About the fatwa

Date :

Sat, Nov 29 2014
Question

دو بوں کاعالت کاستطاعت نہ رکھنے کے باوجود دوسر شاد کرنا

جب والدین کی بیٹی اوربیٹا بھی ہو اوربہت کوشش کے بعد انہیں بیٹی کے لیے رشتہ ملا لیکن ہونے والا داماد مہر کا مطالبہ کررہا ہے ، اورلڑکی کے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں ، اس لیے اب وہ یہ کوشش کررہے ہیں کہ انہیں ان کے بیٹے کا مہر مل جائے تا کہ وہ اپنی بیٹی کا مہر ادا کریں ، وہ اپنے بیٹے کے مہر کو صرف بیٹی کا مہر دینے میں ہی استعمال کررہے ہيں ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالیں تا کہ ہم اس مشکل سے نکل سکیں ؟

Answer
Answer

الحمد للہ :

اللہ تعالی نے مرد پر دوسری شادی کرنے سے قبل جواشیاء لازم کی ہیں اس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ نان ونفقہ اوررہائش اوربیوں کے پاس رات بسر کرنےمیں عدل وانصاف سے کام لے سکتا ہو ، اگر اسے یہ علم ہو کہ وہ بیویوں کے مابین ان اشیاء میں عدل وانصاف نہیں کرسکتا یا اس کا ظن غالب بھی یہی ہو کہ وہ انصاف نہیں کرسکے گا تواس کےلیے دوسری شادی کرنا حلال نہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوراگرتمہيں خدشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے ان میں عدل انصاف نہیں کرسکو گے تو اورعورتوں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین ، چار چار سے لیکن اگر تمہیں عدل وانصاف اوربرابری نہ کرسکنے کا خدشہ ہو تو ایک ہی کافی ہے یا پھر تمہاری ملکیت کی لونڈي ، یہ زيادہ قریب ہے کہ ( ایسا کرنے سے ناانصافی اور ) ایک طرف جھک جانے سے بچ جاؤ } النساء ( 3 ) ۔

مجاھد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

تم جان بوجھ کر برا سلوک کرنے کی کوشش نہ کروبلکہ تقسیم اورنان ونفقہ میں برابری اورانصاف کا التزام کرو کیونکہ اس چيز میں انسان استطاعت رکھتا ہے ۔ دیکھیں تفسیر القرطبی ( 5 / 407 ) ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اورپیروی کرتے ہوئے بیویوں کے مابین نان ونفقہ اورلباس میں برابری اورعدل سے کام لینا سنت نبویہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیویوں کے مابین نان ونفقہ اورتقسیم میں عدل وانصاف کیا کرتے تھے ۔۔۔ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 32 / 269 ) ۔

اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازاوج مطہرات کے مابین رات بسر کرنے نان ونفقہ اوررہائش وغیرہ میں عدل وانصاف اور برابری کیا کرتے تھے ، اوراس – یعنی محبت اور جماع – میں برابری واجب نہيں ، کیونکہ یہ ایک ایسی چيز ہے جس کا مالک نہيں ۔ دیکھیں زاد لمعاد ( 1 / 151 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

جب خاوند اپنی بیویوں میں سے ہرایک کو نان ونفقہ اورلباس اوررہائش متوفر کردے تواس کے بعد میلان قلب اورمحبت یا پھر تحفہ وغیرہ میں اسے کوئي نقصان نہيں ہوگا دیکھیں فتح الباری ( 9 / 391 ) ۔

جوشخص بھی دوسری شادی کرنا چاہے اللہ تعالی نے اس پریہ کچھ ہی واجب کیا ہے ، اگر یہ شخص اس پر قادر ہے تو پھر اس سے دوسری شادی کرنے میں کوئي حرج نہیں ، لیکن اگروہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو ہماری یہ نصیحت ہے کہ آپ اس سے شادی نہ کریں ، بلکہ اصل میں اس کے لیے دوسری شادی کرنی ہی جائز نہیں ۔

آپ نے جو یہ کہا ہے کہ ( وہ دونوں بیویوں کی اعالت نہیں کرسکتا ) اگر تو وہ شخص صاحب دین اوراچھے اخلاق کا مالک ہے اورآپ تنگی اورفقر پر صبر وتحمل کرسکتی ہیں تواس سے شادی کرنے میں کوئي حرج نہیں ، کیونکہ شادی کرنے والے فقیر شخص سے اللہ تعالی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے اسے غنی و مالدار کردے گا ۔

فرمان باری تعالی ہے :

{ اگر تو وہ فقیر ہوں تو اللہ تعالی اپنے فضل سے انہیں غنی و مالدار کردے گا } النور ( 32 ) ۔

حتی کہ کچھ سلف حضرات تواس آیت پرعمل کرتے ہوئےصرف روزی کے حصول کے لیے شادی کیا کرتے ہیں ، اوراگر آپ دیکھیں کہ فقر اورتنگدستی پر آپ صبر وتحمل نہيں کرسکتیں تواس سے شادی کرنے میں کوئي انکار اورمضائقہ نہیں ۔

جب فاطمہ بنت قیس رضي اللہ تعالی عنہاکو معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ نے شادی کا پیغام دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے انہيں شادی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ :

( وہ تو تنگ دست ہے اوراس کے پاس مال ہی نہيں ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1480 ) ۔

ہم امید کرتے ہیں کہ آپ دونوں کے مابین کوئي ایسے تعلقات نہيں ہوں گے جو حرام اور غیر مشروع ہوں ، چاہے وہ موجودہ وقت یا پھر شادی سے انکار کے بعد ہی ، اگر اس نے آپ کی اسلام تعلیمات کی طرف راہنمائي کرکے آپ پر کوئي احسان اورنیکی کی ہے تو اس بنا پر اس سے خط وکتاب اوربات چیت اورملاقات وغیرہ جائز نہيں ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب