بلال بن رباح _ نسلی اور قومی امتیاز کی بیخ کنی کی اعلیٰ مثال

بلال بن رباح _ نسلی اور قومی امتیاز کی بیخ کنی کی اعلیٰ مثال

الإسلام ومحاربة التمييز العنصري

الاسلام ومحاربة التمييز العنصري – قصة الصحابي الجليل بلال بن رباح رضي الله عنه باللغة الأردية

 

تالیف

ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبد الکریم الشیحہ

 

مترجم

المركز الأوروبي للدراسات الإسلامية

و نظام الدین یوسف

نظرثانی

عبد الحميد گوندل

../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAML

www.islamland.com

../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAMLAND/profil ../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAMLAND/profil

بسم الله الرحمن الرحيم

بلال بن رباح ﷜ نسلی اور قومی امتیاز کی بیخ کنی کی اعلیٰ مثال

اس زمانے میں ہر طرف جہالت کا عروج تھا ، جنگل کا قانون نافذ تھا ، بتوں کی پرستش کی جاتی تھی ، مردار کھایا جاتا تھا ، بیحیائیوں کا ارتکاب کیا جاتا تھا، قطع رحمی کی جاتی تھی ، قبائلی تعصب کا غلبہ تھا ، لوگ مختلف طبقات میں تقسیم تھے ، جس میں سے ہر ایک کے خود ساختہ امتیازات اور خصوصیات تھیں ، طاقتور کمزور پر ظلم کرتا اور مالدار تنگدست کو نگلتا، لوگوں نے ایک دوسرے کو غلام بنایا ہوا تھا ،

اور پھر یکایک یہ دنیا محمد کی بعثت سے منور ہوگئی ، جنہوں نے جیسے ہی اپنی دعوت پیش کی ، جنگ میں آگ کی طرح پھیلتی گئی ، وہ سارے معیار جو اس وقت رائج تھے اپنے سر کے بل آگرے ، اور بہت سارے لوگوں کے مفادات پر چوٹ پڑی اسی لیے ہر وہ ظالم شخص آپ کی دعوت کا دشمن بن گیا جو لوگوں پر مسلط اور ناحق طریقے سے ان کا مال کھانے والا تھا ۔

اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ آپ توحید کی شریعت لائے تھے جو انسانوں کو غیراللہ کی بندگی سے آزاد کرتی تھی ، جس کا نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ انسان ہر طرح کے جبر اور غلامی سے آزاد ہوجاتے ۔

 ایسی شریعت کہ جس کی بنیاد ی تعلیم میں جہالت کے خلا ف جنگ تھی ، جس میں ہر ظاہری اور باطنی بے حیائی کو حرام قرار دیا گیا تھا ۔ ایسی شریعت جو ظلم و تشدد کو حرام قراردیتی تھی ، اور معاشرے میں رائج تمام تر طبقاتی تقسیم جو رنگ ،جنس اور نسل کے اختلاف کی بنیاد پر قائم تھیں ، ان کو جڑ سے اکھاڑ تی تھی ۔

ایسی شریعت جو انسانوں کو وہ مکمل عزت دیتی تھی ، جو اللہ تعالیٰ نے اسے دی ہے اور انسانی رہزنوں کی مسلط کی ہوئی ذلت ورسوائی سے اسے نجات دلاتی تھی، اسے اسکے وہ تمام حقوق عطا کرتی تھی جسے ان خون آشام بھیڑیوں نے سلب کیا ہوا تھا ۔

رسول اللہ کی بعثت سے پہلے انسان ، انسانوں ، پتھر کے مجسموں اور خود تراشیدہ لکڑیوں کی عبادت کرتا تھا ۔ انسان نےاپنے ہی جیسے انسانوں کو ظالم قانون و ضع کرکے غلام بنایا ہوا تھا، چاہے وہ قانون مالی ہوں یا اجتماعی ، جس کے ذریعے سے وہ اسکی تمام تر محنت ، جدوجہد اور اسکی عزت پر ڈاکے ڈالتا اور اسکے خون پسینے کی کمائی اینٹھ لیتا ۔

اسلام نے ان تمام ظالم قوانین کے خلاف جنگ کی جو معاشرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کرتے تھے ۔

جب رسول اللہ کی بعثت ہوئی تو آپ نے آکر لوگوں نے بتایا کہ:" اے لوگو ! خبردار ! بیشک تمہارا رب ایک ہی ہے اور بیشک تمہارا باپ ہی ایک ہے ، خبردار کسی عربی کو عجمی پر اور کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے ذریعے "([1])۔

برہمن ہندوؤں کے ہاں ان کی مقدس کتابیں ثابت کرتی تھیں کہ لوگوں کے درمیاں ان کی نسل اور پیدا ئش کے اعتبار سے تفاضل پایا جاتا ہے ۔ وہ کتابیں ذکر کرتی تھیں کہ براہما نے برہمنوں کی نسل اپنے منہ سے پیدا کی اور چھتریوں کی نسل اپنے بازؤوں سے اور ویشوں کی نسل اپنی ران سے اور شودروں کی نسل اپنے پاؤ ں سے پیدا کی ۔

 ان کی مقدس کتب ان طبقات میں انسانی کام کاج اس طرح تقسیم کرتیں کہ سب سے گندے اور گھٹیا کام وہ کریں گے جو ران اور پاؤں سے پیدا کیے گئے ہیں ،کیوں کہ وہ سب سے نچلا اور حقیر طبقہ ہے ، اور ان کے بقول یہ گندے کام کرنے والے براہمنوں کی خدمت کےلئے پیدا کیے گئے ہیں ۔

اسی طرح قدیم یونان اور رومن لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ ایسی قوم ہیں اور ایسے عناصر سے پیدا کئے گئے ہیں جن سے دیگر اقوام پیدا نہیں کی گئیں ، جنہیں وہ بربر کہتے تھے ۔ جسے ان کے بہت بڑے فلاسفر ارسطو نے بیان کیا ہے وہ لکھتا ہے کہ([2]) : ’’ معبودوں نے دو طرح کے لوگ پیدا کیے، پہلی قسم وہ کہ جسے عقل و ارادہ سے نوازا، یہ یونانی قسم تھی جسے مکمل معیار پر پیدا کیا تاکہ وہ ان معبودوں کے زمین میں نائب اور تمام انسانوں کے سردار بن سکیں ، اور دوسری قسم وہ تھی جنہیں محض جسمانی اعضاء اور ان سے متصل اشیاء عطا کیں اور وہ بربر تھے- یعنی یونانیوں کے علاوہ تمام لوگ-معبودوں نے انہیں اس ناقص معیار پر اس لیے پیدا کیا تاکہ اس کے افراد چنیدہ اور پسندیدہ نسل کے تابعدار غلام بن سکیں ۔

جیساکہ اسلام سے قبل یہود و نصاری بھی خیال کرتے تھے کہ وہ اللہ تعالی کی پسندیدہ مخلوق ہیں اور انہیں خاص مقام کا جو تمیز حاصل ہےوہ دیگر تمام انسانوں کو حاصل نہیں ، اور ان کا خیال تھا کہ وہ خاص نسل ہیں ، اسی بنا پر وہ دوسروں کو ان کی نسل کی وجہ سے حقارت کی نظر سے دیکھتے اور انہیں" جویم " کہتے، یہ ایک ایسی اصطلاح تھی جس کا اطلاق غیر یہودیوں پر ہوتا تھا جس کا معنی تھا " کافر، بت پرست، پلیت"۔

اسی بنا پر ان کی سوچ کے مطابق انہیں حق حاصل ہے کہ وہ اپنے علاوہ جسے چاہیں غلام بنائیں اور ان کا استحصال کریں ، اس لیے کہ وہ پہلی پیدائش کے اعتبار سے گھٹیا اور گری ہوئی قوم ہیں ، اللہ تعالی نے اسے قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا ہے: (وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إلاَّ مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِماً ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الأمِّيينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ)([3]) لوق ہیں اور انہیں خاص مقام کا جو تمیز حاصل ہےوہ دیگر تمام انسانوں کو حاصل نہیں ، اور ان کا خیال تھا ک

ترجمہ:اور بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں تو خزانے کا امین بنادے تو بھی وہ تجھے واپس کردیں ، اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے ، یہ اس لیے کہ انہوں کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں ( غیر یہودیوں ) کے حق کا کوئی گناہ نہیں ہے ، یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ تعالی پر جھوٹ کہتے ہیں۔

مفسر قرآن امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :جس چیز نے انہیں حق کا انکار کرنے پر آمادہ کیا تھاوہ ان کا یہ کہنا کہ "امیین " (ان پڑھ) جوکہ عرب ہیں ان کا مال کھانے میں ہمارے دین میں کوئی حرج نہیں ،بلاشبہ اللہ تعالی نے اسے ہمارے لیے جائز قرار دیا ہے، اسی لیے وہ اپنے علاوہ دیگر اقوام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ، کہ دیگر اقوام کو اللہ تعالی نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ یہودیوں کے غلام بنیں ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے ان کی حقیقت بیان فرمادی کہ تمام مخلوق برابر ہے ان میں کوئی فرق نہیں ، اور یہ محض ان کی نفسانی خواہشات ہیں :(وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ([4])

ترجمہ: یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ پھر تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث اللہ کیوں سزا دیتا ہے ؟ نہیں بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے ایک انسان ہو وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب کرتا ہے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز اللہ تعالٰی کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔

اسی طرح عرب دور جاہلیت میں اپنے بارے میں گمان رکھتے تھے کہ وہ ایک مکمل انسانی قوم ہیں اور ان کے علاوہ دیگر جنہیں وہ عجمی کہتے ، حقیر اور ناقص انسانی قوم ہیں ، چناچہ رسول اللہ ﷐ ان کی سوچ کی غلطی اور فکر کی گمراہی کو واضح کیا، بلکہ اپنے کلام کی وہ

 روشن کیں کہ جن کی روشنی میں آپ کے پیروکار دوسروں کو احترام دینے اور عدم احتقار میں آپ کی پیروی کریں ، جس کی بنیاد شریعت اسلامی کی وہ تعلیمات تھیں جو اس طبقاتی نظام اور تفرقہ بازی کو مٹانے آئی تھیں۔

سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ﷐ نے فرمایا:" میں نے خواب میں بہت ساری سیاہ بکریاں دیکھیں جن میں بہت ساری سفید بکریاں داخل ہوئیں " انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷐ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی ؟فرمایا:" عجم تمہارے دین اور نسب میں شریک ہوں گے"۔انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷐ عجم؟فرمایا:" اگر ایمان ثریا( ستارے )پر بھی ہوگا تو عجم کے لوگ اسے پالیں گےاور اس کے ذریعے تمام لوگوں سے بڑھ کر خوش نصیب ہوں گے "([5]) ۔

دراصل لوگ کانوں کی طرح ہوتے ہیں جس طرح مختلف چیزوں کی کانیں ہوتی ہیں اور انسانوں میں سے ہر ایک میں خصوصیات ہوتی ہیں جو اللہ تعالی نے فطری تقاضے کے طور پر اسے عطا کی ہوتی ہیں ، بطور خلقت ان کی اصل نہیں ہوتی ، کمال مطلق تو صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جبکہ نقص و عیب سوائے انبیاء کرام کے آدم کی تمام اولاد کی علامت ہے۔

چناچہ یہ تعلیمات مسلمانوں کے نفوس پر اثر انداز ہوئیں اور انہوں نے غیروں کے ساتھ انصاف اور ان تعلیمات کی روشنی میں برتاؤ کرنا شروع کیا۔

مستورد القرشی سیدناعمرو بن عاص ﷜کے پاس تھے ، کہنے لگے میں نے رسول اللہ ﷐ سے سنا ہے آپ فرمارہے تھے:"جس وقت قیامت قائم ہوگی رومی لوگ تمام لوگوں سے زیادہ ہوں گے" تو سیدناعمرو ﷜ نے ان سے کہا: دیکھو تم کیا کہہ رہے ہو؟کہا : میں وہی کہہ رہاہوں جو میں نے رسول اللہ ﷐ سے سنا ہے، کہا اگر تم یہ کہتے ہو تو بلاشبہ ان میں چار خصلتیں ہوتی ہیں ، وہ فتنہ و آزمائش کے موقع پر تمام لوگوں سے بڑھ کر بردبار ہوتے ہیں ، مصیبت کے بعد جلد سنبھل جاتے ہیں ، شکست کے بعد جلد پلٹ کر وار کرتے ہیں اور مسکین ، یتیم اور کمزور کے ساتھ احسان کرنے میں بہتر ہوتے ہیں اور پانچویں بہترین اور خوبصورت خصلت یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے ظلم سے محفوظ ہوتے ہیں (مسلم)([6]).

رسول اللہ ﷐ اس لیے آئے تاکہ اس ناپسند طبقاتی نظام کو ختم کرسکیں ، چناچہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کی بنیادی باتوں میں حریت (آزادی) تھی ، تمام انسانوں کے لیے مطلق حریت (آزادی) ، جسے شرعی ضوابط کے مطابق آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے نافذ کیا ، اور انہوں نے اس دوران حاکم ، محکوم اور غنی و فقیر کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ۔

انس ﷜ فرماتے ہیں کہ اہل مصر میں سے ایک شخص سیدناعمر بن خطاب ﷜ کے پا س آیااور کہا: اے امیر المؤمنین میں ظلم سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں ، سیدناعمر ﷜ نے فرمایا:تم نے پناہ دینے والے کی پناہ لی ہے۔اس نے کہا : میں نے عمرو بن عاص﷜ (جو عمر ﷜کے مصر پر گورنر تھے) کے بیٹے کے ساتھ مقابلہ کیا اور میں سبقت لے گیا تو اس نے مجھے کوڑے سے مارنا شروع کردیا اور کہہ رہا تھا :" میں دو عزت داروں کا بیٹا ہوں"۔تو سیدناعمر ﷜ نے سیدناعمرو بن عاص ﷜ کو آنے اور اپنے ساتھ اپنے بیٹے کو بھی لانے کا حکم دیا (جب وہ آگئےتو) سیدناعمر﷜ نے کہا: "مصری کہاں ہے؟کوڑا پکڑو اور اسے مارو " تو اس نے اسے کوڑے سے مارنا شروع کردیا، اور عمر ﷜ کہہ رہے تھے :" دو عزت داروں کے بیٹے کو مارو"۔

سیدنا انس ﷜ کہتے ہیں : اللہ کی قسم وہ اسے مار رہا تھا اور اس پر پڑتی ہوئی مار ہمیں پسند تھی ، پس اس نے اسے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ ہم چاہنے لگے کہ وہ اس سے کوڑا اٹھا لے ، پھر سیدناعمر ﷜ نے مصری سے کہا:" کوڑا عمرو کی گنج پر مارو"تو اس نے کہا :اے امیر المؤمنین مجھے صرف اس کے بیٹے نے مارا تھا اور میں اس سے اپنا حق وصول کرچکا ہوں ۔

سیدناعمر ﷜ نے فرمایا:" تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کیا ہے جبکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟"انہوں نے کہا : اے امیر المؤمنین نہ تو مجھے معلوم تھا اور نہ ہی میرے پاس ابن عبدالحکم آیا تھا۔

یہ دعوت مساوات کی دعوت ہے جس نے انسان کو اپنے ہی جیسے انسان کے برابر مقام دیا چاہے ان کے درمیان کتناہی فرق اور کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں ، اس لیے کہ تمام انسان اصل اور پیدائش کے اعتبار سے برابر ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت، سفید ہو یا سیاہ، عربی ہوں یا عجمی۔

یہ وہ دعوت تھی جسے رسول اللہ ﷐ نے ان کے درمیان رکھا ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ "([7])

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالٰی تم پر نگہبان ہے ۔

تمام انسانوں کی اصل ایک ہی ہے اور وہ سب ایک ہی مصدر کی طرف لوٹتے ہیں جوکہ آدم علیہ السلام ہیں جیسا کہ اللہ رب العالمین نے اسے واضح کیا ہے فرمایا:( إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ([8])

ترجمہ: اللہ تعالٰی کے نزدیک عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی مثال ہوبہو آدم ( علیہ السلام ) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہوجا !پس وہ ہوگیا ۔

پھر اللہ تعالی نے انہیں زمین میں کثرت اور پھیلاؤ کا مصدربنایا فرمایا: (وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ)([9])۔

ترجمہ:اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب انسان بن کر ( چلتے پھرتے ) پھیل رہے ہو ۔

تمام انسان ایک ہی باپ اور ایک ہی ماں سے وجود میں آئے ہیں اس لیے اصل اور نسل کے اعتبار سے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ۔

اللہ تعالی نے تمام انسانوں میں سے سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا جو تمام انسانوں کے باپ تھے پھر ان سے تمام انسانوں کی ماں حوا کو پیدا فرمایا اور انسانی نسل ان ہی سے بنائی، اور یہ سلسلہ تمام مخلوق کی فناء اور قیامت قائم ہونے تک جاری رہے گا، تو کیوں کوئی ایک دوسرے پر فخر کرے، ایک دوسرے کو ذلیل کرے ، ایک دوسرے کو غلام بنائے، ایک دوسرے کو حقیر جانے جبکہ وہ اصل کے اعتبار سے ایک ہی ہیں؟

رسول اللہ ﷐ کا فرمان ہے:" بلاشبہ اللہ تعالی نےتم سے جاہلیت کا تکبر اور غرور اور آباء و اجداد کے ساتھ فخر ، اختم کردیا ہےاب یا تو مومن متقی ہے اور فاجر بدبخت ہے، تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں"([10])۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :( وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ)([11])

ترجمہ:اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیدا کر لیا اور اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے تو جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کا قطعی فیصلہ ہو چکا ہوتا ۔

اس وقت جتنے بھی انسان موجود ہیں اور مستقبل میں جو پیدا ہوں گے ان سب کا اصل اور مصدر ایک ہی ہے، ان کی ابتداءایک ہی دین اور ایک ہی زبان کے تحت ہوئی تھی، لیکن تعدا د بڑھنے کی وجہ سے وہ زمین میں پھیل گئے، اور ہرطرف بکھر گئے ، جس کا ظاہری نتیجہ تفرق، انتشار ، زبانوں کا اختلاف ، رنگوں کا اختلاف سوچنے اور زندگی گزارنے کا انداز اسی طرح عقائد میں اختلاف کی صورت میں نکلنا تھا، اسی لیے اللہ تعالی نے انکی طرف رسول بھیجے تاکہ انہیں ان کے اصل مصدر اور سرچشمہ کی طرف واپس لائیں ، جوکہ اللہ سبحانہ و تعالی کی عبادت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ)([12])

ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالٰی نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟

اسلام لوگوں کی ظاہری شکل و صورت اور وضع قطع کی پرواہ نہیں کرتا ، رسول اللہ ﷐ کا فرمان ہے:" بسااوقات بکھرے بالوں والا پراگندہ حالت شخص دو بوسیدہ کپڑوں والا جس سے لوگ اپنی آنکھیں بوجہ حقارت پھیر لیں ، اگر وہ اللہ تعالی پر قسم کھالے ، تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری کردے"([13])۔

 آپ ﷐ کا یہ بھی فرمان ہے:" بسااوقات بکھرے بالوں والا شخص جسے لوگوں کے دروازوں سے دھکے دیے جاتے ہوں اگر وہ اللہ تعالی پر قسم کھالے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری کردے(مسلم) ۔

اب چونکہ کچھ لوگوں نے اس قابل نفرت طبقاتی تقسیم کو رائج کرنےکے لیے انسانوں کے درمیان پائے جانے والے رنگ ، نسل اور جنس کے درمیان پائے جانے والے اختلاف سے فائدہ اٹھانا تھا ، لہذا شریعت اسلامیہ نے ان کا راستہ ہی بند کردیا اور آپ ﷐ نے بنی آدم کے رنگ مزاج اور طبیعتوںمیں اختلاف کا سبب واضح کردیا فرمایا:"بیشک اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اس مٹھی (بھر مٹی) سے پیدا کیا جو پوری زمین سے لی گئی، چناچہ آدم کی اولاد زمین کے حساب سے آئی ، ان میں سرخ ہیں اور سیاہ ہیں اور سفید ہیں اور زرد ہیں اور ان کے درمیان ہیں اور آسان طبیعت اور سخت طبیعت اور خبیث اور پاکیزہ ہیں([14])۔

پس تمام لوگ قطع نظر ان کی جنس، رنگ ، زبان اور وطن کے سب کے سب ایک جیسے ہیں اور اللہ تعالی کے سامنے برابر ہیں ، صرف ایک چیز کے ذریعے ان کے درمیان تمیز حاصل ہے اور وہ ہے اللہ تعالی کی شریعت سے ان کا قرب اور بعد اور وہ خیر و بھلائی جو وہ اپنے اپنے معاشرے کے لیے پیش کرتے ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ )([15])۔

ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ( ہی ) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے قبیلے بنا دیئے ہیں ، اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔

اللہ تعالی نے تمہیں قومیں اور قبیلے اس لیے نہیں بنایا کہ ایک قوم کو دوسری قوم اور ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے پر فوقیت دے بلکہ یہ تقسیم تمہارے تعارف اور پہچان کا ذریعہ ہے ، جس طرح ہر فرد کا ایک نام ہوتا ہے تاکہ اس کا تعارف ہو اور غیر سے اسکی تمیزہو سکے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ) ([16])

ترجمہ: یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔

یہ تکریم بلا استثناء تما م انسانوں کو حاصل ہے ، اس میں کسی جنس کو کسی جنس پر یا کسی قوم کو کسی قوم پر تخصیص نہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ ) ([17])

ترجمہ: اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں ۔ بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بالیقین وہ واقعی بڑی مغفرت کرنے والا مہربانی کرنے والا ہے ۔

تما م انسان بلااستثناء اللہ تعالی کی عبادت کرنے اور اس کائنات کو آباد کرنے اور اس خلافت کے واجبات ادا کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ، ان کے درمیان فرق صرف رزق ، اخلاق، نیکی ، بدی ، شکل و صورت اور رنگ میں پایا جاتا ہے ، ناکہ اصل پیدائش میں۔

اللہ تعالی نے اسے واضح کیا ہے فرمایا: (نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا)([18])۔

ترجمہ: ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے ۔

چناچہ اس مساوات میں جسے اسلام نے برقرار رکھا ہے ، تمام انسان مندرجہ زیل امور میں برابر ہیں:

ہر انسان کے جائز حقوق محفوظ ہیں ، قطع نظر اسکی جنس، نسل یا رنگ کے، اسی طرح دینی ضابطوں کے مطابق ہر شخص آزاد ہے، وہ دینی ضابطے جو انسانوں کو مطلق اور حیوانی آزادی سے نکالتے ہیں ، جس کا نتیجہ آج کا یہ نام نہاد روشن معاشرہ بھگت رہا ہے، جو ایسے معاشروں کا نتیجہ ہے جن کے افراد کی اکثریت زنا کی کثرت کے سبب اپنے باپ کو نہیں پہچانتی ، اور قید خانے اخلاقی، مالی اور معاشرتی معاملات کے مجرموں سے اٹےپڑے ہیں ۔

رسول اللہ ﷐ کا فرمان ہے:"اے لوگو خبردار! بیشک تمہارا رب ایک ہی ہے اور بیشک تمہارا باپ ہی ایک ہے ، خبردار کسی عربی کو عجمی پر اور کسی سرخ کو سیاہ پر اور کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں ہے سوائے تقویٰ کے ذریعے "([19])۔

تمام انسان شرعی احکام کے سامنے برابر ہیں ان میں جنس، نسل یا رنک کی کوئی تفریق نہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:( إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا)([20])۔

ترجمہ: اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی انہیں پہنچاؤ !اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو !یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے بیشک اللہ تعالٰی سُنتا ہے ، دیکھتا ہے ۔

اور رسول اللہ ﷐ کا فرمان ہے:" اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو جس چیز نے ہلاک کیا وہ یہ کہ جب ان میں سے کوئی عزت دار چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ، اور جب ان میں کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے ، اور اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد (بھی) چوری کرتی تو البتہ میں اس کا ہاتھ کاٹتا"([21])۔

اسی طرح تمام انسان مسؤولیت اور جزا و سزا میں برابر ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ)([22])

پس جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔

اسی طرح تمام انسان انسانی کرامت کے حق میں برابر ہیں ، کسی کو اسکے رنگ یا جنس یا مذہب یا عقیدے کی بناء پر تکلیف نہیں دی جائے گی ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:" وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)([23])

ترجمہ: اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وہ براہ جہل حد سے گزر کر اللہ تعالٰی کی شان میں گستاخی کریں گے ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وہ ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وہ کیا کرتے تھے۔ 

 اسی طرح تمام انسان جان ، مال اور عزتوں کی حرمت میں برابر ہیں ، رسول اللہ ﷐کا فرمان ہے:"بلاشبہ تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ، تمہارے درمیان حرام ہیں ، جس طرح تمہارا یہ دن تمہارے اس مہینے میں ، اس شہر میں حرمت والا ہے، خبردار جو غائب ہے وہ حاضر تک پہنچادے ، ممکن ہے جو حاضر ہے وہ اپنے سے زیادہ یاد رکھنے والے تک پہنچادے "([24])۔

اسی طرح تمام انسان معاشرے میں قیادت کی ذمہ داریاں لینے میں برابر ہیں ، جو استحقاق ، قابلیت اور اہلیت پر مبنی ہو۔

عدی الکندی ﷜ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷐ نے فرمایا:" اے لوگو! تم میں سے جو ہمارے کسی کام کا عامل بنایا گیا اور اس نے ہم سے اس میں سے ایک سوئی یا اس سے بھی کمتر چیزکی چوری کی تو وہ خائن ہے ، وہ اسے قیامت کے دن لے آئے گا" تو ایک سیاہ فام شخص کھڑا ہوگیا گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں ، میرا خیال ہے کہ وہ انصار میں سے تھا، کہنے لگا :" اے اللہ کے رسول !مجھ سے میرا کام واپس لے لیجئے ، فرمایا :" وہ کیوں ؟" اس نے کہا :" میں نے آپ کو وہ باتیں کرتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے باتیں کہی ہیں۔ فرمایا :" میں اب بھی یہ کہہ رہا ہوں ، جس کو ہم نے کسی کام پر عامل بنایا ، اسے چاہیئے کہ اپنی کم یا زیادہ ہر چیز لے لائے، پس جو اسے دیا جائے وہ لے لے اور جس چیز سے اسے روکا جائے ، اس سے رک جائے"([25])

اسی طرح اللہ تعالی نے اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں پیدا کی ہیں ، تمام لوگ اس سے فائدہ حاصل کرنے میں برابر ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:( يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ)([26])۔

ترجمہ: لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر مت چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔

اسی طرح تمام انسان اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے میں برابر ہیں ، لوگوں کے درمیان رنگ ، جنس اورنسل کے اختلاف کے باوجوداسلام سب کے لیے نازل ہوا ہے، تمام لوگ اللہ تعالی ہی کے بندے ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) ([27])۔

ترجمہ: اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمہارا بچاؤ ہے ۔

بلکہ رسول اللہ ﷐ کی شریعت ہر اس بات کا رد کرنے آئی ہے جو قابل نفرت تعصب کا سبب بنے ، یا اس کا ذکر کرے ، واثلہ بن اسقع ﷜ سے مروی ہے ، میں نے کہا :" اے اللہ کے رسول !عصبیت کیا ہے؟فرمایا:"یہ کہ تم اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرو"([28])۔

لہذا دوستی اور دشمنی کا معیار دین ہے ناکہ قومی نعرہ، رسول اللہ ﷐ کا فرمان ہے:" جس نے اندھے جھنڈے کے نیچے لڑائی کی ، تعصب کی خاطر لڑااور تعصب کی خاطر غصہ کیا (اور اس دوران مارا گیا)تو وہ جاہلیت کی موت مرا"([29])۔

اسلام میں حسب نسب کا اچھا ہونا کوئی معیار نہیں ہے ۔

رسول اللہ ﷐ نے صہیب رومی ، سلمان فارسی اور بلال بن رباح الحبشی رضی اللہ عنہم کے لیے محبت کا اظہار کیا اور انہیں خوشخبری دی کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ، جبکہ اپنے چچا کے لیے بغض ، نفرت، اور دشمنی کا اظہار کیا ، جس کے بارے میں قرآن کریم نازل ہوا جو تاقیامت پڑھا جائے گا ، جس میں اسے سخت عذاب کی دھمکی دی، اللہ تعالی کا فرمان ہے:( تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ، مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ، سيصْلَى نَاراً ذَاتَ لَهَبٍ)([30])

ترجمہ :ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ( خود ) ہلاک ہوگیا ۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا ۔

قرآن کریم جو صحابہ کرام کا ضابطہ حیات اور تمام مسلمانوں کے لیے نازل ہوا ، جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں لقمان حکیم کا نام بھی ملتا ہے، جوکہ ایک سیاہ فام حبشی غلام تھے، اللہ تعالی نے انہیں حکمت و دانائی سے نوازا تھا، اور قرآن کریم کی ایک مکمل سورت ان کے نام کے ساتھ نازل ہوئی جس میں ان کی تعریف کی گئی اور ان کے فضائل کا ذکر کیا گیا، جبکہ قرآن کریم کی بہت ساری سورتیں اللہ تعالی کے انبیاء و رسل اور پاکباز صدیقین کے ناموں کے ساتھ موسوم ہیں ، جیسے نوح ، ابراہیم، آل عمران، مریم، یوسف، یونس، اور محمد وغیرہ جن کی مسلمان صبح شام اپنی نمازوں میں تلاوت کرتے ہیں ، جو صرف اس لیے کہ مسلمانوں کے دلوں میں تمام انسانوں کے لیے مساوات کی بنیادقائم ہو، اور ہر وقت ان کے ذہنوں میں برقرار رہے۔

حبشہ افریقہ کی زمین ہے جس میں بسنے والے تقریبا سیاہ فام ہوتے ہیں ، جب قریش نے آپ کے پیرو کاروں کو تکلیفیں دیں، ان پر تنگی کی تو آپ ﷐ نے اپنے صحابہ کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا اور ان سے کہا کہ :" بیشک حبشہ کی زمین میں ایک بادشاہ ہے اس کے پاس کسی پرظلم نہیں کیا جاتا، تم اس ملک میں جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالی تمہارے لیے تمہاری اس حالت کے لیے کوئی آسانی اور نکلنے کی راہ بنائے"([31]

جب وہاں کا بادشاہ نجاشی انتقال کر گیا ، رسول اللہ ﷐ نے فرمایا:"اس پر نماز(جنازہ) پڑھو ، انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول ! ہم حبشی بندے پر نماز پڑہیں ( جوکہ مسلمان نہیں تھا)؟ تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:"

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ([32])([33])

 ترجمہ: یقیناً اہلِ کتاب میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالٰی پر ایمان لاتے ہیں اور تمہاری طرف جو اُتارا گیا ہے اور ان کی جانب جو نازل ہوا اس پر بھی ، اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے بھی نہیں ، ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے ، یقیناً اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے ۔

رسول اللہ ﷐ نے فرمایا:"تم اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو ، پھر جنازہ گاہ میں ان کے لیے صفیں بنائیں اور اس پر چار تکبیریں کہیں "([34])۔

اسلام میں مساوات کی باتیں محض باتیں ہی نہیں تھیں کہ جنہیں آپ ﷐ اپنے صحابہ کرام کے درمیان کیا کرتے تھےبلکہ عملا بھی انہیں نافذ کیا ۔

یہ سیدنا اسامہ بن زید ﷜ ہیں ، رسول اللہ ﷐ کے آزاد کردہ غلام کے بیٹے ، سخت سیاہ رنگت اور چپٹی ناک والے ، رسول اللہ ﷐ انہیں اور اپنے نواسے سیدنا حسن ﷜کو اٹھاتے اور فرماتے :" یا اللہ ! ان سے محبت کر ، پس بیشک میں ان سے محبت کرتا ہوں "([35])

رسول اللہ ﷐ کی زوجہ عائشہ ﷝فرماتی ہیں :" کسی شخص کے لیے روا نہیں کہ وہ اسامہ سے بغض رکھے ، رسول اللہ ﷐ سے یہ سننے کہ بعد کہ :" جو شخص اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اسامہ سے محبت کرے"([36])۔

آپ ﷐ نے فرمایا :" جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اسامہ سے محبت کرے "([37])۔

آپ﷐ قول کے ساتھ عمل بھی کرتے تھے، ام المؤمنین عائشہ ﷝ فرماتی ہیں :" رسول اللہ ﷐ نے اسامہ ﷜ کی بہتی ہوئی ناک صاف کرنا چاہی تو میں نے کہا:" آپ مجھے کرنے دیں " آپ ﷐ نے فرمایا:" اے عائشہ ! اس سے محبت کر پس بیشک میں اس سے محبت کرتا ہوں "([38])۔

باوجود اسکے کہ وہ آزاد کردہ سیاہ فام غلام تھے، رسول اللہ ﷐ نے انہیں روم سے لڑنے والے مسلمانوں کے لشکر کا قائد مقرر کیا ، اور لشکر بھی ایسا کہ جس میں کبار صحابہ کرام اور قوم کے سردارتھے، ان سب پر انہیں امیر مقرر کیا ، کچھ صحابہ کرام نے اس ذمہ داری کو سیدنا اسامہ﷜ پر بھاری خیال کیا ، اور اس بارے میں (ان کی کم عمری کی بناء پر ) باتیں کیں ، جب نبی ﷐ کو علم ہوا تو آپ ﷐ منبر پر تشریف لائے ، اللہ تعالی کی حمد و ثناء کی اور فرمایا :" اگر تم اس (اسامہ ﷜) کی امارت پر اعتراض کرتے ہو ، (تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ ) تحقیق تم نے اس سے پہلے اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا ، اور اللہ کی قسم وہ اس کا اہل اور اسکے لائق تھا ، اور وہ میرے محبوب ترین لوگو ںمیں سے تھا اور یہ اس کے بعد میرے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے"([39])۔

قبل اس کے کہ سیدنااسامہ ﷜ کا لشکر روم سے جہاد کے لیے نکلتا ، رسول اللہ ﷐ فوت ہوجاتے ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق ﷜ خلیفہ بن جاتے ہیں ، اور رسول اللہ ﷐ کی وصیت نافذ کرنے پر اصرار کرتے ہیں ، تو ان سے سیدناعمر ﷜ کہتے ہیں :" انصار کا خیال ہے کہ لشکر کی قیادت کی ذمہ داری وہ لے جو عمر میں سیدنا اسامہ ﷜ سے بڑا ہو "۔ سیدنا ابو بکر صدیق ﷜ غضبناک ہوجاتے ہیں اور فرماتے ہیں:"اے خطاب کے بیٹے ! تجھے تیری ماں گم پائے، اسے رسول اللہ ﷐ نے عامل بنایا تھا اور تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اسے معزول کروں ؟قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہےاگر مجھے یقین ہو کہ مجھے درندے اچک کر لے جائیں گے (پھر بھی میں ) اسامہ ﷜ کی روانگی نافذ کرکے رہوں گا ۔

اب مدینہ سے ایک سیاہ فام نوجوان ، سیدنااسامہ ﷜ اپنے لشکر کے ساتھ نکلتا ہے ، اور ان کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق ﷜ انہیں الوداع کہنے کے لیے نکلتے ہیں ، اس طرح کہ سیدنا اسامہ ﷜ گھوڑے پر سوار ہیں جبکہ سیدناابوبکر صدیق ﷜ پیدل چل رہے ہیں ، سیدنااسامہ ﷜ کو اس منظر سے سے شرم آتی ہے ، اور سیدناابوبکر صدیق ﷜ سے کہتے ہیں :" اے خلیفہ رسول ! واللہ یا تو آپ سوار ہوں گے یا میں (سواری سے) اتروں گا (اور پیدل چلوں گا ) " تو سیدنا ابوبکر صدیق ﷜ فرماتے ہیں :" واللہ نہ تم اترو گے اور واللہ نہ میں سوار ہوں گا ، میرا اس بات میں کیا نقصان ہے کہ تھوڑی دور پیدل چل کر اللہ کی راہ میں اپنے قدم غبار آلود کروں ، پھر سیدنا ابوبکر صدیق ﷜ سیدنا اسامہ ﷜ سے درخواست کرتے ہیں کہ سیدنا عمر ﷜ ان کے ساتھ مدینہ میں رہیں تاکہ حکومتی معاملات میں ان کی مدد کرسکیں ۔

اور اسطرح لوگوں کے سامنے ایک اعلی مثال پیش کرتے ہیں کہ قائد سے اجازت طلب کی جائے گی چاہے وہ کتنا چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اللہ ﷐ نے اس مساوات کی بنیاد راسخ کرنے میں اپنی شخصیت سے اس کا آغاز کیا ، رسول اللہ ﷐ تمام لوگوں سے بڑھ کر اعلی حسب و نسب والے تھے ، آپ ﷐کا خاندان معزز ترین خاندانوں میں سے تھا ، آپ﷐ کے قبیلے کا شمار عرب کے افضل ترین قبائل میں ہوتا تھا ، بلا اختلاف ہر ایک کے ہاں آپ ایک خاص مقام رکھتے تھے، اس کے باوجود آپ ﷐فرماتے ہیں :" تم میرے معاملے میں مبالغہ نہ کرو ، جس طرح نصاری ٰ نے (عیسیٰ)بن مریم علیہ السلام کے معاملے میں مبالغہ کیا ، میں صرف بندہ ہوں تو تم (مجھے )اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو"([40])۔

رسول اللہ نے اپنے اعلیٰ حسب و نسب اور شرف و منزلت کے باوجود اپنے چچا کی بیٹی زینب بنت جحش کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید ﷜ سے کروایا تھا ۔

اسی طرح آپ کے اختیار میں جو بھی ہوتا کرگذرتے تاکہ اپنے پیروکاروں کے نفوس میں شریعت اسلامیہ کی عظیم بنیادیں راسخ کرسکیں ، چناچہ بلاتفریق ان کی خبر گیر ی کرتے اور ان کا حال احوال دریافت کرتے ۔

ابو ہریرہ ﷜بیان کرتے ہیں کہ ایک سیاہ فام عورت تھی جو مسجد میں جھاڑو لگاتی تھی یا ایک نوجوان تھا ۔ رسول اللہ نے انہیں گم پایا توا س عورت یا مرد کے بارے میں پوچھا ( صحابہ کرام نے ) کہا وہ فوت ہوگیا ۔ آپ نے فرمایا :" تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی ؟ "گویا صحابہ کرام نے اس عورت یا مرد کے ( فوت ہونے کے ) معاملے کو چھوٹا سمجھا پس آپ نے فرمایا : مجھے اس کی قبر تک لے چلو، تو صحابہ کرام آپ کو ان کی قبر تک لے گئے ۔ پس آ پ نے اس کی قبر پر نماز پڑھی پھر فرمایا : یہ قبر اپنے اہل پر اندھیرے سے بھری ہوتی ہیں ، اور ان پر میرے نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے ان پر روشن کردیتا ہے "([41])۔

بلکہ آپ خود پر زہدکو ترجیح دیتے اور بلا تفریق رنگ و نسل لوگوں کو عطا کرتے ۔

حکیم بن حزام بیان کرتے ہیں کہ ’’ محمد جاہلیت کے ایام میں مجھے تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب تھے ، جب وہ نبی بنے تو مدینہ کی طرف ( ہجرت کی خاطر نکل گئے ) ۔

حکیم بن حزام موسم حج میں نکلے تو انہیں ( بازا ر میں ) ذی یزن ( یمن کے بادشاہ ) کا حلہ ( چادر اور تہہ بند ) ملا جو پچاس درہم میں بیچا جارہا تھا ، انہوں نے وہ رسول اللہ کو ہدیہ دینے کے لئے خریدا ( پھر جب ) اسے آپ﷐ کے پاس لائے اور آپ کو ہدیہ دینا چاہا تو آپ ﷐نے انکار کردیا ، عبیداللہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا :" ہم مشرکوں سے کچھ بھی قبول نہیں کرتے ، لیکن اسے قیمت سے لیں گے "تو میں نے وہ ( حلہ ) آپ کو دے دیا اور( اسکی قیمت وصول کرلی ) یہاں تک کہ آپ مدینہ آگئے تو اسے پہنا اور میں نے منبر پر آ پ پر یہ ( حلہ ) دیکھا ۔ میں نےاس وقت آپ ﷐سے زیادہ حسین کچھ نہیں دیکھا ، پھر آپ﷐ نے وہ ( حلہ ) سیدنااسامہ بن زید کو دیدیا ۔ حکیم نے جب اسے سیدنااسامہ پر دیکھا تو کہا : اے سامہ تم ذی یزن کا حلہ پہنتے ہو ؟کہا : ہاں بلا شبہ میں ذی یزن سے بہتر ہوں اور میرا باپ اسکے باپ سے بہتر ہے اور میری ماں اسکی ماں سے بہتر ہے ([42])۔

 سیدنااسامہ نے ﷜یہ بات کہنے کی ہمت کیسے کی ؟ یہ اسلام ہے کہ جس نےتمام انسانوں کے درمیاں برابری قائم کی ، قطع نظر ان کی جنس اور رنگ کے ، اور انہیں ان کےتمام حقوق دیئے جس میں آزادی اظہار بھی تھا کہ جس سے پہلے وہ محروم تھے ۔

آپ ، اپنے صحابہ سے باتیں کرتے ، مذا ق کرتے ،ان کی خیر خیریت معلوم کرتے، ان کی شکایات سنتے اور ان کی عملی یا قولی تصرفات میں اگر کوئی چیز دین اسلام کی تعلیمات کے مخالف ہوتی تو ان کی اصلاح کرتے بالخصوص جس میں کسی کی حقارت یا کمتری کا پہلو ہوتا ۔

معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں ربذہ ( مقام ) پر سیدنا ابوذر ﷜سے ملا انہوں نے ایک لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور اسی کپڑے کا لباس ان کے غلام نے بھی پہن رکھا تھا ، تو میں نے اس بارے میں ان سے پوچھا ، انہوں نے کہا : میں نے ایک دن ایک آدمی کو گالی دی اور اس کی ماں کے ذریعے اسے عار دلائی تو مجھے نبی نے کہا : "اے ابو ذر! کیا تم نے اسے ماں کی گالی دی ؟ تم ایسے شخص ہو جس میں ( اب بھی ) جاہلیت کی صفت موجود ہے ،تم اپنے غلاموں کا خیال رکھو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ملکیت میں دے دیا ہے، پس جس کا بھائی اس کے زیر دست ہو اسے چاہیئے کہ جو وہ خود کھاتا ہے اسی سے اسے بھی کھلائے اور جو وہ خود پہنتا ہے اسے چاہیئے کہ اسی سے اس کو پہنائے، اور انہیں کسی ایسے کام کا مکلف نہ بناؤ جو ان پر بھاری ہو اگر (پھر بھی ) انہیں مکلف کر و تو انکی مدد کرو"([43])۔

یہ سیدنا بلال بن رباح ﷜ہیں ، سیاہ فام حبشی غلام جنہیں جتنا اعلیٰ مقام،و مرتبہ ملتا ان کے تواضع عاجزی و انکساری میں اضافہ ہوتا اور اہل فضل و منقبت کا اعتراف کرتے ، لوگ ان کے پاس آکر ان کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کے ان پر احسانات کا ذکر کرتے ۔ تو جیسے ہی وہ تعریف سنتے فورا اپنے نفس کو غرور و تکبر سے روکنے کےلیےاسے اس کی اصل حیثیت دکھاتے ، آنسو ان کے رخسار وں پر بہہ رہے ہوتے اور فرماتے : میں وہ ہی حبشی ہوں جو کل تک غلام تھا ۔ جب انہیں معلوم ہو اکہ لوگ انہیں خلیفہ اول ، انبیاء و رسل کے بعد سب سے افضل ترین ہستی سیدنا ابو بکر صدیق ﷜پر فضیلت دیتے ہیں ، تو انہوں نے کہا : تم ان پر کیسے فضیلت دیتے ہو جبکہ میں تو ان کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں ([44])۔

یہ وہ ہی تھے جو خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ، وہاں موجود بتوں پر تھوکتے اور کہتے : وہ شخص تباہ و برباد ہوا جس نے تمہاری عبادت کی ([45])۔

یہ وہ ہی ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ نے گواہی دی کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں ، ایک دن فجر کی نماز کے وقت آپ ﷐ نے ان سے فرمایا : "اے بلال ! اسلام میں جو تم نے اعمال کیے ہیں ان میں سب سے زیادہ امید والے عمل کے بارے میں مجھے بتلاؤ ، بلاشبہ میں نے تمہارے جوتوں کی آواز اپنے آگے جنت میں سنی ہے " کہا میں نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس کی مجھے بہت زیادہ امید ہو ( ہا ں ) مگر میں ( جب کبھی) رات اور دن کی کسی بھی گھڑی میں وضو کرتا ہوں تو اس وضو کے ساتھ جو میرے نصیب میں ہو تو میں نماز پڑھتا ہوں ([46]) ۔

یہ وہ ہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان جیسے دیگر کمزوروں کے بارے میں قرآن نازل کیا جو تا قیامت پڑھا جائے گا ۔

ایک مرتبہ قریش کے سردار نبی کے پاس آئے ،آپ اس وقت بلال حبشی ،سلمان فارسی ، صہیب رومی اور ان جیسے دیگر ، جیسے ابن ام عبد، عمار ، اور خباب رضی اللہ عنہم جیسے کمزور مسلمانوں کے ساتھ تشریف فرما تھے جب انہوں نے ان صحابہ کو آپ کے ارد گرد دیکھا تو انہیں حقیر سمجھا ، وہ آپ ﷐ کے پاس آکر کہنے لگے ، ہم چاہتے ہیں کہ آ پ ہمارے لیئے کو ئی خاص مجلس مقرر کریں ، جس کے ذریعے آپ عرب کو ہمارے مقام کی پہچان کروائیں ، بلاشبہ عرب کے قافلے آپ کے پاس آتے ہیں اور ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھیں ، پس جب ہم آپ کے پاس آئیں تو انہیں ہماری ( مجلس سے ) اٹھا دیا کریں ،جب ہم فارغ ہو جائیں تو پھر آ پ بھلے ان کے ساتھ بیٹھ جائیں ۔ آپ ﷐نے فرمایا ’’ جی ہاں ‘‘ انہوں نے کہا آ پ اپنے ذمہ یہ ہمیں لکھ کر دیں ،آپ ﷐نے صحیفہ منگوایا اور علی ﷜کو لکھنے کے لیے بلایا۔

 رسول اللہ کا مقصد یہ تھا کہ ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کیا جائے اور یوں ان کی تألیف قلبی ہو سکے ، اس لیے کہ اس میں اسلام اور اہل اسلام کو تقویت ملتی ، لیکن در حقیقت اسلام میں اس بات کا بھی کوئی وزن نہیں ، اسلام کے مبادیات اور تعلیمات ٹھوس اور قدیم ہیں جو کسی کے لئے تبدیل نہیں ہو سکتیں ، اور اللہ تعالیٰ وحی ناز ل فرماتا ہے :(وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ (52) وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ (53) وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (54) ([47])۔

ترجمہ : اور ان لوگوں کو نہ نکالئیے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں خاص اسی کی رضا مندی کا قصد رکھتے ہیں ان کا احتساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں اور آپ ان کو نہ نکال دیں ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے ، اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعے سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں ، کیا یہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے ۔ کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ شکر گذار وں کو کو خوب جانتا ہے ۔ اور یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ( یوں ) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے جو تم میں سے ناواقفیت سے برا ئی کرےپھر اس کے بعد توبہ کرے اور نیک ہوجائے تو اللہ ( کی یہ شان ہے کہ وہ ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے بڑی رحمت والا ہے ۔

چناچہ رسول اللہ ﷐ نے اپنے ہاتھ سے صحیفہ پھینک دیا اورہمیں بلایا، ہم آپ ﷐ کے پاس آئے تو آپ ﷐ پڑھ رہے تھے:" {سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ} "

پھر ہم آپ ﷐ کے پاس بیٹھتے، پس جب کھڑے ہونے کا ارادہ فرماتے تو کھڑے ہوجاتے تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی:" (وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا )([48])

اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں ( رضا مندی چاہتے ہیں ) ، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا ۔

 کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ہمارے ساتھ بیٹھے، جب آپ کےجانے کا وقت ہوجاتا تو ہم کھڑے ہوجاتے اور آپ کو چھوڑ دیتے تاکہ آپ جا سکیں([49])۔

یہ حبشی کون ہے جو کل تک غلام تھا اور آج اپنے اسلام کی وجہ سے سردار بن گیا ہے ؟ آئیے ہم ان کا مقصد سنتے ہیں جسے خالد بن محمد خالد رحمۃ اللہ نے تحریر کیا ہے فرماتے ہیں ([50])

یہ سیدنا بلال بن رباح ﷜ ہیں ، اسلام کے پہلے مؤذن، جنہوں نے آواز حق بلند کی ،جنہوں نے بتوں کو پاش پاش کیا ، بھلا انہیں کو ن نہیں جانتا ہو گا ، یہ تو وہ ہیں جو کائنات میں موجود تمام انسانوں کے دلوں میں رچ بس گئے ، اسلام کے عظیم معجزوں میں سےایک معجزہ ، جب سے اسلام کا آغاز ہوا تب سے لیکر اب تک اور جب تک اللہ تعالی چاہے گا اگر ہم دس مسلمانوں سے ملیں گے تو ان میں سے نو لازما سیدنا بلال ﷜کو جانتے ہونگے ۔ یعنی کئی صدیوں اور کئی نسلوں میں کروڑوں لوگوں نے سیدنا بلال ﷜کو جانا ، ان کا نام یاد رکھا اور ان کے کارناموں کا محفوظ کیا ،جس طرح اسلام کے دو عظیم خلیفوں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنھما کو جانا ۔

 اگر آپ کسی بچے سے پوچھیں جو محض اپنی ابتدائی تعلیم میں ہو ، چاہےوہ بچہ مصر ، پاکستان ، چین ، امریکا ، یورپ ، ایشیا ، عراق ، شام ، ایران ، سوڈان ، تونس ، مراکش ، جزائر ، افریقا کی گہرائیوں میں اور ایشای کی بلندیو ں میں ہی کیوں نہ ہو ، الغرض زمین کا ہر وہ خطہ جس میں مسلمان رہتے ہوں ، اگر آپ کسی بھی بچے سے پوچھیں کہ بیٹے ! سیدنا بلال ﷜کون تھے ؟ تو وہ جواب میں کہے گا وہ رسول اللہ کے مؤذن تھے ، یہ وہی غلام تھے جنہیں ان کا آقا امیہ بن خلف دہکتے ہوئے پتھروں پر لٹاکر عذاب دیتا تھا تاکہ وہ انہیں ان کے دین سے پھیر سکیں اور وہ احد احد ( اللہ ایک ہےاللہ ایک ہے)کہتے ۔

 اگر آ پ اس لازوال ذکر خیر کو دیکھ رہے ہیں جو اسلام نے سیدنا بلال ﷜کو عطا کیا تو آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ سیدنا بلال ﷜ اسلام سے قبل ایک غلام سے بڑھ کر کچھ نہیں تھے ، جو دو مٹھی کھجوروں کے عوض اپنے آقا کے اونٹ چراتے ، تاکہ ان کھجوروں کے ذریعے خود کو موت سے دور رکھ سکیں اور اپنے آپ کو بھول جائیں ۔ لیکن ان کے سچے ایمان اور دین حق کی عظمت نے انہیں زندگی اور تاریخ اسلام کے عظیم شرفاء اور معزز لوگوں کے درمیان انہیں عالی مقام عطا کیا ، انسانوں میں سے بہت سارے عالی مرتبت ، صاحب سلطنت ، اصحاب ثرورت کو اس دائمی تذکرے کا دسواں حصہ بھی نہیں مل سکا جو اس حبشی غلام سیدنا بلال ﷜کو ملا۔

 بلکہ تاریخ کے بہت سارے سورماؤوں کو اس تاریخی شہرت کاایک حصہ تک نہ مل سکا جوسیدنا بلال ﷜ کو ملا ، ان کی سیاہ رنگت ، عام حسب و نسب ، لوگوں کے ہاں ان کے غلام ہونے کی بناء پر عدم وقعت یہ ساری باتیں مل کر بھی ان کے بلند مقام حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں ، کہ جس بلند مقام کے وہ اپنے صدق ، یقین، پاکیزگی اور اخلاص کی بناء پر مستحق ٹہرے تھے ۔

 لوگوں کا خیال تھا کہ بلال جیسا غلام جو اجنبی نسل کا ہے ،جس کا کوئی کنبہ قبیلہ نہیں ،جس کے پاس کوئی وقت نہیں ،جسے اپنی زندگی پر بھی کوئی اختیار نہیں کیونکہ وہ تو اپنے آقا کی ملکیت ہے ۔ جسے اس نے اپنے مال سے خریدا ہے جو صبح شام اپنے آقا کے اونٹ اور بکریاں چراتا ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کا وجود نہ تو کچھ حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی کچھ بن سکتا ہے، لیکن یکلخت انہوں نے ان ساری سوچوں کو پیچھے چھوڑ دیا جب انہوں نے ایمان حاصل کرلیا اور تمسک بالایمان جو انہیں حاصل ہوا وہ دور دور تک کسی اور کو حاصل نہ ہوسکا ۔

 وہ رسول اللہ اور اسلام کے سب سے پہلے مؤذن بن گئے ،یہ وہ عمل تھا کہ جس کی خواہش قریش کے تمام سردار اور عظماء رکھتے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور آپ اتباع کی تھی ۔

جی ہاں وہ سیدنا بلال ﷜ہی تھے بہادری اورعظمت کا نشان ۔

 وہ ایک حبشی سیاہ فام ماں کی اولاد تھے جن کا نام حمامہ تھا جنہیں تقدیر کے تھپیڑوں نے مکہ میں امیہ بن خلف الجمی کا غلام بنادیا تھا ، کیونکہ سیدنا بلال ﷜کی ماں اس کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی تھی ۔

 وہ غلامانہ زندگی بسر کرتے ،ان کے شب و روز ایک ہی جیسے قحط زدہ ہوتے، ان کو نہ اپنے آج پر اختیار ہو تا اور نہ ہی کل کی کوئی امید ۔ جب لوگ آپ کے متعلق باتیں کرتے، یہ باتیں ان کے کانوں تک بھی پہنچتی تھیں ۔

وہ اپنے سرداروں اور ان کے مہمانوں کی باتیں کان لگا کر سنتے بالخصوص امیہ بن خلف کی ،جو بنی جمح قبیلے کا یک بزرگ شخص تھا اور سیدنا بلال ﷜ اسی قبیلے کے غلام تھے ۔

 ا ن کے سردار امیہ اور اس کے قبیلے کےافراد جب کبھی نبی کے متعلق باتیں کرتے تو وہ باتیں غصہ، بغض ،نفرت اور عداوت سے بھری ہوتیں ۔

سیدنا بلال ﷜کے کانوں میں جب ا س جنونی نفرت کی باتوں کے الفاظ پڑتے اس سے وہ نئے دین اورا س کی تعلیمات کا تصور کرتے جس میں تو حید ، اخلاق فاضلہ ، مساوات و حریت (آزادی) کی دعوت تھی اور وہ محسوس کرتے کہ یہ سب کچھ ان کے لئے نیا ہے ۔ ان لوگوں کی سلگتی اور دھمکی بھری باتوں میں سے کچھ ایسی باتیں بھی سیدنا بلال ﷜کے کانوں میں پڑتیں جس میں محمد کے شرف ، سچائی ، امانت اور درست رائے کا اعتراف ہوتا ۔

 وہ انہیں آپ کے لائے ہوئے دین کے متعلق باتیں کرتے ہوئے سنتے اور تعجب بھی کرتے کہ یہ لوگ خود ہی اس بات کے معترف ہیں کہ محمد نہ تو جھوٹا ہے نہ جادوگر ہے اور نہ ہی مجنون ہے اگر اس کے لائے دین پر طعنہ زنی اور عیب جوئی ضروری ہو ہی گیا تو آخر حل یہ ہی ہے کہ اس کے لائے ہوتے دین کی طرف مائل ہونے والے لوگوں کی راہ مسدود کر دی جائے ۔

 وہ انہیں آپ کی امانت ، وفاء ، مردانگی ، اخلاق ، پاکدامنی اور کمال عقل کے متعلق باتے کرتے ہوئے سنتے۔

 سیدنابلال ﷜ نےانہیں چھپ کر باتیں کرتے ہوئے سن لیا کہ کن اسباب کی بناء پر وہ آپ سے دشمنی کریں ۔

 پہلی بات یہ کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے دین سے محبت کرتے ہیں ۔

دوسری بات قریش کی سیادت پر زوال کا خوف، وہ سیادت جس کا سبب وہ دینی مرکز ہے جو جزیرۃ العرب میں عبادت و قربانی کا دار الحکومت ہے ۔

 تیسری بات یہ کہ دوسروں کو چھوڑ کر صرف بنو ہاشم میں سے ہی نبی اور رسول کیوں مبعوث ہوا ۔

 اور پھر ایک دن سیدنابلال بن رباح﷜ اللہ تعالی کا نور دیکھ لیتے ہیں ۔ اپنے پاکیزہ نفس میں کئی گہرائیوں میں اس کی گونج سنتے ہیں اور رسول اللہ کے پاس آکراسلام قبول کرتے ہیں۔

 اسلام لانے کےبعدسیدنا بلال ﷜کی زندگی اس طرح پر سکون نہ رہی جیسے وہ اسلام سےقبل تھی ، جس میں صرف کھانا پینا اور سونا تھا ، کچھ ہی عرصہ بعد ان کے اسلام کی خبر پھیل گئی اور بنی جمح کے سرداورں کو زمین گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی جن کے سروں میں تکبر کی ہوا بھری ہوئی تھی اور فخر و غرور سے وہ بھاری ہو رہے تھے ۔

 اور پھر انسانی شیطانوں نے امیہ بن خلف پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا ، ا ن کے مطابق ان ہی کے غلاموں میں سے ایک غلام کا اسلام قبول کرنا ان کے منہ پر زوردار تھپڑ ہے جس میں ان ذلت و رسوائی ہے ،کہ انہی کا ایک حبشی غلام مسلمان بن کر محمد کی اتباع کرنے لگاہے ۔

اس دن جب سورج غروب ہوا تو سیدنابلال ﷜کے اسلام پر ہی غروب نہیں ہوا بلکہ قریش کے تمام بتوں اور بت پرستوں کا بھی سورج بھی غروب ہوا ، بلال ﷜ کا اسلام کے متعلق مؤقف ، اسلام کے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کیلئے شرف تھا ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انہیں مثال بنادیا کہ سیاہ رنگت اور غلامی بھی اس روح کی عظمت میں کمی نہیں لاسکتی جس روح نے ایمان پالیا ہو ،اپنے رب کو تھام لیا ہو، اور اس کے حق کے ساتھ چمٹ گئی ہو۔ بلاشبہ سیدنا بلال ﷜نےاپنے زمانہ میں موجود ہر جگہ کے لوگوں کو جوان کے دین پر تھے عظیم سبق دیا ، جس کا خلاصہ یہ تھا ضمیر کی آزادی اور ضمیر کی حکمرانی کو نہ تو زمین بھر سونا دیکر خریدا جاسکتا ہے اور نہ ہی زمین بھر عذاب دیکر خریدا جاسکتا ہے ۔

دین اسلام کی دعوت کے آغاز میں سات لوگوں نے سب سے پہلے اپنے ایمان اظہار کیا وہ تھے رسول اللہ ابو بکر صدیق ،عمار بن یاسر اورا نکی ماں سمیہ ، صہیب ،بلال اور مقداد رضی اللہ عنھم ۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو اپنے چچا ابو طالب کے ذریعے محفوظ رکھا ،جس نے آپ کا دفاع کیا اور آپ کی حفاظت کی ، اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر ﷜کو ان کی قوم کی وجہ سےمحفوظ رکھا ،ان کے علاوہ باقی جتنی بھی تھے ان سب کو مشرکین نے پکڑ کر لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیا ۔ ان میں سےہر ایک نے مشرکین کی باتیں مان لیں ، سوائے سیدنا بلال ﷜ کے ، انہیں اپنا نفس اللہ کے معاملے میں بہت ہلکا لگا، اور قوم کے ہاں بھی ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی ، لہذا انہیں اوباش لڑکوں کے حوالے کردیا گیا جو انہیں مکہ کی گھاٹیوں میں گھما رہے ہوتے اور وہ احد احد کہہ ہے ہوتے، پھر انہیں برہنہ کرکے انگاروں پر لٹا دیا جاتا ،تاکہ وہ اپنے دین سے پھر جائیں یا پھر کوئی منگھڑت بات ہی کہہ دیں ،لیکن وہ انکار کردیئے ۔

 رسول اللہ نے اور اسلام نے اس حبشی غلام کو انسانیت کا معلم بنا دیا کہ ضمیر کا احترام کیسے کیا جا تا ہے، اور اپنی آزادی اور ملکیت کا دفاع کیسے ہوتا ہے ۔ انہیں تپتی دوپہر میں ،جب صحراء قاتل جہنم کا روپ دھارلیتا وہ انہیں برہنہ حالت میں لیکر نکلتے ، اور انہیں دھکے دیکر پتھروں پر پھینک دیتے ، پھر انگاروں کی طرح سخت گرم پتھر جنہیں کچھ لوگ ملکر اٹھاتے وہ لاکر ان کے جسم اور انکی چھاتی پر ڈالتے ۔

یہ وحشیانہ تشدد روز دھرایا جاتا ، یہاں تک کہ عذاب کی شدت سے بعض جلادوں کے دل بھی پگھل گئے اور با لآخر اس بات پر راضی ہوگئے کہ سیدنا بلال ﷜کو چھوڑ دیں گے ، بشرطیکہ وہ ان کے معبودوں کے بارے میں کوئی اچھی بات کہیں چاہے وہ ایک لفظ ہی کیوں نہ ہو تاکہ اس طرح ان کی چودراہٹ قائم رہے اور کہیں قریش یہ نہ کہیں کہ وہ اپنے غلام کی استقامت اور ثابت قدمی کے سامنے ہار گئے ۔

 لیکن سیدنابلال ﷜نے یہ معمولی لفظ جو اوپر اوپر سے کہہ کر اپنی جان کی زندگی خرید سکتے تھے ، اپنے ایمان میں سے کچھ گنوائے بغیر آزادی حاصل کرسکتے تھے ، یہ ایک لٖفظ کہنے سے بھی سیدنابلال ﷜نے انکار کردیا ، جی ہاں ایک لفظ کہنے سے بھی انکار کردیا اور اسکی جگہ احد احد کہنا شروع کردیا ۔

وہ کہتے : وہ کہو جو ہم کہہ رہے ہیں ، لیکن سیدنا بلال ﷜انکا مذاق اڑاتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالتے اور کہتے : یہ بات میری زبان اچھے سے نہیں کہہ سکتی ۔ اور یوں سیدنابلال ﷜آگ کی تپش اور پتھروں پر گرے رہتے ، یہاں تک کہ جب سورج ڈھلنے کے قریب ہوتا ،انہیں اٹھالیتے ، ان کی گردن میں رسہ ڈال کر اپنے بچوں کے حوالے کرکے کہتے کہ اسے مکہ کے پہاڑوں اور اسکی گلیوں میں لیکر گھماؤ ، اورسیدنا بلال ﷜کی زبان احد احد کہہ رہی ہوتی ۔

جب رات ہوجاتی تو لوگ سیدنا بلال ﷜کو کہتے : کل ہمارے معبودوں کے بارے میں کلمات خیر کہنا ، کہنا کہ میرا معبود لات اور عزیٰ ہے تاکہ ہم تجھے تیرے حال پر چھوڑدیں ، ہم تجھے عذاب دیکر تھک گئے ہیں ، اب تو ہمیں یوں لگنے لگا ہے گویا ہم جلاد بن گئے ہیں ، تو وہ اپنے سر کو ( نفی میں ) حرکت دیتے اور کہتے احد احد ۔

امیہ بن خلف انہیں مارنا شروع کردیتا ، غم و غصہ سے پھٹ پڑتا اور چیختے ہوئے کہتا :اے سیاہ فام غلام کس نحوست نے تمہیں ہم پر دے مارا ہے ؟ لات وعزیٰ کی قسم میں تمہیں آقاؤں اور غلاموں کے لیے عبرت بنا دونگا ۔ اور سیدنابلال ﷜ مومنانہ یقین کے ساتھ کہتے : احد احد ۔

اور پھر جس جس ک سیدناو بلال ﷜ پر شفقت کرنے کی اداکاری دی گئی ہوتی ، اس سے بات کرنے کی باری آجاتی وہ کہتا : امیہ چھوڑ بھی دو لات کی قسم اب اسے عذاب نہیں دیا جائے گا ، سیدنابلال ہم سے ہے ،اس کی ماں ہماری لونڈی ہے وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اپنے اسلام کے ذریعے ہمیں قریش کی باتوں اور ان کے مذاق کاموضوع بنادے ۔

 سیدنا بلال ﷜ا ن جھوٹے اور مکار چہروں کی طرف گھور کر دیکھتے اور یوں مسکراتے گویا فجر پھوٹ رہی ہو اور پر سکون انداز میں میں گویا ہوتے ’’ احد احد ‘‘ اور یہ کلمہ انہیں جلا کر رکھ دیتا ۔

دوسرا دن ہوتا ، دوپہر کا وقت قریب ہوتا اور سیدنابلال ﷜کو سخت گرم پتھریلی زمین کی طرف لے جایا جاتا، سیدنابلال ﷜صبر کرتے ، اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے اور ڈٹے رہتے ۔

 اور پھر ایک دن سیدنا ابو بکر صدیق ﷜ان کے پاس آئے اور بآواز بلند کہا : کیا تم ایک آدمی کو صرف اس لیے مار رہے ہو کہ وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ؟ آخر کب تک ؟ امیہ نے کہا تم نے ہی اسے بگاڑا ہے ، لہذا تم ہی اسے عذاب سے بچاؤ جس میں اسے دیکھ رہے ہو ۔ سیدناابو بکر صدیق ﷜نےامیہ کو کہا کہ اس کی قیمت زیادہ لے لو اور اسے آزاد چھوڑدو ۔

 امیہ کو یوں لگا جیسے ڈوبتے کو تنکے کاسہارا مل گیا ہو ، جب اس نے سنا کہ سیدنا ابو بکر صدیق ﷜ بلال ﷜کی آزادی کی قیمت ادا کرنا چاہتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا ،اس لیے کہ سیدنا بلال﷜ کو قائل کرنے کی نا امیدی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی ۔

وہ لوگ چونکہ تاجر تھے اس لیے انہوں نے جان لیا تھاکہ سیدنا بلال ﷜کو بیچ دینا ان کو مارنے سے زیادہ منافع بخش رہے گا ۔ چنانچہ انہوں نےسیدنا بلال ﷜ کو سیدنا ابو بکر صدیق ﷜کے ہاتھوں بیچ دیا اور انہوں نے سیدنابلال ﷜کو فورا آزاد کردیا ،اور یوںسیدنا بلال ﷜کو آزاد لوگوں میں مقام حاصل ہوا ۔

 جب سیدناابو بکر صدیق ﷜نے سیدنابلال﷜کا آزادی کے بعد ہاتھ تھاما تو امیہ نے ان سے کہا : اسے لے لو ،لات اور عزیٰ کی قسم اگر تم اسے ایک اوقیہ سے زیادہ قیمت میں خریدنے سے انکار کردیتے تو میں اس میں بھی یہ بیچ دیتا ۔

سیدناابو بکر صدیق ﷜سمجھ گئے کہ امیہ کی ان باتوں میں ناامیدی کی کتنی کڑواہٹ گھلی ہوئی ہے اور بہتر یہی تھا کہ اسے جواب نہ دیتے لیکن امیہ نے یہ باتیں کرکے اس انسان کی عزت نفس کو مجروح کیا تھا جو اب ان کا بھائی اور ان کے برابر بن چکا تھا ۔

لہذا سیدنا ابوبکر صدیق ﷜ نے یہ کہہ کر امیہ کو جو اب دیا کہ اللہ کی قسم اگر تم اسے سو اوقیہ سے کم میں بیچنے سے انکار کردیتے تو میں وہ بھی ادا کردیتا ۔

وہ اپنے ساتھی کو لیکر رسول اللہ کی طرف چل پڑے تاکہ آپ کو ان کی آزادی کی خوشخبری سنا سکیں ، اور وہ واقعی بہت بڑی خو شخبری تھی ۔

 جو لوگ رسول اللہ پر ایمان لائے تھے جب انہیں مکہ میں قریش کی شدید ترین تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اللہ نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ وہاں دور مشرکین قریش کی اذیتوں سے محفوظ رہ سکیں ۔

جب رسول اللہ اور مسلمان مدینہ آکر بس گئے اور رسول اللہ نےنماز کے لیے اذان کومشروع قرار دے دیاتو اب دیکھا جانے لگا کہ کون ہے جو ہر روز پانچ مرتبہ نماز کے لیے آذان دے گا اور فضا میں اس کی تکبیر کی آواز گونجے گی ۔

 وہ سیدنابلال ﷜جو تیرہ سال تک ( مکہ میں ) عذاب جھیل کر ’’ احد احد ‘‘ پکارتے رہے ، آج رسول اللہ کی نظر انتخاب بھی ان ہی پر جاکر ٹھہری کہ وہ اسلام کےسب سے پہلے مؤذن بنے۔

 اور پھر ان کی خوبصورت اور رقت آمیز آوازدلوں کو ایمان اور کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے جب وہ پکارتے

الله أكبر الله أكبر للہ سب سےبڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے)

للہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے). الله أكبر الله أكبر

أشهد أن لااله الا الله (میں گواہی دیتا ہوں (یعنی جانتا اور بیان کرتا ہوں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)۔

أشهد أن لا اله الا الله (میں گواہی دیتا ہوں (یعنی جانتا اور بیان کرتا ہوں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)۔

أشهد أن محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( ﷐) اللہ کے رسول ہیں)۔

أشهد أن محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( ﷐) اللہ کے رسول ہیں)۔

حي على الصلاة (آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف)۔

حي على الصلاة (آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف)۔

حي على الفلاح (آؤ فلاح کی طرف)۔

الفلاح (آؤ فلاح کی طرف)۔ حي على

الله أكبر.. الله أكبر (اللہ سب سےبڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے)۔

لا إله الا الله ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے)۔

مشرکین کے خیال میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ وہ اس نئے دین کو اس طرح پھیلتے اور اس کے پیروکاورں کی تعداد بڑھتے ہوئے دیکھیں گے ۔

اور پھر مسلمانوں اور مدینہ کی جانب لڑائی کی خاطر آنے والے قریش کے لشکر کے درمیان قتال شروع ہوجاتا ہے اور انتہائی سخت جنگ بھڑک اٹھتی ہے ۔

 سیدنابلال ﷜اسلام کی پہلی جنگ ، جنگ بدر میں شریک ہوتے ہیں جس کا رسول اللہ کے حکم کے مطابق شعار احد احد تھا ۔

 اس غزوہ میں قریش نے اپنے جگر گوشوں کو لاکر کھڑا کیا اور ان کے تمام شرفاء اور سردار مسلمانوں سے جنگ کی خاطر نکل کھڑے ہوئے ۔

امیہ بن خلف کا نکلنے کا ارادہ نہیں تھا ، یہ وہ ہی تھا جو سیدنابلال ﷜کا آقا تھا اور انہیں وحشیانہ اور قاتلانہ عذاب دیا کرتا تھا ،اس کا ارداہ نہیں تھا ،اگر اس کا دوست عقبہ بن ابی معیط نہ آتا ۔ جب اسے علم ہوا کہ امیہ بن خلف سست ہو کر بیٹھ گیا ہے اور اس کا نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں تو اس نے کوئلہ جلانے والی انگیٹھی لی اور امیہ بن خلف جہاں اپنی مجلس میں اپنی قوم کے درمیاں بیٹھا تھا اس کے سامنے لاکر پھینک دی اور کہا : ابو علی تم یہ بیٹھ کر جلاؤ ( کیونکہ تم مرد نہیں بلکہ ) عورت ہو ، اس (امیہ بن خلف )نے چلا کر کہا :اللہ تجھے اور جو تو لایا ہے رسوا کرے ۔اب اس کے سامنے لڑنے والوں کے ساتھ نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، چنانچہ وہ نکل پڑا ۔

 اس سے پہلے بھی عقبہ بن ابی معیط ، امیہ بن خلف کو سب سے زیادہ بھڑکاتا تھا تاکہ سیدنابلال ﷜اور دیگر کمزور مسلمانوں کو اذیت دے ، اور آج وہ اسے ہی ورغلا رہا تھا تاکہ وہ غزوہ بدر کی طرف نکلے جو اس کے موت کی جگہ بننے والی تھی ، امیہ جنگ سے پیچھے رہ جاتا ، اگر عقبہ اس کی اس طرح تشہیر نہ کرتا تو وہ کبھی نہ نکلتا ، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے معاملے کو ( اس کی انتہا تک ) پہنچاکرر ہتا ہے،اب امیہ کو نکلنا تھا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے درمیاں ایک پرانا حساب باقی تھا ، اور اب اس کی ادائیگی کا وقت آچکا تھا ، بدلہ دلانے والا زندہ ہے اور مثال مشہورہے کہ جیسا کروگے ویسا کروگے۔

 وہ عقبہ کہ امیہ جس کی باتیں سن کر نیک مسلمانوں کو عذاب دے کر اس کی خواہشات کی تکمیل کرتا تھا ، وہ خود امیہ کو اس کے موت گھاٹ کی طرف لے جانےوالا تھا ۔

 اس کی موت کس کے ہاتھ لکھی تھی ؟ سیدنابلال ﷜کے ہاتھ !

جی ہاں اکیلے بلال ﷜کے ہاتھ وہ ہی ہاتھ جسے امیہ زنجیروں کی طوق سے جکڑتا تھا ، انہیں انتہائی تکلیف دہ عذاب دیا کرتا تھا، اسی کے ہاتھ آج غزوہ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے مقدر کردہ وقت کے مطابق قریش کے جلاد کی موت لکھی تھی ، جس نے ظلم اور سرکشی کی انتہا کردی تھی اور مسلمانوں کو ذلیل کیاتھا ۔

 اور پھر وہی ہوا ، جب دونوں گروہوں میں لڑائی شروع ہوئی اور مسلمانوں کی جانب سے معرکہ ’’ احد احد ‘‘ کے شعار سے گونج اٹھا، امیہ کا دل دھل کر رہ گیا ، اور پھر اس کا آخری وقت آپہنچا ،وہی کلمہ جسے کل تک ایک غلام جو عذاب سے گذر رہا تھا ، دھراتا تھا، وہی کلمہ آج ایک مکمل دین اور نئی امت کی علامت بن چکا تھا ۔

احد احد

کیا اس طرح ؟ اتنی جلدی اتنی بڑی افزائش ؟ تلواریں ٹکرانے لگیں اور جنگ چھڑ گئی ،جب لڑائی اپنے اختتام کے قریب تھی ، امیہ بن خلف نے رسول اللہ کے صحابی عبد الرحمن بن عوف ﷜کو دیکھا ، چنانچہ وہ ان کے پیچھے چھپ گیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کا قیدی بن جائے تاکہ وہ اس طرح زندہ رہ سکے ، سیدنا عبدالرحمن ﷜نے اس کی پیشکش قبول کی ، اسے پناہ دی اور معرکہ کے درمیان سے اسے قیدیوں کی طرف لے جانے لگے ۔

 راستے میں سیدنابلال ﷜نے اسے دیکھ لیا اور چیخ کر کہا : کفار کا سردار امیہ بن خلف ! میں نہ بچوں اگر وہ آج بچ گیا ، اور اپنی تلوار بلند کی تاکہ اس کا سر تن سے جدا کر سکیں ، وہ سر جسے تکبر و غرور نے ایک عرصے سے بھاری کیا ہوا تھا ، سیدناعبدالرحمن بن عوف ﷜نے با آواز بلند کہا : اے بلال ! وہ میرا قیدی ہے ۔

قیدی ؟ جبکہ ابھی جنگ جاری ہے ؟۔

 قیدی ؟ ابھی کچھ دیر پہلے جو کچھ اس نے مسلمانوں کے جسموں کے ساتھ کیا کہ ابھی بھی اسکی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے ۔

سیدنا بلال ﷜ کی سوچ کے حساب سے یہ عقل کے ساتھ مذاق تھا اور اب تک وہ جتنا مذاق کر چکا تھا کافی تھا ، ا س نے اس طرح کےکسی دن کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔

سیدنابلال﷜نے جب دیکھا کہ وہ اکیلا اپنے مسلمان بھائی سیدناعبدالرحمن بن عوف ﷜کی حدود میں مداخلت نہیں کرسکتا تو مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر با آواز بلند کہا : اے اللہ کے مددگار و ! ( یہ رہا ) کفر کا سردار امیہ بن خلف ، میں نہ بچوں اگر وہ ( زندہ ) بچ گیا ، اچانک مسلمانوں کا ایک گروہ جن کی تلواریں موت برسا رہی تھیں ، امیہ اور اس کے بیٹے کو جو قریش کے ساتھ مل کر لڑ رہا تھا اسے گھیر لیا ، اب سیدنا عبدالرحمن بن عوف ﷜کچھ نہیں کرسکتے تھے۔بلکہ وہ تو اپنی زرہ تک نہ بچا سکےجسے بھیڑ نے بکھیر دیا تھا۔

سیدنابلال ﷜ نے امیہ بن خلف کے وجود پر ایک طویل نگاہ ڈالی جو تیز دھار تلوار کی طرح تھی پھر تیزی سے اس کے گرد گھومنے لگے اور بآواز بلند کہنے لگے ’’ احد احد ‘‘ ۔

میرا نہیں خیال کہ ہمیں حق پہنچتا کہ اس جیسے مقام میں ہم سیدنابلال ﷜ کے لیے امیہ کو معاف کردینے کی فضیلت بیان کریں ۔

اگر سیدنا بلال ﷜اور امیہ کی ملاقات کچھ دوسرے حالات میں ہوتی تو اس جیسے متقی اور پرہیزگار شخص سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ معاف کرنے میں بخل سے کام لیتا ، لیکن ان دونوں کے درمیان ملاقات میدان جنگ میں ہورہی ہے، جس میں ہر گروہ دوسرے کو فنا کے گھاٹ اتارنے آیا ہے ، تلواریں چمک رہی ہیں لوگ کٹ کر گررہے ہیں ،موت ناچ رہی ہے پھر سیدنابلال ﷜

اس امیہ کو دیکھ رہے ہیں جس نے ان کے جسم میں ایک انگلی کے برابر بھی عذاب سے خالی جگہ نہیں چھوڑی جہاں اس کے تشدد کے نشانات نہ ہوں ۔

وہ اسے کہاں اور کیسے دیکھ رہے ہیں ؟ میدان جنگ میں اسے دیکھ رہے ہیں جہاں تلواریں اپنی زد میں آنے والے مسلمانوں کے سر تن سے جدا کررہی ہیں ۔

اگر کسی لمحے کوئی تلوار سیدنابلال ﷜کے سر ٹکراتی تو اسے کاٹ کر دور پھینک دیتی ، ا س جیسے جان گسل حالات میں دو شخص مل رہے ہیں ، یہ کوئی عادلانہ منطق نہیں کہ ہم سیدنابلال﷜ سے پوچھیں کہ انہوں نے اچھے طریقے سے درگذر کیوں نہ کیا ؟۔

 دن گذر تے ہیں مکہ فتح ہوجاتا ہے اور رسول اللہ دس ہزار مسلمانوں کی معیت میں اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہوئے وہاں داخل ہوتے ہیں ،خانہ کعبہ کی طرف مکمل توجہ ہے ،یہی وہ مقد س جگہ ہے جسے قریش نے سال کے دنوں کی تعداد کے حساب سے بتوں سے بھرا ہوا ہے ،بلاشبہ حق آگیا اور باطل چلا گیا ۔

 آج سے کوئی عزیٰ نہیں، کوئی لات نہیں ، کوئی ھبل نہیں آج کے بعد کوئی انسان کسی پتھر اور بت کے سامنے اپنا سر نہیں جھکائے گا ۔ لوگ خود سے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرینگے جس کا کوئی شریک نہیں ، وہ اکیلا اور یکتا ہے اور بڑائی اور بلندی والا ہے ۔

پھر جیسے ہی خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہیں سامنے تراشی ہوئی مورتیاں دکھائی دیتی ہیں جس میں ابراہیم علیہ السلام کی مورتی بھی تھی جس میں وہ تیروں کے ذریعے قسمت معلوم کررہے ہیں ۔( انہیں دیکھ کر ) رسول اللہ غضب ناک ہوجاتے ہیں اور فرماتے ہیں : "اللہ تعالیٰ انہیں تباہ و برباد کرے ، ہمارا بزرگ تیروں کے ذریعے قسمت معلوم نہیں کرتا تھا (مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ)([51])

 ترجمہ: ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ وہ تو یک طرفہ ( خالص ) مسلمان تھے ، وہ مشرک بھی نہ تھے ۔

 اور بلا ل ﷜ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ کعبۃ اللہ کی چھت پر چڑھ جائیں اور اذان دیں، اور سیدنابلال ﷜ اذان دینے لگتے ہیں ، کیا کہنا اس وقت ، جگہ اور مناسبت کا ، کس قدر خو بصورت ہے یہ منظر ، مکہ میں گویا زندگی ٹھہر سی گئی ، ہزاروں مسلمان پر سکون روح کی مانند ساکت ہیں اور سیدنابلال ﷜ کے پیچھے اذان کے کلمات دہرارہے ہیں ۔

رسول اللہ اہل مکہ کو خطبہ دیتے ہیں ، فرماتے ہیں :"اے قریش کی جماعت! بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلی عصبیت اور اپنے باپ داد ا پر فخر کرنے کو مٹادیا ہے ،تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے ہیں ۔

سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بیشک رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا فرمایا :" اے لوگو ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جا ہلی عصبیت اور اپنے باپ دادا پر فخر کرنے کو مٹادیا ہے۔لوگ دو طرح کے ہیں نیک متقی جو اللہ تعالیٰ کے ہاں با عزت ہے اور گناہ گار بدبخت جو اللہ تعالیٰ کے ہاں حقیر ہے ، تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (يا أيهُا الناس إنَّا خلقناكم من ذَكَر وأُنثى} إلى { إنَّ الله عليم خبير}) ([52])،([53])۔

ترجمہ: اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک ( ہی ) مرد و عورت سے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسر ے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنادیئے ہیں اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور با خبر ہے ۔

اور یہ بھی مروی ہے کہ بدلہ لینے کے موقع پر آپ نے فرمایا : "اے اہل مکہ ! تم میرے بارے میں کیا خیال کرتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کرنے والا ہوں؟ انہوں نے کہا : بھلائی کا خیال ہے ، آپ معزز بھائی کے بیٹے ہیں ، فرمایا:"جاو ٔ تم آزاد ہو "۔

اور مشرکین اپنے گھروں میں بیٹھے یقین نہیں کر رہے تھے ۔ کیا یہ وہی محمد ﷐اور ان کے مسکین ساتھی ہیں جو کل ہی اپنے گھروں سے نکالے گئے تھے ؟ ۔

کیا یہ واقعی وہی محمد ہے اور اس کے ساتھ دس ہزار مسلمان ہیں ؟ ۔

کیا یہ واقعی وہی ہیں جس کے ساتھ ہم نے لڑائی کی ، ا سے دربدر کیا اور تمام لوگو ں سے بڑھ کر اس کی محبوب شخصیت کو ہم نے قتل کیا؟ ۔

کیا یہ واقعی وہی ہیں جو ہمیں کہہ رہےتھے کہ:" جاو ٔ تم آزاد ہو " جبکہ ہماری گردنیں آپ کے سامنے ہیں ؟ ۔

بلال ﷜ نےا پنی پوری زندگی رسول کے ساتھ گذاردی ۔ تمام معرکوں میں آپ ساتھ رہے ۔ نماز کے لیے اذان دیتے ، لوگوں کو بیدار کرتے اور اس دین کی حفاظت کرتے ،جس نے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف اور غلامی سے آزادی کی طرف نکالا تھا ۔

اسلام کا مقام اونچا ہوتا چلا گیا جس کے ساتھ ہی مسلمانوں کا مقام بھی اونچا ہوا ۔

اورسیدنا بلال ﷜ دن بدن رسول اللہ کے دل کے قریب ہوتےچلے گئے جنہوں نے انہیں خوشخبری دی تھی کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں، لیکن سیدنابلال ﷜ جیسے تھے ویسے رہے ، کریم ، متواضع ، ان اپنے بارے میں یہی خیال ہوتا کہ وہ تو ایک حبشی ہیں جو کل تک غلام تھا ۔

 اے بلال ! آپ غلام نہیں رہے بلکہ اسلام کے زیر سایہ آپ آقا بن گئے ہیں ، کیا خلیفہ ثانی نے آپ کی آزادی والے دن آپ کے بارے میں یہ نہیں کہا تھا کہ : ابو بکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار کو آزاد کیا ہے([54])۔

سیدنابلال ﷜ خلیفہ رسول کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں :"بیشک رسول اللہ نے فرمایا ہے:" اللہ کی راہ میں ایک رات کا پہرا ایک مہینے کے روزے رکھنے اور قیام سے بہترہے اور اگر وہ ( پہرے کے دوران فوت ہوجاتا ہے ) اس پر اس کا رزق جاری کردیا جاتا ہے اور وہ عذاب قبر سے محفوظ رہتا ہے "([55])۔

سیدناابو بکر صدیق ﷜ نے ان سے کہا : اے بلال !تم کیا چاہتے ہو ؟ کہا : میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم تک اللہ کی راہ میں پہر ہ دوں ۔

سیدناابو بکر صدیق ﷜ فرماتے ہیں : اور ہمارے لیے اذان کون دے گا ؟ سیدنابلال ﷜ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں فرماتے ہیں : میں رسول اللہ کے بعد کسی کے لئے اذان نہیں دوں گا ‘‘ سیدناابو بکر صدیق ﷜ فرماتے ہیں : بلکہ آپ یہیں رہیں اور ہمارے لیئے اذان دیں ۔

سیدنابلال ﷜نے کہا:" اے امیر المؤمنین ! اگر آپ نے مجھے اپنے لئے خریدا اور آزاد کیا تھا تو مجھے روک لیں اور اگر آپ نے مجھے اللہ کے لئے آزاد کیا تھا تو مجھے اور میرے عمل کو اللہ لیے چھوڑدیں ۔

 سیدناابو بکر صدیق ﷜ فرماتے ہیں : اے بلال ! میں نے تو تجھے اللہ کے لیے آزاد کیا تھا ، میں نے تجھے اللہ کے لیے آزاد کیا تھا ۔

سیدنابلال ﷜ نے شام کی طرف سفر کیا اور وہیں اللہ کی راہ میں پہرہ دیتے رہے، انہوں نے اپنی آخری اذان ان دنوں دی جب امیر المؤمنین عمر ﷜ شام گئے اور مسلمانوں نےا ن سے درخواست کی کہ وہ سیدنا بلال ﷜ کو آمادہ کریں کہ وہ ان کے لیے ایک نماز کی اذان دیں ، امیر المؤمنین نے سیدنابلال ﷜ کو بلایا ، نماز کا وقت ہوچکا تھا ، ان سے درخواست کی کہ وہ اذان دیں ، سیدنابلال ﷜ مسجدکی چھت پر چڑھ گئے اور اذان دینے لگے ، وہ صحابہ جنہوں نے آپ کو پایا تھا اور سیدنابلال ﷜ آپ کے لیے اذان دیتے تھے ، وہ سب رونے لگ گئے اور ایسا روئے کہ اس سے پہلے وہ اس جیسا کبھی نہیں روئے تھے سب سے زیادہ سیدناعمر ﷜ روئے ۔

 آسمان والے کا یہ داعی اسی راہ میں شامی سرحدوں کی پہرے داری کرتا رہا ، یہاں تک کہ ا ن کا وقت پورا ہوا ،ان کی بیوی ان کے مرض الموت میں ان کے پہلو میں بیٹھی زاروقطار رورہی تھی اور با ٓواز بلند کہہ رہی تھی ، ہائے غم ! وہ ہر مرتبہ اپنی آنکھیں کھولتے اور کہتے ہائے خوشی پھر انہوں نے اپنی آخری سانس لی اور زبان سے یہ کلمات جاری تھے: کہ کل اپنے احباب ،محمد اور ان کے صحابہ سے ملاقات ہوگی ۔اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال سے کچھ زیادہ تھی ، اور انہیں دمشق کے قبرستان میں باب صغیر کے پاس سپرد خاک کیا گیا ۔ اس مٹی نے اسلام کے ان عظیم المرتبت لوگوں میں سے ایک آدمی کے جسد خاکی کو چھپالیا جو اسلام کی مبادیات کی خاطر بلند و بالا پہاڑوں کی مانند ڈٹے اور راہ حق میں ہر طرح کی قربانی دی ، اللہ تعالیٰ سیدنا بلال ﷜ سے راضی اور وہ اللہ سے راضی

 

خاتمہ

ذرا انصاف سے بتائیے کہ یہ دین اپنے پیروکاروں کے دلوں میں کیسے عظمت ، بزرگی ، کبریائی ، اور عزت کے اثرات چھوڑتا ہے۔

 وہ آواز حق ہے جو جب دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے تو دلوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معلق کردیتی ہے ، اس کی جبروت کے سامنے سرنگوں کردیتی ہے، اس کی راہ میں آنے والی ہر الم و مشقت بھلا دیتی ہے ، بلکہ اس سے دلوں کو لذت ملتی ہے جس طرح شہوت پرست آدمی اپنی شہوت پر دوام کرکے لذت حاصل کرتا ہے ۔ لیکن بڑا فرق ہے اس لذت اور شہوت کے درمیان کا جس کا انجام سوائے حسرت کے اور کچھ نہیں ہوتا ، اور اس لذت کے درمیان جو انسان کو حیات جاودانی عطا کرتی ہے ، جس کےانجام میں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں ۔

انہوں نے درست راہ کا انتخاب کیا جس نے انہیں سعادت تک پہنچا دیا ، جسے انہوں نے اللہ تعالی کے پاس پایا۔

جس سعادت کو انہوں نے حاصل کیا وہ ناممکن نہیں لیکن وہ بہادری اور تبدیلی کی جرات کی متقاضی ہوتی ہے ۔

انہوں نے جان لیا تھا کہ انہیں جنت تک پہنچانے والا راستہ اسی رسول کی اتباع میں ہے جسے انہوں نے کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا، خیانت کرتے نہیں دیکھا، کسی کو دھوکا دیتے نہیں دیکھا۔

ذرا سنیے ، ان ہی میں سے ایک ابو سفیان بن حرب اسلام لانے سے قبل آپ ﷐کے بارے میں کیا کہتا ہے ، وہ کہتا ہے:
ہرقل ( شاہ روم ) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ ﷐ نے قریش اور ابوسفیان سے ایک وقتی معاہدہ کیا ہوا تھا ۔

 جب ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچے جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا ۔ اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ ( علماء وزراء امراء ) بیٹھے ہوئے تھے ۔

ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا ۔ 

پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے ؟

ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں ۔
اس نے کہا: اسے میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو ۔(  یہ سن کر )
پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص کے ( یعنی محمد ﷐ کے ) حالات پوچھتا ہوں ۔
اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا ،ابوسفیان کا قول ہے کہ اللہ کی قسم اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ ﷐ کی نسبت ضرور دروغ گوئی سے کام لیتا ۔
خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے ؟

میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسبت والے ہیں ۔
کہنے لگا اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی ؟

میں نے کہا نہیں۔

کہنے لگا ، اچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا ہے ؟

میں نے کہا نہیں ۔

پھر اس نے کہا ، بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے ؟

میں نے کہا نہیں کمزوروں نے ۔

پھر کہنے لگا ، اس کے تابعدار روز بڑھتے جاتے ہیں یا کوئی ساتھی پھر بھی جاتا ہے ؟

میں نے کہا نہیں ۔ 
کہنے لگا کہ کیا اپنے اس دعوائے ( نبوت ) سے پہلے کبھی ( کسی بھی موقع پر ) اس نے جھوٹ بولا ہے ؟
میں نے کہا نہیں ۔
اور اب ہمارے اور اس کے درمیان صلح کا ایک معاہدہ چل رہا ہے۔ معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے ۔
ابوسفیان کہتے ہیں میں اس بات کے سوا اور کوئی ( جھوٹ ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا ۔
ہرقل نے کہا کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی بھی ہوتی ہے ؟
ہم نے کہا کہ ہاں ۔
بولا پھر تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوتا ہے ؟
میں نے کہا ، لڑائی ڈول کی طرح ہے ، کبھی وہ ہم سے ( میدان جنگ ) جیت لیتے ہیں اور کبھی ہم ان سے جیت لیتے ہیں ۔
ہرقل نے پوچھا ۔ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے ؟
میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو ، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی ( شرک کی ) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے ، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے ۔
(یہ سب سن کر )پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ ہم میں عالی نسب ہے اور پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی بھیجے جایا کرتے ہیں ۔ 
میں نے تم سے پوچھا کہ ( دعوی نبوت کی ) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی ، تو تم نے جواب دیا کہ نہیں ، تب میں نے ( اپنے دل میں ) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اسی بات کی تقلید کی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے ۔ 
میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے ، تم نے کہا کہ نہیں ۔ تو میں نے ( دل میں ) کہا کہ ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو کہہ دوں گا کہ وہ شخص ( اس بہانہ ) اپنے آباء و اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک ( دوبارہ ) حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے ( یعنی پیغمبری کا دعویٰ کرنے ) سے پہلے تم نے کبھی اس کو دروغ گوئی کا الزام لگایا ؟ تم نے کہا کہ نہیں ۔ 
تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے ۔

اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے لوگ اس کے پیرو ہوتے ہیں یا کمزور آدمی ۔ تم نے کہا کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے ، تو ( دراصل ) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں ۔
اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں ۔ تم نے کہا کہ وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے ۔ حتیٰ کہ وہ کامل ہو جاتا ہے۔
اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس کے دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے تم نے کہا نہیں ، تو ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مٹھاس رچ بس جائے تو وہ اس سے مرتد نہیں ہوا کرتے۔
اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں ۔ تم نے کہا نہیں ، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے ، وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔ 
اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تم سے کس چیز کے لیے کہتے ہیں ۔ تم نے کہا کہ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتے ہیں ۔ سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتے ہیں۔
لہٰذا اگر یہ باتیں جو تم کہہ رہے ہو سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہو جائے گا کہ جہاں میرے یہ دونوں پاؤں ہیں ۔ 
مجھے معلوم تھا کہ وہ ( پیغمبر ) آنے والا ہے ۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تمہارے اندر ہو گا ۔ اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لیے ہر تکلیف گوارا کرتا ۔ 
اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا ۔
ہرقل نے رسول اللہ ﷐ وہ خط منگایا جو آپ نے دحیہ کلبی ﷜ کے ذریعہ حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا ۔ پھر اس کو پڑھا تو اس میں ( لکھا تھا ):
اللہ کے نام کے ساتھ جو نہایت مہربان اور رحم والا ہے ۔ 
اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد ﷐ کی طرف سے یہ خط ہے شاہِ روم کے لیے ۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں آپ کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کرتا ہوں ۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو ( دین و دنیا میں ) سلامتی نصیب ہو گی ۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ ( میری دعوت سے ) روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا ۔ اور اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے ۔ پھر اگر وہ اہل کتاب ( اس بات سے ) منہ پھیر لیں تو ( مسلمانو ! ) تم ان سے کہہ دو کہ ( تم مانو یا نہ مانو ) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں ۔

 ابوسفیان کہتے ہیں : جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے ارد گرد بہت شور و غوغہ ہوا ، بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا ۔

 تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے ( آپ﷐ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ( دیکھو تو ) اس سے بنی اصفر ( روم ) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے ۔

 مجھے اس وقت سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ آپ ﷐ عنقریب غالب ہو کر رہیں گے ۔ حتیٰ کہ اللہ نے مجھے مسلمان کر دیا ۔ ( راوی کا بیان ہے کہ ) ابن ناطور ایلیاء کا حاکم ہرقل کا مصاحب اور شام کے نصاریٰ کا پادری بیان کرتا ہےکہ ہرقل جب ایلیا آیا ، ایک دن صبح کو پریشان اُٹھا تو اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں ۔ ( کیا وجہ ہے ؟ ) ابن ناطوور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا ، علم نجوم میں وہ پوری مہارت رکھتا تھا ۔ اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا کہ میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے ۔ ( بھلا ) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا ، سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں،سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیا جائے ۔ وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا ۔ جسے شاہِ غسان نے بھیجا تھا ۔ اس نے رسول اللہ﷐ کے حالات بیان کئے ۔ جب ہرقل نے ( سارے حالات ) سن لیے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں ؟ انھوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے ۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں ۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہ ہی محمد ﷐ اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں ۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو روم خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا ۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا ۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط ( اس کے جواب میں ) آ گیا ۔ اس کی رائے بھی آپ ﷐ کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد ﷐ واقعی پیغمبر ہیں ۔

 اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لیے گئے ۔ پھر وہ ( اپنے خاص محل سے ) باہر آیا اور کہا ” اے روم والو ! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے ؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو اور مسلمان ہو جاؤ “ ( یہ سننا تھا کہ ) پھر وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے ( مگر ) انھیں بند پایا ۔ آخر جب ہرقل نے ( اس بات سے ) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ ۔ ( جب وہ دوبارہ آئے ) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی سو وہ میں نے دیکھ لی ۔ تب ( یہ بات سن کر ) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے ۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہی رہی(یعنی وہ اپنے عیسائی دین پر ہی قائم رہا اور مرگیا)۔ ابو عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان ، یونس اور معمر نے زہری سے روایت کیا ہے ۔

../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAML

www.islamland.com

../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAMLAND/profil ../../../../../../../Documents/MY%20SITES%20&%20PROJECTS/PROJECTS%20&%20SITES/ISLAMLAND/profil

 

 

 

([1]) مسند الإمام أحمد ج2 ص361 رقم الحديث 8721, صحيح الصَّحِيحَة: 2700 صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 2963

([2]) كتاب السياسة لأرسطو

([3]) آل عمران : 75

([4]) المائدة آية : 18

([5])المستدرك على الصحيحين ج 4 ص 437, الصَّحِيحَة: 1018

([6]) صحيح مسلم ج 4 ص2222

([7]) النساء : 1

([8]) آل عمران آية : 59

الروم آية: 20 ([9])

([10]) مسند الإمام أحمد ج2 ص361 رقم الحديث 8721, صَحِيح الْجَامِع: 5482، الصَّحِيحَة: 2803

([11]) يونس 19

([12]) النحل: 36

([13]) المستدرك على الصحيحين ج 4ص 364

([14])صحيح ابن حبان ج 14 ص 29 رقم الحديث 6160

([15]) الحجرات : 13

 الإسراء آيه : 70 ([16])

([17]) الأنعام آيه : 165

([18]) الزخرف آية: 32

([19]) مسند الإمام أحمد ج2 ص361 رقم الحديث 8721, صحيح الصَّحِيحَة: 2700 صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 2963

([20]) النساء آية 58

([21]) رواه مسلم

([22]) الزلزلة آية 7-8

([23]) الأنعام 108

([24]) صحيح البخاري ج 1ص37

([25]) صحيح ابن حبان ج 11 ص 469

([26]) البقرة 168

([27]) البقرة 21

([28]) سنن ابي داوود

([29])صحيح النسائي, صحيح ابن ماجه

([30])المسد آية: 1-3

([31]) السلسلة الصحيحة 3190

([32]) آل عمران : 199

([33]) السلسلة الصحيحة 3044

([34]) صحيح البخاري ج 1 ص 466

([35]) رواه البخاري

([36]) أخرجه أحمد وقال الشيخ شعيب الأرنؤوط: صحيح لغيره.

([37]) صحيح مسلم

([38]) حسن - "المشكاة" (6167)

([39]) متفق عليه

 ([40])رواه البخاري

([41]) رواه البخاري

([42]) المستدرك على الصحيحين ج:3 ص:551, صَحِيح الْجَامِع: 2294 , الصَّحِيحَة: 1707

([43])صحيح البخاري

([44]) تاريخ دمشق لابن عساكر

([45]) تاريخ دمشق لابن عساكر

([46]) صحيح البخاري

([47]) الأنعام 52

([48]) الكهف: 28

([49])رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ فِي سُنَنِهِ بِاخْتِصَارٍ [قال الألباني]: صحيح

 ([50])رجال حول الرسول بتصرف

([51]) آل عمران : 67

([52]) الحجرات : 13

([53]) أخرجه الترمذي وصححه الألباني.

 ([54]) صحيح البخاري

([55]) صحيح مسلم