اہل سنت والجماعت کاصحابہ اورابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی کی خلافت وامامت میں مذھب
Atsakymas
الحمدللہ
اول : اہل سنت والجماعت کےاصول میں ہےکہ ان کےدل اورزبانیں صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم کےبارہ میں صاف اورسلیم میں ۔
دل بغض ، عناد، کینہ، دھوکہ اورکراہت سےاورزبانیں ہراس قول سےپاک صاف ہیں جوصحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کےشایان شان اورلائق نہیں ۔
اس لئےاللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :
{ اور( ان کےلئے ) جوان کےبعدآئیں جوکہ کہیں گےکہ اے ہمارے رب ہمیں بخش دےاورہمارےان بھائیوں کوبھی جوہم سے پہلےایمان لاچکےہیں اورایمان والوں کےلئےہمارے دل میں کینہ وبغض ( اوردشمنی ) نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک توشفقت ومہربانی کرنےوالاہے } الحشر ۔/(10)
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتےہوئےکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاہے :
( میرےصحابہ کوبرانہ کہواورگالی نہ دواس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہےتم میں سےاگرکوئی احدپہاڑکےبرابرسونابھی خرچ کردےتووہ ان کےایک مداورنہ ہی اس کےنصف تک پہنچ سکتاہے )۔
صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3673)صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2541)
اوراہل سنت والجماعت کایہ بھی اصول ہےکہ وہ صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہم کےجوفضائل ومراتب کتاب وسنت اوراجماع سےثابت ہیں اسےقبول کرتےہیں اوران میں سےجس نےفتح ۔صلح حدیبیہ ۔سےقبل اللہ تعالی کےراہ میں خرچ اورقتال کیااسےاس کے بعدخرچ کرنےاورقتال کرنےوالے پرفضیلت دیتےہیں ۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :
{ تم میں سےجن لوگوں نےفتح سے پہلےفی سبیل اللہ خرچ کیااورقتال کیاوہ ( دوسروں ) کےبرابرنہیں بلکہ ان سےبہت بڑے بلنددرجے پرفائزہیں جنہوں نےفتح کےبعدخیراتیں دی اورجہادکیےہاں بھلائی کاوعدہ تواللہ تعالی کاان سب سے ہےجوکچھ تم کررہےہواس سےاللہ تعالی خبردار ہے } الحدید ۔/(10)
اہل سنت والجماعت مہاجرین کوانصارپرمقدم کرتےہیں :
اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ اورجومہاجرین اورانصارسابق اورمقدم ہیں اورجتنےلوگ اخلاص کےساتھ ان کے پیروکارہیں اللہ تعالی ان سب سےراضی ہوااوروہ سب اللہ تعالی سےراضی ہوئےاوراللہ تعالی نےان کےلئےایسےباغات تیارکررکھےہیں جن کےنیچےسےنہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گےیہ بہت بڑی کامیابی ہے } التوبۃ ۔/(100)
تواللہ تعالی نےمہاجرین کوانصارپرمقدم کیاہے ۔
اوراہل سنت والجماعت کایہ ایمان ہےکہ اللہ تعالی نےاہل بدرکے۔جوکہ تین سودس کےکچھ اوپرتھے۔متعلق فرمایاہے : تم جوکچھ بھی عمل کرومیں نےتمہیں بخش دیاہے ۔
اس لئےکہ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
( اللہ تعالی نےاہل بدرپرجھانکااورفرمایا : تم جوکچھ بھی عمل کرومیں نےتمہیں بخش دیا ہے ۔)
صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3007) صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2494)
اوراہل سنت والجماعت کایہ ایمان ہےکہ جس نےبھی درخت کےنیچےبیعت کی وہ آگ وجہنم میں نہیں جاسکتا ۔
جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاس کی خبردی اوربتایاہےبلکہ ان سےتواللہ تعالی راضی اوروہ اللہ تعالی سےراضی ہوگئےہیں اورجن کی تعدادایک ہزارچارسو(1400) تھی ۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :
{ یقینااللہ تعالی مومنوں سےراضی ہوگیاجبکہ وہ درخت تلےآپ سےبیعت کررہےتھے ان کےدلوں میں جوکچھ تھااسےاللہ تعالی نےمعلوم کرلیااوران پراطمینان اورسکون نازل فرمایااورانہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی } الفتح ۔/(18)
اوراس لئےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
( ان شاءاللہ درخت والوں میں جنہوں نےاس کےنیچےبیعت کی کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2496)
توبیعت کرنےوالوں میں ابوبکروعمروعثمان اورعلی رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل تھے ۔
اوراہل سنت ان کوجنہیں اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےجنت کی خوشخبری دی ہےکہ وہ جنتی ہیں انہیں وہ جنتی مانتےہیں جن کی تعداددس ہےاورجنہیں عشرۃ مبشرہ کےنام سےیادکیاجاتاہےاوران کےساتھ ثابت بن قیس بن شماس اوران کےعلاوہ دوسرےصحابہ رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل ہیں ۔
اس لئےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان ہے :
( ابوبکرجنتی ہیں، عمرجنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیرجنتی ہیں، عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں، سعدجنتی ہیں، سعیدجنتی ہیں، ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں، رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین )
سنن ابوداوودحدیث نمبر۔(4649) سنن ترمذی حدیث نمبر۔(3747) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی ہےاسےصحیح قراردیا ہے ۔
اوراہل سنت اس بات کااقرارکرتےاورمانتےہیں کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ سےتواترکےساتھ نقل ہےکہ اس امت میں سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدسب سےافضل ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ اوران کےبعدعمررضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
محمدبن حنفیہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ میں نےاپنےوالد( علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ) کوکہارسول صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدلوگوں میں سےسب سےبہتر اورافضل کون ہےتوانہوں نےفرمایا : ابوبکرمیں نےکہاان کےبعدپھرکون توانہوں نےفرمایا: عمرمیں ڈرگیاکہ آپ یہ نہ کہہ دیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہم میں نےکہاپھران کےبعد آپ ہیں توانہوں نےفرمایامیں تومسلمانوں میں سےایک عام آدمی ہوں )
صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3671)
تواہل سنت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کوتیسرےنمبراورعلی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کوچوتھےنمبر پرمانتےہیں ۔
دیکھیں کتاب : الواسطیۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی شرح کےساتھ ۔
دوم : اوراہل سنت کایہ مذھب اورمسلک ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد لوگوں میں سےسب سےزیادہ خلافت کےحقدارابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ۔
آپ کےسامنےذیل ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی امامت کےدلائل پیش کئےجاتےہیں:
1۔ محمدبن جبیربن مطعم اپنےوالدسےبیان کرتےہیں کہ انہوں نےکہاکہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی توآپ نےاسےدوبارہ آنےکافرمایاتووہ کہنےلگی مجھےیہ بتائیں کہ اگرمیں آؤں توآپ نہ ملیں گویاکہ وہ یہ کہہ رہی ہوکہ آپ پرموت آجائےتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اگرتم مجھےنہ پاؤتوابوبکرکے پاس آجانا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3659)
2۔عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہمابیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
( میرےبعدابوبکراورعمر( رضی اللہ تعالی عنہما ) کی اقتداءکرنا )۔
سنن ترمذی حدیث نمبر۔(3805)علامہ البانی رحمہ اللہ نےاسےصحیح کہاہے ۔
3۔عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہمابیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
( میں کنویں سے پانی نکال رہاتھاکہ ابوبکراورعمررضی اللہ تعالی عنہماآئےتو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نےڈول پکڑکرایک یادوڈول پانی نکالااوراس نکالنےمیں کمزوری تھی اللہ تعالی اسےبخشے پھراس کےبعدعمررضی اللہ تعالی نےابوبکررضی اللہ تعالی کےہاتھ سےڈول پکڑاتوان کےہاتھ میں وہ ایک بڑےڈول میں بدل گياتومیں نےلوگوں میں اس سےبڑاکوئی عبقری دیومالائي قوت والا نہیں دیکھاجوکہ کام کوپوری طرح کرنےوالاہوحتی کہ لوگوں نےکھال میں مارا )
صحیح بخاری حدیث نمبر۔(3676)
حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح میں کہتےہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ قول ( میں کنویں پرتھا ) یعنی نیندمیں ۔
اوریہ قول ( اس سےپانی نکال رہاتھا ) یعنی میں پانی سےڈول بھررہاتھا ۔
اوریہ فرمان ( توایک یادوڈول نکالے ) ذنوب بڑےسےڈول کوکہتےہیں جس میں پانی ہوجومجھےظاہرہورہا ہےوہ یہ کہ اس میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کےدورمیں جوبڑی بڑی فتوحات ہوئی ہیں ان کی طرف اشارہ ہےجوکہ تین ہیں اوراسی لئےعمررضی اللہ تعالی عنہ کےذکرمیں ڈول نکالنےکی تعدادکاذکرنہیں بلکہ اس کی عظمت بیان کی ہےجوکہ ان کے دورخلافت میں کثرت فتوحات کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ تعالی اعلم ۔
اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی ہےاس حدیث کی تفسیراپنی کتاب ( الام ) میں ذکرکی ہےوہ اس حدیث کوبیان کرنےکےبعدفرماتےہیں :
( ان کےڈول نکالنےمیں ضعف اورکمزوری تھی ) اس کامعنی یہ ہےکہ ان کی مدت خلافت کےقلیل ہونےاوران کی موت اوراہل ردہ کےساتھ لڑائی میں مشغول رہنےکی طرف اشارہ ہےجس نےانہیں فتوحات سےمشغول رکھااورعمررضی اللہ تعالی عنہ جوزیادتی میں پہنچےوہ ان کی مدت خلافت میں زیادہ ہونےکی طرف اشارہ ہے۔انتہی ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان : ( اوراللہ تعالی انہیں معاف فرمائے )
اس کےمتعلق امام نووی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ :یہ متکلم کی طرف سےدعاء ہے یعنی اس کاکوئی مفہوم نہیں ۔
اوران کےعلاوہ دوسروں کاکہناہےکہ : اس میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کی جلد وفات کی طرف اشارہ ہےیہ ایسےہی ہےجس طرح کہ اللہ تعالی ہےاپنےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشادفرمایاہے :
{ تواپنےرب کی تسبیح بیان کراوراس سےبخشش طلب کربیشک وہ توبہ قبول کرنےوالاہے }
کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرب وفات کی طرف اشارہ ہے ۔
میں کہتاہوں کہ : اس میں یہ بھی احتمال ہوسکتاہےکہ اس میں فتوحات کےقلیل ہو نےکی طرف اشارہ ہےجس میں کوئی مضائقہ نہیں اوراس کاسبب ان کی مدت خلافت قلیل ہوناہےتوان کےلئےمغفرت کامعنی یہ ہوگاکہ ان پرکوئی ملامت نہیں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان :( توان کےہاتھ میں ایک بڑاڈول بن گیا ) یعنی بہت بڑاڈول ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان :( میں نےاس سےبڑاعبقری نہیں دیکھا )۔
اس سےمرادیہ ہےکہ ہرچیزاپنےانتہاءکوپہنچ جائے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان:(فریہ)اس کامعنی یہ ہےکہ وہ ہرکام کوپوراکرے۔
4۔عائشہ رضی اللہ تعالی عنہابیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی بیماری میں مجھےفرمایا کہ اپنےباپ ابوبکراوربھائی کومیرے پاس بلاؤتا کہ میں کچھ لکھ دوں کیونکہ مجھےڈرہےکہ کوئی خواہش کرنےوالاخواہش کرےاوریہ کہےگا کہ میں اولی ہوں اوراللہ تعالی اورمومن اس کاانکارکریں ابوبکرکےعلاوہ ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر۔(2387)
5۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی مرض الموت میں ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ کونماز میں مسلمانوں کاامام متعین کیااورابوبکرکےعلاوہ کسی اورپرراضی نہیں ہوئےتواس امامت صغری میں انہیں خلیفہ بنانےمیں امامت کبری ( خلافت ) کی طرف اشارہ تھا کہ امامت کبری میں بھی وہ ہی خلیفہ ہوں گے ۔
واللہ اعلم .