فتوا کے بارے میں

تاریخ :

Fri, May 22 2015
سوال

عمل صالح کی شرطیں

اللہ تعالی بندے کاعمل کب قبول فرماتا ہے ؟ اورعمل میں کونسی شروط ہوں کہ وہ صالح اوراللہ تعالی کےہاں مقبول ہوتاہے ؟
جواب
جواب

الحمدللہ

حمدوثنا کےبعد :

کوئی بھی عمل اس وقت تک عبادت نہیں بنتاجب تک کہ اس میں دوچیزیں نہ پائی جائیں ۔

اوروہ دوچیزیں یہ ہےکہ کمال محبت اورکمال تذلل ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ اوروہ لوگ جومومن ہیں وہ اللہ تعالی کی محبت میں بہت سخت ہوتےہیں }البقرۃ /(165)

اوراللہ تبارک وتعالی نےارشادفرمایاہے :

{ یقیناجولوگ اپنےرب کی ہیبت سےڈرتےہیں }المومنون /(57)

اوراللہ تعالی نےاپنےاس فرمان میں اسےجمع کردیاہے :

{ بیشک یہ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتےتھےاورہمارےسامنےعاجزی کرنےوالےتھے }الانبیاء /(90)

توجب اس چیزکاعلم ہوگیاتویہ بھی علم ہوناچاہئےکہ عبادت صرف موحدمسلمان کی ہی قبول ہوتی ہے ۔

جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

{ اورانہوں نےجوعمل کئےتھےہم ہےان کی طرف انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا } الفرقان /(23)

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہابیان کرتی ہیں کہ میں نےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوکہا کہ دورجاہلیت میں ابن جدعان صلہ رحمی کیاکرتااورمسکینوں کوکھاناکھلاتاتھا توکیااسےیہ کام آئےگا ؟ تورسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اسےیہ کوئی نفع نہیں دےگا کیونکہ اس نےایک دن بھی یہ نہیں کہاکہ اےمیرے رب قیامت کےدن میری غلطیاں معاف کردے ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ۔(214)

یعنی وہ بعث ونشوراورقیامت پرایمان نہیں رکھتاتھااورنہ ہی وہ اس لئےعمل کرتارہا کہ وہ اللہ تعالی کےسامنے پیش ہوگا ۔

پھریہ کہ مسلمان کی عبادت اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں بنیادی طورپردوشرطیں نہ ہوں ۔

اول : اللہ تعالی کےلئےاخلاص نیت :

وہ اس طرح کہ بندےکےسارےاقوال وافعال اوراعمال ظاہری اورباطنی سب کےسب اللہ تعالی کی رضااورخوشنودی کےلئےہوں کسی اورکےلئےنہیں ۔

دوم : کہ وہ کام اورعبادت اس طریقےاورشریعت کےمطابق ہوجس کااللہ تعالی نےحکم دیاہے ۔

اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےمتابعت اورپیروی واتباع سےہوگاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےجوکہاہےوہ کیاجائےاورجس سےروکاہےاس سےرک جائےاوران کی مخالفت نہ کی جائےاورنہ ہی کوئی ایسی نئی عبادت یاطریقہ ایجادکرلیاجائےجوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت نہ ہو ۔

اوران دونوں شرطوں کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے:

{ توجسے بھی اپنےرب سےملنےکی امیدہےاسےچاہئےکہ وہ نیک اعمال کرےاوراپنےرب کی عبادت میں کسی کوبھی شریک نہ کرے } ا کہف ۔/(110)

ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کاقول ہے:

{ توجسے بھی اپنےرب سےملنےکی امیدہے } یعنی اس کےثواب اوراچھی جزااوربدلے کی { اسےچاہئےکہ وہ نیک اعمال کرے } یعنی جوکہ اللہ تعالی کی شریعت کےموافق ہوں { اوراپنےرب کی عبادت میں کسی کوبھی شریک نہ کرے } اوروہ اس سےصرف اللہ تعالی وحدہ لاشریک کاچہرہ اور رضاچاہتاہو۔

توقبول عمل کےیہ دوضروری ارکان ہیں کہ وہ اللہ تعالی کےلئےخالص اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کےمطابق ہوناچاہئے ۔ا ھـ

انسان جتنازیادہ اپنےرب اوراس کےاسماءاورصفات کاعلم رکھتاہوگااتناہی اس میں اخلاص زیادہ ہوگااورجتنازیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی سنت کاعلم رکھتاہوگا اس میں اتنی ہی اتباع اورفرماں برداری زیادہ ہوگی ۔

دنیاوآخرت میں کامیابی وکامرانی کاحصول بھی اخلاص اورمتابعت وفرماں برداری سےہی ہےہم اللہ تعالی سےدعاگوہیں کہ وہ ہمیں دنیاوآخرت کی کامیابی نصیب فرمائے۔آمین ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد