قبر کے تین سوال
پاسخ
الحمدللہ
اول :
جب ابن آدم مر جاتا اور اس کی روح نکل جاتی اور اسے قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ اس وقت آخرت کے سب سے پہلے مرحلے میں ہوتا ہے کیونکہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے ۔
ہانی مولی عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عثمان بن عفان کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ ان کی داڑھی بھیگ جاتی تو انہیں کہا جاتا آپ جنت اور جہنم کے ذکر سے نہیں روتے اور اس سے روتے ہیں ؟ تو وہ فرماتے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے جو اس سے نجات پا گیا اس کے لۓ باقی منازل اس کے لۓ آسان ہیں اور اگر اس سے نہ بچ سکا تو اس کے بعد والی اس سے بھی سخت ہیں )
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ :
< میں نے کوئی منظر نہیں دیکھا مگر قبر اس سے بھی زیادہ خطرناک اور گھبراہٹ میں ڈالنے والی ہے >
ترمذی حدیث نمبر (2308) ابن ماجہ حدیث نمبر (4567) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع (1684) میں اسے حسن کہا ہے ۔
دوم :
اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے جن کے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے اور وہ اس سے اس کے متعلق پوچھیں گے کہ وہ دنیا میں اپنے رب اور دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیا ایمان رکھتا تھا اگر تو اس نے اچھا جواب دیا تو یہ اس کے لۓ بہتر ہو گا اور اگر جواب نہ دے سکا تو وہ اسے بہت سخت اور شدید قسم کی مار ماریں گے ۔
اگر تو وہ اچھے لوگوں میں سے ہو گا تو فرشتے اس کے پاس چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ آئیں گے اور اگر فسادی لوگوں میں سے ہوا تو فرشتے اس کے پاس سیاہ چہرے لے کر آئیں گے اور یہی وہ فتنہ ہے جس کے ساتھ اس کی آزمائش ہو گی ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہا کرتے تھے ( اے اللہ میں سستی اور بڑھاپے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور قرض اور گناہ سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اے اللہ میں عذاب قبر اور آگ کے عذاب سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور قبر کے فتنہ اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور فقراء اور غناء کے شریر فتنہ سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنہ شر سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اے اللہ میرے گناہوں کو پانی اور برف اور اولوں سے دھو ڈال اور میرے دل کو گناہوں سے ایسے پاک صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اس طرح دوری پیدا کر دے جس طرح تو نے مشرق ومغرب کے درمیان دوری ڈالی ہے > صحیح بخاری حدیث نمبر (6014)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( اور فنتہ قبر سے) یہ دونوں فرشتوں کا سوال ہے ۔ فتح الباری (11/ 177)
اور مبارکپوری کا قول ہے :
(اور فتنہ قبر ) یعنی: فرشتوں کو جواب دینے میں حیرانی میں پڑنا – تحفۃ الاحوذی (9/ 328)
سوم :
اب رہا کہ وہ کون سا سوال ہے جو کہ فرشتے پوچھیں گے تو مندرجہ ذیل حدیث میں اسے بیان کیا گیا ہے ۔
براء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں شرکت کے لۓ گۓ تو جب ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گۓ اور ہم بھی ان کے ارد گرد اس طرح بیٹھ گۓ ہمارے سروں پر پرندے منڈلا رہے ہوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے وہ زمین کو کرید رہے تھے تو انہوں نے اپنے سر کو اٹھایا اور فرمانے لگے – اور دو یا تین دفعہ یہ کہا کہ :
عذاب قبر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو پھر فرمانے لگے : جب مومن شخص دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے روشن چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں گویا کہ ان کے چہرے سورج ہوں تو اس کے پاس حد نظر تک بیٹھ جاتے ہیں ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے کفن اور جنت کی خوشبووں میں سے ایک خوشبو ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا اور اس سے کہتا ہے کہ اے اچھی اور نیک روح اپنے رب کی مغفرت اور بخشش اور رضا کی طرف نکل چل تو وہ اس طرح بہہ نکلتی ہے جس طرح کہ مشکیزے کی منہ سے قطرہ بہتا ہے تو جب اسے پکڑتے ہیں تو اسے لمحہ بھر بھی اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھتے اور فورا اسے اس کفن اور خوشبو میں کر لیتے ہیں تو اس سے ایسے کستوری کی خوشبو آنی شروع ہوتی ہے جو کہ زمین پر سب سے اچھی پائی جاتی ہو تو اسے لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور جس فرشتے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ کس کی اتنی اچھی روح ہے ؟ تو انہیں جواب میں وہ نام بتایا جاتا ہے جس سے دنیا میں وہ سب سے اچھے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا کہ فلاں بن فلاں ہے حتی کہ اسے آسمان دنیا پر لے جاتے ہیں تو اسے کھلوایا جاتا ہے تو کھول دیا جاتا ہے تو ہر آسمان پر اس کا استقبال کرنے والے دوسرے آسمان تک لے جاتے ہیں حتی کہ وہ ساتویں آسمان تک لے جایا جاتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اللہ تعالی فرماتے ہیں :
میرے بندے کی کتاب ساتویں آسمان میں علیین کے اندر لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں اس سے ہی پیدا کیا اور اسی میں واپس لوٹاؤں گا اور اسی میں سے دوبارہ نکالوں گا اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا تو دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ تعالی ہے پھر اسے کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر اسے کہتے ہیں کہ وہ جو تیرے پاس مبعوث کر کے بھیجا گیا وہ کون ہے ؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو وہ اس سے کہتے ہیں کہ تیرے عمل کیسے ہیں ؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی کی کتاب کو پڑھا تو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ تو آسمان سے منادی کرنے والا آواز لگاتا ہے میرے بندے نے سچ کہا ہے اس کا بستر جنت کا بچھاؤ اور اسے لباس بھی جنت کا پہناؤ اور اس کے لۓ جنت کی طرف دروازہ کھول دو تو اس درواز ے سے جنت کی خوشبو اور ہوا آتی ہے اور اس کی قبر حد نظر تک وسیع کر دی جاتی اور اس کے پاس خوش باش چہرے والا اور اچھے لباس اور اچھی خوشبو میں ایک شخص آکر کہتا ہے تجھے ایسی خوشخبری ہے جو کہ تیرے لۓ خوشی کا باعث ہے یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ اس سے سوال کرے گا کہ تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے تو خیر اور بھلائی ہی جھلکتی ہے تو وہ اسے جواب دے گا میں تیرے اعمال صالحہ ہوں تو وہ آدمی کہے گا اے رب قیامت قائم کر دے تا کہ میں اپنے اہل وعیال میں واپس جا سکوں ۔
اور جب کافر شخص دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اترتے ہیں اور ان کے پاس ٹاٹ ہو گا (یعنی کھردرا کپڑا) تو اس کے پاس حد نگاہ تک بیٹھ جاتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتا اور کہتا ہے اے گندی اور خبیث روح اللہ تعالی کے غضب اور ناراضگی کی طرف چل تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روح پورے جسم میں پھیل جاتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو جب وہ نکلتی ہے تو اس کے ساتھ رگیں اور پٹھے ٹوٹنے لگتے ہیں جس طرح کہ بھیگی ہوئی روئی سے سیخ کھینچی جاتی ہے تو وہ اسے پکڑ لیتے ہیں اور لمحہ بھر بھی اپنے ہاتھوں میں نہیں رکھتے اور فورا اسے اس ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں تو اس سے اتنی گندی بو اٹھتی ہے جیسے زمین میں کسی مردار کی ہو تو اسے لے کر اوپر چلے جاتے ہیں اور جس فرشتے کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتا ہے کہ یہ کس کی اتنی گندی اور خبیث روح ہے ؟ تو انہیں جواب میں وہ نام بتایا جاتا ہے جس سے دنیا میں وہ سب سے برے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا کہ وہ فلاں بن فلاں ہے حتی کہ اسے آسمان دنیا پر لے جاتے ہیں تو اسے کھلوایا جاتا ہے تو اسے نہیں کھولا جاتا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:
< ان کے لۓ آسمان کے دروازے نہیں کھولیں جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے نکے میں داخل نہ ہو جائے > الاعراف /40
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی فرمائے گا: میرے بندے کی کتاب سجین سب سے نچلی زمین میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ کیونکہ میں نے انہیں اس سے ہی پیدا کیا اور اسی میں واپس لوٹاؤں گا اور اسی میں سے دوبارہ نکالوں گا تو اس کی روح کو وہیں سے پھینک دیا جاتا ہے اور راوی کہتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :
< اور جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پر پھینک دے گی > الحج / 31
تو انہوں نے کہا کہ اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹایا جاتا ہے تو دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے اور اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہاۓ ہاۓ مجھے تو علم نہیں- پھر اسے کہتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہاۓ ہاۓ مجھے تو علم نہیں تو آسمان سے منادی کرنے والا آواز لگاتا ہے اس کے لۓ جہنم کا بستر دو اسے جہنم کا ہی لباس پہنا دو اور جہنم کی طرف دروازہ کھول دو تو انہوں نے کہا کہ اس دروازے سے جہنم کی گرمی اور لو آۓ گی اور اس پر قبر اتنی تنگ ہو جائے گی کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے سے مل جائیں گی اور اس کے پاس برے چہرے اور قبیح شکل اور گندے اور برے کپڑوں پہنے اور اس سے بری بدبو آرہی ہو گی آکر کہتا ہے تو ایسی خبر سن جسے تو برا محسوس کرے گا یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ اس سے سوال کرے گا کہ تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے برائی اور شر جھلک رہا ہے وہ اسے جواب دے گا میں تیرے برے اور خبیث اعمال ہوں تو وہ آدمی کہے گا اے رب قیامت قائم نہ کر قیامت قائم نہ کر – ابو داؤد (4753) مسند احمد (18063) اور یہ الفاظ مسند احمد کے ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع (1676) میں صحیح قرار دیا ہے ۔
تو صحیح بات یہ ہے کہ قبر میں فرشتے میت سے توحید اور عقیدہ کے علاوہ کچھ نہیں پوچھتے اور یہ واضح اور ظاہر ہے ۔
واللہ اعلم .