مضمون کے بارے میں

مصنف :

www.eajaz.org

تاریخ :

Thu, Jan 15 2015

قسم :

Scientific Miracles

ڈاؤن لوڈ کریں

گھرے سمندروں کی خصوصیات

گھرے سمندروں کی خصوصیات



ارشادباری تعالی ھے :"أو كظلمات في بحر لجي يغشاه موج من فوقه موج من فوقه سحاب,ظلمات بعضها فوق بعض إذا أخرج يده لم يكد يراها ومن لم يجعل الله له نوراً فما له من نور"(سورة النور آية 40).
ترحمہ: یا مثل ان اندھیروں کے ھے جو نہایت گھرے سمندر کی تہ میں ھوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ھو پھر اوپر سے بادل چھاۓ ھوۓ ھوں الغرض اندھیریاں ھیں جو اوپر تلے پے در پے ھیں جب اپنا ھاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ھے کہ نہ دیکھ سکے اور (بات یہ ھے کہ) جسے اللہ تعالی ھی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نھیں ھوتی (سورہ نور آیت 40)
سائنسی حقیقت:
انسائکلوپیڈیا برٹانیکا کی تحقیق کے مطابق اکثر سمندر گھنے یا کثیف بادلوں کی پرت سے ڈھکے رھتے ھیں جو سورج کی روشنی کو روکے رکھتے ھیں جیسا کہ سٹلائٹ سے لے گئی اکثر تصویروں میں ظاھر ھوتا ھے ۔ کیونکہ یہ بادل سورج کی بہت سی شعاعوں کو روک لیتے ھیں اس طرح اچھی خاص روشنی کو روک لیتے ھیں باقی روشنی کے ایک حصے کو پانی اپنے اندر جذب کر لیتا ھے جو پانی کی گھرائیوں کے بڑھنے   ارشادباری تعالی ھے :"أو كظلمات في بحر لجي يغشاه موج من فوقه موج من فوقه سحاب,ظلمات بعضها فوق بعض إذا أخرج يده لم يكد يراها ومن لم يجعل الله له نوراً فما له من نور"(سورة النور آية 40).
ترحمہ: یا مثل ان اندھیروں کے ھے جو نہایت گھرے سمندر کی تہ میں ھوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ھو پھر اوپر سے بادل چھاۓ ھوۓ ھوں الغرض اندھیریاں ھیں جو اوپر تلے پے در پے ھیں جب اپنا ھاتھ نکالے تو اسے بھی قریب ھے کہ نہ دیکھ سکے اور (بات یہ ھے کہ) جسے اللہ تعالی ھی نور نہ دے اس کے پاس کوئی روشنی نھیں ھوتی (سورہ نور آیت 40)
سائنسی حقیقت:
انسائکلوپیڈیا برٹانیکا کی تحقیق کے مطابق اکثر سمندر گھنے یا کثیف بادلوں کی پرت سے ڈھکے رھتے ھیں جو سورج کی روشنی کو روکے رکھتے ھیں جیسا کہ سٹلائٹ سے لے گئی اکثر تصویروں میں ظاھر ھوتا ھے ۔ کیونکہ یہ بادل سورج کی بہت سی شعاعوں کو روک لیتے ھیں اس طرح اچھی خاص روشنی کو روک لیتے ھیں باقی روشنی کے ایک حصے کو پانی اپنے اندر جذب کر لیتا ھے جو پانی کی گھرائیوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر کم ھوتی جاتی ھے جس سے سمندروں کے اندر زبردست تاریکی پیدا ھو جاتی ھے ایسا دو سو میٹر تک ھوتا ھےاور ایک ھزار میٹر کی گھرائی تک تاریکی اس قدر بڑھ جاتی ھے کہ کسی چیز کے دیکھنے کا امکان باقی نھیں رھتا اور سیچیڈسک (The Sechi Disk)پہلا ایسا آلہ ھے جو سمندر کےپانی روشنی کی گھرائیناپنے کے لئے استعمال کیا گیا ۔
سائنسدانوں نے 600میٹر سے لیکر 2700میٹر کی گھرائی میں سمندر میں مچھلیوں کو دیکھنے کیلئے اور اپنا شکار حاصل کرنے کیلئے اپنے روشن اعضاء کا استعمال کرتی ھیں۔
 جدید سمندری علوم نے بیسویں صدی کے تیسرے دھے میں ترقی یافتہ تصویر کے آلات کے استعمال کے بعد انیسویں صدی کے آخری میں انکشاف کیا اس طور پر کہ الکٹرک روشنی والے خلیوں کا استعمال کیا گیا جنکے ذریعے گھرے سمندروں میں سرکش موجوں کا انکشاف ھوا  اور انسائکلوپیڈیا بڑٹانیکا کی تحقیق کے مطابق سمندروں کی گھرائیوں میں پائی جانے والی اندرونی موجوں کو انسان نے صرف سو سال پہلے جانا ھے جو ھواؤں کی تاثیر،مد وجزر ،ٹمپریچر، پریشر اور کثافت کے اعتبار سے مختلف پانیوں کے دو طبقوں کی ظاھری سطح پر دکھائی دیتی ھے اور حرارتی انخفاض والے علاقہ کے نزدیک مختلف کثافتی اور فاصل سطح بنتی ھے جس سے گھرائیوں والے ٹھنڈے پانی اور اوپر کے گرم پانی الگ الگ ھو جاتے ھیں اور یہ موجیں ٹمپریچر، ملاحت اور کثافت میں دو مختلف طبقوں کے ذریعہ سطحی امواج کے مشابہ امواج ظاھری سطح پر بنتی ھیں لیکن پانی کی سطح کے اوپر سے انکو بآسانی نھیں دیکھا جا سکتا اور اسے(امواج)بننے سے اتنی زیادہ طاقت خرچ ھوتی ھے کہ جس سے بآسانی ایک کشتی کو آگے ڈکھیلا جا سکتا ھے اسی وجہ سے ان پانی میں سفر کرنے والے بعض کشتیوں کو ھم دیکھتے ھیں کہ ان کے آگے بڑھنے کی طاقت ختم ھو جاتی ھے یہ سب اندرونی موجیں ھیں جن کو پھیلے ھوۓ پانی سے تعبیر کیا جاتا ھے اور جس کی تشریح وتحقیق بیسویں صدی کےاوائل میں سوئزرلینڈ کے ایک ڈاکٹر  وی ڈبلیو ایکمان(v. w. EKman)کے ذریعہ ھوئی۔
سبب اعجاز:
قدیم زمانے میں سمندروں کے متعلق انسان عجیب طرح کے خرافات کا عقیدہ رکھتا تھا اور سمندروں کی گھرائیوں کےحالات کے بارے میں کوئی تحقیق اور علمی معلومات ملاحوں کے سامنے نھیں تھی اسی طرح سمندری موجوں سے متعلق معلومات بھی اس زمانے میں بہت محدود تھیں ٹھرے ھوۓ سمندروں کےمتعلق جن کو کشتیاں پار نھیں کر سکتی تھیں اور اس کے علاوہ بہت ساری باتیں بھی معروف تھیں قدیم روم کا عقیدہ یہ تھا کہ ان کے اندر چپکنے والی مچھلیاں جو کشتیوں کی حرکت کو روکنے میں جادوئی اثر رکھتی ھیں اور باوجودیکہ قدماء کو اس بات کا علم تھا ھوائیں موجوں اور ظاھری امواج پر اثر انداز ھوتی ھیں لیکن گھرے سمندروں میں اندرونی امواج کو جاننا دشوار تھا اور سمندری علوم کی تاریخ سے اس بات کا پتہ لگتا ھے کہ سمندری علوم اور اس کی گھرائیوں سے متعلق تحقیقات بیسویں صدی کے ابتدا میں اسی وقت شروع ھوئی جب ان باریک تحقیقات کیلئے مناسب آلات کی ایجاد ھوئی اور جدید سمندری علوم نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سمندروں کی گھرائیوں کے متعلق حیرت ناک اسرار ورموز کا انکشاف کیا جس میں سے دو معروف یہ ھیں گھرے سمندر کی تاریکیاں اور اندرونی امواج کی حرکت اور قرآن کریم نے ان دونوں کی نسبت اشارہ کر دیا ھے چناچہ بحر لجّی کہکر کے قرآن کریم نے گھرے سمندروں میں پائی جانے والی تاریکیوں کی جانب اشارہ کر دیا ھے اور سمندروں کی تاریکی تہہ در تہہ ھے مفسرین کہتے ھیں کہ ان تاریکیوں سے مراد بادل کی تاریکی موج کی تاریکی اور سمندر کی تاریکی ھے چناچہ ان تاریکیوں میں ٹھرنے والا کچھ بھی نھیں دیکھ سکتا ان سمندروں کو ڈھکنے والے گھنےبادل سورج کی روشنی کے ایک بڑے جصے کو روک لیتے ھیں اور سمندر اپنی اوپر موجوں کے ذریعہ روشنی کے باقی حصہ کو اپنے اندر لے لیتے ھیں پھر پانی سورج کے ھیولے کے رنگوں کو یکے بعد دیگرے اپنے اندر جذب کر لیتے ھیں یہاں تک کہ ھیولے کے تمام رنگ چھپ جاتے ھیں پھر اندرونی موجوں کا جب نمبر آتا ھے جو گھرائیوں کو بھیانک تاریکی میں بدل دیتی ھیں یہاں تک کہ انسان اگر اپنا ہاتھ نکالے تو اس کو نھیں دیکھ سکتا اور - ظلمات بعضہا فوق بعض – کی تعبیر سمندروں کی اس حقیقت کو بڑی باریک بینی سے واضح کرتی ھے جیسا کہ ان گھرائیوں مین پائی جانے والی مچھلیوں کی آنکھیں نھیں ھوتیں بلکہ ان کے اندر روشن اعضاء ھوتے ھیں جن کو اللہ تعالی نے ان کے جسم میں راستہ کو روشن کرنے کیلئے پیدا کیا ھے اور اللہ رب العزت کے اس قول کا یھی مفھوم ھے
"ومن لم يجعل الله له نورا فما له من نور"
(جسے اللہ تعالی ھی نور نہ دےاس کے پاس کوئی روشنی نھین ھوتی)
اور اللہ تعالی کے اس قول میں اندرونی موجوں کی حرکت کی طرف بھی اشارہ ھے۔   
"فى بحر لجى يغشاه موج من فوقه موج"
(جو نہایت گھرے سمندر کی تہہ میں ھوں جسے اوپر تلے کی موجوں نے ڈھانپ رکھا ھو)
مطلب یہ ھےکہ موج گھرے سمندر کو ڈھانکے ھوۓ ھے اور سمندر کے ماھرین نے اپنی اس تحقیق میں اس کو واضح کیا ھے کہ خوب گھرا سمندر سے مختلف ھوتا ھے اس کے اندر گھرے سمندر اور ظاھر سمندر کے ظاھری سمندر سے  درمیان جدائی کی جگھوں پر ایسی موجیں ھوتی ھیں جو اوپری موجوں سے مختلف ھوتی ھیں جس کا علم صرف سو سال پہلے ھوا ھے یہ حیرت انگیز سائنسی حقائق وہ ھیں جنکا قرآن کریم نے چودہ صدی پہلے بیان کردیا ھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کے علاوہ کس نے اس کی خبر دی؟ ۔