ناكامى سے بچاؤ اور كاميابى كے اسباب
Svar
الحمد للہ:
سائل محترم كاميابى كى كوشش و جدوجھد اور ناكامى سے نفرت كے ليے صرف ناكامى كا نام ہى كافى ہے، غض نظر كہ انسان اپنى كاميابى كے ليے كوئى مادى كمائى كرے؛ تو ناكامى ايك نقص اور مذمت كا نام ہے، اور كاميابى كمال و مدح كو كہتے ہيں.
عربى كا شاعر كہتا ہے:
ميں تو نقص كے علاوہ لوگوں ميں كوئى اور عيب ديكھتا ہى نہيں جسے وہ پورا كرنے پر قادر ہيں.
بلا شبہ ناكامى و كاميابى، يہ دونوں اشياء فى نفس الوقت دونوں ملى ہوتى ہيں، اور ابتدائى طور پر تو اس ميں تناقض نظر آتا ہے، ليكن حقيقت ميں فكر و سوچ اور مشاہدات و تجربات و واقعہ ميں ملے ہوئے ہيں، اگرچہ ہر ايك كى تعريف و پہچان عليحدہ ہے جس سے ہم ان اسباب كو سمجھ ليتے ہيں جو اس پر چلنے يا منع كرنے پر ابھارتے ہيں.
تو نجات و كاميابى اس جہان ميں وہ طريقہ ہے جو اللہ تعالى نے چاہا كہ وہ ہر مومن كى اس جہان ميں غايت ہو، اور اس غرض و غايت كو پورا كرنے كے ليے اللہ تعالى نے اس جہان كى ہر چيز مسخر فرمائى ہے، تو اللہ سبحانہ و تعالى نے ايمان لانے كا حكم ديا، اور انسان سے اس عبوديت كے التزام مطالبہ كيا جو اس سے عليحدہ نہيں ہو سكتى.
جب اللہ سبحانہ و تعالى نے اسى چيز كو مخلوق پيدا كرنے كى غرض و غايت بيان كى تو فرمايا:
{ اور ميں نے جن و انس كو تو صرف اپنى عبادت كے ليے ہى پيدا كيا ہے }الذاريات ( 56 ).
اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اسى راہ ميں مرنے والے كو كامياب قرار ديا اور ناكامى سے بچا ہوا شمار كرتے ہوئے فرمايا:
{ تو جو شخص آگ سے دور كر ديا گيا اور جنت ميں داخل كر ديا گيا تو وہ كامياب ہو گيا }آل عمران ( 185 ).
تو پھر نجات و كاميابى زندگى كا قصہ ہے، اور اللہ تعالى كے اس جہان كو پيدا كرنے كى غرض و غايت ہے، اور سب رسول اسى مقصد كے بھيجے گئے، اور كتابيں بھى لوگوں كو اس حقيقى كاميابى كى طرف دعوت دينے كے ليے نازل كى گئيں، اللہ سبحانہ و تعالى نے دنيا و آخرت ميں كاميابى كے حصول كے ليے كچھ اسباب بنائے جن كو استعمال كر كے انسان اس كى طرف جا سكتا ہے، وہ درج ذيل ہيں:
ـ جب اللہ سبحانہ و تعالى نے ايمان اور عبوديت كے امتحان ميں كامياب ہونے، اور ايمان و عبوديت كے راستے كا التزام كرنےاور اسى پر مرنے والے شخص كے ابدى اور دائمى نعمت لكھى.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ تو جس شخص كو اس كا اعمال نامہ اس كے دائيں ہاتھ ميں ديا جائيگا تو وہ كہےگا: آؤ ميرا اعمال نامہ پڑھو، مجھے يقين تھا كہ ميرا حساب و كتاب مجھے ملنا ہے، تو وہ شخص خوشى والى زندگى ميں ہو گا، بلند و بالا جنت ميں، جس كے ميوے اور پھل قريب اور جھكے ہوئے ہونگے، ( ان سے كہا جائيگا ) كہ مزے سے كھاؤ پيو اپنے ان اعمال كے بدلے جو تم گزشتہ زمانے ميں كيا كرتے تھے }الحاقۃ ( 19 - 24 ).
اور جن لوگوں نے اس كاميابى كى راہ كا انكار كر ديا اور ناكامى و نامرادى كے راہ كا اصرار كيا تو قرآن مجيد نے ان كا نقشہ كھينچا، اور جس دن ان كا نتيجہ انہيں ديا جائيگا، اور كامياب شخص اور ناكام كى پہچان ہو گى ا سكا نقشہ يوں كھينچا:
{ اور جس شخص كو اس كا اعمال نامہ اس كے بائيں ہاتھ ميں ديا جائيگا تو وہ كہےگا: ہائے افسوس كاش مجھے ميرا اعمال نامہ نہ ديا جاتا، اور مجھے تو علم ہى نہ تھا كہ حساب و كتاب كيا ہے، كاش! كہ موت ميرا كام تمام كر ديتى، ميرے مال نے مجھے كچھ نفع نہ ديا، اور ميرا غلبہ بھى مجھ سے جاتا رہا }الحاقۃ ( 25 - 29 ).
ـ اور اس دنيا ميں كاميابى كى راہ پر چلنے والے كے ليے جب اللہ تعالى نے اچھى اور پاكيزہ زندگى لكھى تو فرمايا:
{ جو بھى نيك و صالحہ اعمال كرے، چاہے وہ مرد ہو يا عورت ليكن ہو وہ ايمان والا تو ہم اسے يقينا نہايت بہتر اور اچھى زندگى عطا فرمائينگے، اور ان كے انيك و صالحہ اعمال كا بہترين بدلہ بھى انہيں ضرور ضرور دينگے }النحل ( 97 ).
ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اللہ تعالى كى جانب سے نيك و صالح اعمال كرنے والے كے ليے يہ وعدہ ہے كہ وہ اس كى دنياوى زندگى اچھى كر دے گا، اور اچھى زندگى كسى بھى طريقہ سے ہو سكتى ہے، ابن عباس اور ايك جماعت سے مروى ہے كہ انہوں نے اس كى تفسير پاكيزہ اور حلال رزق سے كى ہے.
اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے اس كى تفسير قناعت كى ہے، اور على بن ابى طلحہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ يہى سعادت ہے، اور صحيح يہ ہے كہ اچھى زندگى ان سب اشياء كو شامل ہے "
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 4 / 601 ).
يہى وہ منہج ہے جس كےمطابق مسلمان شخص زندگى بسر كرتا ہے، اور اس كى زندگى سے سمجھا جاتا ہے، اور جو اس سمجھ اورمفہوم پر چلے تو وہ يہ ضرور اسے اس كے دينى اور ديناوى امور ميں كاميابى و كامرانى اور مقام و مرتبہ كى طرف لے جائيگا.
كيونكہ مومن شخص كو يہ علم ہے كہ اس سے اس دنيا ميں عدل و انصاف اور حق قائم كرنے كا مطالبہ ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ يقينا ہم نے اپنے رسولوں كو دليليں دے كر بھيجا اور ان كے ساتھ كتاب اور ميزان نازل فرمايا تا كہ لوگ عدل پر قائم رہيں }الحديد ( 25 ).
اور عدل و انصاف قائم كرنے ميں ايك فرد كى كاميابى پورى امت كى كاميابى كا ايك حصہ ہے، اور اس ليے بھى مومن شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بات كو سنتا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا اللہ تعالى كو يہ پسند ہے كہ جب تم ميں كوئى شخص كوئى كام كرے تو اچھى طرح پختگى سے كرے "
اسے ابو يعلى نے ( 7 / 349 ) روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس كے شواہد كے ساتھ اسے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 1113 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور پھر عمل كو پورى پختگى كے ساتھ سرانجام دينا نجات و كاميابى كا ايك ركن ہے.
يہ وہ اسباب ہيں جو سب كے سب مومن شخص كو نجات كے انتہائى درجہ تك پہنچنے ممد و معاون ثابت ہوتے ہيں، اور وہ ہر وقت اپنى صلاحيات كو بڑھانے كى كوشش ميں لگا رہتا ہے، اور نافع ہنر تلاش كرتا ہے اور ثقافتى و اخلاقى اور معاشرتى اور اقتصادى مستوى ميں بلندى و ترقى كرتا ہے، اور وہ جانتا ہے كہ عمل كرنے والا كامياب مومن سستى و كاہلى كے ساتھ بيٹھے رہنے والے مومن سے بہتر اور افضل ہے، جو اپنى سستى و كاہلى سے دين و دنيا كے خسارہ كے علاوہ كچھ حاصل نہيں كرتا.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" طاقتور اور قوى مومن اللہ كے ہاں كمزور اور ضعيف مومن سے بہتر ہے، اور ہر ايك ميں خير ہے، آپ اس چيز كى حرص ركھيں جو آپ كو فائدہ دے، اور اللہ تعالى سے مدد مانگو اور عاجز نہ ہو جاؤ، اور اگر آپ كو كچھ ( تكليف ) پہنچ جائے تو يہ نہ كہے كہ اگر ميں يہ كر ليتا تو يہ ہو جاتا، اور اگر يہ كر ليتا تو يہ ہو جاتا، ليكن يہ كہو كہ اللہ تعالى كى قدرت، اور اللہ نے جو چاہا كر ديا، كيونكہ اگر ( لو ) شيطان كا كام كھول ديتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2664 ).
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" تو يہ حديث اصول ايمان كے عظيم اصول پر مشتمل ہے...، اور اس ميں يہ شامل ہے:
انسان كى سعاد تاس ميں ہے كہ وہ ايسى چيز كى حرص ركھے جو اس كى معاشى اور آخرت كے ليے فائدہ مند ہو، اور حرص جدوجہد كرنے، اور طاقت صرف كرنے كو كہتے ہيں... ، اور جب انسان كى جدوجھد اور ا سكا فعل اللہ تعالى كى مشئيت اور اس كى توفيق سے ہے، تو اللہ تعالى نے حكم ديا كہ اسى سے مدد طلب كى جائے، تاكہ اياك نعبد و اياك نستعين جيسا مقام جمع ہو سكے، كيونكہ اپنے نفع كى چيز كى حرص اللہ كى عبادت ہے، اور يہ اللہ تعالى كى معاونت كے بغير پورى نہيں ہو سكتى؛ تو اللہ سبحانہ و تعالى نے حكم ديا كہ اسى كى عبادت كى جائے، اور اسى سے ہى مدد مانگى جائے.
پھر وہ كہتے ہيں: ( اور عاجز نہ آ جاؤ ) كيونكہ عجز تو نفع مند چيز كى حرص كے منافى ہے، اور اللہ تعالى كى استعانت كے بھى منافى، تو اپنے آپ كو نفع دينے والى چيز كى حرص ركھنے والا، اور اللہ تعالى سے استعانت طلب كرنے والا عاجز آنے والے شخص كے برعكس ہے؛ تو مقدور ميں واقع ہونے سے قبل اس كے حصول كے سب سے بڑے سبب كى طرف راہنمائى ہے اور وہ اس ذات سے استعانت حاصل كرنے جس كے ہاتھ ميں سب امور ہيں كے ساتھ ساتھ اس كى حرص ہے، ان امور كا مصدر بھى وہ ذات ہے، اور ا سكا لوٹنا بھى اسى كى طرف.
تو اگر وہ چيز رہ جائے جو اس كے مقدر ميں ہى نہ تھى تو اس كى دو حالتيں ہيں:
عجر كى حالت: اور يہ شيطانى عمل كھولنے كى كنجى اور چابى ہے؛ تو يہ عجز كو لو ( اگر ) كى جانب ڈال ديتى ہے، تو يہاں اس لو كا كوئى فائدہ نہيں، بلكہ يہ ملامت اور جزع فزع، اور ناراضگى اور افسوس و غم كى چابى ہے، اور يہ سب كچھ شيطانى عمل ہے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس چابى اس عمل كو كھولنے سے منع فرمايا ہے.
اور اسے دوسرى حالت كا حكم ديا ہے: جو كہ تقدير كى جانب ديكھنے اور اس كو مد نظر ركھنا ہے، كہ اگر وہ كام اس كے مقدر ميں ہوتا تو كبھى بھى نہ رہتا، اور نہ ہى اس پر كوئى دوسرا غالب آتا؛ .... تو اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اگر تجھ پر معاملہ غالب آ جائے تو يہ نہ كہو كہ اگر ميں ايسے كر ليتا تو ايسے ہو جاتا، ليكن كہو كہ اللہ نے جو چاہا اور جو مقدر ميں كيا كر ديا "
تو دونوں حالتوں ميں اس كى راہنمائى فائدہ مند چيز كى طرف كى مطلوبہ چيز كے حصول كى حالت ميں، اور عدم حصول كى حالت ميں، تو اسى ليے يہ حديث ايسى ہے كہ انسان كبھى بھى مستغنى نہيں ہو سكتا "
ديكھيں: شفاء العليل ( 37- 38 ).
تواس سوچ سے ہر گھاٹى اور ہر ناكامى كو طے كيا جا سكتا ہے، اسے كوئى چيز عاجز نہيں كر سكتى، اور نہ ہى اس كى خواہش كى كوئى حد ہے، اور نہ اس كى ہمت كى عزيمت كى كوئى انتہاء ہے.
بلكہ وہ جانتا ہے كہ ناكامى تو عمل كى دليل ہے، اس ليے كہ جو شخص عمل كرتا ہے، بعض اوقات وہى ناكام ہو سكتا ہے، ليكن بيٹھ رہنے والا ، كاہلى و سستى كرنے نہ تو كاميابى حاصل كر سكتا ہے، اور نہ ہى ناكامى، اور عمل كا پھل اور نتيجہ تو كسى نہ كسى دن كاميابى كى صورت ميں ضرور نكلےگا، چاہے كچھ دير بعد ہى ہو، تو وہ اسى ليے ناكامى سے كاميابى كى طرف قدم اٹھاتا ہے، اور وہ اس پر متنبہ ہوتا ہے كہ خلل اور نقص كہاں پيدا ہوا ہے، اور وہ اس كى اصلاح اور اسے پورا كرنے كى كوشش كرتا ہے.
تو وہ پہلے سے بھى زيادہ قوى اور سخت ہو كر پلٹتا ہے، حتى كہ جس كاميابى كى كوشش كر رہا تھا وہ اسے پا ليتا ہے، اور جو توبہ كا دروازہ اللہ تعالى نے غلطى كرنے والوں، اور ناكامى كا منہ ديكھنے والوں كے ليے كھول ركھا ہے، وہ تو ايك ايسا سبب اور زينہ ہے جو ناكامى كے مراحل كو ختم كر كے اور ان سے تجاوز كركے نجات و كاميابى كے زينے كى طرف جاتا ہے، خاص كر جب كوتاہى كرنے والا شخص اپنے تجربہ سے مستفيد ہو.
حتى كہ بعض سلف رحمہ اللہ كا يہ كہنا ہے:
" ذلت و انكسارى پيدا كرنے والى معصيت عجب و تكبر پيدا كرنے والى اطاعت و فرمانبردارى سے بہتر ہے "
اور آخر ميں يہ ہے كہ كاميابى كى طرف لے جانے، اور ناكامى سے تجاوز كرنے والے ان سب اسباب و دوافع كے ساتھ بيٹھ رہنے والے يا سستى كاہلى كرنے والے، يا اعمال ضائع كرنے والے كےليےكوئى عذر باقى نہيں رہتا كيونكہ راہ بہت آسان ہے، اور آپ سے بہت ہى قليل سے عزم و پختگى اور ارادہ و حكمت كا مطالبہ ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميرى سارى امت جنت ميں داخل ہو گى، صرف وہ شخص نہيں داخل ہو گا جو جنت ميں جانے سے انكار كر دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7280 ).
مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22704 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .