Ibeere

مہر زيادہ ہونے كے نقصانات و مفاسد

عورت كے اكثر ولى امر اور ذمہ داران عورتوں كا مہر بہت زيادہ طلب كرتے ہيں اور شادى كے ليے اخراجات اتنے زيادہ كرنے كا مطالبہ كرنے ہيں جو خاوند كى استطاعت سے باہر ہوتے ہيں جس كى بنا پر اسے بہت زيادہ قرض كا بوجھ برداشت كرنا پڑتا ہے، اور اكثر نوجوانوں كے ليے يہ چيز شادى ميں ركاوٹ بنتى ہے اور وہ شادى نہيں كرتے، ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

Idahun
Idahun

الحمد للہ:

سوال نمبر ( 10525 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ شريعت اسلاميہ نے مہر كم اور آسان ركھنے كى تلقين كى ہے اور اسى ميں خاوند اور بيوى دونوں كى مصلحت پائى جاتى ہے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب سے بہتر نكاح وہ ہے جو آسان ہو "

اسے ابن حبان نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3300 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور پھر اس مسئلہ ميں علماء كرام نے بھى بہت سارى كلام كى ہے، اور مہر زيادہ ہونے كے نتيجہ ميں ہونے والے نقصانات اور مفاسد كو بھى بيان كيا ہے، ان علماء ميں شيخ محمد بن ابراہيم بھى شامل ہيں اس مسئلہ ميں ان كا ايك طويل اور مفصل فتوى ہے جس ميں درج ذيل كلام درج ہے:

" ان اشياء ميں جس ميں لوگ حد سے تجاوز كر چكے ہيں حتى كہ اس ميں اسراف اور فضول خرچى اور ايك دوسرے سے فخر تك جا پہنچے ہيں وہ ( مسئلہ مہر زيادہ كرنا ) اور لباس اور وليمہ كى تقريب ميں بہت زيادہ اخراجات كر كے اسراف و فضول خرچى كرنا شامل ہے.

عقل و دانش اور علم ركھنے والے علماء نے ايسا كرنے سے بچنے كا كہا ہے، كيونكہ يہ بہت سارى خرابيوں كا باعث بنتا ہے جن ميں اكثر عورتوں كا غير شادى شدہ رہنا شامل ہے كيونكہ مرد شادى كے اخراجات كے متحمل نہيں ہوتے، اور اس سے بہت سارى خرابياں اور فساد جنم ليتے ہيں... ميں نے اس موضوع كو ہر طرف سے ديكھا اور غور كيا تو مجھ پر درج ذيل نتيجہ واضح ہوا كہ:

1 ـ مہر كم ركھنا اور خاوند پر اتنے اخراجات ڈالنا جس كا وہ متحمل ہو سكتا ہے شرعى طور پر يہى حكم ہے اور قديم اور جديد علماء كا اس پر اتفاق ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ سنت بھى ہے.

2 ـ جب خاوند پر اتنا مہر ڈالا جائے جس كا وہ متحمل نہيں اور قادر نہيں اور نہ ہى اس كى حالت كے مناسب ہے تو وہ اس سے انكار كرنے اور اسے روكنا كا حق ہے؛ اس ليے كہ اس نے ايك ايسا عمل كيا جو مكروہ اور ناپسند ہے.

اور چاہے وہ مہر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مہر سے بھى كم ہو، صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كيا ميں نے ايك انصارى عورت سے شادى كى ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے فرمايا:

" كيا تم نے اسے ديكھا ہے، كيونكہ انصار كى عورتوں كى آنكھوں ميں كچھ ہوتا ہے ؟

اس نے عرض كيا: ميں نے اسے ديكھا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس سے كتنے مہر ميں شادى كى ہے ؟

تو اس نےعرض كيا: چار اوقيہ ميں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" چار اوقيہ ميں! لگتا ہے كہ تم لوگ اس پہاڑ سے چاندى نكالتے ہو! ہمارے پاس تو وہ كچھ نہيں ہے جو ہم تمہيں ديں، ليكن يہ ہے كہ ہم تمہيں كسى مہم پر روانہ كريں تو تمہيں وہاں سے كچھ مل جائے.

راوى كہتا ہے: چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنو عبس كى طرف ايك پارٹى روانہ كى اور ان ميں يہ شخص بھى شامل تھا...

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1424 ).

امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كى شرح ميں كہتے ہيں:

اس كلام كا معنى يہ ہے كہ: خاوند كى حالت كى مناسبت سے مہر زيادہ ہونے كى كراہت ہے " اھـ

3 ـ اس ميں كوئى شك نہيں كہ شادى ايك مشروع اور مرغوب امر ہے، اور غالب حالت ميں يہ وجوب اور فرضيت كى حد تك پہنچ جاتى ہے، اور مہر زيادہ ہونے كى بنا پر اكثر لوگ اس مشروع يا مستحب كو بھى نہيں پہنچ پاتے.

اور يہ معلوم ہے كہ جس كے بغير كوئى واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ امر بھى واجب ہوتا ہے، لہذا اس سے يہ اخذ كيا جائيگا كہ مہر ميں زيادتى كرنے سے لوگوں كو روكنا اور اس كى طرف راہنمائى كرنا مشروع ہے كہ مہر زيادہ كر كے وہ لوگوں پر اللہ تعالى كى جانب سے واجب كردہ امر ميں حائل نہ ہوں.

اور خاص كر مہر ميں كمى كرنا كسى خرابى كا باعث نہيں، بلكہ اسى ميں خاوند اور بيوى كى مصلحت بھى ہے، بلكہ يہ تو شارع كو محبوب اور مرغوب ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

4 ـ جب كوئى مناسب اور برابر كا رشتہ آ جائے اور لڑكى اس رشتہ پر راضى بھى ہو تو لڑكى كے ولى كا اپنى شخص طمع و لالچ يا اسراف و فخر كى بنا پر مہر زيادہ طلب كر كے لڑكى كى شادى ميں ركاوٹ ڈالنا شرعا جائز نہيں، بلكہ يہ تو اس ركاوٹ و تنگ كرنے اور روك كر ركھنے ميں شامل ہوتا ہے جو شرعى طور پر ممنوع ہے جس پر تكرار كے ساتھ عمل كرنے سے فاسق ہو جاتا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم نے اس مشكل كو حل كرنے كى كوشش كرتے ہوئے ايك حل پيش كيا اور كہا ہے كہ: جب ولى اپنى ذمہ دارى ميں موجود لڑكى كى مناسب اور برابر كے رشتہ سے شادى ميں ركاوٹ ڈالى اور شادى نہ كى اور وہ لڑكى اس شادى پر راضى بھى ہو تو اس ولى كى ولايت و ذمہ دارى ختم ہو جائيگى اور اس كا ولى اس كے بعد ولا شخص بن جائيگا.

مثلا اگر لڑكى كا والد اس كے دينى اور اخلاقى طور پر مناسب رشتہ سے شادى نہ كرے اور لڑكى بھى اس رشتہ پر راضى ہو اور اس ميں رغبت ركھتى ہو، تو پھر اس كے بعد اس كا قريبى شخص يعنى اس كے بھائيوں يا چچا ميں يا كوئى اور اس كى شادى كريگا جو ولى ہونے اہل ہو "

5 ـ مہر ميں زيادتى اور غلو كرنے ميں اكثر شادى كرنے والوں كے ليے بہت قوى ركاوٹ ہے، اور اس كے نتيجہ ميں جو بہت سارى خرابياں پيدا ہو رہى ہيں، اور مردوں اور عورتوں ميں بہت برائياں پيدا ہو رہى ہيں، اور پھر وسائل كو غايت كا حكم ہے، اور شريعت مطہرہ نے مصلحت كے حصول اور اس كى تكميل كا خيال ركھا ہے، اور خرابيوں كو جڑ سے كاٹنے اور اس كو بالكل كم كرنے كى كوشش كى ہے، اور اگر صرف سد ذرائع ہى كے اعتبار سے حرام كاموں كو روكنے كى كوشش ميں ہى مہر كو كم كيا جائے تو بھى كافى ہے.

6 ـ مہر زيادہ ہونے كى وجہ سے جو خرابياں پيدا ہوئي ہيں وہ كسى پر مخفى نہيں كتنى ہى عفت و عصمت كى مالك آزاد عورتوں كو اس كے ولى نے شادى سے رو ك ركھا اور اس پر ظلم كرتے ہوئے بغير شادى اور اولاد كے چھوڑ ديا ہے.

اور كتنى ہى ايسى عورتيں ہيں جو اس كے باعث شيطان كے ہتھے چڑھ كر اپنى عزت و عصمت كو گنوا بيٹھيں اور وہ اپنے اور اپنے گھر والوں كے ليے ذلت و عار كا سبب بن گئيں جو اللہ كے غضب كا سبب ہے !!

اور كتنے ہى ايسے نوجوان ہيں جنہيں اسباب نے تھكا كر ركھ ديا اور وہ اتنے لمبے چوڑے اخراجات كى استطاعت نہ ركھ سكے جس كى اللہ نے كوئى دليل نازل نہيں كى، چنانچہ انہيں شيطان اور برے دوستوں نے اپنے جال ميں پھنسا ليا حتى كہ انہيں گمراہ كر كے خسارہ و گندگى ميں ڈال ديا، اس طرح ا سكا خاندان بھى نقصان اٹھايا، اور اس كى اپنى زندگى بھى تباہ ہو گئى بلكہ اس نے اپنى امت و وطن كا بھى خسارہ كيا، اور اپنى دنيا و آخرت بھى تباہ كر لى.

7 ـ مہر زيادہ كرنے كے نقصانات ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس سے نوجوان لڑكيوں اور لڑكوں ميں اميديں پورى نہ ہونے كى وجہ سے نفسياتى امراض پيدا ہو رہے ہيں.

8 ـ اس كے نقصانات ميں يہ بھى شامل ہے كہ: استطاعت و طاقت سے زيادہ شادى كے اخراجات خاوند كے دل ميں اپنى بيوى سے عداوت پيدا كرتا ہے كيونكہ وہ اس كى وجہ سے مالى تنگى اور مشكلات كا شكار ہوا، حالانكہ شادى كا ہدف اور مقصد تو سعادت كى زندگى ہے نا كہ شقاوت و بدبختى.

9 ـ اگر زيادہ مہر ميں عورت اور اس كے ولى كے ليے مصلحت ہوتى تو اس كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى خرابياں اس مصلحت سے زيادہ ہيں اگر بالفرض يہ مصلحت پائى جائے، اور شرعى قاعدہ اور اصول ہے كہ خرابي كو دور كرنا مصلحت كو لانے پر مقدم ہے.

ـ رہا وہ قصہ جو عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جب انہوں نے چار سو درہم سے زيادہ مہر ركھنے سے منع كيا تو ايك قريشى عورت كہنے لگى:

اے امير المومنين آپ لوگوں كو چار سو درہم سے زيادہ مہر ركھنے سے منع كر رہے ہيں كيا آپ نے اللہ عزوجل كا يہ فرمان نہيں پڑھا:

﴿ اور تم نے انہيں خزانہ ديا ہو ﴾النساء ( 20 ).

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: يا اللہ ميں معافى و بخشش كا طلبگار ہوں سب لوگ عمر سے زيادہ فقيہ ہيں، پھر واپس آ كر منبر پر كھڑے ہوئے اور كہنے لگے:

لوگوں ميں نے تمہيں عورتوں كو چار سو درہم سے زيادہ مہر دينے سے منع كيا تھا، چنانچہ جو بھى اپنے مال ميں سے جو پسند كرتا اور دينا چاہتا ہے وہ دے "

تو عورت كا عمر رضى اللہ تعالى عنہ پر اعتراض كرنے والى روايت كے طرق ايسے ہيں جن ميں مقال ہے، اس ليے وہ قابل حجت نہيں، اور نہ ہى يہ اوپر بيان كى گئى ثابت شدہ نصوص كے معارض ہيں، اور خاص كر جبكہ كسى نے بھى صحابہ كرام سے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى مخالفت اور انكار نقل نہيں كيا، صرف اسى عورت سے منقول كيا جاتا ہے" انتہى

كچھ كمى و بيشى كے ساتھ شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.

ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم ( 10 / 187 - 199 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب