About the fatwa

Date :

Tue, Mar 31 2015
Question

عورت كو حج كرانا مہر ٹھرا اور خاوند نے اسے طلاق دى تو بيوى اپنے مہر سے دستبردار ہوگئى ہو تو كيا عورت مہر كا مطالبہ كر سكتى ہے ؟

ميں نے ايك مسلمان عورت سے شادى كى اور دونوں كا حج پر جانا مہر ٹھرا، ليكن جب حج آيا تو بيوى حج كى ادائيگى كے ليے نہ گئى، پھر اسى برس ہمارى آپس ميں طلاق ہو گئى، اور بيوى نے عدت كے دوران ميرے ساتھ رہنے سے بھى انكار كر ديا، بلكہ دوسرے شہر منتقل ہونے پر اصرار كرنے لگى، اور جب ميں نے مہر كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگى:
ميں مہر سے دستبردار ہوتى ہوں، ہمارا يہ اتفاق ہوا كہ ميں تين ماہ كے ليے اس كے رہائش فليٹ اور دوسرے شہر منتقل ہونے كے اخراجات برداشت كرونگا، ليكن اب دو ماہ كے بعد وہ اپنا مہر مالى شكل ميں طلب كرنے لگى اس ليے ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا اسے دستبردار ہونے كے بعد مہر كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے ؟
اور اگر اسے حق حاصل ہے تو كيا ميرے ليے اسے مالى شكل ميں مہر ادا كرنا ضرورى ہے، يا كہ ميں اس مطالبہ كر سكتا ہوں كہ يہ مال صرف حج ميں ہى استعمال كيا جائيگا ؟

Answer
Answer

الحمد للہ:

اول:

مہر بيوى كا حق ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے نكاح كى رغبت ركھنے والے مرد پر فرض كيا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{اور عورتوں كو تم ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو } النساء ( 4 ).

امام ابن جرير طبرى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:

" اور تم عورتوں كو ان كے مہر ادا كرو يہ واجب اور لازم و فرض كردہ عطيہ ہے.

ديكھيں: تفسير الطبرى ( 7 / 552 ).

مہر ميں مال دينا بھى ممكن ہے مثلا سونا يا نقدى يا سامان، يا خدمت و فائدہ بھى ہو سكتا ہے كہ خاوند اپنى بيوى كى خدمت كرے مثلا اسے قرآن مجيد كى تعليم دے يا اسے حج كرائے.

مہر لينے كے بعد يا لينے سے قبل عورت كے ليے مہر سے دستبردار ہونا جائز ہے اس ميں كوئى مانع نہيں؛ ليكن اس ميں ايك شرط ہے كہ وہ خود اپنى مرضى اور راضى و خوشى مہر سے دستبردار ہو، ليكن اگر اسے مہر چھوڑنے اور دستبردار ہونے پر مجبور كيا جائے اور دباؤ ڈالا جائے تو پھر اس كى يہ دستبردارى صحيح نہيں ہوگى بلكہ مہر كى ادائيگى خاوند كے ذمہ ہوگى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى سے ادا كرو، پھر اگر وہ اس ميں سے كوئى چيز تمہارے ليے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائيں تو اسے كھا لو اس حال ميں كہ مزے دار و خوشگوار ہے }النساء ( 4 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

{ اور اگر تم انہيں ہاتھ لگانے ( رخصتى ) سے قبل طلاق دے دو، اور تم ان كا مہر مقرر كر چكے ہو تو تم نے جو مہر مقرر كيا ہے اس كا نصف ( لازم ) ہے، مگر يہ كہ وہ معاف كر ديں يا وہ شخص معاف كر دے جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے }البقرۃ ( 237 ).

اس ليے اگر آپ كى بيوى نے راضى وخوشى خود ہى اپنا مہر چھوڑ ديا تو آپ اس سے برى ہو گئے، اور اب دوبارہ اس كے ليے مہر كى ادائيگى كا مطالبہ كرنا جائز نہيں ہے؛ كيونكہ جب كسى كا قرض معاف كر ديا جائے تو پھر دوبارہ اس ك مطالبہ كرنا صحيح نہيں ہے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب