ملازمت كے ليے دوسرے ملك جا كر دوسرى شادى كر لى اور پہلى بيوى كو چھوڑ ديا تو كيا يہ طلاق شمار ہو گى ؟
ہم كينڈا ميں رہائش پذير ہيں، اور ميرا سوال والدہ كے متعلق ہے، ميرے والد صاحب شادى كے تيس برس بعد ملازمت كے ليے نيويارك امريكہ ميں گئے اور وہاں تين برس تك رہے، اس دوران انہوں نے ميرى والدہ كو كوئى رقم اور پيسے وغيرہ نہيں بھيجے، پھر اس كے بعد آئے اور پاكستان جانے كا فيصلہ كيا، اور پاكستان پہنچتے ہى ميرى والدہ كو بتائے بغير دوسرى شادى كر لى.
اس وقت سے لے كر آج تك ميرى والدہ سے تعلقات منقطع كر ركھے ہيں، نہ تو طلاق دى ہے اور نہ ہى ان كے ساتھ رہتا ہے، اب ميرى والدہ اپنے حقوق جاننا چاہتى ہيں كہ ان كے حقوق كيا ہيں، اور كيا وہ مطلقہ شمار ہونگى ؟
اور اگر والد صاحب واپس آئيں تو كيا ميرى والدہ كو طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہے يا نہيں ؟
اسى طرح والد اور والدہ دونوں نے مل كر مكان خريدا ليكن والدہ نے قيمت كا زيادہ حصہ ادا كيا ہے، تو اس كى تقسيم كيسے ہو گى ؟
उत्तर
الحمد للہ:
اول:
آپ كى والدہ ابھى تك آپ كے والد كے نكاح ميں ہيں اور شرعا ان كى بيوى ہيں؛ جب تك انہيں طلاق نہيں دى جاتى يا پھر آپ كى والدہ اس سے خلع حاصل نہيں كر ليتى، اور آپ كى والدہ كو نان و نفقہ اور لباس و رہائش اور معاشرت كے مكمل حقوق حاصل ہيں جب تك وہ بيوى ہے.
اگر آپ كا والد ان حقوق ميں سے كسى ميں كوتاہى كرتا ہے تو آپ كى والدہ كو اس حق كے مطالبہ كا حق حاصل ہے، چاہے شرعى قاضى كے پاس جا كر مطالبہ كرے، اور اگر وہ صبر كرتے ہوئے ايسے ہى رہنا چاہتى ہے جيسے رہ رہى ہے تو ايسا كرنے كا بھى حق ہے.
اور اگر صبر نہيں كر سكتى تو خاوند سے طلاق كا مطالبہ كر سكتى ہے، اس صورت ميں خاوند اسے پورے حقوق دےگا، اور خاوند كے ذمہ اتنى مدت كا نان و نفقہ كے اخراجات كى ادائيگى ہو گى جس ميں اس نے نفقہ ادا نہيں كيا، ليكن اگر وہ اسے معاف كر چكى ہے تو پھر مطالبہ نہيں كر سكتى، اور اگر طلاق نہيں ديتا تو آپ كى والدہ كو خلع حاصل كرنے كا حق حاصل ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 22379 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث كا تقاضہ ہے كہ عورت كو طلاق طلب كرنے سے دھمكانے والى جتى بھى احاديث ہيں انہيں اس پر محمول كيا جائيگا كہ اگر طلاق طلب كرنے كا كوئى سبب نہ ہو " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 402 ).
دوم:
آپ كو چاہيے كہ جو كچھ ہو چكا اسے نہيں بلكہ آپ اپنے والدين كے حسب استطاعت صلح كرانے كى كوشش كريں، آپ كو علم ہونا چاہيے كہ اگر اس نے دوسرى شادى بھى كر لى ہو اور آپ كى والدہ كو اس كا علم بھى نہ ہو، يا پھر وہ دوسرى شادى پر راضى نہ ہو، تو پھر بھى آپ كے والد كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ آپ كى والدہ پر ظلم كرے اور اس كے حقوق كى ادائيگى نہ كرے.
آپ اسے واپس لانے كى كوشش كريں، كيونكہ كہيں ايسا نہ ہو كہ وہ ظلم كرتا ہوا ہى اپنے رب سے جا ملے اور پھر ظلم بھى اس پر جو اس كى بيوى ہے، جس كے ساتھ سب لوگوں سے زيادہ حسن سلوك كرنا چاہيے تھا.
اگر وہ آپ كى والدہ كے پاس واپس آ جائے اور اس كا حق معاشرت احسن طريقہ سے ادا كرنے لگے تو يہ اس كے ليے بہتر ہے، اور آپ كى والدہ كے ليے بھى بہتر ہے كہ وہ اس كے ساتھ ہى رہے تا كہ گھر كا شيرازہ بكھرنے كى بجائے ايك ہى گھر ميں اكٹھا ہو جائے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص كى دو بيوياں ہيں دونوں ميں سے ايك سے زيادہ محبت كرتا اور اسے لباس وغيرہ مہيا كرتا، اور اس كے ساتھ رہتا ہے، دوسرى كے ساتھ كم ايسے شخص كا حكم كيا ہے؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
" الحمد للہ:
مسلمانوں كا اتفاق ہے كہ اس پر دونوں بيويوں كے مابين عدل انصاف كرنا واجب ہے.
سنن اربعہ ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ ليہ وسلم نے فرمايا:
" جس شخص كى دو بيوياں ہوں اور وہ كسى ايك كى طرف مائل ہو اور دوسرى كى طرف نہ تو روز قيامت آئيگا تو اس كى ايك سائڈ مائل ہوئى ہوگى "
اس ليے اس تقسيم ميں عدل كرنا ہوگا اگر وہ ايك بيوى كے پاس ايك يا دو يا تين راتيں بسر كرتا ہے تو دوسرى كے پاس بھى اتنى ہى راتيں بسر كرے، اور تقسيم ميں كسى ايك كو فضيلت مت دے، ليكن اگر اس سے محبت زيادہ كرتا ہے يا وطئ زيادہ كرتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اس سلسلہ ميں اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى ہے:
{ اور تم عورتوں كے مابين ہرگز عدل نہيں كر سكو گے چاہے تم حرص بھى ركھو }النساء ( 129 ).
يعنى محبت اور جماع ميں.
رہا نان و نفقہ اور لباس وغيرہ ميں عدل تو سنت بھى يہى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اس ميں اقتداء كرتے ہوئے عدل كيا جائے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كے مابين نفقہ ميں عدل كيا كرتے تھے، اور اسى طرح تقسيم ميں بھى عدل فرمايا كرتے تھے.
ليكن علماء كا اس ميں تنازع ہے كہ آيا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر واجب تھى يا مستحب ؟
اور پھر اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نفقہ ميں عدل كرنا واجب تھا يا مستحب، ليكن كتاب و سنت سے واجب ہونا زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے.
اسى عدل كا حكم بھى ديا گيا ہے جب تك وہ اس كى بيوى ہے اسے عدل كرنا ہوگا، ليكن اگر كسى ايك كو طلاق دينا چاہے تو اسے ايسا كرنے كا حق ہے.
ليكن اگر وہ اور جسے طلاق دينا چاہتا ہے آپس ميں كسى بات پر صلح كر ليں كہ وہ اسے اپنے پاس ركھے ليكن اس بارى تقسيم نہ كرے، اور وہ بھى اس پر رضامند ہو تو ايسا كرنا جائز ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور اگر عورت اپنے خاوند كى بددماغى يا بےپرواہى كا خطرہ محسوس كرے، تو ان دونوں پر آپس ميں وہ جو صلح كر ليں اس ميں كسى پر كوئى گناہ نہيں، اور صلح بہت بہتر چيز ہے }النساء ( 128 ).
اور صحيح بخارى ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ يہ آيت اس عورت كے بارہ ميں نازل ہوئى جو كسى شخص كے پاس ہو اور اس كے ساتھ صحبت طويل عرصہ ہو جائے تو وہ اسے طلاق ديا چاہے تو وہ عورت اسے كہے تم مجھے طلاق مت دو بلكہ اپنے پاس ہى ركھو اور تمہيں ميرى بارى ميں چھٹى تو يہ آيت نازل ہوئى.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سودۃ رضى اللہ تعالى عنہا كو طلاق دينا چاہى تو انہوں نے اپنى بارى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو ہبہ كر دى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بغير بارى كے اپنے پاس ہى ركھ ليا"
اور رافع بن خديج رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ بھى ايسا ہى ہوا، كہا جاتا ہے كہ يہ آيت ان كے بارہ ميں نازل ہوئى " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 3 / 149 - 150 ).
واللہ اعلم .