنواں میں اترا پھر اپنا چمڑا والا موزہ پانی سے بھرا اور کتا کو پلایا ۔ اس پر کتے نے اللہ سے اس کا شکریہ ادا کیا۔تو اللہ نے اس کو بخش دیا۔ یہ سن کر صحابہ کرام نے آپ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا ہمارے لیے جانوروں میں بھی اجر و ثواب ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ ہر تروتازہ یعنی زندہ جگر والے میں اجر ہے۔
اور انہیں تکلیف دینے اور ان پر رحمت و شفقت نہ کرنے کی بناء پر ایک عورت اللہ تعالی کی ناراضگی کی مستحق ٹہری اور جہنم میں داخل ہوئی، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:" ایک عورت ایک بلی کے سبب سے دوزخ میں گئی ، اس نے بلی کو باندھ کر رکھا نہ تو اسے کھانا دیا نہ پانی پلایااور نہ ہی چھوڑا کہ وہ زمین سے کیڑے مکوڑے کھا( کر اپنی جان بچا) لیتی" ۔
ایسی بہت سی نبوی ہدایات موجود ہیں ، جس میں حیوانات کے ساتھ احسان اور ان کے ساتھ نرمی کی دعوت دی گئی ہے، جب اسلام کی حیوانات کے ساتھ رحمت کا یہ عالم ہے تو انسان جسے اللہ تعالی نے تمام مخلوقات پر فضیلت اور عزت دی ہے ، اس کے ساتھ رحمت کا کیا عالم ہوگا؟

محاربین کے ساتھ اسلامی جنگی نظام ، اسلام کے عدل اور ظلم سے نفرت کی واضح دلیل ہے
اسلام میں جنگ مسلمانوں کی اولین خواہش اور ترجیح نہیں رہی ، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت سے علوم اور ٹیکنالاجی میں ترقی کی جیسے : ریاضیات ، طب ، فلکیات، گھڑی، کشتی بانی، عمارت ، اور نقش و نگار وغیرہ، لیکن انہوں نے جنگی آلات کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ اس میں بھی ترقی کریں اگرچہ ان پر ان پر فرض تھا کہ وہ ایسی تیاری میں رہیں کہ ان کے معاندین کے ذہنوں میں شر دب کر رہ جائے، جن کامقصد ہی زمین میں فساد پھیلانا ہے۔
قرآن کریم میں ارہاب کا معنی اللہ تعالی کے اس فرمان میں وارد ہوا ہے کہ :
:" وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ "
ترجمہ: اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) اس (دفاعی تیاری) سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو۔
بہتر تو یہی تھا کہ کہ مسلمان قوی اسلحہ کے ذریعے مضبوط ہوتے ، تاکہ عادل اور صلح جو لوگوں پر زیادتی کرنے والوں کو معلوم ہوجاتا کہ خوف جسے قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اس کا کیا معنی ہوتا ہے۔
اس خوف کا مقصد امن پسند اور صلح جو لوگوں پر زیادتی نہیں ، نہ ہی قتل کا بدلہ لینے کی محبت، بیماروں کی تکلیفیں ، زخمیوں کی آہ و بکاء ، اور مقتولین کے جسموں کا مثلہ کر کے لطف اندوز ہونا ، اور نہ ہی قیدیوں کو عذاب دیکر تسلی و تشفی حاصل کرنا مقصود ہے۔
صلاح الدین المنتصر خود خیدیوں کا علاج کرتے تھے انہیں پانی پلاتے تھے، اور بغیر ارادے کی جو شاذکیفیات سرزد ہوجاتیں ، ان پر روتے تھے۔
مسلمانوں کے ہاں جنگ ایک ہوس نہیں کہ جس میں انہیں زخمیوں کی آہ و بکاء اور انہیں تکلیف دیکر لذت ملتی ہے بلکہ یہ جنگ ظلم کو روکنے اور معاشرے میں عدل اور امن قائم کرنے کی خاطر ہوتی ہے ۔
باوجود اس کے کہ دیگر اقوام کے ساتھ اسلام کے تعلقات امن وسلامتی پر مبنی ہوتے ہیں ، مگر جب اسلام کی دعوت دینے کے تمام طریقے ختم ہوجائیں تو پانچ طرح کے حالات میں اسلام نے جنگ کو مشروع قرار دیا ہے ، وہ حالات یہ ہیں :
(1)    نفس ، اہل و عیال اور شہر کا دفاع، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ "
 ترجمہ: اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
(2)    مظلوم سے ظلم کو ختم کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے، یہی معاملہ اسلام میں جنگ کو انسانیت بناتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا "  
 ترجمہ: اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (غلبۂ دین کے لیے) اور ان بے بس (مظلوم و مقہور) مردوں، عورتوں اور بچوں (کی آزادی) کے لئے جنگ نہیں کرتے جو (ظلم و ستم سے تنگ ہو کر) پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے (وڈیرے) لوگ ظالم ہیں، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے، اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے۔
(3)    وعدہ خلافی اور میثاق کو توڑنے کی حالت میں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ (12) أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ "
ترجمہ: اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں کیا تم ایسی قوم سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور رسول (َ ﷺ) کو جلاوطن کرنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے تم سے (عہد شکنی اور جنگ کی) ابتداء کی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو بشرطیکہ تم مومن ہو۔
(4)    مسلمانوں کی جماعت پر خروج کرنے والے باغی گروہ کی تادیب کی خاطر ، جو عدل و انصاف کے منکر ہوں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ "
ترجمہ: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بیشک اﷲ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔
(5)    دین کا دفاع اور اس دین کے ساتھ کھیلنے والوں سے اس کی حفاظت کی حالت ، اسی طرح اللہ تعالی کی شریعت پہنچانے کی راہ میں جو رکاوٹ بن کر کھڑا ہو ، جو بھی ایمان والوں کو تکلیف دے یا اس دین میں داخل ہونے والوں کے لیے رکاوٹ بنے، اس سے جنگ کرنا ، اس لیے اسلام کی دعوت عالمگیر دعوت ہے، یہ کسی خاص قوم کے لیے محدود نہیں ، بلکہ تمام انسانوں کے لیے ضروری ہے کہ اس دعوت کو سنیں ، اس کی معرفت حاصل کریں ، اور اس میں جو تمام انسانوں کے لیے عام بھلائی ہے اسے جان لیں اس کے بعد دین اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کریں ۔
جہاں تک توسیعی اور استعماری جنگوں کا تعلق ہے جو قوموں کے اموال لوٹنے کے لیے نافذ کی جاتی ہیں ، یا انتقامی جنگیں کہ جن کا انجام تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ، اسی طرح فخر وغرور اور اپنی قوت کا اظہار کرنے کی خاطر لڑی جانے والی جنگیں ، اسلام نے ان سب سے منع کیا ہے، اس لیے اسلام میں جنگ کا مقصد اللہ تعالی کے کلمہ کو بلند کرنا ہوتا ہے نہ کہ شخصی خواہشات اور دنیاوی طمع، اللہ توالی کا فرمان ہے:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ "  
 ترجمہ: اور ایسے لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے گھروں سے اِتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھلاتے ہوئے نکلے تھے۔

اسلام میں جنگ کے قواعد و ضوابط
اگرچہ اسلام نے بحالت ضرورت جنگ کی اجازت دی ہے لیکن ساتھ اس کے قواعد و ضوابط بھی مقرر کیے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:" اللہ تعالی کی راہ میں اس کا نام لیکر لڑائی کرنا ، اور ہر اس شخص کے ساتھ لڑنا جو اللہ تعالی کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرتا ہے ، لڑائی کرنا اور خیانت نہ کرنا ، اور بد عہدی نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا، اور نہ ہی بچوں کو قتل کرنا"۔
رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب اپنے قائدین کو جنگ کے لیے روانہ کرتے تو ان سے فرماتے: رک جاؤ ! میں تمہیں دس باتوں کی وصیت کرتا ہوں ، انہیں مجھ سے یاد کرلو، خیانت مت کرنا ، مال غنیمت میں سے چوری مت کرنا ، عہد شکنی مت کرنا ، مثلہ مت کرنا، چھوٹے بچوں بوڑھون اور عورتوں کو قتل مت کرنا، کھجور کے درخت مت کاٹنا ، اور نہ ہی انہیں جلانا، اور پھل دینے والے درخت مت کاٹنا ، بکری اونٹ اور گائے ذبح نہ کرنا ، الا یہ کہ کھانے کی ضرورت ہو، تم راستے میں ایسی قوم سے گزرو گے جنہوں نے خود کو خانقاہوں کے لیے وقف کیا ہوگا، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔

 

اسلام میں قیدی
اسلام میں قیدیوں کو عذاب دینا ، انہیں ذلیل کرنا، انہیں خوف زدہ کرنا ، ان کا مثلہ کر نا اور انہیں مرنے تک بھوکا رکھنا ناجائز ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا "  
 ترجمہ : اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواست گار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہش مند) ہیں۔
بلکہ اسلام نے ان کا اکرام، ان پر نرمی اور شفقت کرنے کا حکم دیا ہے۔
 یہ ابو عزیز بن عمیر ہیں ، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بھائی، کہتے ہیں کہ میں بدر والے دن قیدیوں میں تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" قیدیوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرو، اور میں انصار کی ایک جماعت میں تھا، جب ان کا دوپہر اور رات کا کھانا آتا تو وہ رسول اللہ ﷺ کی وصیت کی وجہ سے خود تو کھجور کھاتے اور مجھے جَو (کی روٹی) کھلاتے.
اسلام نے قیدیوں کو آزاد کرنے کی ترغیب دلائی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :" قیدیوں کو آزاد کرو ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور بیماروں کی عیادت کرو"۔
اسلام میں شکست خوردہ قوم کی حالت:
اسلام میں شکست خوردہ قوموں کی عزتیں پامال نہیں کی جائیں گی، نہ ان کا مال لوٹا جائے گا ، نہ ان کی بے حرمتی کی جائے گی ، نہ انہیں ذلیل کیا جائے گا ، نہ ان کے گھروں کو اجاڑا جائے گا ، اور نہ ہی انتقام کی خاطر انہیں قتل کیا جائے گا ، بلکہ اصلاح ، نیکی کا حکم اور برائی سے روکا جائے گا ، عدل قائم کیا جائے گا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ "  
 ترجمہ: (یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے۔
انہیں اپنے معتقدات اور اپنے دینی شعائر کی بجاآوری میں مکمل آزادی حاصل ہوگی بغیر کسی مداخلت ، دشواری اور رکاوٹ کے جو ان پر اثر انداز ہو، نہ تو ان کے کنیسا منہدم کیے جائیں گے اور نہ ہی ان کی صلیبیں توڑی جائیں گی۔
اس کی بہترین دلیل وہ معاہدہ ہے جو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس والوں کو دیا تھا جب وہ اس میں بحیثیت فاتح داخل ہوئے تھے:" شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے عمر بن خطاب نے اہل بیت المقدس کو دی ، انہیں ان کی جانوں ، مالوں ، کنیساؤں اور صلیبوں پر امان دی ، اور یہ کہ ان کے دین پر ان سے زبردستی نہیں کی جائے گی، اور نہ ان میں سے کسی کو تکلیف دی جائے گی"۔
کیا تاریخ نے فاتح اور غالب کی طرف سے مفتوح اور مغلوب کے لیے کبھی اس طرح کا عدل اور درگزر دیکھا ہوگا؟۔
باوجود اس کے کہ ان کے لیے ممکن تھا کہ جو وہ چاہتے شرائط لکھوا دیتے، لیکن یہ ان کا عدل اور تمام انسانوں پر اللہ تعالی کی شریعت کا نفاذ تھا ۔
اسی طرح ان کے دین نے ان کے لیے جو کھانا پینا حلال کیا ہے اس کے کھانے اور پینے میں انہیں مکمل آزادی ہوگی، نہ ان کے خنزیر قتل کیے جائیں گے ، اورنہ ان کے شراب بہائے جائیں گے۔
جہاں تک ان کے شہری امور کا تعلق ہے، جیسے نکاح و طلاق کے مسائل ، اور مالی امور وغیرہ ، تو انہیں اپنے عقیدے اور دین کے مطابق اس پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہوگی۔

اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی حالت:
معاہد غیر مسلموں پر نہ تو ظلم کیا جائے گا نہ ان کے حقوق مارے جائیں گے اور نہ ہی ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے گی ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ "  
ترجمہ: اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" خبردار ! جس کسی نے کسی معاہد ( غیر مسلم شہری) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا، یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز چھین لی ، تو روز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا'۔
بلکہ ان کے ساتھ خیر کا معاملہ کیا جائے گا ، ان کے لیے اچھائی کو پسند کیا جائے گا اور ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے گی ۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا نبی ﷺ کی خدمت کرتا تھا وہ بیمار پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا :" ہمارے ساتھ اس کی عیادت کے لیے چلو" چناچہ وہ اس کے پاس عیادت کے لئے آئے اور اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا ہوا تھارسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:"تم لا الہ الا اللہ کہو میں قیامت دن اس کے ذریعے تمہاری شفاعت کروں گا''، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا: ''ابو القاسم کی اطاعت کرو''، تو وہ مسلمان ہوگیا، آپ ﷺ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے: '' تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی''
یہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہیں ، ان کے گھر میں بکری ذبح کی گئی جب وہ (اپنے گھر )تشریف لائے تو کہا : کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کی طرف ہدیہ بھیجا؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کی طرف ہدیہ بھیجا؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:" جبریل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں (حسن سلوک) کی وصیت کرتا رہا، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ عنقریب وہ انہیں وارث بنادے گا"۔

اسلام کی مبادیات تمام لوگوں کے لیے عموما سلامتی چاہتی ہیں
اسلام دعوت دیتا ہے کہ:
(1)    انسانی جان کی تعظیم کی جائے، اس لیے کہ انسان اسلام میں قیمتی اور قابل قدر ہے ، اس کا ایک مقام و مرتبہ ہے، اسی بناء پر اسلام میں قصاص کو مشروع قرار دیا گیا ہے، چناچہ عمدا (جان بوجھ کر ) قتل کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
جہاں تک غلطی سے قتل کا معاملہ ہے تو اس کے لیے اسلام میں دیت کا حکم ہے، دیت ایک مالی رقم ہوتی ہے جو مقتول کے ورثاء کو دی جاتی ہے، یہ مقتول کی قیمت نہیں ہوتی، بلکہ یہ اس نقصان کا مالی بدلہ ہوتا ہے جو مقتول کے اہل خانہ کو پہنچتا ہے۔
اور کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام آزاد کرے ، اگر وہ نہ ملے تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھے ، اگر اس کی استظاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
یہ کفارہ ایک عبادت ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی اس کا وہ گناہ معاف کردے جو بلاقصد اس سے سرزد ہواہے۔ یہ محض اسی لیے ہے کہ انسانی نفس کی حفاظت کی جائےان کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائےاور سرکش لوگوں کو قتل جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے سے روکا جاسکے، اس لیے کہ جس شخص کو یہ یقین ہوگا کہ اگر اس نے کسی کو قتل کیا تو بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا تو وہ اس جرم کا ارتکاب کرنے سے باز رہے گا، اور اپنے شر کو اپنے تک ہی محدود کرلے گا، اگر قتل کی سزا قتل نہ ہو تو وہ کبھی بھی اس جرم سے باز نہیں آئے گا، اسی طرح اسلام نے جتنی بھی سزائیں اور حدیں مقرر کی ہیں انہیں بھی اسی پر قیاس کرلیں کہ یہ حدود ان جرائم کی روک تھام کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جنہیں اسی لیے وضع کیا گیا ہے کہ انسانی نفس اور اس کے حقوق کی حفاظت کی جاسکے، اللہ تعالی کافرمان ہے: وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ "
ترجمہ: اور تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خوں ریزی اور بربادی سے) بچو۔
اسلام نے صرف دنیاوی سزاووں پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ عمدا قتل پر اخروی سزا بھی مرتب کی ہے جو اس پر اللہ تعالی کئ غضب اور قتل کی صورت میں نازل ہوگی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا "   
ترجمہ: اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے۔
(2)    دین اسلام میں تمام انسان چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں ، اصل اور پیدائش کے اعتبار سے سب برابر ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا  
ترجمہ: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:تمام لوگ آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا ہے"‪ ‬‬‬‬‬‬‬‬
چناچہ اسی مساوات کی بناء پر جسے اسلام نے مقرر کیا ہے، تمام انسان اسلام کی نظر میں برابر ہیں یہی وہ شعار ہے جسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چودہ سو سال پہلے رائج کیا تھا کہ :" تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کردیا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا" ۔
(3)    ایک ہی دین کا اثبات
اللہ تعالی کی طرف سے دین اپنے عمومی اصول میں آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم الانبیاء و المرسلین محمد ﷺ تک ایک ہی دین ہے، چناچہ تمام انبیاء کا دین ایک ہی ہے، اور وہ ہے توحید ، اللہ وحدہ لاشریک کی اس کے مشروع کردہ طریقے کے مطابق عبادت اور یہ کہ تمام آسمانی کتب اللہ تعالی کی وحی ہیں ، اللہ تعالی کافرمان ہے: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ "  
ترجمہ: اُس نے تمہارے لئے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اُس نے نُوح (علیہ السلام) کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراھیم اور موسٰی و عیسٰی (علیھم السلام) کو دیا تھا (وہ یہی ہے) کہ تم (اِسی) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
نیز فرمایا: إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا (163) وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا (164) رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا "  
 ترجمہ: (اے حبیب!) بیشک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیھم السلام) کی طرف (بھی) وحی فرمائی، اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو (بھی) زبور عطا کی تھی اور (ہم نے کئی) ایسے رسول (بھیجے) ہیں جن کے حالات ہم (اس سے) پہلے آپ کو سنا چکے ہیں اور (کئی) ایسے رسول بھی (بھیجے) ہیں جن کے حالات ہم نے (ابھی تک) آپ کو نہیں سنائے اور اﷲ نے موسٰی (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائی رسول جو خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے (اس لئے بھیجے گئے) تاکہ (ان) پیغمبروں (کے آجانے) کے بعد لوگوں کے لئے اﷲ پر کوئی عذر باقی نہ رہے، اور اﷲ بڑا غالب حکمت والا ہے۔
اسلامی شریعت نے نسلی اور قابل نفرت گروہ بندی کی مذمت کی ہے، انسانوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت بغض اور اختلاف کو اس طرح ختم کیا ہے کہ رسولوں اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کو ایمان کا اساسی رکن قرار دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ "
ترجمہ: (اے مسلمانو!) تم کہہ دو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں۔
قرآن کریم سیدنا موسی علیہ السلام کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے مقرب اور قدر و منزلت والے تھے، اللہ تعالی کافرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا  
 ترجمہ: اے ایمان والو! تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسٰی (علیہ السلام) کو (گستاخانہ کلمات کے ذریعے) اذیت پہنچائی، پس اللہ نے انہیں اُن باتوں سے بے عیب ثابت کردیا جو وہ کہتے تھے، اور وہ (موسٰی علیہ السلام) اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت والے تھے۔
ان پر جو تورات نازل کی گئی ، اسلام کی نظر میں وہ ہدایت اور نور تھی ،اللہ تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ "  
ترجمہ : بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں۔
موسی علیہ السلام کی قوم بنی اسائیل ایک معزز قوم تھی جسے اس وقت کی تمام امتوں پر فضیلت حاصل تھی ، اللہ تعالی کافرمان ہے: يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ "
 ترجمہ: اے اولادِ یعقوب! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر ارزانی فرمائی اور (خصوصاً) یہ کہ میں نے تمہیں اس زمانے کے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی۔
اسی طرح قرآن کریم سیدنا عیسی علیہ السلام کو اس نگاہ سے دیکھت اہے کہ وہ ایک معزز نبی تھے، وہ اللہ تعالی کا کلمہ تھے جو اس نے مریم علیہا السلام کی طرف القء کیا تھا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:" إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (45) وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ "
ترجمہ: جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اﷲ تمہیں اپنے پاس سے ایک کلمۂ (خاص) کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسٰی بن مریم (علیھما السلام) ہوگا وہ دنیا اور آخرت (دونوں) میں قدر و منزلت والا ہو گا اور اﷲ کے خاص قربت یافتہ بندوں میں سے ہوگا اور وہ لوگوں سے گہوارے میں اور پختہ عمر میں (یکساں) گفتگو کرے گا اور وہ (اﷲ کے) نیکوکار بندوں میں سے ہو گا۔
اور ان کی ماں مریم علیہا السلام کو صدیقہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اللہ تعالی کافرمان ہے: مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ "
 ترجمہ: مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں (یعنی خدا یا خدا کا بیٹا اور شریک نہیں ہیں)، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی والدہ بڑی صاحبِ صدق (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ (اس کے باوجود) وہ کس طرح (حق سے) پھرے جارہے ہیں۔
تورات کی طرح انجیل بھی قرآن کی نظر میں ہدایت اور نور تھی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَقَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ "  
 ترجمہ: اور ہم نے ان (پیغمبروں) کے پیچھے ان (ہی) کے نقوشِ قدم پر عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور (یہ انجیل بھی) اپنے سے پہلے کی (کتاب) تورات کی تصدیق کرنے والی (تھی) اور (سراسر) ہدایت تھی اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت تھی۔
اسلام کی نظر میں عیسی علیہ السلام کے پیروکار جو ان پر ایمان لائے وہ رحمت اور شفقت کرنے والی امت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ "  
 ترجمہ: پھر ہم نے ان رسولوں کے نقوشِ قدم پر (دوسرے) رسولوں کو بھیجا اور ہم نے ان کے پیچھے عیسٰی ابنِ مریم (علیہما السلام) کو بھیجا اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی اور ہم نے اُن لوگوں کے دلوں میں جو اُن کی (یعنی عیسٰی علیہ السلام کی صحیح) پیروی کر رہے تھے شفقت اور رحمت پیدا کر دی۔ اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لئے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکی)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لئے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیں۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ ہر نبی اور رسول پر ایمان لائے اور ان کی طرف جو کتابیں نازل کی گئیں ان کی تصدیق کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا (150) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا "   
ترجمہ: بلا شبہ جو لوگ اﷲ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اﷲ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اس (ایمان و کفر) کے درمیان کوئی راہ نکال لیں ایسے ہی لوگ درحقیقت کافر ہیں، اور ہم نے کافروں کے لئے رُسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اسی طرح ہر مسلمان پر واجب ہے کہ تمام شریعتوں کا ادب و احترام کرے ، اور جو لوگ رسول اللہ ؤ کی بعثت سے پہلے ان پر ایمان لائے ان سے محبت کرے اور انہیں اپنا دینی بھائی تصور کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: رَبَّنَا ٱغۡفِرۡ لَنَا وَلِإِخۡوَٰنِنَا ٱلَّذِينَ سَبَقُونَا بِٱلۡإِيمَٰنِ
ترجمہ :اور جو ان کے بعد آئیں گے جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پلے ایمان لاچکے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعدانبیاء کرام کا سلسلہ ختم ہوگیا اور آسمان سے وحی منقطع ہو گئی،اللہ تعالی کا فرمان ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ "  
ترجمہ: محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
آپ ﷺ پر جو شریعت نازل ہوئی ، اس نے پہلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا، اس نسخ کا لازمی تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی شریعت پر ایمان لایا جائے ، اس پر عمل کیا جائے اور سابقہ شریعتوں کو چھوڑ دیا جائے۔
نسخ کا معنی یہ نہیں کہ ان کی تکذیب کی جائے، بلکہ ان پر ایمان ہو لیکن عمل نہ ہو ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ "
ترجمہ: اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
اسلامی شریعت کا دیگر آسمانی شریعتوں کے ماننے والوں سے یہی مطالبہ ہے کہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تمام اہل اسلام ایمان لاتے ہیں ، تمام انبیاء و رسل جو اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے گئے ان کی تصدیق کی جائے، اسی طرح ان تمام کتابوں کی بھی جو ان کی طرف وحی کیے گئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "
ترجمہ: پھر اگر وہ (بھی) اسی طرح ایمان لائیں جیسے تم اس پر ایمان لائے ہو تو وہ (واقعی) ہدایت پا جائیں گے، اور اگر وہ منہ پھیر لیں تو (سمجھ لیں کہ) وہ محض مخالفت میں ہیں، پس اب اللہ آپ کو ان کے شر سے بچانے کے لئے کافی ہوگا، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
اوراگر کوئی تفریق کرتا ہے تو شریعت اسلامیہ ایسے ہر مخالف اور ضدی سے بری ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (159) مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (160) قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ "
ترجمہ: بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں، بس ان کا معاملہ اﷲ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں، اور جو کوئی ایک گناہ لائے گا تو اس کو اس جیسے ایک (گناہ) کے سوا سزا نہیں دی جائے گی اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے فرما دیجئے: بیشک مجھے میرے رب نے سیدھے راستے کی ہدایت فرما دی ہے، (یہ) مضبوط دین (کی راہ ہے اور یہی) اﷲ کی طرف یک سو اور ہر باطل سے جدا ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
شریعت اسلامیہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو دعوت دینے کے جس منہج پر چلتی ہے وہ بامقصد گفتگو، ربانی طریقہ کے مطابق مناظرہ جو لوگوں کو جوڑنے والا ہو کا منہج ہے ، اسی طرح لوگوں کو اخلاق فاضلہ کہ جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ، اس کی دعوت دیتی ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ "  
ترجمہ: آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں۔
اسی طرح مخالفین کے جذبات کا احترام کیا جائے ، ان کے دین اور عقائد کو گالیاں دیکر ان کے جذبات مجروح نہ کیے جائیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ "  
ترجمہ: اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔
اسلام نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ احسن طریقے سے اپنے مخالفین کے ساتھ مناظرہ کیا جائے، اللہ تعالی کافرمان ہے:وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ "  
 ترجمہ : اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا، اور (ان سے) کہہ دو کہ ہم اس (کتاب) پر ایمان لائے (ہیں) جو ہماری طرف اتاری گئی (ہے) اور جو تمہاری طرف اتاری گئی تھی، اور ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہی ہے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
لوگوں دین اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اسلامی منہج نہیں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ "  
 ترجمہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔
اسلام کا منہج یہ ہے کہ غیر مسلموں تک اسلام بغیر کسی جبر کے پہنچایا جائے، اسی کو اسلام میں ہدایۃ الدلالۃ ( رہنمائی کی ہدایت) کہا جاتا ہے، جہاں تک ہدایۃ التوفیق ( اسلام قبول کرنے کی توفیق ) کا تعلق ہے تو وہ اللہ تعالی کے اختیار میں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا "
ترجمہ: اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے۔
اسلام نے ہر معاملے میں عدل کا حکم دیا ہے ، یہاں تک کہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی ، اللہ تعالی کا فرامن ہے:" وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ "  
ترجمہ: اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔ اللہ ہمارا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث و تکرار نہیں، اللہ ہم سب کو جمع فرمائے گا اور اسی کی طرف (سب کا) پلٹنا ہے۔
(4)    اسلام نے باہمی نفع بخش تعاون کی رغبت دلائی ہےجو عمومی خیر و بھلائی کا سرچشمہ ہواور ہر اس کام کرنے کی رغبت دلائی ہے جس میں انسانی معاشرے کے لیے فائدہ ہو، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ "  
ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے.
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ کونسا عمل اور کونسا شخص اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ رسول اللہ ق نے فرمایا:" اللہ تعالی کو لوگوں میں سے سب دے زیادہ محبوب وہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اور اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان پر خوشی لائی جائے یا اس سے کوئی مصیبت دور کی جائے، یا اس کا قرض ادا کیا جائےیا اس کی بوکھ ختم کی جائے، اور اگر میں کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ جاؤں تو یہ مجھے اس مسجد میں ایک مہینہ اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے، اور جس نے اپنا غصہ روک لیا اللہ تعالی اس کے عیب پر پردہ ڈال دے گا، اور جس نے اپنا غضب روک لیا باوجد اس کے کہ اگر وہ اس کو نافذ کرنا چاہتا تو نافذ کر سکتا تھا، تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے دل کو امید سے بھر دے گا، اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلا تو اللہ تعالی اس کو اس دن ثابت قدمی عطا فرمائے گا جس دن قدم ڈگمگا جائیں گے (اور بدخلقی عمل کو ایسے بگاڑ دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو بگاڑ دیتا ہے)۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلام نے کچھ راہیں متعین کی ہیں جو یہ ہیں :
•    اسلام نے رغبت دلائی ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان باہمی مناسب طرز زندگی اور آپس میں تعارف کی دعوت عام کی جائے، یہ وہ ربانی منہج ہے جو توحید، رسولوں اور کتابوں کے اعتراف پر مبنی ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ "  
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔
•    اسلام نے رغبت دلائی ہے کہ تمام انسانوں کے ساتھ خیرخواہی کی جائے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:" کون شخص ہے جو مجھ سے پانچ باتوں کو سیکھے اور پھر ان پر عمل کرے یا اس شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرنے والا ہو؟"۔
 ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ:" یا رسول اللہ!(َ ﷺ) وہ شخص میں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) میرا ہاتھ پکڑا اور وہ پانچ باتیں گنائیں، اور (اس طرح) بیان فرمایا۔ (١) تم ان چیزوں سے بچو، جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اگر تم ان سے بچو گے تو تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ ہوگے۔ (٢) تم اس چیز پر راضی وشاکر رہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے، اگر تم تقدیر الٰہی پر راضی ومطمئن رہو گے تو تمہارا شمار تونگر ترین لوگوں میں ہوگا،( یعنی جب بندہ اپنے مقسوم پر راضی ومطمئن ہوجاتا ہے اور طمع وحرص سے پاک ہو کر زیادہ طلبی کی احتیاج نہیں رکھتا تو وہ مستغنی اور بے نیاز ہوجاتا ہے تونگری کا اصل مفہوم بھی یہی ہے)۔ (٣) تم اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرو (اگرچہ تمہارے ساتھ برا سلوک کرے) اگر تم ایسا کروگے تو تم کامل مومن سمجھے جاؤگے۔ (٤) تم زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ (اور اللہ کی یاد سے غافل) بنا دیتا ہے (اگر تم زیادہ ہنسنے سے اجتناب کرو گے تو تمہارا دل روحانی بالیدگی وتروتازگی اور نور سے بھرا رہے گا اور ذکر اللہ کے ذریعہ اس کو زندگی وطمانیت نصیب ہوگی).
•    اسلام نے رغبت دلائی ہے کہ تمام انسانوں کے ساتھ خیرخواہی کی جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے : "دین خیر خواہی ہے۔ ہم نے پوچھا: کس کی؟ آپﷺ نے فرمایا:" اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے حکمرانوں کی اور ان کے عام آدمی کی"۔
•    اسلام نے رغبت دلائی ہے کہ نیکی کا حکم کیا جائے ، برائی سے روکا جائے، ہر شخص اپنی اپنی قدرت اور امکانات کے حساب سےتمام تر طرق اور وسائل کے ذریعے سے، یہی امن وامان کی بنیاد ہے کہ جس کے ذریعے سے امت ظلم ، انتشار، فساد، حقوق کے ضیاع اور جنگل کے قانون سے محفوظ رہتی ہے، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کے ذریعے جاہل کو تعلیم دی جاتی ہے، غافل کو تنبیہ کی جاتی ہے، گناہ گار کی اصلاح ہوتی ہے، اور راہ راست پر چلنے والے کی مدد ہوتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ "  
ترجمہ: اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:" تم میں سے جو برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے تبدیل کرے ، پس اگر اسے طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے ، پس اگر اکی (بھی) طاقت نہ ہو تو دل سے (اسے برا جانے) اور یہ کمزور ترین ایمان ہے" ۔
•    دین اسلام نے علم سیکھنے اور سکھانے کی رغبت دلائی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ "
ترجمہ: فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: علم حاصل کرنا ہرمسلمان پر فرض ہے"۔
•    اسلام نے رغبت دلائی ہے کہ ماحول اور جو کچھ اس میں ہےاس کی حفاظت کی جائے،آپ ﷺ کے ارشادات اور تعلیمات نے بڑی شدت کے ساتھ ڈرایا ہے کہ ہر وہ چیز جس میں انسانوں کا فائدہ ہے اسے ضایع نہ کیا جائے، اس لیے کہ کائنات میں موجود ہر چیز تمام انسانوں کی ملکیت ہے، کسی قوم کو چھوڑ کر کسی قوم کے لیے مختص نہیں ، چناچہ اسلام نے ان تمام کاموں سے منع کیا ہے جس میں زمینی ماحول کو نقصان کا اندیشہ ہو ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ "  
ترجمہ: اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ "  
ترجمہ: اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور اﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتا اور جب اسے اس (ظلم و فساد پر) کہا جائے کہ اﷲ سے ڈرو تو اس کا غرور اسے مزید گناہ پر اکساتا ہے، پس اس کے لئے جہنم کافی ہے اور وہ یقیناً برا ٹھکانا ہے۔
•    اسلام نے دعوت دی ہے کہ زمیں میں محنت کی جائے اور جو کچھ اس میں ہے اسے مصلحت عامہ کی خاطر مسخر کیا جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ "  
 ترجمہ : وُہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم و مسخر کر دیا، سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو، اور اُس کے (دئیے ہوئے) رِزق میں سے کھاؤ، اور اُسی کی طرف (مرنے کے بعد) اُٹھ کر جانا ہے۔
•    اسلام نے دعوت دی ہے کہ منشیات کے خلاف جنگ کی جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ "
ترجمہ: اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
•    اسلام نے دعوت دی ہے کہ عزتوں اور مالوں کی حفاظت کی جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا "
ترجمہ: تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بیشک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ "
ترجمہ: اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں۔
اور جو لوگ فاحشات پھیلانے کو پسند کرتے ہیں انہیں درد ناک عذاب کی دھمکی دی ہے، تو پھر اندازہ کر لیں کہ جو فاحشات کی راہیں ہموار کرتے ہیں ، اور اس میں مدد کرتے ہیں ان کا کیا انجام ہوگا؟ اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ "  
ترجمہ: بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ (ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالی کا اموال کے متعلق فرمان ہے: وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ "  
ترجمہ: اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو۔
اور فرمایا: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا "
ترجمہ: اور ناپ پورا رکھا کرو جب (بھی) تم (کوئی چیز) ناپو اور (جب تولنے لگو تو) سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ (دیانت داری) بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے (بھی) خوب تر ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ "  
ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
•    اسلام نے رغبت دی ہے کہ وہ کام کیے جائیں جس میں مصلحت عامہ ہو اور اس کا فائدہ معاشرے کو حاصل ہوتا ہو، جیسے یتیم اور بے گھر افراد کی کفالت، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ  
 ترجمہ: اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: " میں اور یتیم کی کفالت کرنے ولا جنت میں اس طرح ہوں گے" پھر اپنی شہادت اور درمیانی انگلیوں کو ملایا اور دونوں میں کشادگی پیدا کی"۔
•    اسلام نے دعوت دی ہے کہ بھوک و افلاس کے خلاف تمام تر میسر وسائل کے ذریعے جنگ کی جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ (11) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ (12) فَكُّ رَقَبَةٍ (13) أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ "
ترجمہ: وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہے وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہےیا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدّ و جہد کرنا ہے)۔
•    اسلام نے رغبت دلائی ہے کہ غلاموں کو آزاد کروایا جائے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے کسی مومن غلام کو آزاد کروایا اللہ تعالی اس (غلام) کے ہر عضو کے بدلے اس کا عضو (جہنم کی ) آگ سے آزاد کرے گا یہاں تک کہ شرم گاہ کے بدلے شرم گاہ (آزاد کرے گا)"۔  

اسلامی اخلاقیات امن وسلامتی کی دعوت دیتی ہیں
اسلامی اخلاقیات ان تمام امور کا حکم دیتی ہیں جن کے ذریعے ایک انسانی معاشرہ سعادت مندی کی زندگی بسر کرسکتا ہےاور ان تمام امور کو حرام قرار دیتی ہیں جو معاشرے میں دشمنی ، نفرت اور بغض کی آگ بگڑکا سکتے ہیں، یہ اسلامی اخلاقیات ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل پیرا ہونے کا التزام کیا جائےتو اس معاشرے میں امن ومان ، سلامتی اور اطمینان کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔
اسلامی اخلاقیات بہت زیادہ وسیع اور پھیلی ہوئی ہیں ان ضابطہ اور قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ قول یا فعل جو لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو وہ بدخلقی ہے،حرام ہے اور اللہ تعالی کو ناپسند ہے، اور جو اس سے متصف ہوگا وہ دنیا میں لوگوں کی نفرت اور آخرت میں اللہ تعالی کے عذاب کا نشانہ بنے گا، اس کا خلاصہ یہ کہ کسی دوسرے انسان پر قول یا فعل کے ذریعے زیادتی کرنا اور ان کے حقوق ادا نہ کرنا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ "
ترجمہ: فرما دیجئے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو) اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو۔
اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتا ہے:" اے میرے بندو! بیشک میں نے خود پر ظلم حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے ، پس تم ایک دوسرے پرظلم نہ کرو"
اسلام نے ظالم اور مظلوم کی یکساں مدد کرنے کا حکم دیا ہے ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:"اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم "ایک شخص نے عرض کیا :"یا رسول اللہ!(ﷺ) اگر وہ مظلوم ہے تو میں اس کی مدد کروں گا ، لیکن مجھے یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی مدد کس طرح کروں؟آپﷺ نے فرمایا: " اسے ظلم کرنے سے روک کر ( کیوں کہ یہ بھی اس کی مدد ہے" ۔
اس کے مقابلے میں اسلام نے خود کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ مطلقا عدل کا حکم دیا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ "
 ترجمہ:بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو۔
چناچہ ہر مسلم و غیر مسلم کے ساتھ خوشی اور ناراضگی کی حالت میں عدل مطلوب ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى "
ترجمہ: اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔
بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسلام نے برائی کا بدلہ نیکی کے ساتھ دینے کا حکم دیا ہے،تاکہ دلوں میں محبت و الفت پیدا ہو اور نفرت و بغض کو مٹایا جاسکے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ "  
 ترجمہ : اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔

 

خاتمہ
یہ کتابچہ کہ جس میں انتہائی اختصار کے ساتھ اسلام کا دہشت گردی کے متعلق مؤقف بیان کیا گیا ہےمجھے یہ اعتراف ہے کہ اس موضوع کے حساس ہونے کی بناء پر میں اس کا حق ادا نہیں کر سکا ، لیکن کچھ اشارے ذکر کر دیئے ہیں کہ اسلام کا اپنے مخالفین کے بارے میں کیا مؤقف ہے، اور وہ تعلق جو اسلام کو مخالفین کے ساتھ اور مخالفین کو اسلام کے ساتھ جوڑتا ہے وہ مصلحت عامہ کی حدود میں " تمام لوگوں کے لیے بھلائی کو پسند کرنا" پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے کہ اسلام کی سب سے مظبوط کڑی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لیے محبت کی جائے اور اللہ تعالی کے لیے بغض رکھا جائے، نہ کہ اپنی مصلحت اور خواہشات کے لیے ، جب آپ کسی سے بغض رکھیں تو اس کی ذات کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اس کے اللہ تعالی کےاوامر میں تنفیذ کے حوالے سے لاپرواہی اور اس کے حرام کردہ امور کے ارتکاب کی وجہ سے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ "  
 ترجمہ: (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔
اسلام کس قدر خوبصورت دین ہے کہ یہ اپنی آسمانی ربانی تعلیمات کے ذریعے لوگوں کو لوگوں کی عبادت سے نکال لوگوں کے رب کی عبادت کی طرف لے جاتا ہے، انہیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ "
ترجمہ: اﷲ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے، اور جو لوگ کافر ہیں ان کے حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں (حق کی) روشنی سے نکال کر (باطل کی) تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں، یہی لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو تمام انسانوں کے ساتھ احسان کرنے کی تربیت دیتا ہے تاکہ معاشرے میں اجتماعی عدل قائم ہو اور بھلائی سے محبت کی تربیت کرتا ہے تاکہ عزتیں اور حقوق محفوظ ہوں اور عفو و درگذر کرنے کی تربیت دیتا ہے تاکہ ان کے درمیان محبت ، الفت اور خیرسگالی کے جذبات قائم ہوں ، اور اللہ تعالی کے حرمات کی تعظیم کرنے کی تربیت کرتا ہے ، تاکہ معاشرے میں امن قائم ہو اور ہر شخص کا نفس اسکی عزت اور اس کا مال محفوظ رہے، اور انہیں تربیت دیتا ہے کہ انا کی محبت سے بلند ہوکر دوسروں سے محبت کریں تاکہ معاشرے کے افراد کے درمیان برابری قائم ہو، بڑا چھوٹے پر نرمی اور شفقت کرے اور چھوٹا بڑے کی توقیر واحترام کرے اور مالدار ، محتاج مسکین اور فقیر کا ہاتھ تھام لے، تاکہ وہ تعلق قائم ہو جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ :" مومنوں کی مثال ایک دورے کے ساتھ محبت ، رحمت اور نرمی کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہوجاتا ہے" ۔
شاید یہ کتابچہ حق کی تلاش کرنے والوں کی رہنمائی ثابت ہو، جو جنت کی کامیابی اور ابدی نعمتوں کے متلاشی ہیں اور جہنم کے ہمیشہ کے عذاب سے خود کو بچانے پر حریص ہیں۔
معاملہ اس لیے بھی خطرناک ہے کہ اس دنیا کا انجام کار بالآخر فنا اور موت ہے اگر معاملہ صرف یہاں تک محدود ہوتا تو مصیبت کم تھی ، لیکن اس کے بعد کا معاملہ زیادہ ہولناک ہے، ہم بحیثیت مسلمان موت کے بعد اٹھائے جانے ، جزاء و سزا اور جنت یا جہنم کی ہمیشہ والی زندگی پر ایمان رکھتے ہیں ، جو شخص اسلام لایا ، نیکی کی، تو اللہ تعالی کی رحمت کے بعد جنت کے ذریعے اس کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے گا ، اور جس نے برائی کی ، اگر وہ انسانوں کے حقوق ہوئے تو وہ اس سے وصول کیے جائیں گے، اور اگر وہ اللہ تعالی کے حقوق ہوئے تو وہ اسکی مشیئت کے تحت ہوں گے ، اگر وہ چاہے گا تو اسے سزا دے گا اور اگر چاہے گا تو اس پر رحم کرے گا، اور جس نے اسلام سے اعراض کیا اور اپنے کفر و شرک پر مرگیاتو ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔
اس لیے ہر عقلمند انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے درست راہ کا انتخاب کرے ، دین حق کی تلاش کرے ،جس کی پیروی کر کے وہ نجات ، جنت کی کامیابی ، اور ہمیشہ کی خوش بختی والی زندگی حاصل کر سکے ، اس لیے کہ یہی دو راستے ہیں ، تیسری کوئی راہ نہیں۔
وصلى الله وسلم على المبعوث رحمة للعالمين رسولنا ونبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم ومن اتبع هداه وسار على نهجه إلى يوم الدين .

 
www.islamland.com