اسلامی محبت

اسلامی محبت

اسلامی محبت
الرومانسية في الإسلام باللغة الأردية

تالیف
عبد الرحمن بن عبد الکریم الشيحة

مترجم
المركز الأوروبي للدراسات الإسلامية
و نظام الدین یوسف
نظرثانی 
عبدالحمید گوندل
 
www.islamland.com 

 


اسلامی محبت
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.
اگر اسلام میں بیوی کے ساتھ محبت کی بات کی جائے تو لامحالہ ہماری گفتگو کامرکز رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہوگی، اس لیے کہ آپ ﷺ تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تاکہ انھیں اللہ تعالی کی شریعت سکھلائیں اور انسان ان کے اخلاق کی پیروی کریں، کیوں کہ آپ ﷺ مسلمانوں کے لیے ایسا نمونہ ہیں کہ جس اتباع اور اقتداء اللہ تعالی کے اس فرمان کے مطابق واجب ہے:  لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً ۔ ( الأحزاب:21)
ترجمہ: یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں بہترین نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہےاور بکثرت اللہ تعالی کی یاد کرتا ہے۔
آپ ﷺ اللہ تعالی کے پیغمبر تھے ، اس لیے آپ کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ، عام ہو یا خاص مسلمانوں سے مخفی نہیں تھا بلکہ انکے درمیان مشہور و معروف تھا اور نسل در نسل منتقل ہوا ، اس لیے کہ آپ ﷺ کے افعال ، اقوال اور اعمال شریعت ہیں، کہ جن سے ایک مسلمان اپنے دین کو پہچانتا ہے ،جو اسے اللہ تعالی کی محبت ، اسکی رضا اور اسکی جنت کی طرف لے جانے والا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (آل عمران : 31) ۔
ترجمہ: کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو،خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گااور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
اسلام کی بنیاد محبت ہے ، جو آپ کو آپ کے محبوب کا مطیع بنا دیتی ہے ۔ آپ اس کے حکم کو بجا لاتے ہیں ، اسکے منع کردہ کام سے رک جاتے ہیں اور بقدر استطاعت اس کے پسندیدہ کاموں کو بجا لا کر اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سب سے عظیم محبت اللہ تعالی کی محبت ہے کہ جس کے ذریعے سے ایک مسلمان کا رد عمل صحیح رخ پاتا ہے۔ اور اپنی انانیت سے آزاد ہوکر اپنے احساسات میں بلندی حاصل کرتا ہے۔ اور محبت اور رحمت کے جذبے کو اللہ تعالی کی مخلوق کے لیے بغیر کسی جزاء کے خرچ کرتا ہے۔ اور وہ انا کی محبت جو محض ذاتی منفعت اور مصلحت پر مبنی ہوتی ہے اس سے آزاد ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی محبت ہے، ایسی خالص محبت جو نفس ، مال اور اولاد کی محبت پر مقدم ہو تو یہ انسان کے ہدایت یافتہ ہونے اور اس کے صحیح دین پر دلالت کرتی ہے، وہ دین کہ جس کی اتباع جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ اس محبت کو وہ مقام بھی دے جو مقام اسے اللہ تعالی نے دیا ہے اور وہ مقام ہے عبودیت کا اور اللہ تعالی کے لیے عاجزی اور انکساری کا۔ 
اللہ تعالی کا فرمان ہے: قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ  ( التوبة24)
ترجمہ: آپ کہ دیجئےکہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہواگر یہ تمہیں اللہ سے اوراس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالی اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اور جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام سختی اور شدت پسندی کا دین ہے تو ایسا شخص غلطی پر ہے۔
اس لیے کہ اسلام ایسا مکمل دین ہے کہ جس نے مسلمان کی زندگی کا کوئی گوشہ ، خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ، مادی ہو یا روحانی فراموش نہیں کیا ِ ، بلکہ اسے صحیح رخ دیکر اس کو مناسب مقام دیا ہے۔
اسلام صرف عقائد، احکام ، اور اخلاق کا ہی دین نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی مفہوم کے مطابق محبت،نرمی ، شفقت ، رحمت، احساس ، بلند اخلاق ،اور اس کائنات میں انسانوں کے ساتھ بسنے والی ہر مخلوق کے ساتھ اعلی سلوک اختیار کرنے کا بھی دین ہے۔
اور یہ محبت مرد اور عورت کی زندگی کے محض ایک پہلو ،قولی اور فعلی تعامل پر ہی محدود نہیں ہے۔
اور یہ محبت نہیں کہ آپ جس کے ساتھ محبت کرتے ہوں اس کے ساتھ تو اچھے اخلاق سے پیش آئیں اور باقی لوگوں کے ساتھ بد خلقی کا مظاہرہ کریں۔
اس لیے ہم آئندہ سطور میں ایک مسلمان کا اخلاق اوراس کی بعض صفات کا تذکرہ کریں گے تاکہ اسلام میں محبت کا صحیح مفہوم واضح ہو جائے۔

مسلمان کا اخلاق
•    مسلمان وہ ہوتا ہے جسے لوگ اپنی جانوں ، مالوں اور اپنی عزتوں پر امین بنائیں، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:" کیا میں تمہیں مومن کے بارے میں نہ بتلاوں ؟(مومن ) و ہ ہوتا ہے جسے لوگ اپنے مالوں اور اپنےجانوں پر امین بنائیں، اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے لوگ محفوظ ہوں"۔ (صحيح رواه أحمد وابن حبان (الصحيحة) (549). 

•    صرف یہ ہی نہیں بلکہ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جو خیر کو پسند کرتا ہے، اسے عام کرتا ہے اور اسے لوگوں تک بغیر کسی بدلے کے پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:"تم ( اللہ تعالی کے) حرام کردہ کاموں سے رک جاؤ، تم تمام لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار بن جاؤ گے، اور جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے تقسیم کیا ہے ، تم اس پر راضی ہوجاؤ ، تم تمام لوگوں سے بڑھ کر غنی ہوجاؤ گے، اور اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرو، تم مؤمن بن جاؤ گے،اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، تم مسلمان بن جاؤ گے۔ (رواه أحمد والترمذي وحسنه الألباني).
•    مسلمان اپنے نفس، اپنے معاشرے ، یہاں تک کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی عدل کرنے والا ہوتا ہے، کسی ایک کے گناہ سے دوسرے کو پکڑنے والا نہیں ہوتا۔
نبی ﷺجب کبھی مسلمانوں کا لشکر مشرکین کی طرف بھیجتے ، جنہوں نے آپ کو اذیتیں پہنچائیں، آپ کو آپ کے شہر سے نکالا ،آپ کے صحابہ کو قتل کیا ، آپ کے دین کے پیروکاروں کو عذاب میں مبتلا کیا تو اس لشکر کے امیر کو علیحدہ سے، تقوی اور اس کے ساتھ جو مسلمان ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کرتے اور فرماتے:" اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا، جس نے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا ، تم لوگ اس کے ساتھ قتال کرنا،اور حد سے تجاوز نہ کرنا، اور خیانت نہ کرنا، اور مثلہ نہ کرنا اور بچوں کو قتل مت کرنا۔ (رواه مسلم )
•    مسلمان اپنے ارد گرد کے ماحول کی حفاظت کرتا ہے اور جو اس میں جاندار ہیں انہیں تکلیف نہیں دیتا، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کا گذر ایک گدھے کے پا س سے ہوا جسے چہرے پر داغ دیا گیا تھا ، تو آپﷺ نے فرمایا:" کیا تمہیں یہ بات نہیں پہنچی کی کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے ، جس نے جانور کو اس کے چہرے پر داغ دیا، یا اس کے چہرے پر اسے مارا؟" ۔
(رواه أبو داود وصححه الألباني)

آپﷺ حیوانوں کے ساتھ بھی نرمی اور رحمت کا معاملہ فرماتے تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "رسول اللہ ﷺ بلی کے لیے برتن کو جھکا دیتے پس وہ اس سے (آرام سے) پیتی"۔ (صحيح) رواه الطيالسي وهو في صحيح الجامع 4958)
آپ ﷺ پرندوں کا بھی خیال رکھتے تھے ، نہ تو انہیں خوف زدہ کرتے اور نہ ہی بلا وجہ ان کا شکار کرتے۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپ اپنی حاجت کے لیے گئے، پھر ہم نے چڑیا دیکھی اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی بھی تھے،چناچہ ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لیے، تو چڑیا آئی اور اپنے پروں کو پھڑپھڑانے لگی، جب نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا:" اس کو اس کے بچوں کو لیکر کس نے پریشان کیا ہے؟ اس کے بچے اس کی طرف واپس کر دو۔
اورآپ ﷺ چونٹیوں کی بستی دیکھی جسے ہم نے جلا دیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:" آگ کے ساتھ آگ کے رب کے علاوہ کوئی عذاب دے یہ مناسب نہیں۔ (رواه أبو داود وصححه الألباني) 
•    مسلمان ، پکنک پؤانٹ اور لوگوں کی عام جگہوں کی حفاظت کرتا ہے، اس میں کچرہ وغیرہ پھینک کر ،اسکے استفادے سے لوگوں کو محروم نہیں کرتا، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:"لعنت کا سبب بننے والی دو کاموں سے بچو، جو لوگوں کے راستے میں ، یا ان کی سایہ دار جگہوں میں قضائے حاجت کرتا ہے، " (رواه أبو داود وصححه الألباني)۔
•    بلکہ ایک مسلمان تو عوام الناس کو تکلیف دینے والی تمام اشیاء کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیئے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:" (آدمی کا راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹانا صدقہ ہے" (رواه أبو داود وصححه الألباني) ۔
•    مسلمان اپنے ماحول اور انسانوں کے لیئے فائدہ مند چیزوں کی حفاظت کرتا ہے جیسے درخت وغیرہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:" پھل دار درخت کو مت کاٹو، اور ایسے جانور کو ذبح مت کرو جس کی تمہیں ضرورت نہ ہو، اور مومن کو تکلیف دینے سے بچو"۔
(أخرجه أبو داود في "المراسيل" , و سعيد بن منصور في "سننه")۔
مسلمان اپنے ماحول کی حفاظت کے لیے درخت اور سبزہ اگانے کی سوچ عام کرتا ہے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کی کونپل ہو ، پس اگر اس کے لیے ممکن ہو کہ اس (قیامت) کے قائم ہونے سے پہلے وہ اسے اگا سکتا ہو تو اسے اگا لے۔ 
(رواه البخاري)
•    مسلمان پانی کی حفاظت کرتا ہے ، اسے آلودہ اور گدلا نہیں کرتا ، جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے"۔ (رواه مسلم )
بلکہ مسلمان تو پانی کی حفاظت کرکے ہر ضرورت مند کے لیے اسے خرچ کرتا ہے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں ، گھانس میں ، پانی میں اور آگ میں"۔
(صحيح رواه أحمد ، وأبو داود) 
 مسلمان پانی کے مصادر کی حفاظت کرتا ہے، اسکے ذرائع میں اضافہ کرتا ہے،تاکہ انسان ،حیوان اور جمادات اس سے یکساں مستفید ہوں،اس میں اسراف نہیں کرتا اور نہ ہی بلامنفعت اسے بہاتا ہے۔
ایک مرتبہ سعد وضوء کر رہے تھے، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گذرے تو فرمایا:یہ اسراف کیسا؟ (سعد نے) کہا: کیا وضوء میں (بھی) اسراف ہوتا ہے؟ فرمایا:" ہاں اگرچہ تم بہنے والی نہر پر (بیٹھے وضوء کر رہے ) ہو۔ (رواہ ابن ماجه وحسنه الالباني) 
ہم مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے جو انتہائی بلند اخلاق اور اپنے ارد گرد بسنے والی مخلوق کے ساتھ انتہائی اعلی سلوک کرنے والے تھے، اس لیے آپ ﷺ کی اتباع ایک مسلمان کا عقیدہ ہوتی ہے ، جس پر وہ ایمان رکھتا ہے ، اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:   قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ  (آل عمران : 31)
 ترجمہ: کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو،خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گااور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

یہ ہی اسلام ہے
اللہ تعالی کے احکامات کو بجا لاکر اسکی مخلوق کے ساتھ محبت کرنا ، یہ ہی اسلام ہے۔
جس طرح انسانی جسم کھانے اور پینے سے زندہ رہتا ہے ، اسی طرح اس کی روح دین کے ذریعے زندہ رہتی ہے، وہ دین جو اسے عالم فضیلت میں رفعت عطا کرتا ہے، اور حیوانیت اور شہوانیت سے اسے دور کرکے اسکے خیالات اور احساسات کو مہذب کرتا ہے۔
اس کتابچہ میں ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں محبت کے صرف ایک پہلو کی طرف رہنمائی کریں گے ، اور وہ ہے آپ ﷺ کی عورتوں کے ساتھ محبت۔
بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت تمام عالم کے لیے بالعموم اور عورتوں کے لیے بالخصوص روشنی کی ایک خوبصورت کرن ثابت ہوئی۔
آپ ﷺ نے عورت کے مقام کو رفعت بخشی، اس کا احترام واجب قرار دیا اور اس سے ظلم کو ختم کیا۔
اسلام سے قبل عورتیں ، ایک محدود زندگی گذارتی تھیں، جس کی منظر کشی خلیفہ ثانی امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں کی ہے ، فرماتے ہیں: " اللہ کی قسم ہم دور جاہلیت میں عورتوں کو کسی شمار میں نہیں لاتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نےان کے شان میں جو نازل کرنا تھا نازل کیا، اور جو ان کے لیے تقسیم کرنا تھا ، تقسیم کیا" ۔(متفق عليه)
جب اسلام آیا تو اس نے عورتوں کے لیے واضح ہدایات جاری کیں ، اور آدمی میں خیر اور کامل حسنِ اخلاق کی نشانی عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کو قرار دیا۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:"تم میں سے بہتر وہ ہے جو عورتوں کے لیے بہتر ہے"۔ (رواه الحاكم وصححه الألباني)
اسلام کے سائے میں عورت کو جو عالی مقام اور بلند مرتبہ ملا ، وہ مرد، یا عورت کو کسی اور معاشرے میں نہیں مل سکا ۔
آپ ﷺ عورت سے بحیثیت اس کے انسان ہونے کے، اس سے محبت فرمایا کرتے تھے آپﷺ کا فرمان ہے: "مجھے تمہاری دنیا میں سے عورتیں اور خوشبو پسند ہیں اور میرے آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے" ۔ (صحيح أحمد والنسائي والحاكم والبيهقي وصححه الألباني في المشكاة 5261)
ایسی محبت جس میں نرمی اور شفقت ہو، آپﷺ کا فرمان ہے:" عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی وصیت کرو"۔ ( رواه مسلم )
ایسی محبت جو اس کے حقوق کی حفاظت کرے، اس کے ساتھ اعلی سلوک اور اس کے احترام و اکرام اور نرمی کو لازمی قرار دے ،جو اسکی اہانت نہ ہونے دے۔
آپﷺ کا فرمان ہے :"مومنوں میں سے سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سب سے ذیادہ بااخلاق ہے، اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو عورتوں کے لیے بہتر ہے"۔
 (رواه الترمذي ، وَقالَ : (حديث حسن صحيح) وصححه الألباني) .
آپ ﷺ نے عورت کو وہ مقام بخشا جس سے وہ اسلام سے پہلے محروم تھی، شریعت کے استثناء کردہ معاملات جیسے وراثت اور شہادت کے علاوہ اسے ہر چیز میں مرد کے برابر قرار دیا ،اور اسے مرد کا نصف اور اس کی تکمیل قرار دیا ، آپ ﷺ کا فرمان ہے:" عورتیں مردوں کی مثل ہیں" ۔ (صحيح رواه أحمد وابوداود والترمذي وصححه الألباني)
بلکہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کو اس دنیا میں اللہ تعالی کے تحفوں میں سے ایک بہترین تحفہ قرار دیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:" دنیا فائدہ حاصل کرنے کی جگہ اور اور دنیا کا سب بہترین فائدہ نیک عورت ہے" ۔(رواه مسلم)
اور عورت کو اس دنیا میں سعادت کی چابی قرار دیا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے:" چار باتیں ( انسان کی) سعادت میں سے ہیں،نیک عورت، کشادہ گھر، نیک پڑوسی، آرام دہ سواری" ۔ 
(رواه ابن حبان، والحاكم وصححه الألباني في" الصحيحة" (282).
آپ ﷺ نے نیک عورت کو جو اپنے خاوند کی صحیح رہنمائی کرتی ہو ، اسے مرد کا نصف اسلام قرار دیا ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے:جب بندہ نکاح کرتا ہے، تو اپنے نصف ایمان کو مکمل کر لیتا ہے، اسے چاہیئے کہ باقی نصف کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرے"۔ ( البيهقي صَحِيح الْجَامِع: 614)
جس طرح رسول اللہﷺ عورت سے بحیثیت اس کے انسان ہونے کے محبت کیا کرتے تھے اسی طرح بطور ماں بھی عورت سے محبت کیا کرتے تھے، چناچہ اسکا احترام کرنا، اسکا خیال کرنا ، اسکے ساتھ نیکی کرنا ان سب کو واجب قرار دیا، اور اسے جنت میں داخلہ کے اسباب میں سے قرار دیا۔
جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے، اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور میں آپ کے پاس مشورہ کرنے آیا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا:" کیا تمہاری ماں (زندہ) ہے؟ کہا:" جی ہاں" فرمایا:" پس اسے ( اس کی خدمت کو) لازم پکڑو پس بیشک جنت اس کے پاؤں تلے ہے۔ (رواه النسائي وصححه الألباني)
اور عورت کو مرد پر ، نیکی اور صلہ رحمی میں مقدم قرار دیا،رسول اللہ ﷺ کا یہی حکم تھا اس شخص کے لیے جس نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ :" اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا:" تمہاری ماں " اس نے کہا:پھر کون؟ فرمایا:" تمہاری ماں" اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا :" تمہاری ماں" اس نے کہا : پھر کون؟ فرمایا:" تمہارا باپ"۔(رواه البخاري)
جس طرح رسول اللہ ﷺ عورت سے بحیثیت ماں محبت کرتے تھے اسی طرح بحیثیت بیوی، اس سے محبت کرتے تھے، آپ ﷺ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا: (جب انہوں نے سوال کیا) لوگوں میں سے سب سے بڑھ کر آپ کو محبوب کون ہے؟ فرمایا: " عائشہ" میں نے کہا: مردوں میں سے؟ فرمایا:" اس کا والد " میں نے کہا: پھر کون؟ فرمایا:" عمر" پھر کچھ لوگوں کے نام گنے ، پس میں اس ڈر سے خاموش ہوگیا کہ کہیں مجھے ان کے آخر میں نہ کردیں" ۔(رواه البخاري)
جس طرح رسول اللہ ﷺ عورت سے بحیثیت بیوی محبت کرتے تھے اسی طرح بحیثیت بیٹی اس سے محبت کرتے تھے،عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے عادات چال چلن،خصلتوں اور اٹھنے بیٹھنے میں فاطمہ بنت محمد ﷺسےآپ سے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا ، فرماتی ہیں:جب وہ نبی ﷺ کے پاس آتیں ، آپ ﷺ ان کے لیےکھڑے ہوجاتے، انہیں بوسہ دیتے، اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لے جاتے، تو وہ آپ کے لیئے کھڑی ہوجاتیں، آپ کا بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ بٹھاتیں ".(الترمذي وصححه الألباني(
رسول اللہ ﷺ کا یہ سلوک تمام لوگوں کے ساتھ بالعموم اور عورتوں کے ساتھ بالخصوص ہوا کرتا تھا، جسکی بنیاد میں اللہ تعالی کے وہ احکامات تھے جس میں اس نے عورتوں کے ساتھ نرمی ، شفقت اور احترام کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ... وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً  النساء 19
ترجمہ: اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود وباش رکھو،گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالی اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔ 
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:ان سے اچھی باتیں کرو، اپنے کام اور اپنی ہیئت بقدرِ استطاعت اچھی رکھو جس طرح تم ان سے یہ سب پسند کرتے ہو لہذا تم بھی ان کے لیے یہ ہی کرو، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ البقرة :228
ترجمہ: اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اس منہج اور ربانی ہدایات پر عمل پیرا ہونے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بلاشبہ میں اپنی بیوی کے لیے زینت اختیار کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لیے زینت اختیار کرتی ہے، اور مجھے پسند نہیں کہ میں تو اس سے اپنا پورا حق وصول کروں جو میرا اس پر ہے، اور اس کا مجھ پر حق واجب ہوجائے، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ البقرة :228
ترجمہ: اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔
(ذكره القرطبي في " الجامع لأحكام القرآن ")

ایک مسلمان والد کی اپنے بیٹے کو سہاگ رات کے لیئے نصیحتیں
پیارو محبت،حسن تعامل،نرمی اور برداشت، ایک نیک مسلمان کا منہج ہوتے ہیں جس پر وہ اللہ تعالی کے حکم کو بجا لاتے ہوئے عمل پیرا ہوتا ہے،اور اس کے نفاذ کی ترویج کرتا ہے،۔
اہل السنہ والجماعہ کے ایک امام اپنے بیٹے کو سہاگ رات اوراس کی بیوی کے اس پر حقوق کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" اے میرے بیٹے ! تم اپنے گھر میں اس وقت تک سعادت حصل نہیں کرسکتے ، جب تک تم یہ دس خصلتیں اپنے اندر پیدا نہیں کرلیتے، لہذا انہیں اچھی طرح یاد رکھو، اور ان پر عمل پیرا ہو:
2-1: عورتیں ہنسی مذاق اور پیارومحبت کے اظہار کو پسند کرتی ہیں، لہذا اس معاملے میں تم اپنی بیوی پر بخل مت کرنا، کیوں کہ اگر تم نے ایسا کیا تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے اور اسکی محبت کے درمیان دیوار کھڑی کردی۔
3۔عورتیں سخت مزاج مردوں کو ناپسند کرتی ہیں ، جبکہ نرم مزاج مردوں کو وہ پسند کرتی ہیں ، لہذا ہر صفت کو اپنی جگہ پر رکھنا،یہ محبت بڑھانے اور سکون حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔
4۔عورتیں اپنے شوہر سے وہی چاہتی کرتی ہیں جو شوہر ان سے چاہتا ہے، جیسے اچھی گفتگو، حسنِ مظہر، صاف ستھرے کپڑے اور عمدہ خوشبو، لہذا ہر وقت اپنے آپ کو اسی طرح رکھنا۔
5۔گھر عورت کی مملکت ہوتا ہے ، جس میں وہ سمجھتی ہے کہ اپنے تخت پر براجمان، اور اس کی حاکم ہے،لہذا کبھی بھی اس کی مملکت کو ڈھانے کی کوشش مت کرنا، اور اسکے تخت سے اسے معزول کرنے کی کوشش مت کرنا،کیوں کہ اگر تم نے ایسا کیا تو سمجھ لو کہ تم نے اس کی مملکت چھین لی، اور انسان سب سے زیادہ نفرت اسی سے کرتا ہے جو اس کی مملکت چھین لے ، چاہے بظاہر اسکا رویہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔
6۔عورت چاہتی ہے کہ اپنے شوہر کو تو جیت لے مگر اپنے گھر والوں کو نہ گنوائے، لہذا تم اپنے آپ کو اس کے گھر والوں کے مقابلے میں ایک ہی ترازو میں مت رکھنا، کہ وہ یا تو تمہیں چن لے یا پھر اپنے گھر والوں کو ، یاد رکھو کہ اگر اس نے ایسے حالات میں تمہیں چن بھی لیا تو وہ ہمیشہ پریشان رہے گی، جس کے اثرات تمہاری روزمرہ کی زندگی پر پڑیں گے۔ 
7۔عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور یہی اس کی خوبصورتی اور کشش کا راز ہے کیوں کہ ابرو کا حسن اسکے ٹیڑھ پن میں ہے، لہذا اگر وہ غلطی کرے تو اس پر اس طرح کی تنقید مت کرنا کہ اس میں کوئی نرمی نہ ہو، تاکہ تم اس کا ٹیڑھ پن سیدھا کرسکو،یہاں تک کہ تم اس کو توڑ بیٹھو ، جوکہ طلاق ہے، اور نہ ہی ا سے مکمل چھوڑنا یہاں تک کہ اسکا ٹیڑھ پن مزید بڑھ جائے اور اپنے اوپر بند ہوجائے، اور تمہارے لیے کبھی نرم نہ ہو اور نہ ہی وہ تمہاری کوئی بات سنے، بلکہ ہمیشہ میانہ روی اختیار کرو۔
8-عورتوں کی فطرت ہے کہ وہ اپنے خاوند کی ناشکری اور نیکی کا انکار کرنے والی ہوتی ہیں یہاں تک کہ اگر تم انکے ساتھ زندگی بھر نیکی کرتے رہے اور ایک مرتبہ برائی کی تو وہ کہتی ہیں کہ "میں نےآج تک تم میں کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں ہے" پس تم اس کے اس خلق کی وجہ سے اس سے نفرت مت کرنا اور نہ ہی اسے ناپسند کرنا، کیوں کہ ہو سکتا ہے تم اس کی کسی عادت کو نہ پسند کرتے ہو ، تو کسی عادت کو پسند بھی کرتے ہو۔ 
9۔عورت جسمانی کمزوری اور نفسیاتی تھکاوٹ جیسے حالات سےگزرتی ہے، یہاں تک اللہ تعالی نے بھی اس سے ان حالات میں کچھ فرائض کے مجموعے کو ساقط کردیا ہے، جیسے نماز کو ان ایام میں کلی طور پر اس سےساقط کردیا ہے، اور روزوں کو مؤخر کردیا ہے یہاں تک کہ اس کی صحت لوٹ آئے،اور اس کا مزاج معتدل ہوجائے،پس ان ایام میں تم اس کے ساتھ ربانی بن جاؤ ، جس طرح اللہ تعالی نے اس سے اپنے کچھ فرائض ساقط کردیئے ہیں تم بھی اپنے اوامر ومطالبات کم کردو۔
10۔ عورت تمہارے پاس اسیر ہے ، لہذا اس پر رحم کرنا ، اس کی کمزوریوں سے درگذر کرنا، ایسا کرنے سے وہ تمہاری بہترین متاع، اور بہترین شریک ثابت ہوگی۔
مسلمان والدہ کی اپنی بیٹی کو سہاگ رات کے لیئے نصیحتیں
جس طرح مردوں کے لیے دین اسلام میں محبت کا حصہ ہے ، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی دین اسلام میں محبت کا حصہ ہے، جیسے حسنِ معاشرت اور اپنے خاوند کے ساتھ اعلی سلوک وغیرہ۔
کندہ کے بادشاہ عمرو بن حجر نے ایاس بنت عوف بن علم الشیبانی کی طرف ان کی بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا ، جب اس کی سہاگ رات کا وقت آیا تو ماں اپنی بیٹی کو علیحدہ لے گئی اور اسے خوشگوار ازدواجی زندگی اور اس پر خاوند کے واجبات کے حوالے سے نصیحتیں کرتے ہوئے کہا کہ" اے میری بیٹی اگر ادب کا لحاظ کرتے ہوئے نصیحت کو ترک کیا جاتا تو میں ایسا کرتی ، لیکن نصیحت تو غافل کے لیے یاد دہانی ، اور عقلمند کے لیے مدد کا کام دیتی ہے ، اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے بغیر رہ سکتی ، تو اسکے والدین کو پرواہ نہ ہوتی ، اور تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھے نہ ہوتی، لیکن عورتیں مردوں کے لیے اور مرد عورتوں کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں۔ 
اے میری بیٹی ! جس ماحول میں تم پیدا ہوئی، اور جس آشیانہ میں تم پروان چڑہی اسے چھوڑ کر ایسی جگہ جا رہی ہوجس سے تم نا آشنا ہو، اور ایسے ہم نشییں کے پا س جا رہی ہو جس سے تم نامانوس ہووہ تمہارا محافظ اور نگران ہوگا ، اس لیے تم اس کے لیے باندی بن کر رہنا ، وہ تمہارا حاضر غلام بن جائے گا ، اور میری یہ دس نصیحتیں یاد رکھنا ، وہ تمہارے لیے ذخیرہ ثابت ہوں گی ۔
2-1 : اس کے لیے قناعت کے ساتھ عاجزی اختیار کرنا ، اور اس کی بات اچھی طرح سننا اور اس کی فرمانبرداری کرنا۔
4-3: اس کے دیکھنے اور سونگھنے کی جگہوں کی نگرانی کرنا اس طرح کہ اس کی نظر تمہاری کسی بد ہیئت پر نہ پڑے اور وہ ہمیشہ تم سے خوشبو ہی سونگھے۔
6-5: اسکی نیند اور کھانے کی اچھی طرح نگرانی کرنا ، اس لیے کہ بھوک اور نیند میں کمی غصہ بھڑکانے کا سبب بنتے ہیں۔
8-7: اس کے مال کی حفاظت اور اس کے اہل خانہ کا خیال کرنا، مال کی حفاظت کا راز اچھی پلاننگ اور اہل خانہ کی حفاظت کا راز حسن تدبیر میں ہے۔
10-9: اس کے کسی حکم کی نافرمانی مت کرنا اور نہ ہی اس کے کسی راز کو افشاء کرنا ، اس لیے کہ اگر تم اس کی نافرمانی کروگی تو اس کے سینے کو غصے سے بھر دو گی اور اگر تم اس کے راز کو افشاء کردو گی تو اس کے دھوکے سے نہیں بچ سکوگی۔
اگر وہ غمگیں ہو تو اس کے سامنے خوش مت ہونا اسی طرح اگر وہ خوش ہو تو اس کے سامنے غمگین مت ہونا ۔
ان تمام باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ عورت کو اسلام کے سائے میں کس قدر عالی مقام اور بلند مرتبہ ملا ہے، اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں اسلام نے عورت پر ظلم کیا ہے، حالانکہ اسلام عورت پر کس طرح ظلم کر سکتا ہے کیوں کہ وہ اسلام ہی تو ہے جس نے عورت کے ساتھ محبت کرنے کا حکم دیا ، اور اپنی بہت ساری توجیہات میں عورت کا خیال کرنے کا حکم دیا ، ہمارے قارئین پر اس کتابچہ کے ذریعے واضح ہوگا کہ رحمت دو عالم محمد بن عبداللہ ﷺ اپنے گھر والوں کے ساتھ کس قدر محبت کرتے تھے، تبلیغ دین اور امت کی قیادت کی وجہ سے اپنے گھر والوں کا خیال کرنا نہیں بھولتے تھے۔
اور اس اہتمام کو بطور خلاصہ اپنی امت کو نصیحت کرتے ہوئے چند جملوں میں پرو دیا جو اپنے اندر بہت زیادہ معنی لیے ہوئے ہے، فرمایا: " تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنے اہل خانہ کے لیئے بہترین ہوں اور میں تم سب سے زیادہ اپنے اہل خانہ بہترین ہوں۔( رواه البخاري )
مردوں میں خیر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ کس قدر خیر اور حسن معاشرت سے پیش آتے ہیں ، وہ خیر جو محبت اور رحمت کا سبب ہوتی ہے۔
آپ ﷺ خیر البشر تھے ،محبت ، رحمت، عوام الناس کے ساتھ بالعموم اور اہل خانہ کے ساتھ بالخصوص حسن تعامل کی وجہ سے آپ کمال خلق کے انتہائی اعلی مقام پر فائز تھے۔
آپ ﷺ کی بیویوں نے جب آپ سے آپ کی استطاعت سے بڑھ کر نان و نفقہ طلب کیا ، اور آیت تخییر نازل ہوئی ، تو امہات المؤمنین نے آپ ﷺ کو چنا ، اور آپ ﷺ کے اختیار کردہ بقدرِ کفاف رزق پر راضی ہوگئیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں کو اختیار دینے کا حکم دیا گیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے آغاز کیا ،چناچہ فرمایا: "میں تجھ پر ایک معاملہ پیش کرنے والا ہوں پس تم جلدی مت کرنا یہاں تک کہ تم اپنے والدین سے مشورہ کر لو، فرماتی ہیں کہ بلا شبہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی کا حکم نہیں دیں گے ، فرماتی ہیں : پھر آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی نے فرمایا ہے: 
 يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا (28) وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا (29)
ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہوتو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلادوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کردوں ،اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں۔[ الاحزاب 28-29 ]
پس میں نے کہا :" اس میں سے کس( معاملے ) میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟بلاشبہ میری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا دن ہیں "فرماتی ہیں پھر رسول اللہ ﷺ کی بیویوں نے (بھی ) بھی وہی کیا جو میں نے کیا۔( رواہ مسلم)
یہ واقعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ امہات المؤمنین آپ ﷺ سے کس قدر محبت کیا کرتی تھیں ، آپﷺ سے راضی رہتی تھیں،آپ ﷺکے ساتھ ہی رہنا چاہتی تھیں ، آپ ﷺ کے عظیم اخلاق ، اعلی سلوک، محبت و شفقت نے ان سب کو جمع کیا ہوا تھا، اور انہیں یقین تھا، یہ سب انہیں کسی اور کے پاس نہیں ملے گا ۔
آپﷺ کی 9 بیویاں تھیں جو آپ ﷺ کے زیر سایہ پر مسرت اور پرسکون زندگی گذارتی تھیں۔
اٹلی کی مصنفہ L. Veccia Vaglieri اپنی کتاب "اسلام کا دفاع" میں " آپ ﷺ (نعوذباللہ) شہوت پرست آدمی تھے " اس شبہ کا رد کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
"محمد ﷺ جوانی کے تمام سال کہ جس میں جنسی خواہش انتہائی قوی ہوتی ہے، اور باوجود اس کے کہ آپ ﷺ عرب جیسے ماحول میں رہتے تھے کہ جس کی اجتماعی زندگی میں شادی مفقود ، یا قریب المفقود تھی، اور تعددِ زوجات عام رواج تھا،اور طلاق کا معاملہ انتہائی حد تک سہل تھا، اس کے باوجود آپ ﷺ نے صرف ایک عورت ،خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہی شادی کی، جن کی عمر آپ ﷺ کی عمر سے زیادہ تھی۔
آپ ﷺنے 25 سال تک مخلص اور محب شوہر بن کر ان کے ساتھ زندگی گزاری ، اور کوئی دوسری شادی نہیں کی یہاں تک کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ، اور آپ ﷺ کی عمر 50 سال ہو چکی تھی۔
آپ ﷺ نے جتنی بھی شادیاں کی ، ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی یا اجتماعی محرک ضرور تھا، اس طور پر کہ جن عورتوں سے شادی کی اس کا مقصد تقوی سے متصف عورتوں کی تکریم کرنا تھا، یا پھر بعض قبائل عرب کے ساتھ مصاہرت کا تعلق پیدا کرنا، تاکہ اسلام کو پھیلنے کے لیے نئی راہیں مل سکیں۔
آپ ﷺ نے جن عورتوں سے شادی کی ، عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر، نہ تو وہ کنواری تھیں اور نہ ہی بہت زیادہ خوبصورت تھیں ، کیا اس سب کے باوجود کہا جائے گا کہ " آپ ﷺ (نعوذباللہ) شہوت پرست آدمی تھے " ؟۔
اور ہوسکتا ہے کہ بیٹے کی طلب نئی شادی کا سبب بنی ہو ، اس لیے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہونے والے بیٹے بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے۔
مالی وسائل کی قلت اور بہت بڑے خاندن کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانے کے باوجود آپ ﷺ ان کے درمیان مساوات کرتے ، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے ۔
آپ ﷺ شادی کے ذریعے سابقہ انبیاء علیہم السلاۃ والسلام کی سنت پر عمل کرنا چاہتے تھے، جیسے موسی علیہ السلام ، وغیرہ، اور کسی نے بھی ان کے تعدد زوجات پر اعتراض اس لیئے نہیں کیا کہ ہم انکی روزمرہ کی زندگی سے ناواقف ہیں ، جبکہ ہم آپ ﷺ کی عائلی زندگی سے باخبر ہیں" ۔
تاریخ جن اشخاص سے واقف ہے ان میں رسول اللہ ﷺ سب سے عظیم شخصیت ہیں کہ جن کا اس عالم میں تبدیلی کے لئے بہت بڑا اور فعال اثر تھا،جس کی گواہی ان غیر مسلم مصنفین نے بھی دی جنہوں نے آپ ﷺ کی سیرت میں مہارت حاصل کی اور آپ کے پیغام ، اس کے نشر اور اس کی تاثیر کا گہرائی سے مطالعہ کیااور مثال مشہور ہے کہ " حق تو وہ ہے کہ جس کی گواہی دشمن دیں"۔
چناچہ " مائیکل ہارٹ" (Michael Hart) اپنی کتاب " تاریخ کی سو انتہائی متاثر کن شخصیات" میں لکھتا ہے" ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں محمد ﷺ کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہو اور کچھ معترض بھی ہوں ۔ لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہےجو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔
اور یہی وہ بات ہے جس کا ہم اپنے ارد گرد مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یہ دعوت کس قدر تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے،اور اس کے متبعین کی اپنے دین کے ساتھ پرزور وابستگی ہو رہی ہے ، اور سنت کو عام کرنے کی راہ میں ہر ارزاں اور بیش قیمت چیز کی قربانی دے رہے ہیں ، ا س لیے کہ حق جب دل کی گہرائیوں کو چھو لیتا ہےاور روح میں بس جاتا ہےتو انجام کار ان دونوں کا ہی ہوتاہے۔
بلال حبشی رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو انہیں کوڑے مار کر تکلیف پہنچائی گئی ، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھے جاتے اور انہیں منہ کے بل مکہ کی جھلسا دینے والی پتھریلی زمین پر گھسیٹا جاتا تاکہ وہ دین سے پھر جائیں ، لیکن عذاب کی زیادتی ان کے دین پر ثبات اور استقامت میں اضافہ کرتی اوروہ اپنی زبان سے لازوال جملہ کہتے کہ "احد ،احد" اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے جب وہ اسلام لائے تو ان کی والدہ نے کہا میں اس وقت تک نہ تو کچھ کھاؤں گی اور نہ پیئوں گی جب تک مرنہ جاؤں پھر لوگ تمہیں طعنہ دے کر کہیں گے کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے، انہوں نے کہا : امی جان ایسا نہ کریں میں اپنا دین کسی کے لیے نہیں چھوڑوں گا،فرماتے ہیں کہ ایک دن گزرگیا اور اس نے کچھ نہیں کھایا تو وہ لاغر ہو گئیں پھر ایک دن اور ایک رات مزید گزر گئے اور اس نے کچھ نہیں کھایا تو مزید لاغر ہوگئیں، فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے کہا : اے امی جان واللہ آپ جان لیں کہ آپ کی سو جانیں ہوں اور ایک ایک کر کے نکلیں تو (بھی) میں اپنے دین کو کسی کے لیے ترک نہیں کروں گا، اگر چاہو تو (کھانا ) کھالو اور اگر نہ چاہو تو نہ کھاؤ، پس جب اس نے یہ دیکھا تو (کھانا ) کھایا۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیویوں کے ساتھ تعامل
رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ تفریحی پہلو :
اسلام نے مسلمان کی رہنمائی کی ہے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے اپنےنفس کو مباح تفریح کا حق دے تاکہ وہ کسی اکتاہٹ کے بغیر ،مکمل چستی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے پر گامزن رہ سکے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ تفریح کا پہلو اس کی زندگی کے دیگر پہلووں پر اس طرح غالب نہ آئے کہ ایک مسلمان کی زندگی، بلا فائدہ کھیل کود بن کر جائے ،اور وہ اپنی تخلیق کا مقصد ہی بھلا بیٹھے ۔
حنظلہ بن حذیم الحنفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ملے اور کہا کہ اے حنظلہ تم کیسے ہو ؟ میں نے کہا حنظلہ منافق ہوگیا ،ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےکہا سبحان اللہ ! کیسی بات کر رہے ہو ؟ میں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوتے ہیں آپ ﷺ ہمیں جنت اور جہنم کی نصیحت فرماتے ہیں ، یہاں تک کہ ہم گویا کہ جنت اور جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ 
پھر جب ہم ، رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اٹھ کر اپنی بیویوں ،بچوں اور زمینوں کے معاملات میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت ساری چیزیں بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم اس قسم کا معاملہ تو ہمیں پیش آتا ہے ،پھر میں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے یہاں تک آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! حنظلہ منافق ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" اس کا کیا سبب ہے ؟ " میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم آپ کے پاس حاضر ہوتے ہیں ، آپ ہمیں جنت اور جہنم کی نصیحت کرتے ہیں یہاں تک کہ گویا ہم اپنی آنکھوں سے جنت اور جہنم کو دیکھتے ہیں اور جب ہم آپ کے پاس سے اٹھ کر اپنی بیویوں ، بچوں ، اور زمینوں میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت ساری باتیں بھول جاتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،تم میرے پاس ذکر وفکر کی جس کیفیت میں ہوتے ہو اگر تمہاری یہ کیفیت ہمیشہ رہے تو تمہارے بستروں اور راستوں پر فرشتے تم سے مصافحہ کریں ، لیکن اے حنظلہ ! یہ کیفیت ایک آدھ ساعت رہتی ہے ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرامایا" (رواہ مسلم ) ۔
 لیکن یہ نظریہ اس وقت تبدیل ہوگیا جب اسلام نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کھیل کود ،ان سے انسیت اور ان کے لیے خوشیاں بکھیرنے کو دین قرار دیا اور یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ۔اس لیے کہ یہ دین جسم ،روح ،نفس اور عقل سب کو شامل ہے ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : "ہر وہ چیز جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ ہو وہ لہو و لعب ( بے فائدہ ) ہے ۔ سوائے چار کاموں کے ، آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیل کود کرنا ، آدمی کا اپنے گھوڑے کو تربیت دینا، آدمی کا دو ہدف کے درمیان چلنا ( نشانہ بازی کرنا) اور آدمی کا تیرا کی سیکھنا ( صحیح اخرجہ احمد و النسائی والبیھقی ) ۔
 اور یہ نظریہ اس وقت بھی تبدیل ہوگیا جب صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی باتیں دیکھی جو اس پر دلالت کرتی تھیں ۔ 
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس جگہ فجر کی نماز پڑھی ہوتی اس جگہ سے اس وقت تک نہ اٹھتے جب تک کہ سورج طلوع نہ ہوجاتا ، پس جب سورج طلوع ہوجاتا تو آپ ﷺکھڑے ہوجاتے اور صحابہ کرام سے باتیں کرتے اور دور جاہلیت کا تذکرہ کرتے ، پس وہ ہنستے اور آپ ﷺمسکراتے۔ (رواہ مسلم) 
صرف یہ ہی نہیں بلکہ اپنے نفس کو تفریح اور آرام کا حق لازما دینے پر سختی کی جیسے آپ ﷺنے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اے عبداللہ !مجھے خبر ملی ہے کہ تم دن کو روزے رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو ؟ تو میں نے کہا: جی ہاں ! اے اللہ کے رسولﷺ ، تو آپ نے فرمایا :" پس تم ایسا مت کیا کرو ( بلکہ ) روزے رکھو اور چھوڑدو اور قیام کرو اور سویا کرو ، بلاشبہ تمہارے جسم کا تم حق ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم حق ہے " ۔(رواہ البخاری )
(1)    نبی ﷺ اپنے اہل خانہ کو تفریح پہنچاتے تھے :
آپ ﷺ کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے اہل خانہ کو تفریح کے مواقع فراہم کریں تاکہ گھر یلو ماحول میں الفت کی فضا قائم رہے اور ہر اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے کہ جس کے ذریعے انہیں خوش کر سکتے ہوں اور ان سے اکتاہٹ اور بیزاری کو ختم کرسکتے ہوں ۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حبشی لوگ مسجد میں داخل ہوکر کھیلنے ( تیر اندازی کرنے) لگے توآپ ﷺ نے فرمایا :" اے حمیراء !کیا تم انہیں دیکھنا پسند کروگی ؟" تو میں نے کہا :" ہاں ! تو آ پ ﷺ دروازے پرکھڑے ہوئے اور میں نے آ کر اپنی ٹھوڑی آپ ﷺ کے کندھے پر رکھ دی اور اپنا چہرا آپ کے رخسار کی طرف جھکا دیا فرماتی ہیں کہ وہ اس دن " ابا القاسم طیبا " کہہ ر ہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا:" کافی ہے ؟" تو میں نے کہا :" اے اللہ کے رسولﷺ ! جلدی مت کریں" ۔ تو آپ ﷺ میرے لیئے کھڑے رہے ۔ پھر فرمایا:" کافی ہے؟" تو میں نے کہا :" اے اللہ کے رسولﷺ ! جلدی مت کریں" فرماتی ہیں مجھے انہیں دیکھنے کا شوق نہیں تھا لیکن میں چاہتی تھی کہ عورتوں کو پتہ چلے کہ آپ ﷺ میرے لیے کھڑے رہے اور میرا آپ ﷺ کے ہاں کیا مقام ہے۔
(2)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کو خوش کرنے کی لیے در گذر کیا کرتے تھے :
 آپ کے رب نےآپ کو بہترین ادب سکھلایا تھا ، اس لیے آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی سے بھی ایسی بات نہ کرتے جس سے سامنے والا ناپسند کرتا ہو ، بلکہ در گذر اور چسم پوشی سے کام لیا کرتے تھے اور بعض معاملات جو ان سے سرزد ہوتے ان سے صرف نظر کیا کرتے تھے ، بالخصوص جس میں شریعت کی مخالفت نہ ہو تاکہ سامنے والے کے جذبات مجروح نہ ہوں اور اسکا دل نہ ٹوٹے تغافل کا معنیٰ یہ ہے کہ علم کے باوجود لا علمی کا اظہار کرنا۔
 نبی ﷺ کی زوجہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ منیٰ کے ایام میں ان پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے ان کے پاس دو لونڈیاں تھی جو دف بجا رہی تھیں ( بعاث کی لڑائی کے شعر گا رہی تھیں) اور نبی ﷺ اپنے چہرہ مبارک پر کپڑا ڈالے ہوئے تھے انہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈانٹا ۔ اس وقت آپ ﷺ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا:" ابوبکر جانے دو " اور وہ ایام منیٰ کے ایام تھے ۔ 
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ میری آڑ کر رہے تھے اور میں حبشیوں کی طرف دیکھ رہی تھی وہ مسجد میں ( ہتھیاروں سے ) کھیل رہے تھے عمر رضی اللہ عنہ نے انکو ڈانٹا تو رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ کو روکا اور ان سے کہا :" بنوارفدہ! تم بے فکر ہوکر کھیلو" ۔(رواہ البخاری)
(3)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کو خوشی دیا کرتے تھے:
 محبت اور جذباتی لگاؤ کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے محبوب کے دل کو خوش کرنے والے کام تلا ش کریں ، اور رسول ﷺ اپنے گھر والوں کو خوش کرنے والے امور پر حریص ہو تے تھے ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں ، وہ فرماتی ہیں کہ میری سہیلیاں آتی تھیں وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر چھپ جاتی تھیں ، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انکو میرےپاس بھیج دیا کرتے تھے ۔ (رواہ مسلم) 
(4)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ مذاق کیا کرتے تھے : 
 جس طرح اسلامی تعلیمات میں روح اور جسم کی اصلاح کرنے والے امور موجود ہیں اسی طرح اس میں ایسے امور بھی موجود ہیں جو نفس کی اصلاح کرکے اس پر فرح و سرور داخل کرتے ہیں ۔
 رسول اللہ ﷺ اس پہلو سے غفلت نہیں برتتے تھے ، بلکہ باقاعدہ اہتمام کے ساتھ اس کا حق اد ا کرتے تھے ، چنانچہ اپنے اہل خانہ اور صحابہ کے ساتھ مذاق کرتے لیکن مذاق میں بھی صرف حق بات کیا کرتے تھے ۔
 اور یہ بات معلوم ہے کہ نفوس سے اکتاہٹ اور بیماری دور کرنے کیلئے مذاح پسندیدہ امر ہے بشرطیکہ شرعی ضوابط سے منظبط ہو ، نہ اس میں جھوٹ ہو اور نہ ہی اس میں کسی کی دل آزاری ہو ۔
عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ بقیع ( قبرستان ) سے کسی جنازہ سے آئے اور مجھے اس حال میں پایا کہ میر ے سر میں درد تھااور میں کہ رہی تھی ہائے میر ا سر آپ ﷺنے فرمایا :" اے عائشہ ! میں اس بات کا حقدار ہوں (کہ میں کہوں کہ ہائے میرا سر اور ) فرمایا کہ تمہارا کیا نقصان ہوگا ؟ اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو میں تمہیں غسل دونگا اور کفن پہناؤں گا اور تجھ پر نما ز پڑھ کر دفناؤں گا، میں نے کہا گویا میں آپ کو دیکھ رہی ہوں واللہ اگر آپ نے یہ ( سب ) کیا تو میرے گھر واپسی آکر رات کے آخری پہر اپنی کسی بیوی کے ساتھ سوجائیں گے ۔ پس رسول اللہ ﷺ مسکرا دیئے پھر آپ کو وہ تکلیف شروع ہوگئی جس میں آپ فوت ہوگئے ۔
( رواہ الدارمی وحسنہ الالبانی ) 
(5)    رسول ﷺ اللہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ تفریح کیا کرتے تھے :
 رسول اللہ ﷺْ کی حیات طیبہ نفس کوراحت پہنچانے والے امور سے خالی نہیں تھی، آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکلتے، اور رسالت ، اس کی تبلیغ اور امت کی قیادت کی ذمہ داری اس نفسیاتی پہلو پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے ۔
 عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب رات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گھومنے چلے جاتے اور ان سے باتیں کرتے ( رواہ مسلم ) ۔
(6)     رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی مزاحیہ حرکات پر ہنستے تھے :
ہنسنا انسان میں ایک فطری امر ہے جبکہ اسلامی تعلیمات میں اس طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے اﷺ کا فرمان ہے :" تمہارا تمہارے بھائی کے چہرے میں مسکرانا صدقہ ہے" (رواہ الترمذی )۔
 ہمارے دین کی ہمیں یہی تعلیم ہے کہ ایک مسلمان کو ہشاش بشاش ہونا چاہیے تیوریاں چڑھی ہو ئی نہ ہوں کہ سامنے والےبیزار ہو جائیں ۔ 
آپ ﷺ ہنستے ہنساتے تھے تاکہ اپنے ہم نشینوں سے بیزاری ختم کرسکیں اور خوشی ومسرت والی فضا قائم کرسکیں ۔ 
آپ ﷺکا فرمان ہے: ’’ تم نیکی میں کسی بھی نیکی کو حقیر مت سمجھو اگرچہ تم اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملو ۔ (الترمذي وهو صحيح)
(7)     رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوش مزاجی کا ماحول رکھتے تھے :
آپ ﷺ کی عادت تھی کہ اپنے ہم مجلس کے ساتھ مذا ق کرتے اسی طرح اپنے اہل خانہ کے ساتھ انسیت ، نرمی اور مزاح کا ماحول رکھتے تاکہ ان سے اکتاہٹ اور بیزاری کو ختم کرکے ان کے نفوس پر خوشی داخل کرسکیں ۔
 عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ( گوشت اور آٹے کی ) چوری لائی جسے میں نے آپ ﷺ کے لیے پکایا تھا ، میں نے سودہ رضی اللہ عنہا کو کہا کہ کھاؤ ، اور میرے اور اس کے درمیان نبی ﷺ تھے ، تو اس نے انکار کردیا ، میں نے کہا: تم اس میں سے ضرور کھاؤ گی وگرنہ میں تیرے چہرے پر مل دوں گی، تو اس نے انکار کردیا تو میں نے ہاتھ چوری میں ڈالا اور اس کے چہرے کو چوری کے ساتھ مل دیا ، آپ ﷺ ہنس پڑے پھر اپنی ران سودہ رضی اللہ عنہا سےدور کی اور سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا تم بھی اسکے چہرے پر مل دو پس آپ ﷺ ہنس پڑے پھر عمر رضی اللہ عنہ گذرے تو آپ ﷺ نے اسے آواز دی اے اللہ کے بندے ! اے اللہ کے بندے ! پھر نبی ﷺ نے گمان کیا کہ وہ اندر داخل ہونے والے ہیں تو ان دونوں سے کہا تم کھڑی ہوجاؤ اور اپنے چہرے دھولو عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ﷺکے ہاں عمر رضی اللہ عنہ کے مقام کی وجہ سے میں ہمیشہ ہیبت زدہ رہتی ( ابو یعلیٰ الموصلی وحسنہ الالبانی)۔
(8)    رسول اللہ ﷺ ہمیشہ اپنے اہل خا نہ کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے:
 رسول اللہ ﷺکی حکمت تھی کہ آپ ہر انسان کے ساتھ و ہی تعامل کرتے جو اسکےلیے مناسب ہوتا اور اسی حساب سے اسے مقام دیتے اور رہنمائی کرتے بشرطیکہ وہ شریعت کے مخالف نہ ہو ۔
 عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس آئے اور انکے طاقچہ پر پردہ تھا پس جب ہو ا چلی تو اس نے پردہ ہٹادیا ( اس میں ) عائشہ رضی اللہ عنہا کے کھلونے تھے تو آپ ﷺ نے پوچھا:" عائشہ یہ کیا ہے ؟ " میں نے کہا :"اس میں میرے کھلونے ہیں" ۔آپﷺ نے ان کے درمیاں ایک گھوڑا دیکھا جس کے کپڑوں کے دو پر تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا :" یہ کیا ہے جو میں ان کے درمیاں دیکھ رہا ہوں ؟" عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:" یہ گھوڑا ہے "آپ ﷺ نے فرمایا :" اور یہ اسکے اوپر کیا ہے ؟ " کہا :" دو پر ہیں" آپ ﷺنے فرمایا:" گھوڑے کے پر ہوتے ہیں ؟" کہا:" کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک گھوڑا تھا جس کے پر تھے ؟ " کہتی ہیں کہ آپ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔ ( ابو داؤد صححہ الالبانی) ۔
(9)    رسول کریم ﷺ اپنے اہل خانہ کی خوشی میں خوش ہوتے تھے:
اہل خانہ کی خوش رکھنا آدمی کا اپنے اہل خانہ کے حق میں بہتر ہونے کی نشانی ہے ۔
اور آپ ﷺاس معاملے میں بھی سب سے سبقت لے جانے والے تھے ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:" رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہمیں شور اور بچوں کی آوازیں سنائی دیں، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے ( دیکھا تو ) حبشی عورت رقص کر رہی تھی اور اس کے ادر گرد بچے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" عائشہ یہاں آؤ اور دیکھو" پس میں آئی اور اپنی ٹھوڑی رسول اللہ ﷺ کے کندھے پر رکھ دی اور آپ کے کندھے اور سر کے درمیاں سے دیکھنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا :" کیا دیکھنے سے سیر نہیں ہوئی ؟ کیا سیر نہیں ہوئی" فرماتی ہیں کہ میں کہنے لگی " نہیں " تاکہ میں آپ کے پاس اپنا مقام و مرتبہ دیکھ لوں ، اچانک عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو لوگ اس عورت سے چھٹ گئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" بلاشبہ میں جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کی طرف دیکھ رہا ہوں جو عمر رضی اللہ عنہ سے بھاگ گئے" فرماتی ہیں پھر میں واپس لوٹ آئی ۔ (ترمذی وصححہ الالبانی )۔
(10)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رات کو انسیت بھری باتیں کیا کرتے تھے:
آپ ﷺ کی عادت تھی کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رات کو انسیت بھری باتیں کرتے تاکہ روز مرہ زندگی کے معاملات میں جو باتیں دل میں رہ گئی ہوں وہ صاف ہو جائیں ،جس کا آپسی تعلق ، رابطے اور محبت کی بنیادیں مظبوط کرنے میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺکی زوجہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں رسول اللہ ﷺکے پاس اعتکاف کی حالت میں مسجد میں آئیں، ایک لمحہ کے لیے کچھ باتیں کی پھر واپس لوٹ گئیں ، نبی ﷺ بھی ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے،ان کو گھر پہنچانے کے لیے ، تو جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں تو دو انصاری ادھر سے گذرے اور نبی ﷺ کو سلام کیا، آپ نے ان دونوں سے کہا ٹھر جانا یہ ( عورت جو میرے ساتھ ہے ) صفیہ، حیی کی بیٹی ہے ، انہوں نے کہا سبحا ن اللہ ! یا رسول اللہ ﷺ اور ان پر آپ کا جملہ یہ شاق گذرا ، تب نبی ﷺ نے فرمایا :" شیطان خون کی طرح بدن میں پھرتاہے مجھے خطرا ہوا کہ کہیں تمھارے دل میں بدگمانی نہ ڈالے"۔ (رواہ البخاری ) ۔


رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ عاطفی پہلو
 انسانوں کے جتنے بھی بشری پہلو ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے ، اسلام ان کی رعایت کرتا ہے۔ ان ہی میں سے مرد اور عورت کے درمیاں جذباتی لگاؤ بھی ہے جسے اسلام اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ لازمی تقاضا ہے جسے دبانے کے بجائے سیر کرنا ضروری ہے ۔ 
لیکن اسلام نے اس جذبہ کو اس لحاظ سے رفعت بخشی ہے کہ یہ محض قضائے شہوت اور حیوانی نظر یہ نہ ہو ۔ اسی وجہ سے اس ضرورت کو نکاح کے ذریعے پورا کیا جو طہارت اور عفت کی تربیت دیتا ہے اور نفسیاتی سکون اور جذبات میں ٹہراؤ پیدا کرتا ہے اور طرفین کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ الروم21 
 ترجمہ: اور اسکی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہار ے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی یقینا غور وفکر کرنے والوں کے لیےاس میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔
 اسی وجہ سے اسلام نے اپنے پیروکاروں کو استطاعت کی صورت میں جلد نکاح کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے اسباب بھی بیان کیے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے : " اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے بیشک وہ نگاہ کو نیچا رکھنے والا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے بیشک وہ اس کے لیے ڈھال بن جائیں گے۔ (رواہ مسلم ) 
اسلام نے رہبانیت ،ترک نکاح اور دنیا سے انقطاع کرنے سے ڈرایا ہے ۔
 انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین آدمی نبی ﷺ کی بیویوں کے گھر آئے اور آپ کی عبادت کا حال پوچھا، جب ان کو بتلایا گیا تو انہوں نے اس عبادت کو کم خیا ل کیا اور کہنے لگے: ہماری آپ ﷺ سے کیا نسبت ؟ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے سب قصور بخش دیئے ہیں ۔ ( ہم لوگ گناہ گار ہیں ہمیں بہت عبادت کرنی چاہیئے ) ، ان میں سے ایک کہنے لگا میں تو ساری عمررات بھر نماز پڑھتا رہوں گا ، اور دوسرا کہنے لگا میں ہمیشہ روزہ دار رہوں گا کبھی دن کو افطار نہیں کرونگا ، تیسرا کہنے لگا میں تو عمر بھر عورتوں سے الگ رہوں گا ،کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ، آپ ﷺنے فرمایا :"تم ہی ہو جنہوں نے یہ یہ بات کی ہیں ؟ سن لو میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے بڑ ھ کر پرہیزگار ہوں ، مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور رات کو اٹھ کر نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، پس جس نے میری سنت سے بے رغبتی اختیار کی وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ (رواہ البخاری)۔
اسلام نے مرد اور عورت کے درمیاں جذباتی لگاؤ کو اس اعتبار سے بھی رفعت دی کہ اسے عبادت قرار دیا جس پر ایک مسلمان کو ثواب ملتا ہے ، جس طرح دیگر اعمال خیر پر اسے ثواب ملتا ہے ۔ 
آپ ﷺکا فرمان ہے کہ ’’ تم میں سے ہر ایک کی شرم گاہ میں صدقہ ہے " صحابہ کرام نے عرض کیا :"اے اللہ رسول ﷺ! ہم میں سے ایک اپنی شہوت پوری کرنے کرنے کے لیے( اپنی بیوی کے پاس ) آتا ہے کیا اس میں اس کے لیے اجر ہے ؟ " فرمایا :" تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ اسے حرام میں رکھےگا کیا اس پر اس میں گناہ ملے گا ؟ اس طرح جب وہ اسے حلال میں رکھے گا تو اس کے لیے اجر ہوگا "۔ 
( رواہ مسلم )۔
مسلمان کی زندگی میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہونے کی بنیاد پر اس طرف ترغیب دلائی گئی ہے تاکہ وہ جنسی آسودگی حاصل کرکے نفسیاتی اور جذباتی لحاظ سے مطمئن اور پر سکون ہو اور جب عبادت کرے تو خالی الذہن اور فارغ البال ہو ۔
آئندہ سطور میں رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ عاطفی تعلق کے حوالے سے کچھ باتیں پیش خدمت ہیں ۔
(1)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ خیانت نہیں کرتے تھے :
آپ ﷺ عفت اور پاکدامنی میں ایک مثال تھے کہ جن کی اتباع کی جاتی تھی، بالخصوص جب شیطان ایک مسلمان کے دل میں وسوسے ڈال کر اسے بے حیائی کے ارتکاب کی دعوت دے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک نبی ﷺ نے فرمایا:"جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے ، وہ اسے اچھی لگے تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس آئے ، پس بیشک اس کے پاس بھی وہی ہے جو اس کے پاس ہے"(الترمذي وصححه الألباني في الصحيحة 235)۔
(2)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے شوق میں رہتے تھے:
 آدمی کا اپنے سفر سے اپنے اہل خا نہ کی طرف جلد لوٹنا یہ اس کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ محبت اور شوق کی دلیل ہے ۔اور اس میں جو نفسیاتی اور عاطفی سکون و اطمنینان ہے وہ مخفی نہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ کی واضح رہنمائی تھی کہ :"سفر عذاب کا ٹکڑا ہے،وہ تم سے کسی ایک کو اپنی نیند اور کھانے اور پینے سے روکتا ہے ، جب تم میں سے کوئی اپنا مقصد پورا کرلے تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے اہل خانہ کی طرف جلد واپس جائے " ( رواہ البخاری ) ۔
(3)    نبی ﷺ کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ محبت والفت کی تجدید کیا کرتے تھے :
ہدیہ کا بہت بڑا مقام ہے اور اسکی قیمت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب وہ آپ کے محبوب کی طرف سے ہو ،اس کے لیے بھی آپ ﷺکی رہنمائی موجود ہے ۔ 
آپ ﷺ نے فرمایا :"تم ایک دوسرےکو ہدیہ دیا کرو ( ایسا کرنے سے ) تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے " ۔ آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ :"اے مسلمان عورتو ! تم میں سے کوئی بھی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیئے ( کسی بھی چیز بطور ہدیہ دینے کے ) حقیر نہ سمجھے چاہے وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو"۔ ( متفق علیہ ) ۔ 
(4)    نبی ﷺ اپنے آپ کو اپنے اہل خانہ تک محدود رکھا کرتے تھے :
 اعضاء کی حفاظت اور انہیں اہل خانہ تک محدود رکھنا ایک مکمل اور درست شخصیت کی علامت ہوتی ہے ۔ اور شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس شخصیت کو بھٹکائے اور ضلالت کے راستوں پر چلائے ۔درحقیقت ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے لامحالہ وہ پاکر رہتا ہے ، پس آنکیں زنا کرتی ہیں ان کا زنا دیکھنا ہے اور کان زنا کرتے ہیں ان کا زنا سننا ہے اور زبان زنا کرتی ہے اور اس کا زنا بولنا ہے ، اور ہاتھ زنا کرتا ہے اور اسکا زنا تھامنا ہے اور پاؤ ں زنا کرتا ہے اسکا زنا چلنا ہے اور دل تمنا کرتا ہے اور چاہتا ہےاور شرم گا ہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے ۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسکی خبردی ہے۔ ( یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں جبکہ بخاری کی روایت مختصر ہے ) ۔
آپ ﷺ اس معاملے میں بھی مثال تھے، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:" جب مومن عورتیں رسول اللہ ﷺ کے پاس آتی تو آپ اس آیت کی بنا پر ان کا امتحان لیتے تھے : يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ۔۔۔۔الخ
ترجمہ: ’’ اے نبی ! جب آپ کے پاس مومن عورتیں آئیں اور آپ سے اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی اور نہ چوری کریں گی ‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مومن عورتوں میں سے جو عورت اس کا اقرار کرلیتی اس کا امتحان منعقد ہوجاتا اور جب وہ ان باتوں کا اقرار کرلیتی تو رسول اللہ ﷺ ان سے فرماتے:" جاؤ میں تم سے بیعت کرچکا " ، اللہ قسم رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا البتہ ان سے زبان سے بیعت لیتے تھے ۔
 عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ عورتوں سے صرف ان ہی باتوں کی بیعت لیتے تھے جن کا اللہ تعالی نے آپ کو حکم دیا تھا، اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کیا ،اور جب آپ ان سے بیعت لے لیتے تو فرماتے : "تم جاؤ میں نے تم سے بیعت کرلی" ۔ ( رواہ مسلم ) ۔
(5)    رسول اللہ ﷺ نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ محبت کا اظہار کیا کرتے تھے :
 آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اظہار محبت میں عار محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ اسے مکارم اخلاق اور حسن معاشرت اور حسن صحبت میں شمار کرتے تھے ، بالخصوص اس لیے بھی کہ آپ کی بعثت ایک جاہلی معاشرے میں ہوئی تھی ، کہ جن کے ہاں عورت کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی ۔ 
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں مجھے نبی ﷺ کی دیگر بیویوں پر اس قدر غیرت نہیں آتی تھی جس طرح خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آتی تھی ، حالانکہ میں نے اسے نہیں پایا، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بکری ذبح کرتے تو فرماتے:" اس ( میں ) سے خدیجہ کی سہیلیوں کے پاس بھیجو " فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے آپ ﷺْ کو غصہ دلادیا میں نے کہا خدیجہ ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:" مجھے اس سے محبت عطا کی گئی ہے" (رواہ مسلم )۔
 عائشہ رضی اللہ تعالیٰ فرماتی ہیں:" نبی ﷺ جب خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ کا تذکرہ فرماتے تو ان کی بہت اچھی تعریف کرتے ، فرماتی ہیں کہ ایک دن مجھے غیرت آگئی تو میں نے کہا:" آپ ان کا اتنا تذکرہ کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے عوض آپ کو اس سے بہتر عطا فرمائی ہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا :"اللہ تعالیٰ نے ( خدیجہ کے ) عوض جو عطا کی ہیں وہ خدیجہ سے بہترنہیں، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے میری تکذیب کی اور اس وقت اس نے اپنے مال کے ساتھ میری مدد کی جب لوگوں مجھے محروم کیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کی اولاد عطا کی جبکہ دیگر بیویوں کی اولاد سے محروم رکھا "۔ (رواه أحمد وقال شعيب الأرنؤوط : حديث صحيح وهذا سند حسن في المتابعات) ۔
(6)    رسول اللہ ﷺ ازدواجی زندگی کے لیے صفائی کا اہتمام کیا کرتے تھے:
اسلامی تعلیمات رہنمائی کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ، سخی ہے سخاوت کو پسند کرتا ہے ،وہ پاک ہے اس لیے پاکیزگی پسند کرتا ہے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث ہیں ، اسی طرح ایک مسلمان کو حکم دیا گیا ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ بالعموم اور اہل خانہ کے ساتھ بالخصوص اچھی حالت اور خوبصورت ہیئت میں رہے ۔ 
اسی لیے رسول اللہ وﷺ نے اسی جانب توجہ دلاتے ہوئے تاکید ی حکم دیا ہے، فرمایا:"تم میں سے ایک جب اپنی بیوی کے پاس ( صحبت کیلئے ) آئے پھر وہ دوبارہ آنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیئے کہ وہ وضوء کرے "۔(رواہ مسلم ) ۔
آپ ﷺ کا فرمان ہے :"یہ زیادہ عمدہ اچھا اور پاکیزہ ہے " ۔(أبو داؤود وحسنه الألباني)۔
(7)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ محبت کا تبادلہ کیا کرتے تھے:
 حقیقی محبت وہی ہے جو انسان میں ہر حالت میں برقرار ہے ، حالات اور اوقات کے تغیر سے اس میں تغیر نہ ہو ۔ 
رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہ ہی حال ہوتا تھا ، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : "میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے ، اس حال میں کہ ہم دونوں جنبی ہوتے تھے ،آپ ﷺ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور پھر مجھے اپنے ساتھ ملاتے حالانکہ میں حیض سے ہوتی آپ اعتکاف کی حالت میں میری طرف اپنا سر نکالتے ، میں اسے دھوتی ، حالانکہ میں حائضہ ہوتی"۔ 
(رواہ البخاری) ۔ 
(8)     رسول اللہ ﷺاپنے اہل خانہ کے راز افشاء نہیں کرتے تھے:
 ازدواجی زندگی اور اس کے مخفی امور ایسے راز ہیں جن کی حفاظت کا شریعت نے بڑی سختی کے ساتھ حکم دیا ہے، اور ان کے افشاء سے منع کیا ہے خاص طور پر وہ کہ جن کے سننے سے ایسا محسوس ہو کہ سننے والا وہیں بذات خود موجود ہے ، اس لیے کہ یہ بے حیائی اور مروت سے گرے ہوئے کام ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:" قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں منزلت کے اعتبار سے سب سے بد ترین شخص وہ ہوگا جو اپنی عورت کے پاس( خلوت )میں جائے اور وہ اس کی طرف جائے پھر وہ اس کے راز افشاء کرے"۔ (رواہ مسلم)۔
(9)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آتے تھے:
آپ ﷺ باریک جذبات اور بلند احساس کے مالک تھے ، اپنے اہل خانہ ساتھ ایسی باتیں کرتے جو محبت اور شفقت پر دلالت کرتیں ، اور ہر کسی کو اس نام کے ساتھ پکارتے جس کے بارے میں آپ کا خیال ہوتا کہ یہ نام سامنے والے کو سب سے زیادہ پسند ہے، چناچہ آپ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کو "یا حمیراء " کہہ کر پکارتے، اسی طرح ان کے ساتھ انتہائی نرمی کے ساتھ پیش آتے ہوئے کبھی ان کے نام کو مختصر کرتے تاکہ اپنے دل میں چھپی ہوئی محبت کا اظہار کرسکیں، چناچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو " یا عائش" کہتے۔(رواہ مسلم)۔
(10)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کو اپنے قریب رکھتے حتی کہ شرعی عذر کی حالت میں بھی:
اپنے اہل خانہ کی شرعی عذر کی حالت میں بھی آپ ﷺ ان کے ساتھ بیٹھتے، کھاتے پیتے، اور صحبت کے علاوہ ان کے ساتھ سوتے، تاکہ ان کے جذبات کو سیر کرسکیں اور اس جیسے مسائل میں شرعی احکام بیان کرسکیں کہ آدمی کے لیے اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیا کیا کام کرنا حلال اور جائز ہے۔
نصاری کے کتاب مقدس کی شریعت اور تعالیم کے برعکس کہ جو حائضہ عورت کو نجس قرار دیکر شوہر کو اپنی بیوی سے دوری اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے( سفر اللاویین: 19: 15)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک ہی کپڑے میں مجھ سے اپنا جسم ملاتے، حالانکہ میں حالت حیض میں ہوتی، لیکن آپ ﷺ تم سب سے بڑھ کر اپنی حاجت پر اختیار رکھنے والے تھے۔(البیھقی)
(11)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے نفسیاتی جذبات کا احساس کرتے تھے:
مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی ضرورت فطری امر اور مستقل مسئلہ ہے ، اور یہ وقتی نہیں ہے ، جس طرح دیگر مخلوقات میں اس کی مدت معین ہوتی ہے، اور جیسے ہی ضرورت پوری ہوتی ہے، ہر ایک اپنا راستہ لیتا ہے، اس لیے آپ ﷺ شرعی عذر کی حالت میں بھی ان سے دور نہیں رہتے تھے، بلکہ جماع کے علاوہ ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوتے تھے،۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:" نبی ﷺرات کی نماز ادا کرتے ، میں آپ کے پہلو میں ہوتی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی، اور مجھ پر چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا۔"(رواہ مسلم)۔
(12)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ذریعے اپنے جذبات و احساسات کو سکون پہنچاتے تھے:
آپ ﷺ کے جتنے بھی افعال ہیں ، درحقیقت وہ امت کے لیے راہنمائی اور دینی زندگی بسر کرنے کے لیے فقہی احکامات کی توضیح ہے۔
آپ ﷺ کے اہل خانہ کے حالت حیض میں ہونے کے باوجود آپ ﷺ کا ان سے جسم ملانا،اور سونا وغیرہ، ان سب میں شرعی رہنمائی یہ ہے کہ عورت کا جسم اور اس کا وجود پاک ہے، اس کے ساتھ ایک ہی لحاف میں سونا جائز ہے، جس طرح اس سے دیگر بیشمار فقہی احکام بھی مستنبط ہو رہے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :" رسول اللہ ﷺ میری گود میں ٹیک لگا کر قرآن پڑہتے ، اور میں حائضہ ہوتی۔" (رواہ مسلم)۔
(13)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ غسل کیا کرتے تھے:
آپ ﷺ تمام احوال میں اپنے اہل خانہ کو خوش رکھتے تھے ، یہاں تک ان ایام میں بھی جن میں ازدواجی تعلق قائم نہیں رہتا، اور انسان کے احساسات سرد ہوتے ہیں ، آپﷺ ان کےساتھ غسل کرتے، اور دوران غسل مذاق کرتے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے ، آپ ﷺ ( پانی لینے میں ) مجھ سے جلدی کرتے ، اور میں آپ سے جلدی کرتی، یہاں تک کے آپ کہتے :" میرے لیے (پانی) بچانا" اور میں کہتی:" میرے لیے پانی بچانا"۔(رواہ النسائی)۔
(14)    رسولہ اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ بوسہ دیا کرتے تھے:
اللہ تعالی کی توفیق کے بعد ازدواجی زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے اور اس کے پیچیدگیوں کو ختم کرنے میں جذبات کو ٹھنڈا رکھنے کا اہم کردار ہے۔ آپ چھوٹے چھوٹے کام اور باتوں کے ذریعےاپنے اہل خانہ کی محبت حاصل کر سکتے ہیں ، ان کے جذبات کی پیاس بجھا کر انہیں نفسیاتی قرار دے سکتے ہیں۔
آپ ﷺ ان چھوٹے چھوٹے پہلوؤں پر توجہ دیتے تھے، انہیں نظر انداز نہیں کرتے تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" نبی ﷺ میری طرف جھکے تاکہ مجھے بوسہ دے سکیں ، تو میں نے کہا :" میں روزے سے ہوں"۔آپ ﷺ نے فرمایا:" میں بھی روزے سے ہوں " پھر مجھے بوسہ دیا"۔ (نسائی ، احمد، ابن خزیمہ)۔

رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ انسانی پہلو

•    رسول اللہ ﷺ انسانوں کی طرح ایک انسان ہی تھے لیکن نبوت اور رسالت کی بناء پر آپ کو تمام انسانوں پر فضیلت اور شرف ملا، آپ ﷺ کو لوگوں کی طرف اس لیے مبعوث کیا گیا تاکہ آپ لوگوں کو لوگوں کی بندگی سے نکال کر لوگوں کے رب کی عبادت کی طرف لے جائیں، اور لوگوں تک اللہ تعالی کی شریعت پہنچائیں، یہ محض اللہ تعالی کا فضل ہے ، وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتاہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحاً وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَداً  الكهف 110
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ۔ (ہاں ) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔
•    آپ ﷺ کے پاس کوئی بھی الہی خصوصیت نہیں تھی ، آپ ﷺ نہ تو غیب جانتے تھے ، نہ نفع اور نقصان کے مالک تھے، اور نہ ہی اس کائنات میں تصرف کا اختیار رکھتے تھے، اللہ تعالی نے آپ کے بارے میں فرمایا:  قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلاَ ضَرّاً إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لاَسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ الأعراف188 
ترجمہ: آپ فرمادیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی ضرر کا ، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتامیں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ۔
•    اس فضیلت، رفعت ، عالی، مقام ، اور رسالت سے مشرف ہونے کے باوجود آپ ﷺ اپنے بارے میں غلو سے منع فرماتے، اور عبودیت کا جو مقام آپ کے رب نے آپ کے لیے چنا اور اس کے ذریعے شرف بخشا، اس کے بدلے کوئی اور مقام آپ کو دیا جائے، اس سے بھی منع فرماتے۔ آپ ﷺکا فرمان ہے:" تم میرے بارے میں غلو نہ کرو، جس طرح نصاری نے عیسی بن مریم کے ساتھ غلو کیا ، میں تو صرف اس کا بندہ ہوں لہذا تم (مجھے ) اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو " ۔ (رواہ البخاری)۔
آپ ﷺ کی خصوصیات بشری تھیں اور آپ ﷺ پر بھی وہی حالات آتے جو ایک بشر پر آتے ہیں ، اس لیے کہ آپ ﷺ اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے تھے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ  آل عمران144
ترجمہ: محمد( ﷺ) صرف رسول ہی ہیں ، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکےہیں ، کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا یہ شہید ہوجائیں، تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالی کا کچھ نہ بگاڑے گا، عنقریب اللہ تعالی شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا۔
•    جو تکلیفیں انسانوں کو پہنچتی ہیں وہ آپ ﷺ کو بھی پہنچتی تھیں ، چناچہ آپ ﷺ بیمار بھی ہوتے تھے اورعلاج معالجے کا اہتمام بھی کرتے تھے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :" میں رسول اللہ ﷺ پر داخل ہوا اور آپﷺ کو بخار تھا، میں نے عرض کیا :" اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کو تو بہت سخت بخار ہو رہا ہے"۔ فرمایا:" جی ہاں ، مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار ہوتا ہے"۔ میں نے عرض کیا:" یہ اس لیے کہ آپ کے لیے دگنا اجر ہے؟"۔فرمایا:" ہاں یہ ایسے ہی ہے، کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے چاہے وہ کانٹا یا اس سے کچھ بڑی (تکلیف ) ہو تو اللہ تعالی اس کے ذریعے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے، جیسے درخت اپنے پتے گرادیتا ہے"۔(رواہالبخاری)۔
اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ " اور یہ اس لیے کہ آپ کے لیے دگنا اجر ہے" اس کا مفہوم ایک اور حدیث سے سمجھ آتا ہے، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا:" اے اللہ کے رسول ﷺ ! لوگوں میں سے سب سے زیادہ تکلیفیں کس پرآتی ہیں ؟" فرمایا:" انبیاء پر پھر جو جتنا قریب ہو، آدمی کو اس کے دین کے اعتبار سے آزمایا جاتا ہے، اگر وہ اپنے دین میں مضبوط ہو تو اس کی آزمائش سخت ہوتی ہے، اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتو اپنے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس بندے پر ہمیشہ آزمائشیں آتی رہتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ بندے کو اس حال میں چھوڑتی ہیں کہ وہ زمین پر چل رہا ہوتا ہے اور اس کے ذمہ کوئی گناہ نہیں ہوتا"۔ ( صحیح ، اخرجہ الترمذی)۔
•    آپ ﷺ پسند اور ناپسند بھی کرتے تھے۔ 
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے سوال کرنے لگا ، آپ ﷺ نے فرمایا:" میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں جو میں تمہیں دے سکوں لیکن تم ہمارے زمہ قرضہ لے لو، یہاں تک ہمارے پاس کچھ آئے تو ہم تمہیں دیں گے"۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا:" اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اللہ تعالی نے آپ کو اس کا مکلف نہیں ٹھرایا، جو آپ کے پاس ہو وہ آپ دے دیا کریں اور جب آپ کے پاس نہ ہو تو اپنے آپ کو اس کا مکلف نہ بنایا کریں"۔ پس رسول اللہ ﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو ناپسند فرمایا، اور آپ ﷺ جب غصہ کرتے تھے تو (غصہ ) آپ کے چہرے سے معلوم ہوجاتا تھا۔ تو انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوگیا پس کہنے لگا:"ٌ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ دے دیا کریں اور عرش والے سے رزق کی تنگی سے مت ڈریں"۔ کہتے ہیں کہ پس رسول اللہ ﷺ مسکرادیئے، اور فرمایا:" مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔( الطبري في تهذيب الأثار, والبزار في مسنده)۔
•    آپ ﷺ خوش بھی ہوتے تھے اور غمگین بھی ہوتے تھے۔
جب آپ ﷺ کا بیٹا ابراہیم فوت ہوگیا تو آپ ﷺ اس پر روئے۔ تعزیت کرنے والے نے آپ سے کہا، وہ (تعزیت کرنے والے ) یا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے یا عمر رضی اللہ عنہ تھے( راوی کو شک ہے) "آپ زیادہ حقدار ہیں کہ آپ اللہ تعالی کے حق کی تعظیم کریں" ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" آنکھ آنسو بہا رہی ہے ، دل غمگین ہے اور ہم ایسی بات نہیں کریں گے جو رب تعالی کو ناراض کردے ، اگر وہ (موت کا ) وعدہ سچا نہ ہوتا اور سب سے نہ کیا گیا ہوتا ، اور (اگر) آخرت پہلی (دنیا ) کے (فورا) بعد آنے والی نہ ہوتی تو اے ابراہیم ! جو ہم نے (غم ) پایا ہے ، اس سے زیادہ ( غم) پاتےاور ہم تجھ پر غمگین ہیں"۔(ابن ماجہ و حسنہ الالبانی)۔
•    آپ ﷺ ہنستے بھی تھے اور روتے بھی تھے۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی بیٹیوں میں کسی کا بیٹا فوت ہورہاتھا، تو اس نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ اس کے پاس آئیں ، آپ ﷺ نے اس کی طرف پیغام بھیجاکہ :" جو اللہ تعالی نے (واپس) لیا وہ اسی کا تھا اور جو دیا ہے وہ (بھی) اسی کا ہے، اور ہر چیز کا اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے، پس اسے چاہیے کہ صبر کرے اور اجر کی امید رکھے"۔ اس نے آپ کی طرف پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ (کہ آپ آئیں ) پس رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے اور میں( بھی ) آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا، اور آپ کے ساتھ معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم تھے، پس جب ہم داخل ہوئے تو انہوں نے بچہ رسول اللہ ﷺ کو دے دیا، اور اس کی روح اس کے سینے میں حرکت کر رہی تھی فرماتے ہیں کہ میں نے خیال کیا کہ گویا وہ مشکیزہ ہو، فرماتے ہیں کہ پس رسول اللہ ﷺ رو پڑے، تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا:" اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :" (یہ) رحمت ہے جسے اللہ تعالی نے آدم کی اولاد میں پیدا کیا ہے، اور اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے صرف رحم کرنے والوں بندوں پر رحم کرتا ہے"۔( مُتَّفَقٌ عَلَيهِ وابن ماجة واللفظ له)۔
•    آپ ﷺ راحت اور تکلیف محسوس کرتے تھے۔
جب جعفر رضی اللہ عنہ ارض حبشہ سے رسول اللہ ﷺ کے پاس (واپس) آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا پھر فرمایا:" میں نہیں جانتا کہ میں جعفر کے واپس آنے زیادہ خوش ہوں یا فتح خیبر سے"۔ اور وہ فتح خیبر میں واپس آئے تھے۔( السلسلة الصحيحة)۔
•    آپ ﷺ سے سہو ہوجاتا اور آپ بھول بھی جاتے تھے۔
آپ ﷺ اپنی نماز میں بھول گئے اور آپ کو اس کی خبر دی گئی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :" نبی ﷺنے شام (ظہر یا عصر) کی کسی نماز کی دو رکعتیں ادا کیں تو ذوالیدین نے آپ ﷺ سے کہا :" اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کردی گئی ہے؟"۔ آپ ﷺ نے فرمایا:" میں نہ تو بھولا ہوں اور نہ ہی نماز کم کردی گئی ہے"۔اس نے کہا:" آپ نے دو رکعت ادا کی کی ہیں "۔ آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:" کیا ایسا ہی ہے جیسا ذوالیدین کہہ رہا ہے؟"انہوں نے کہا :"ہاں "۔ تو آپ ﷺ نے دو رکعت ادا کیں ، پھر تکبیر کہی پھر سہو کے دو سجدے کیے۔(رواہ البخاری)۔
•    آپ ﷺ اپنے معاملات اور بشری اجتہادات میں معصوم نہیں تھے بلکہ درست اور عدم درست کے درمیان رہتے تھے، جبکہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی کے پہنچانے میں معصوم تھے۔
آپ ﷺ کھجوروں کے باغ کے پاس سے گزرےتو دیکھا کہ لوگ کھجور وں کے درختوں کو گابھا دے رہے ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا:"یہ کیا کر رہے ہیں؟"۔ انہوں نے کہا:" نر (کھجور) میں سے( بور) لیکر مادہ (کھجور) میں ڈال رہے ہیں "۔ آپ ﷺ نے فرمایا:" میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی فائدہ دے سکتا ہے"۔پس ( جب یہ بات صحابہ کرام کو) پہنچی     تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا چناچہ انہوں نے ( کھجوروں مخصوص مقدار سے کم مقدار میں کھجوریں ) اتاریں پس ( جب یہ بات ) نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا:" وہ محض ایک خیال تھا ، اگر یہ (گابھا دینا) کچھ فائدہ دیتا ہے تو تم یہ کرو، پس میں تو تمہاری طرح ایک بشر ہوں اور گمان صحیح اور غلط ہوسکتا ہے،لیکن جو بات کہتے ہوئے میں کہوں کہ یہ اللہ نے کہا ہے، تو میں اللہ تعالی پر ہرگز جھوٹ نہیں بولتا"۔(رواہ مسلم)۔
•    آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ تعامل کرنے میں ایک انسان ہی تھے، آپ ﷺ فرماتے تھے:"یا اللہ ! محمد ایک بشر ہے وہ اسی طرح غصہ کرتا ہے جس طرح ایک بشر غصہ کرتا ہے اور میں نے تجھ سے ایک وعدہ لیا ہے جس کی تو مجھ سے ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا، پس ہر وہ مسلمان جسے میں نے تکلیف دی یا اسے برا کہا یااسے کوڑے سے ماراتو یہ اس کے لیے کفارہ اور قربت کا ذریعہ بنادے،جس کے ذریعے تو قیامت کے دن اسے اپنے قریب کرنا"۔ (رواہ مسلم )۔
•    آپ ﷺ خود کے لیے اور لوگوں کے لیے فیصلہ کرنے میں بھی ایک بشر تھےچناچہ فرماتے تھے:" میں محض ایک بشر اور بلا شبہ تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو اور شاید تم میں سے بعض بعض سے اپنی دلیل ( پیش کرنے ) میں زیادہ بلیغ ہو اور میں سننے کے مطابق اس کے لیے فیصلہ کردوں ، پس جس شخص کے لیے میں نے اس کے بھائی کے حق میں فیصلہ میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردیا اسے چاہیئے کہ وہ نہ لے پس بیشک میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہاہوں"۔ (رواہ البخاری)۔
آپ ﷺ اپنی اجتماعی زندگی میں بھی ایک بشر تھےعورتوں سے نکاح کرتے اور اولاد کی خواہش رکھتے تھے ، بالکل ویسے ہی جیسے سابقہ انبیاء کا حال تھا، اللہ تعالی کا فرمان ہے :  وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجاً وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ  الرعد38 
ترجمہ:ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا، کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے، ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے۔
مندرجہ ذیل سطور میں ہم آپ ﷺ کا بطور انسان ہونے کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سلوک کے پیش کرتے ہیں:
(1)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی غلطیوں سے درگزر فرماتے تھے:
غصہ کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے ، آپ ﷺ اہل خانہ کی جانب سے اس غصہ کو کشادہ دلی سے قبول فرماتےاور اس سے پیدا ہونے والے نتائج کا حکمت اور بردباری سے علاج کرتے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :" نبی ﷺاپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس تھے ، تو امہات المؤمنین میں سے ایک نے ایک پلیٹ بھیجی جس میں کھانا تھا ، نبی ﷺ جس کے گھر میں تھے اس نے ( کھانا لانے والے خادم ) کے ہاتھ پر مارا تو پلیٹ گر گئی، اور اس میں دراڑ پڑ گئی، نبی ﷺ نے پلیٹ کی دراڑ کو ملایا، پھر جو کھانا پلیٹ میں تھا اسے جمع کرنے لگے، اور فرمانے لگے:" تمہاری ماں کو غصہ آگیا ہے"۔ پھر خادم کو روکا ، یہاں تک آپ ﷺ جس کے گھر میں تھے اس کے گھر میں سے ایک پلیٹ منگوائی اور صحیح پلیٹ اس کو دی جس کی پلیٹ توڑی گئی تھی اور ٹوٹی ہوئی ( پلیٹ ) جس کے گھر میں توڑی گئی تھی وہیں روک لی۔ (رواہ البخاری)۔
(2)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا کرتے تھے:
وعدوں کو پورا کرنا ، محبت کو برقرار رکھنا، اور اچھائی کا انکار نہ کرنا ایسی صفات ہیں ، جو موصوف کے شریف النسل ہونے کا پتہ دیتی ہیں، چناچہ جب کبھی خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ ہوتا آپ ﷺ ان کی اچھی تعریف کرتے، ( عائشہ رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ ایک دن مجھے غصہ آگیا، تو میں نے کہا :" آپ اس لال مسوڑہوں والی کا کتنا تذکرہ کرتے ہیں ، بلاشبہ اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بہتر عطا کی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا:" اللہ تعالی نے مجھے جو اس کےعوض عطا کی ہیں وہ اس سے بہتر نہیں، تحقیق وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی، جب لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا، اور اس نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے میری تکذیب کی، اور اس نے اس وقت اپنے مال کے ساتھ میری مدد کی جب لوگوں نے مجھے محروم کیا، اور اللہ تعالی نے مجھے اس کی اولاد عطا کی جبکہ دیگر عورتوں کی اولاد سے محروم رکھا" ۔
(3)    آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ انتہائی اعلی قسم کا معاملہ کرتے تھے:
بعثت سے پہلے یا بعثت کے بعد آپ ﷺ کی پوری زندگی میں آپ سے منقول نہیں کہ آپ نے کسی عورت کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہو، آپ ﷺ کا یہ معاملہ جب عوام الناس کے ساتھ تھا، تو اہل خانہ کے ساتھ کیسا ہوگا؟جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی بھی گھر ازدواجی مسائل سے خالی نہیں ہوتا، اور رسول اللہ ﷺ کے گھر بھی اس سے خالی نہیں تھے، مگر اس کے باجود آپ ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو نہ تو مارا ، اور نہ ہی کسی کو گالی دی۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:" آپ ﷺ نے نہ تو کبھی کسی خادم کو مارا نہ کسی عورت کو، اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہیں مارا ، الا یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ میں ہوں ، اور جب کھبی آپ ﷺ کو دو معاملوں میں ایک کا اختیار دیا جاتا ، تو آپ کو ان دونوں میں سے آسان پسند ہوتا، الا یہ کہ وہ گناہ ہو، جب وہ گناہ ہوتا تو تمام لوگوں سے بڑھ کر اس سے دور ہوتے، اور جو آپ کے پاس لایا جاتا اس سے اپنی زات کے لیے انتقام نہیں لیتے تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالی کی حرمت کو پامال کیا جاتا، پس آپ ﷺ اللہ تعالی کے لیے انتقام لیتے تھے۔( السلسلة الصحيحة)۔
اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ آپ ﷺ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوا جب آپ کے سامنے والے کچھ دانت توڑے گئے، اور آپ کا چہرہ زخمی کیا گیا،اور آپ کا خول آپ کے سر پر توڑا گیا ، اور بیشک میں جانتا ہوں کہ کون آپ کے چہرے سے خون دھو رہاتھا، اور کون آپ پر پانی ڈال رہا تھا، اور آپ کے زخم پر کیا ڈالا گیا کہ خون بہنا بند ہوگیا، فاطمہ بنت محمد ﷺ آپ کے چہرے سے خون دھو رہی تھیں ، اور علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس ڈھال میں پانی بھر کر لارہے تھے۔ جب (فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ) اپنے والد کے چہرے سے خون دھولیا تو ایک چٹائی جلائی، یہاں تک کہ جب وہ راکھ بن گئی تو (فاطمہ رضی اللہ عنہا نے)اس راکھ میں سے (کچھ راکھ ) لی اور اسے آپ کے چہرے پر ڈال دیا یہاں تک کہ خون بہنا رک گیا، پھر آپ ﷺ نے اس دن فرمایا:" اللہ تعالی اس قوم پر سخت غضبناک ہوا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے کو زخمی کیا، پھر کچھ دیر ٹہرے پھر فرمایا:" یا اللہ تو میری قوم کو معاف فرما، پس بیشک وہ نہیں جانتے۔ (السلسلة الصحيحة)۔
(4)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے:
رسول اللہ ﷺ کی عورتوں سے شادی کے کچھ اسباب اور محرکات بھی تھے ان ہی میں سے آپ ﷺ کی ان لوگوں پر رحمت اور شفقت جو آپ پر ایمان لائے آپ کی اتباع کی اور اس راہ میں ظلم اور جلاوطنی برداشت کی۔ ان ہی اسباب کی بناء پر آپ ﷺ نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، جب اس وقت ان کی عمر پچپن (55) سال تھی جبکہ آپ ﷺ کی عمر پچاس (50) سال تھی۔ 
اہل مکہ کو اس شادی پر بڑا تعجب ہوا اس لیے کہ سودہ رضی اللہ عنہانہ تو خوبصورت تھیں اور نہ ہی مردوں کو ون میں کوئی طمع تھی، جبکہ ان کے پانچ (5) بچے بھی تھے، لیکن یہ انسانیت تھی ، چناچہ ان کی حالت پر شفقت کرتے ہوئے ان کا اکرام کرتے ہوئےاور ان کے دل کو ڈھارس بندھانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ ملایا، جب وہ حبشہ سے اپنے شوہر کی وفات کے بعد واپس آئیں ۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ان کے ساتھ گزارنے کے بعد انہیں طلاق دینے کا ارادہ کیا تاکہ آپ انہیں ازواجی زندگی کے معاملات اور ان کی ذمہ داریوں سے آزاد کردیں ۔ جب انہیں اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے نبی ﷺ کو کہا:" آپ مجھے طلاق نہ دیں مجھے روکے رکھیں ، اور میرا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے مقرر کر دیں۔ تو آپ ﷺ نے (یہ ہی ) کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:( فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ) (ترجمہ: پس ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ دونوں آپس میں صلح کرلیں ، اور صلح بہتر ہے) ۔
(سودہ رضی اللہ عنہا) کے حرص کی بناء پر کہ انہیں (قیامت کے دن) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔ (الترمذي وصححه الألباني)۔
(5)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ پر رحمت کرتے تھے:
رسول اللہ ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو دو ستونوں کے درمیان رسی بندھی ہوئی دیکھی ، تو فرمایا:" یہ رسی کیوں (بندھی ہوئی) ہے؟"۔ صحابہ کرام نے کہا:" (یہ رسی) زینب رضی اللہ عنہا کے لیے ہے، وہ نماز پڑھتی ہیں ، پھر جب وہ تھک جاتی ہیں تو اس کے ساتھ لٹک جاتی ہیں "۔ نبی ﷺ نے فرمایا:" اسے کھول دو، تم میں سے کوئی ( اس وقت تک ) نماز پڑھے جب تک وہ چستی کی حالت میں ہو، پس جب وہ تھک جائے تو اسے چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے" ۔( صحيح رواه مسلم وأبو داود والنسائي وابن حبان)۔
یہ ربانی دین ہے اس لیے آپ ﷺ یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کے اہل خانہ اپنی طاقت سے بڑھ کر عبادت کا تکلف کریں ، تاکہ اس کا اثر ان کی زندگی کے دیگر معاملات پر نہ پڑے، اور ایسا کیوں نہ ہوجبکہ آپﷺ نے اپنے اس صحابی کے لیے جس نے دنیا کی مباح اور جائز لذتوں کو ترک کرکےاپنے نفس کو طاعات میں مشغول کر لیا تھاکہ:" بلاشبہ تمہاری آنکھ کا تجھ پر حق ہے ، اور بیشک تمہاری جسم کا تم پر حق ہے، اور بیشک تمہاری بیوی کا تجھ پر حق ہے، اور بیشک تمہارے مہمان کا تجھ پر حق ہےاور بیشک تمہارے دوست کا تجھ پر حق ہے"۔( صحيح رواه النسائي وصححه الألباني)۔
(6)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے تھے:
رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر لوگوں کے ساتھ برد باری سے پیش آنے والے تھے، اگر اپنے اہل خانہ سے کبھی تکلیف دہ بات سنتےتو اس سے صرف نظر کرتے، ان کی اذیت دیکھتے تو صبر کرتے اور جو غلطیاں ان سے صادر ہوتیں، ان سے درگزر کرتےجب تک وہ شرعی مخالفت نہ ہوں ، اور ان سب کا مسکراہٹ سے سامنا کرتے، جو اپنے اندر محبت ، درگزر اور نرمی سموئے ہوئے ہوتی۔
آپ ذرا رسول اللہ ﷺ کی اپنی بیوی کے ساتھ برد باری کا اندازہ لگائیں کہ جب باتوں میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی آواز آپ پر بلند ہوگئی ، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سن لیا ، پھر جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کو پکڑا تاکہ انہیں تھپڑ ماریں ، اور کہنے لگے:" کیا میں نہیں دیکھ رہا کہ تم رسول اللہ ﷺ پر اپنی آواز بلند کر رہی ہو؟ "۔ نبی ﷺ ان کو روکنے لگے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ غصے سے نکل گئے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ غصے سے نکل کر جاچکے تو نبی ﷺ نے فرمایا:" کیا تم نے دیکھا ( نہیں ) کہ کہ میں نے کس طرح تمیں مرد سے بچایا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کچھ دن ٹہرے، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی ، تو دیکھا کہ دونوں صلح کرچکے تھے تو دونوں سے کہا:" مجھے (بھی) اپنی صلح میں داخل کرلوجس طرح تم دونوں نے مجھے اپنی لڑائی میں داخل کیا تھا"۔ نبی ﷺ نے فرمایا:" بیشک ہم نے کر لیا، ہم نے کر لیا"۔ (رواہ ابو داؤد)۔
(7)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ پر آسانی فرماتے تھے:
رسول اللہ ﷺ کا لوگوں کے ساتھ معاملہ آسانی اور نرمی والا ہوتا تھا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں داخل ہواپھر کچھ ہی دیر میں اس نے مسجد کے کونے میں پیشاب کردیا، لوگوں نے اس کی طرف جلدی کی تو نبی ﷺ نے ان کو روکا، اور فرمایا:" بلاشبہ تم آسانی کرنے والے بھیجے گئے ہو اور تنگی کرنے والے نہیں بھیجے گئے ، اس (پیشاب) پر پانی کا ڈول بہاؤ "۔ (رواہ ابو داؤد)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی اپنے اہل خانہ پر آسانی، لطف اور نرمی کے بارے میں کہتی ہیں :" مجھے اور حفصہ رضی اللہ عنہا کو کھانا بطور تحفہ دیا گیا اور ہم دونوں روزے سے تھیں ،تو ایک نے اپنی سہیلی سے کہا : کیا تم تم روزہ افطار کروگی؟
تو اس نے کہا "ہاں"تو دونوں نے روزہ افطار کرلیا، پھر رسول اللہﷺ داخل ہوئے، تو ایک نے آپ سے کہا:"اے اللہ کے رسولﷺ ! ہمیں تحفہ دیا گیا ، ہمیں اسکی خواہش ہوئی تو ہم نے روزہ افطار کرلیا، آپ ﷺ نے فرمایا:" تم دونوں پر کوئی حرج نہیں، تم دونوں اس کی جگہ کسی دوسرے دن روزہ رکھ لینا"۔ ( رواه ابن حبان , وأبو داود [قال الألباني]: ضعيف, وقال شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط مسلم)
(8)    رسو اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ تعامل کرنے میں انتہائی اعلی مقام پر فائز تھے۔
اگر آپ اپنے ہاتھ میں کھانا لیکر اپنی اہلیہ کے منہ میں ڈالتے ہیں، اسے اپنے ہاتھ پانی پلاتے ہیں تو یہ عمل محض دل جیتنے یا آپ کا اس کے ساتھ اچھا سلوک ، اور آپ کی اس سے محبت پر ہی دلالت نہیں کرتا ، بلکہ یہ صدقہ بھی ہے جس پر آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے اجر دیا جائے گا۔
اس دینی اور دنیاوی تعلق سے اہل خانہ کے احساسات کو سکون، اتحاد واتفاق، اطمینان اور دلی مسرت حاصل ہوتی ہے۔
آپ ﷺ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا:"اور تم جو بھی اللہ کی راہ میں اللہ کی رضا تلاش کرتے ہوئے خرچ کروگے، تمہں اس پر اجر دیا جائے گا ، یہاں تک کہ وہ لقمہ جو تم اپمی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو"َ۔( رواہ البخاري)
(9)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ سے کبیدہ خاطر نہیں ہوتے تھے۔
کسی کے احساسات کا خیال رکھنا ، انسانی نفس کے صاف ہونے اور نیک فطرت پر دلالت کرتا ہے۔ 
آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے احساسات کا خیال رکھتے اور خلاف ارادہ جو کام ان سے سرزد ہوتے ان پر کبیدہ خاطر نہیں ہوتے تھے۔
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے آخری پہر (دوران سفر) اولات الجیش مقام پر پڑاؤ ڈالا، آپ کے ساتھ آپکی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں، چناچہ انکا ، ظفار(یمن کا ایک شہر) کے موتیوں سے بنا ہار ٹوٹ گیا، تو لوگ ان کے اس ہار کو تلاش کرنے کی خاطر رک گئے،یہاں تک کہ فجر روشن ہوگئی،اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا،تو ان (عائشہ رضی اللہ عنہا ) پر ابوبکر رضی اللہ عنہ ناراض اور کہا: تم نے لوگوں کو روک لیا اور ان کے پاس پانی نہیں ہے،تو اللہ تعالی نے مٹی کے ساتھ تیمم کی رخصت نازل کی، کہتے ہیں کہ پھر مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے، اور اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر اپنے ہاتھوں کو اٹھایا، اور ان سے کچھ بھی مٹی نہیں جھاڑی، پھر اس سے اپنے چہرے اور اپنے ہاتھوں کا کندھوں تک اور ہاتھ کے اندرونی حصوں سے بغلوں تک مسح کیا ۔ رواه أحمد وأبو داود والنسائي وصححه الألباني
(10)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے لیئے خوبصورتی، خوشبو اور صفائی کا اہتمام کرتے تھے۔
اچھی ہیئت اور عمدہ خوشبو سے نفسوں کو انسیت، دلوں کو راحت اور آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" مجھے یاد ہے ، گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کے سر میں خوشبو(والے تیل) کی چمک دیکھ رہی ہوں، اور آپ حالت احرام میں تھے"۔
ایک روایت میں ہے کہ:" مسک خوشبو کی چمک رسول اللہ ﷺ کی مانگ میں"۔ (متفق عليه واللفظ للبخاري)۔
اور جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ: جب نبی ﷺ آپ کے پاس آتے تھے تو کس کام سے آغاز کرتے تھے؟ فرمایا:" جب داخل ہوتے تو مسواک سے ابتداء کرتے تھے" ۔ (رواه أحمد وأبو داود وابن ماجة صححه الألباني) 
رسول اللہ ﷺ کی یہ عمدہ عادت تمام حالات میں برقرار رہتی یہاں تک کہ سوتے ہوئے بھی نظافت اور طہارت پر سوتے۔
آپ کے خادم انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، جنہیں دس سال تک آپ کی خدمت     کا شرف حاصل ہوا فرماتے ہیں: میں نے کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کی خوشبو سے عمدہ نہ تو عنبر سونگھی اور نہ ہی مسک، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے بڑھ کر نرم کوئی موٹا یا باریک ریشم نہیں چھوئا۔( رواہ مسلم ) 
(11)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ سے اظہار محبت کرتے تھے:
حیا ہمیشہ خیر ہی لاتی ہے ، جیسا کہ آپ ﷺ نے اس کی خبر دی ، سوائے اس حیا کے جو انسان کا کوئی دینی یا دنیاوی معاملہ بگاڑ دے ۔
آپﷺ اپنے اہل خانہ سے اظہار محبت کرتے تاکہ اپنے پیروکاروں کی تربیت کریں، کہ وہ بھی اپنے اہل خانہ سے اظہار محبت کرسکیں، اور یوں محبت برقرار رہے، اور پرسکون زندگی گزرے۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا: لوگوں میں سے سب سے بڑھ کر آپ کو کون محبوب ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:"عائشہ" میں نے کہا : مردوں میں سے ؟آپﷺ نے فرمایا :"اس کا والد" میں نے کہا پھر کون؟ فرمایا :"عمر" ، پھر کچھ لوگوں کے نام شمار کیئے ، تو میں اس ڈر سے خاموش ہوگیا کہ کہیں مجھے سب سے آخر میں نہ کردیں۔(متفق عليه واللفظ للبخاري)۔
(12)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے بارے میں فکر مند رہتے تھے:
خوف بشری طبیعت اور فطری امر ہے،جب تک طبعی خوف سے تجاوز نہ کرے، کیوں وہ تو بیماری ہوتی ہے۔
آپ ﷺ بھی اپنے اہل خانہ کے بارے میں فکرمند رہتے اور ڈرتے تھے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نبیﷺ کے ساتھ آرہے تھے اور نبی ﷺ کے ساتھ (آپ کی زوجہ) صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں، جنہیں آپ نے اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا ہوا تھا، پھر جب ایک راستے سے گزرنے لگے تو اونٹنی پھسل گئی اور نبی ﷺ اور عورت (صفیہ رضی اللہ عنہا) گرگئے، ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کےنبی! اللہ تعالی مجھے آپ پر قربان کرے کیا آپ کو کچھ (نقصان تو نہیں) پہنچا؟ آپ ﷺ نے فرمایا :"نہیں لیکن عورت کی طرف توجہ دو"تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈالااور ان کی طرف رخ کیا، پھر اپنا کپڑا ان پر ڈال دیا،پھر عورت کھڑی ہو گئی تو اس (ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ) نے ان دونوں کی سواری پر ان کے لیئے پالان باندھا پھر وہ دونوں ( نبی ﷺ اور صفیہ) سوار ہوئے۔(رواہ البخاري)۔
(13)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی نجات پر حریص تھے:
آپﷺ اپنے اہل خانہ کے لیئے خیر کو پسند کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ اسے اپنائیں ، بالخصوص وہ جو انہیں رب العالمیں کی رضا تک پہنچادے، جو انہیں جنت کے قریب لے جائے اور جہنم سے دور کردے، اور یہی کامیابی ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:  كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ  آل عمران185
ترجمہ:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائےاور جنت میں داخل کردیا جائے، بیشک وہ کامیاب ہوگیا ، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔
آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کی فکر کرتے اور ان کی بھلائی اور نیکی کے کاموں کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔
ام المؤمنین ام سلمہ  فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ ڈر کربیدار ہوئے ، فرمانے لگے :"سبحان اللہ! اللہ تعالی نے (اپنی رحمت کے ) کتنے خزانے نازل کیئے ہیں اور کتنے فتنے نازل کیے ہیں، کون ہے جو حجرہ والیوں (مراد بیویوں ) کو جگائے تاکہ وہ نماز پڑہیں، دنیا میں کتنی ہی نعمتوں میں رہنے والی آخرت میں اس سے تہی دامن ہو گی"۔ (رواہ البخاري)۔
(14)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے پاس اچانک آکر انہیں پریشان نہیں کرتے تھے:
آپ ﷺ بے جا شک اور غیرطبعی غیرت کو ناپسند کرتے تھے، اور چاہتے تھے کہ اپنے اہل خانہ کو مکمل اور پوری خوبصورتی کی حالت میں دیکھیں، یہ اس لیے کہ آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنی محبت کے تعلق کو مظبوط سے مظبوط تر کرنا چاہتے تھے، چناچہ طویل سفر سے واپسی پر ان کے پاس اچانک نہیں آتے تھے،بلکہ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ اپنی آمد کی اطلاع کرتے ، تاکہ آپ کے اہل خانہ کے پاس وقت ہو ، اور وہ صفائی ستھرائی اور خوبصورتی اختیار کرکے آپ کے استقبال کے لیے تیار ہوسکیں، اور آپ انہیں اچھی حالت اور خوبصورتی میں دیکھیں،تاکہ محبت کا تعلق مضبوط ہو۔
جابر بن عبداللہ  فرماتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، جب ہم (اپنے اہل خانہ کے پاس) داخل ہونے کے لیے جانے لگے تو آپﷺ نے فرمایا:"رک جاؤ یہاں تک ہم رات کو داخل ہوں تاکہ بکھرے بالوں والی کنگھی کر لے اور جس کا خاوند اس سے غائب رہا ہے ، وہ اپنے جسم کے بال صاف کرلے۔( متفق عليه)
(15)    رسول اللہ ﷺ خیر وبھلائی میں اپنے اہل خانہ کو ترجیح دیتے تھے:
جود وسخاوت آپکی فطرت تھی اسی لیے اگر آپ کوئی چیز حاصل کرتے یا آپ کو ہدیہ دیا جاتا ، خود پر اہل خانہ کو مقدم کرتے ، انہیں ترجیح دیتے، اور ایسا کوں نہ ہو جبکہ آپﷺ کا فرمان ہے:"جب اللہ تعالی تم میں سے کسی کو خیر عطا کرے ، اسے چاہیئے کہ خود سے اور اپنے گھر والوں سے اسکا آغاز کرے،"۔( الطبراني وصححه الالباني )
اور آپکی باتیں محض خیالی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ فی الواقع ان پر عمل پیرا ہوتے تھے، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:بیشک ام سلیم رضی اللہ عنہا نے،نبی ﷺ کی طرف ایک تھال بھیجا ، جس میں تازہ کھجوریں تھیں، آپﷺ ایک مٹھی بھرتے اوراپنی کسی بیوی کی طرف بھیج دیتے، پھر ایک مٹھی بھرتے اور اپنی کسی بیوی کی طرف بھیج دیتے، حالانکہ آپ کو ان کی خواہش تھی، آپﷺ نے یہ کئی مرتبہ کیا۔( أخرجه أحمد وابن حبان صححه الألباني)۔
(16)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے لیے تواضع اختیار کرتے تھے:
جو شخص اللہ تعالی کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے ، اللہ تعالی اسے بلند کرتا ہے، آپ ﷺ ان کلمات سے صحابہ کرام کونصیحت کرتے،اور فی الواقع لوگوں کے ساتھ تعامل میں اس پر عمل پیرا ہوتے، اور اپنے اہل خانہ کو اس سے محروم نہیں کرتے تھے، انس رضی اللہ عنہ اس حدیث میں فرماتے ہیں جس میں انہوں نے خیبر سے مدینہ کی واپسی کا واقعہ بیان کیا ، کہ وہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھے ، اور آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں،میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے پیچھے ان کے لیے چادر بچھاتے، پھر اپنے اونٹ کے پاس بیٹھتے ، اوع اپنا گھٹنا رکھتے، اور صفیہ رضی اللہ عنہا ، آپ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں رکھتیں ، تاکہ (اونٹ) پر سوار ہوں ۔ (رواہ البخاری)۔
(17)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خطاؤں سے درگزر کرتے تھے:
آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کی غیرت کی قدر کرتے ، اور جب وہ اس کا مظاہرہ کرتے ، تو آپ ﷺ غصہ نہیں کرتے تھے ، اس غیرت کے نتیجہ میں جو اعمال ان سے سرزد ہوتے، اس پر انہیں برا بھلا نہیں بولتے تھے ، بلکہ پرمغز اسلوب سے اس کا سامنا کرتے،جو آپ کی بصیرت اور حکمت پر دلالت کرتا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :" نبی ﷺاپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس تھے ، تو امہات المؤمنین میں سے ایک نے ایک پلیٹ بھیجی جس میں کھانا تھا ، نبی ﷺ جس کے گھر میں تھے اس نے ( کھانا لانے والے خادم ) کے ہاتھ پر مارا تو پلیٹ گر گئی، اور اس میں دراڑ پڑ گئی، نبی ﷺ نے پلیٹ کی دراڑ کو ملایا، پھر جو کھانا پلیٹ میں تھا اسے جمع کرنے لگے، اور فرمانے لگے:" تمہاری ماں کو غصہ آگیا ہے"۔ پھر خادم کو روکا ، یہاں تک آپ ﷺ جس کے گھر میں تھے اس کے گھر میں سے ایک پلیٹ منگوائی اور صحیح پلیٹ اس کو دی جس کی پلیٹ توڑی گئی تھی اور ٹوٹی ہوئی ( پلیٹ ) جس کے گھر میں توڑی گئی تھی وہیں روک لی۔(رواہ البخاری )۔
(18)    رسول اللہﷺ اپنے اہل خانہ کی نفسیاتی کیفیت سے باخبر رہتےتھے:
آپ ﷺ کی طبیعت میں رقت ، احساس اور جذبات کی بناء پر اپنے اہل خانہ کے جذبات اور احساسات سے واقف رہتے، اور ان احساسات میں اگر کوئی سلبی پہلو ہوتا تو اس کا سامنا عفو ودرگزر سے کرتے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا:"بیشک میں جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب مجھ سے خفا ہوتی ہو" کہتی ہیں کہ میں نے کہا:" آپ یہ کیسے جان لیتے ہیں؟"تو آپ نے فرمایا:"جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو " نہیں ، محمد کے رب کی قسم " اور جب مجھ سے خفا ہوتی ہو تو کہتی ہو "نہیں ابراہیم کے رب کی قسم"کہتی ہیں کہ میں نے کہا:"اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! میں صرف آپ کا نام ترک کرتی ہوں"۔(رواہ البخاری)
(19)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ عدل وانصاف کیا کرتے تھے:
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ عدل وانصاف اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا، آپ ﷺ ان کے ساتھ تمام معاملات میں عدل کرتے چاہے حضر میں ہوں یا سفر میں ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رہنے کی تقسیم میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دیتے تھے ، اور ایسا دن بہت کم آتا ورنہ( ہرروز ) ہم سب کے پا س چکر لگاتے، اور جماع کے علاوہ اپنی ہر بیوی کے قریب ہوتے ، یہاں تک کہ جس کا دن ہوتا اس کے پاس پہنچ جاتے، اور اسی کے پاس رات گزارتے۔(أبو داوود وصححه الألباني)۔
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپﷺ نے اپنی بیماری کے ایام میں بھی اس عدل کو نہیں چھوڑا، جس پر اللہ تعالی نے آپ کو پیدا کیاتھا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں بیشک رسول اللہ ﷺ جس بیماری میں فوت ہوئے اس میں سوال کرتے اور فرماتے :" میں کل کہاں ہوں گا؟ آپﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کا دن چاہتے تھے، تو آپ کی بیویوں نے آپ کو اجازت دی کہ آپ جس کے پا س رہنا چاہیں (وہیں رہیں تو ) آپ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر آگئے ، یہاں تک کہ ان ہی کے پاس فوت ہوئے۔(رواہ البخاری)۔

 

رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ اجتماعی پہلو

(1)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے:
جس بھی چیز میں نرمی ہوگی وہ اسے مزین کردے گی، اور جس بھی چیز سے نرمی نکال دی جائے گی وہ اسے بدنما کردے گی۔
یہ وہ نبوی تعلیمات ہیں جن پر آپ ﷺ اپنے صحابہ کرام کی تربیت کرتے تھے۔ 
آپ ﷺ اپنے تما م معاملات میں نرم خو تھے ، نرمی کو پسند کرتے ، اور اپنےاہل خانہ کو بھی اسی کا حکم دیتےتھے۔ 
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کو نہ تو ایسا کوئی حکم دیتے ، نہ انہیں ایسی کوئی بات کہتے اور نہ ہی انہیں کسی ایسے کام کا مکلف کرتے جو ان پر گراں گزرے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:"اے عائشہ ! نرمی کرو بیشک اللہ تعالی جب کسی گھر والوں سے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو ان پر نرمی داخل کرتا ہے۔ 
( أخرجه أحمد وصححه الألباني الصحيحة: 523)
(2)     رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خدمت کرتے تھے:
رسول اللہ ﷺ کے مکارم اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خدمت اور ان کے بعض معاملات میں ان کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا گیا کہ نبی ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟فرمایا:" اپنے جوتے کو سیتے اور آپ ﷺ وہی کام کرتے جو ایک مرد اپنے گھر میں کرتا ہے" ۔
ایک روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نےفرمایا :" وہی جو تم میں سے کوئی اپنے گھر میں کرتا ہے، جوتے کو گرہ لگاتے ، کپڑے پر پیوند لگاتے اور سیتے" ۔[ صحيح رواه البخاري في الأدب المفرد]
(3)    رسول اللہ ﷺ خود کے کام خود ہی کیا کرتے تھے:
ہم میں سے ہر ایک کی خاص ضروریات ہوتی ہیں، آپ ﷺ اپنے اہل خانہ سے تخفیف کرتے ہوئے اور انکی مدد کی خاطر اپنے کام خود ہی کیا کرتے تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ فرمایا: آپ انسانوں میں ایک انسان تھے ، اپنے کپڑے جھاڑتے( کہ کہیں اس میں جوئیں وغیرہ تو نہیں)اپنی بکری کا دودھ دوہتے، اور خود کی خدمت کرتے۔ [صحيح رواه البخاري في الأدب المفرد]
(4)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے تھے:
جود وسخاوت ان بنیادی امور میں سے ہے، جنہیں آپﷺ اپنے متبعین کے اذہان میں راسخ کرتے،چناچہ فرماتے:"بلا شبہ اللہ تعالی کریم ہے ، کرم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، وہ سخی ہے سخاوت کو پسند کرتا ہے۔ (السلسلة الصحيحة 1378 و1626)۔
اور جب صحابہ کرام نے سوال کیا کہ ہم میں سے ایک پر اسکی بیوی کا کیا حق ہے تو آپﷺ نے آدمی کا اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنے کو واجبی حق قرار دیا ، فرمایا:"جب تو کھائے تو اسے کھلائے اور جب تو پہنےتو اسے پہنائے، (یا فرمایا) جب تو کمائے۔" ( رَوَاهُ أَحْمَدُ , وَأَبُو دَاوُدَ , وَالنَّسَائِيُّ , وَابْنُ مَاجَهْ، وَصَحَّحَهُ الألباني)
(5)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے لیے راحت کا اہتمام کرتے تھے:
آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے لیے راحت اور آرام کے متلاشی ہوتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے بالخصوص سفر میں ، جو مشقت اور تھکاوت سے بھرپور ہوتا ہے ، اور اپنے اہل خانہ پر سفر کی پریشانیوں سے ڈرتے تھے۔
انس بن مالک  فرماتے ہیں کہ بیشک نبی ﷺ سفر میں تھے، اور غلام تھا جو حداء (اونٹ بھگانے کے لیئے ان پر اشعار )پڑھ رہا تھا جس کا نام انجشہ تھا ، نبی ﷺ نے فرمایا :" انجشہ! شیشوں کو آرام سے لے جاؤ"۔( البخاري)
یہ اس لیے کہ نبی ﷺ کے اہل خانہ اونٹ پر رکھے گئے ہودج میں تھے، اور حداء جو کہ بلند آواز میں اونٹوں پر گنگنانا ہوتا ہے ، ( اور انٹ تیز بھاگنے لگتے ہیں ) اس لیے آپ ﷺ اپنے اہل خانہ پر ڈر گئے۔
(6)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی بے رخی برداشت کرتے تھے:
آپﷺ اپنے اہل خانہ کی بے رخی اور سخت رویہ کو کشادہ دلی اور مسکراہٹ اور انکی قطع تعلقی کا محبت سے سامنا کرتے، اور ان سے جو غلطیاں سرزد ہوتیں انہیں معاف کرتے اور درگزر سے کام لیتے، جب تکل کہ وہ شرعی مخالفات نہ ہوتیں، نیز یہ کہ آپ ﷺ پر جہالت کا مظاپرہ آپ کی برد باری میں مزید اضافہ کرتا۔
عمر بن خطاب  فرماتے ہیں :" ہم ، قریش کی جماعت عورتوں پر غالب ہوتے تھے ( یعنی ہم ان پر حکم چلاتے اور وہ ہم پر حکم نہیں چلاتی تھیں)پس جب ہم انصار کے پاس آئے تو (ہم نے دیکھا کہ ) انصار ایسی قوم تھی جس پر ان کی عورتیں غالب تھیں، تو ہماری عورتوں نے بھی انصار کی عورتوں کا ادب لینا شروع کردیا، (ایک دن) میری بعوی مجھ پر چیخی، اور مجھے ترکی بترکی جواب دیا ، تو میں نے اس کے جواب دینے کو عجیب خیال کیا، تو اس نے کہا : آپ میرے جواب دینے کو عجیب خیال کیوں کرتے ہیں ؟ اللہ کی قسم بیشک نبی ﷺ کی بیویاں (بھی) آپ کو جواب دیتی ہیں، اور بلاشنہ ان میں سے (کوئی) ایک آپ ﷺ سے پورا دن ، رات تک منہ پھیرے رہتی ہے،تو اس بات نے مجھے پریشانی میں مبتلا کردیا، اور میں نے کہا: جس نے بھی ان میں سے یہ کیا ہے کوئی شک نہیں کہ وہ تباہ ہوگئی۔پھر میں نے اپنے کپڑے سمیٹے ، میں اترا، اور( نبی ﷺ کی بیوی اور اپنی بیٹی)حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور میں نے اس سے کہا: اے حفصہ ! کیا تم میں سے کوئی ایک نبی ﷺ سے ، دن سے رات تک جھگڑا کیے رہتی ہے؟ اس نے کہا : ہاں ۔ تو میں کہا:کوئی شک نہیں کہ وہ تباہ و برباد ہوگئی، کیا تم اس بات سے بے خوف ہو کہ اللہ تعالی اپنے رسول ﷺ کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہوجائے، اور تم ہلاک ہو جاؤ؟ تم نبی ﷺ سے نہ تو کثرت سے مطالبے کیا کرو، نہ آپ ﷺ کو جواب دیا کرو اور نہ ہی آُﷺ سے اعراض کیا کرو، اور تمہیں جس (چیز) کی ضرورت ہو ، مجھ سے مانگ لیا کرو۔(رواہ البخاری)۔
(7)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خواہشات کی تکمیل کیا کرتے تھے:
آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خواہشات کی جلد تکمیل کرکے انہیں خوش کرتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا اور کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کی ساری بیویوں کی کنیتیں ہیں سوائے میرے ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:" تم اپنے بیٹے عبداللہ سے اپنی کنیت رکھ لو،مطلب زبیر  کے بیٹے سے ، تم ام عبداللہ ہو" تو انہیں ان کی وفات تک ام عبدللہ کہا جاتا تھا، حالانکہ ان کی کبھی اولاد نہیں ہوئی۔( البخاري في الأدب المفرد صححه الألباني)
(8)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کا علاج معالجہ کرتے تھے:
ہر انسان کو بحالت صحت ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے اہتمام کیا جائے، اس کے کام کیے جائیں اور اس کا خیال رکھا جائے، لیکن بحالت مرض اور کمزوری یہ ضرورت بڑھ جاتی ہے۔
آپ ﷺ اس پہلو سے بھی غافل نہیں تھے ، اپنے اہل خانہ کی بیماری کی حالت میں اس کا شوق سے اہتمام کرتےتھے۔ اس لیے کہ اس میں ان کے جذبات کی خوشی اور انکی کیفیات کو جلا ملتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں سے کوئی بیمار ہوجاتا، تو آپ ﷺ اس پر معوذات پڑھ کر پھونکتے، پھر جاب آپ کو وہ مرض لاحق ہوا جس میں آپﷺ وفات پا گئےتو میں آپ پر (پڑھ کر) پھونکتی اور خود آپ کے ہاتھ سے (آپ کے جسم پر مسح )کرتی ، کیوں کہ آپ کے ہاتھ میرے ہاتھوں سے برکت میں بڑھ کر تھے(رواہ مسلم)۔
(9)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خبر رکھتے تھے:
آپ ﷺکو امت کی طرف سے کافی ذمہ داریاں تھیں ، لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خصوصی اہتمام سے خبر رکھتے ۔
عمر بن خطاب  فرماتے ہیں : آپ ﷺ جب صبح کی نماز ادا کرتے تو اپنے مصلے پر بیٹھ جاتے، اور لوگ آپ ﷺ کے ارد گرد بیٹھ جاتےِ،یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا، پھر اپنی بیویوں میں سے ہر ایک کے پاس جاتے، ان پر سلام کرتے، ان کے لیے دعا کرتے ، اور جب ان میں سے کسی کا دن ہوتا تو اس کے پاس بیٹھ جاتے۔(رواه الطبراني في الأوسط)۔
(10)    رسول اللہ ﷺاپنے اہل خانہ سے مشورہ کیا کرتے تھے:
آپ ﷺ کا طریقہ اور عادت تھی کہ اپنے خاص اور عام معاملات میں مشورہ کرتے تھے، چناچہ اپنے اہل خانہ سے بھی مشورہ کرتے اور ان کی آراء سے مستفید ہوتے،اور انہیں (اپنے فیصلوں میں) شریک کرتے، یہاں تک کہ اپنی امت کے معاملات میں بھی (ان سے مشورہ کرتے) جس کے ذریعے آپ ﷺ حتمی فیصلہ کرنے سے قبل،زیادہ مناسب اور درست رائے تلاش کرتے۔
عروہ بن زبیر  سے روایت ہے کہ انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ نے بیان کیا ۔۔۔پھر عروہ بن زبیر  نےان دونوں کی صلح حدیبیہ والی حدیث بیان کی ، ان دونوں نے کہا: پھر جب (صلح حدیبیہ کی شرائط) لکھنے سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو ! کھڑے ہوجاؤ، پس نحر کرو اور احرام کھول دو" پس اللہ کی قسم ان میں سے ایک آدمی بھی کھڑا نہیں ہوا، اس لیے کہ لوگوں کے دلوں میں( صلح حدیبیہ کی شرائط رکھنے میں مشرکین کے رویہ سے) برائی آگئی تھی، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو ! کھڑے ہوجاؤ، پس نحر کرو اور احرام کھول دو" پس اللہ کی قسم ان میں سے ایک آدمی بھی کھڑا نہیں ہوا، پھر تیسری بار فرمایا، تو لوگوں میں سے کوئی بھی کھڑا نہیں ہوا ، تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور فرمایا:" اے ام سلمہ کہا تم لوگوں کی نہیں دیکھ رہی ؟میں انہیں ایک حکم دے رہا ہوں (اور) وہ اسے نہیں کر رہے"(ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا:اے اللہ کے رسول آپ انہیں ملامت نہ کریں ، آپ نے صلح میں جو باتیں خود پر برداشت کی ہیں لوگوں نے اسے دیکھا ہے، اس لیے ان پر بڑا (پریشانی والا) معاملہ آگیا ہے ، اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نکلیں ، لوگوں میں سے کسی سے بات نہ کریں،یہاں تک آپ اپنی قربانی کے جانور کے پاس آجائیں،پھر اسے نحر کریں اور احرام کھول دیں، پس رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے نکلے ، کسی سے بات نہیں کی،یہاں تک اپنی قربانی کے جانور کے پاس آئے، اسے نحر کیا ، اور بال منڈوائے،پس جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ (یہ) کرچکے ہیں ، تو وہ (بھی) کھڑے ہو گئے، پس جس کے پاس قربانی کا جانور تھا، اس نے اسے نحر کیا ، اور کچھ نے بال مونڈے اور کچھ نے بال کاٹے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" یا اللہ بال مونڈنے والوں کو بخش دے" تو کہا گیا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! اور بال کاٹنے والوں کے لیے؟پھر تین مرتبہ ذکر کیا، اور تیسری مرتبہ کے بعد کہا:" اور بال کاٹنے والوں کو (بھی بخش دے" )۔(رواہ البخاری)۔
(11)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ سے اجازت طلب کرتے تھے:
سچ فرمایا اللہ تعالی نے جب اپنے نبی کا وصف اس قول سے بیان کیا کہ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (4) سورة القلم
ترجمہ: اور بیشک تو بہت بڑے( عمدہ )اخلاق پر ہے۔
نبی ﷺ کے عظیم اخلاق کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے بحالت مرض بھی اپنی بیویوں کے درمیان عدل کرنا نہیں چھوڑا، بلکہ اپنے اہل خانہ کی اجازت اور ان کا اپنے حقوق سے دست بردار ہونے کی صورت میں ہی اسے چھوڑا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف پیغام بھیجا، (عائشہ رضی اللہ عنہا کی) مراد اپنے بیماری (کے ایام) میں ، پس وہ جمع ہوگئیں تو آپ نے فرمایا:" بیشک میں طاقت نہیں رکھتا کہ میں تم سب کے درمیان (باری سے ) چلوں تم دیکھو، اگر تم اجازت دو تو میں عائشہ کے پاس رہوں،تو تم یہ کرو "تو انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔(أبو داود وصححه الألباني)
(12)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کی خوشی پسند کرتے تھے:
لوگوں کو خوش کرنا ، ان پر خوشی لانا ایک شرعی مقصد ہے، اور جو جس قدر قریب ہو اس کی اتنی ہی تاکید وارد ہوئی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میں رسول اللہ ﷺ کو خوش طبعی کی حالت میں دیکھا ، تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے لیے اللہ تعالی سے دعا کریں ، تو آپ نے فرمایا:" یا اللہ عائشہ کے گناہ معاف فرمادے ۔ جو گزر چکے اور جو پیچھے رہ گئے ، اور جو اس نے چھپ کر کیے اور جو ظاہر کیے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا اس قدر ہنسیں کہ ہنسنے کی وجہ سے ان کا سر ان کی گود میں جا لگا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" کیا تمہیں میری دعا سے خوشی ہوتی ہے؟"تو میں نے کہا : مجھے کیا ہوگیا ہے کہ مجھے آپ کی دعا سے خوشی نہیں ہوگی؟تو آپ ﷺ نے فرمایا:"اللہ کی قسم میری ہر نماز میں اپنی امت کے لیئے یہ دعا ہوتی ہے"۔ رواه ابن حبان والحاكم وصححه الألباني في "الصحيحة" (2254).
(13)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کو ادب سکھاتے تھے:
رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ جو احساسات سے بھرپور زندگی اور انتہائی اعلی سلوک پر عمل پیرا تھے ، اسکے باجود آپ اپنے رویہ اور تعامل میں حکمت سے کام لیتے تھے، پس جہاں حسن معاشرت زیادہ فائدہ مند ہوتی،تو اس پر عمل پیرا ہوتے، اور جہاں تادیب زیادہ فائدہ مند ہوتی بالخصوص جب کوئی ایسی غلطی ہو جس سے صرف نظر ممکن نہ ہو،تو ادب سکھلاتے ، ڈراتے اور روکتے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے کہا:"آ پ کو صفیہ سے یہ یہ کافی ہے ، ان کی مراد یہ تھی کہ وہ چھوٹے قد والی ہیں ، تو نبی ﷺ نے فرمایا:"تحقیق تو نے ایسی بات کہی ہے ، اگر اسے سمندر کے پانی سے ملایا جائے،تو (یہ بات) اس پر غالب آجائے۔( رواه أَبُو داود والترمذي صححه الألباني )
(14)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے مسائل کا اچھا حل تلاش کرتے تھے:
آپ ﷺ کا اپنے اہل خانہ کےمسائل حل کرنے کا اسلوب شرعی احکامات کے مطابق ہوتا تھا، اس لیے جو آپ حل تلاش کرتے وہ وہیں رک جاتے اور اسی پر راضی ہوجاتے ، اور جب معاملہ اس طرح حل نہ ہوتا ، تو عقلی باتوں سے انہیں سمجھاتے ،اور اس کا حل نکالتے۔
انس بن مالک سے روایت ہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات پہنچی کہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ( ان کے بارے میں ) کہا ہے کہ (صفیہ رضی اللہ عنہا) یہودی کی بیٹی ہے، تو وہ رونے لگ گئیں پس (جب) نبی ﷺ ان کے پاس آئے تو وہ رو رہی تھیں ، فرمایا:" تمہیں کس نے رلایا؟"تو انہوں نے کہا :" حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہےکہ میں یہودی کی بیٹی ہوں"، نبی ﷺ نے ان سے فرمایا:" بیشک تو نبی کی بیٹی ہے، اور بیشک تمہارا چچا نبی تھا ، اور بیشک تم نبی کے تحت ( اسکے عقد میں ) ہو ، تو وہ تم پر کس چیز کے ذریعے فخر کر رہی ہے؟"پھر فرمایا:" اے حفصہ اللہ سے ڈر جاؤ"۔(الترمذي وصححه الألباني)
(15)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے عذر قبول کرتے تھے:
خطائیں سرزد ہوتی رہتی ہیں بالخصوص ان سے جن کے ساتھ آپ روزمرہ کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور عذر قبول کرنا دل کی پاکیزگی اور اندر کی صفائی پر دلالت کرتی ہے، اور رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کون صاف دل ہوسکتا ہے؟
آپ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کا انتظار کر رہے تھے انہوں آنے میں دیر کردی، تو آپ ﷺ نے فرمایا:" تمہیں کس چیز نے روکا؟"تو انہوں نے کہا:" اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں ایک آدمی کی قراءت سن رہی تھی ، میں نے اس سے اچھی آواز والا نہیں سنا"۔ تو نبی ﷺ کھڑے ہوگئے ، یہاں تک کہ طویل مدت تک اسے سنتے رہے، پھر واپس آئے تو فرمایا:" تمام تعریفیں اس اللہ کے لیئے ہیں ، جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے۔( أخرجه البزار وأورده الهيثمي في "المجمع" وقال: رواه البزار، ورجاله رجال الصحيح)۔
(16)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کو خوشخبری دیا کرتے تھے:
آپ ﷺ پسند کرتےتھے کہ اپنے اہل خانہ کو ایسی باتیں بتائیں جس سے وہ خوشی اور مسرت محسوس کریں اور ان کے دل مطمئن اور پر سکون رہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:" کیا تمہیں پسند ہے کہ تم دنیا وآخرت میں میری بیوی ہو؟تو میں نے کہا :" کیوں نہیں"تو آپ ﷺ نے فرمایا:" پس تم دنیا و آخرت میں میری بیوی ہو"َ(رواه الحاكم في المستدرك صححه الألباني)۔
(17)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ انتہائی مشفق تھے:
رسول اللہ ﷺ کا اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ تعامل انتہائی شفقت ، نرمی ، اعلی اخلاق اور کمال پر مبنی ہوتا تھا، جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (4) سورة القلم
ترجمہ: اور بیشک تو بہت بڑے( عمدہ )اخلاق پر ہے۔
اور آپ کے اہل خانہ کا اس میں بڑا وافر حصہ ہوتا تھا۔ 
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ، رسول اللہ ﷺ کا اپنے ساتھ تعامل ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:" میں حالت حیض میں ہوتی اور پیالے سے مشروب پیتی، پھر میں وہ نبی ﷺ کو تھما دیتی تو آپ اپنا منہ میرے منہ رکھنے کی جگہ پر رکھتے، پس وہیں سے پیتے، اور میں ہڈی سے (گوشت ) کھاتی اور میں حالت حیض میں ہوتی، پس میں وہ نبی ﷺ کو تھما دیتی، تو آپ اپنا منہ میرے منہ رکھنے کی جگہ پر رکھتے۔(صحيح النسائي)
(18)    رسول اللہ ﷺ اپنے اہل خانہ کو معاف کر دیتے تھے:
آپ ﷺ تمام معاملات میں نرم خو اور معاف کر دینے والے تھے، غلطی قبول کرتے اگرچہ قصدا کی گئی ہو،بلکہ اس کے لیے عذر تلاش کرتے ، چاہے وہ آپ کے صحابہ سے ہوتی یا آپ کے دشمنوں سے، اور اس درگزری میں بھی آپ کے اہل خانہ کا وافر حصہ تھا، آپ ﷺ دن بھر کی مشقت کے بعد گھر تشریف لے جاتےاور فرماتے:" کیا تمہارے پاس دوپہر کے کھانے میں سے کچھ ہے ؟"تو وہ کہتے : " نہیں" تو آپ ﷺ فرماتے:" بیشک میں روزے سے ہوں (رواہ النسائي وصححه الألباني)۔
نہ ڈانٹتے اور نہ ہی برا بھلا کہتے، بلکہ ایسا ردعمل ہوتا جس سے معلوم ہوتا کہ کوئی بڑی بات نہیں ، اور عمدہ طریقے سے ان کے لیئے عذر تلاش کرتے تھے۔

 

 


خاتمہ
اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ محبت احترام رحمت اور قدر دانی کا تعلق ہوتا ہے ۔عورت سے بطور بیوی محبت کی جاتی ہے ، بطور بیٹی اس پر رحمت کی جاتی ہے اور بطور ماں اس کا احترام کیا جاتا ہے۔
بلکہ اسلام میں عورت جس قدر عمر رسیدہ ہوتی چلی جاتی ہے اسکی قدر ومنزلت اور اس کا احترام بڑھتا چلا جاتا ہے۔
اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان اس لیئے زیادہ پریشانیاں نہیں ہوتیں کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو مکمل کرنے کے لیے پیدا کیئے گئے ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک کی صفات دوسرے سے الگ ہیں ، چناچہ کچھ صفات مرد میں ناقص ہوتی ہیں اور عورت کے ذریعے مکمل ہوتی ہیں، جبکہ کچھ صفات عورت کی ناقص ہوتی ہیں جو مرد کے ذریعے مکمل ہوتی ہیں۔
اسی لیے اسلام نے عورت پر شرعی اور اجتماعی ذمہ داریوں میں سے صرف وہی واجب قرار دی ہیں جو اسکی خلقت سے مطابقت رکھتی ہوں ، چاہے وہ جسمانی ہو یا جذباتی، اور یہی معاملہ مرد کا بھی ہے۔
اسلام نے مرد کے ذمہ اور اسکے حق میں وہ حقوق واجب کیے ہیں جو اسکی طبیعت اور مزاج کے مطابق ہوں اور یہی معاملہ عورت کا ہے۔
اسلام نے مرد اور عورت پر جو توازن واجب قرار دیا ہے اسی توازن کے ذریعے ان دونوں کے درمیان موافقت، اطمینان، سکون اور پیار ومحبت برقرار رہتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے :  وَاللّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ  النحل72
ترجمہ: اللہ تعالی نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں، اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے، اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کودیں، کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟
اسلام جب مرد کو کچھ کاموں کی اجازت دیتا ہے اور عورت کو اس سے منع کرتا ہے یا عورت کوکچھ کاموں کی اجازت دیتا ہے اور مرد کو اس سے منع کرتا ہے تو اس کے پیچھے ان کے جسمانی اور جذباتی کیفیت کا عمل دخل ہوتا ہے۔
اس لیئے کہ یہ تو ظلم ہے کہ آپ کسی انسان کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، اسے کسی ایسے کام کا مکلف بنائیں جس کی اسے استطاعت ہی نہ ہو، مثلا وہ گاڑی جو ڈیزل سے چلتی ہو، آپ اسے پیٹرول سے نہیں چلا سکتے، باوجود اسکے کہ وہ زیادہ جلدی جلتا ہے، اسی طرح اسکے برعکس بھی نہیں کرسکتے۔
ہمارا اپنے اہل خانہ کے ساتھ وہی اخلاق ہونا چاہیئے جسے ہم نے اپنے لیے مثالی شخصیت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس سے لیا ہے، جنہوں نے ہمیں تعلیم دی کہ عوام الناس کے ساتھ بالعموم اور اہل خانہ کےساتھ بالخصوص اچھا تعامل کرنے میں ہمارے لیئے اجروثواب ہے، اور عوام الناس کے ساتھ بالعموم اور اہل خانہ کےساتھ بالخصوص برا تعامل کرنے میں ہمارے لیئے گناہ اور سزا ہے۔
یہ وہ اسلامی اخلاق ہے جسے فی الواقع عمل میں لایا جاسکتا ہے، یہ محض ورقوں پرسیاہی اور خیالی افسانے نہیں ہیں ، جیسا کہ عموما خیالی کہانیوں میں لکھا جاتا ہے، اور حقیقی زندگی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
انصاف سے بتایئے کہ کیا آپ نےاس سے بہتر سلوک اور رویہ دیکھا ہے جو سلوک اور رویہ آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کرتے تھے؟۔
آپ ﷺ کی پیروی میں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے، وہ مسائل جو محض اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق کا علم ہی نہیں ہوتا، وہ حقوق جو اسلامی طرز حیات میں مقرر کیئے گئے ہیں ، جن کی ادایئگی میں کوتاہی کو گناہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مرتکب سزا کا مستحق ٹہرتا ہے، اور ان حقوق کا قیام اور اللہ تعالی کے اوامر کو بجالاتے ہوئے ان کی ادیئگی اللہ تعالی کی محبت اور مغفرت کا سبب بنتی ہے۔
اس کائنات میں اور بعض مسلمانوں میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ جو بھی پریشانیاں اور مشکلات پیدا ہوتی ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع اور آپکی تعلیمات سے اعراض کی بناءپر پیدا ہوتی ہیں ۔
یہ ہی ہمارا اسلامی اخلاق ہے، ایک مکمل اخلاق اور اعلی سلوک ، ہر اس انسان کے ساتھ جو آپ کے اردگرد ہے۔

 
www.islamland.com