عقد نكاح كے بعد رخصتى ميں تاخير كرنا
ميرے ليے ايك نوجوان كا رشتہ آيا ليكن مجھے يہ ديكھ كر بہت افسوس ہوا كہ اس كے گھر والے شدت سے اس رشتہ كو رد كر رہے ہيں، اور اس نوجوان كے ليے بہت سارى مشكلات پيدا كيں.
ميں نے اس نوجوان كو يہ پيشكش كى كہ ابھى نكاح رجسٹر كر ليا جائے اور ہم ايك دوسرے سے كچھ وقت دور رہيں اور رخصتى بعد ميں كر لى جائے.
خاص كر ميں اپنى ملازمت ترك كرنا چاہتى ہوں، اور ميرے كچھ حقوق ہيں جو اسى صورت ميں مل سكتے ہيں كہ ميں شادى شدہوں، تو كيا اس صورت ميں شادى كرنا يعنى عقد نكاح كر ليا جائے اور رخصتى بعد ميں ہو كوئى شرعى ممانعت تو نہيں پائى جاتى ؟
Answer
الحمد للہ:
اول:
ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے توفيق و صحيح راہنمائى كى درخواست كرتے ہيں، دعا ہے كہ آپ كے ملازمت ترك كرنے كا نعم البدل آپ كو عطا فرمائے، اور آپ كو نيك و صالح خاوند نصيب كرے جس سے آپ كى آنكھيں ٹھنڈى ہوں.
دوم:
اگر طرفين كى رضامندى اور ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں عقد نكاح طے پائے تو يہ شادى صحيح ہے، چاہے عقد نكاح كے فورا بعد رخصتى كر لى جائے يا پھر كچھ يا زيادہ مدت كے بعد رخصتى ہو.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مكہ ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے نكاح كيا، ليكن آپ كى رخصتى تين برس بعد مدينہ جا كر ہوئى.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3894 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1422 ).
دوم:
بہتر تو يہى ہے كہ اس لڑكے كے گھر والوں كو اس شادى پر مطمئن كيا جائے كيونكہ اس ميں ہى آپ دونوں اور آپ كى اولاد كے ليے مصلحت و فائدہ ہے، اور يہ كوشش كى جائے كہ اس نوجوان كے گھر والوں كى موافقت سے ہى يہ شادى ہو تا كہ نہ ختم ہونے والے جھگڑوں اور اختلافات سے نجات حاصل ہو سكے، كيونكہ اس كا ازدواجى زندگى پر منفى اثر ہوتا ہے.
سوم:
ہم يہ متنبہ كرتے ہيں كہ آپ كا اس نوجوان كے ساتھ تعلقات ركھنا جائز نہيں، كيونكہ منگيتر لڑكى اور لڑكى عقد نكاح ہونے تك ايك دوسرے كے ليے اجنبى ہوتے ہيں.
واللہ اعلم .