Question

کیا کوئی جنت یا جہنم میں داخل ہونے کے بعد باہر آسکتا ہے؟اورکفار کے رفاہی کاموں کا کیا حکم ہے؟

سورہ "ہود" کی آیت نمبر (106، 107) کے متعلق سوال نمبر (21365) کا جواب دینے والے مشائخ کا انتہائی احترام کرتے ہوئے سوال یہ ہے کہ آپ نے ذکر کیا کہ جہنمی ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے، اور کبھی باہر نہیں نکل پائیں گے، جبکہ میں نے "صحیح بخاری "میں (كتاب 2 ، 12 , 72) پڑھا ہے کہ کچھ جہنمیوں پر اللہ تعالی احسان کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل کردیگا ، اس لئے کہ ان کے دل میں کچھ نہ کچھ ایمان ہوگا، تو ان دونوں میں سے کون سی بات ٹھیک ہے؟ اور اگر دونوں ہی ٹھیک ہیں تو ہم ان میں کیسے تطبیق دے سکتے ہیں؟ تو کیا سورہ "ہود "کی آیت کا یہ مطلب ہے کہ جن لوگوں نے نیک کام کئے ہونگے وہ اپنی نیکی کا بدلہ پا نے کیلئے جنت میں جائیں گے اور پھر آخر کار جہنم میں جائیں گے؟ اور اگر اسکا مطلب یہ نہیں ہے تو "مدر ٹریسا"جیسے ان کفار کا کیا بنے گا جنہوں نے اپنی زندگیاں انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کردیں، اور پھر انکی موت انہی کافر ممالک میں ہوئی ؟
Answer
Answer

الحمد للہ:

پہلی بات:

ہماری ویب سائٹ پر نشر ہونے والے جوابات کا باقاعدگی اور پھر گہری نظر سے مطالعہ کرنے پر سائل محترم کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں،اور جو انہوں نے سوال کیا ہے، -جس سے ظاہری طور پر تعارض ہی لگ رہا ہے- یہ اُنکی علم دوستی کی علامت ہے، اور ان شاء اللہ اس سے انہیں فائدہ بھی ہوگا۔

دوسری بات:

سوال میں مذکور حدیث اور جس جواب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے، اسکی تفصیل یہ ہے کہ: جہنمی لوگوں کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: وہ موحّد لوگ جنہوں نے اچھے برے دونوں اعمال کئے ہیں ، اللہ تعالی انہیں گناہوں کی وجہ سے جہنم میں ڈالے گا اور یہ اسکی مشیئت ہے کہ انہیں عذاب ملے۔

اس قسم کے جہنمیوں کیلئے عذاب محدود مدت کیلئے ہوگا، اور یہ مدت کتنی ہوگی یہ اللہ تعالی ہی جانتا ہےاور وہی مدت مقررکریگا، پھر انہیں جہنم سے نکال کر ہمیشہ کیلئے جنت میں داخل کردیگا ۔

یہی وہ لوگ ہیں جنکا ذکر ان احادیث مبارکہ میں ہوا ہےجو آپ نے سوال میں ذکر کی ہیں، کہ کچھ لوگ عقیدہ توحید کی وجہ جہنم سے نکالے جائیں گے، اور یہی لوگ مسلمانوں میں سے جہنم کے حقدار ہونگے۔

دوسری قسم:

کفار، اور منافقین کی ہے، جن کے پاس عقیدہ توحید نہیں ہے، اور انکی موت کفر وشرک اور نفاق و الحاد پر ہوئی۔

اس قسم کے لوگوں کا عذاب سرمدی ہوگا، اللہ تعالی نے انہیں احکام الٰہیہ پر عمل پیرا نہ ہونے کی صورت میں ہمیشہ آگ میں رہنے کی وعید سنا دی تھی،چنانچہ انہوں نے کفر اختیار کرنے کی وجہ سے اپنے لئے ہمیشہ کی آگ اختیار کی۔

اور یہی لوگ سورہ ہود کی آیات میں مراد ہیں، اور انہی لوگوں کا اس جواب میں ذکر ہے جسکی طرف آپ نے سوال کی ابتدا میں اشارہ کیا ہے۔

تیسری بات:

مندرجہ بالا بیان کے بعد ، یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ آگ میں داخلہ صرف ایک ہی گروہ کا نہیں، بلکہ دونوں گروہوں کا ہوگا، لیکن ان میں سے ایک کو جہنم سے نکال لیا جائے گا اور وہ ہیں ایسے موحّد ہونگے جنہوں نے اچھے برے دونوں عمل کئے ہونگے، جسکی وجہ سے وہ جہنم کا مستحق ٹھہرے، جبکہ دوسرے گروہ کو جہنم سے نہیں نکالا جائے گا، اور یہ وہ لوگ ہونگے جنہوں نے کفر کیا اور اسی پر انکا خاتمہ ہوا۔

جبکہ جنت میں داخلہ صرف ایک ہی گروہ کا ہوگا، اور وہ ہیں موحّدین، چنانچہ جب ایک بار کوئی بندہ جنت میں داخل ہوگیا تو کبھی بھی جنت سے باہر نہیں نکالا جائے گا، بلکہ ناز و نعم کی زندگی ہوگی، کبھی بھی بد بختی اور تکلیف کا سامنا نہیں ہوگا، نہ موت آئے گی، اور بیمار بھی نہیں ہونگے، اور بڑھاپا بھی نہیں آئےگا، پھر یہ نعمتیں ملنے کے بعد کبھی بھی ختم نہیں ہونگی۔

جب آپ کو یہ بات سمجھ آگئی کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں: اہل ایمان جو کہ سعادت مند ہیں اور اہل کفر جو کہ بدبخت ہیں، پھر آپکو قرآن مجید کی آیات سمجھنے میں آسانی ہوگی، کہ جہاں کہیں جہنم میں ابدی دخول کا ذکر ہے ان سے مراد کفار ہیں جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِين مِنَ النَّارِ ) البقرة / 167

ترجمہ: اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال اس طرح دکھلائے گا کہ وہ ان پر حسرتوں کا مرقع بن جائیں گے۔ اور وہ دوزخ سے (کسی قیمت پر بھی) نکل نہ سکیں گے۔

ایسے ہی ( يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنْهَا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ ) المائدة/ 37

ترجمہ: وہ چاہیں گے کہ کسی طرح دوزخ سے نکل جائیں مگر نکل نہ سکیں گے کیونکہ انہیں ہمیشہ رہنے والا عذاب ہوگا۔

جبکہ سعادت مند اہل ایمان کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ فیصلہ کردیا ہےکہ وہ کبھی بھی جنت سے نہیں نکلیں گے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ[47] لا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ ) الحجر/47- 48

ترجمہ: ان کے دلوںمیں اگر کچھ کدورت ہوئی بھی تو ہم اسے نکال دیں گے اور وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے[47]نہ انھیں وہاں کوئی مشقت اٹھانا پڑے گی اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔

مزید تفصیل کیلئے درج ذیل سوالات کے جوابات بھی ملاحظہ فرمائیں:

31174 ) اور ( 26792 ) اور ( 45804 )۔

چوتھی بات:

جب یہ واضح ہوگیا تو یہ بھی سمجھ لیں کہ اگر کافر کوئی نیکی کا کام کرتا ہے، جس پر اسے ثواب ملنا چاہئے؛ تو اسے دنیا ہی میں اسکا بدلہ دے دیا جاتا ہے، جبکہ آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ہے، اس لئے کہ کفر کی وجہ سے اسکے اعمال آخرت میں کوئی فائدہ نہیں دے گے، کیونکہ عمل کی قبولیت کیلئے اسلام شرط ہے۔

طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر اہل شرک میں سے کوئی شخص نیکی کرے تو اسے دنیا ہی میں اجر دے دیا جاتا ہے، مثلاً : صلہ رحمی کرے، سوالی کو دے ، یا کسی لاچار پر ترس کھائے، یا اسی طرح کے دیگر رفاہی کام کرے، اللہ تعالی اسکے عمل کا ثواب دنیا ہی میں دے دیتا ہے، اور اس عمل کے بدلے میں معیشت، اور رزق میں فراخی ڈال دیتا ہے، اسکی آنکھوں کو نم نہیں ہونے دیتا، اور دنیاوی تکالیف دور کردیتا ہے،وغیرہ وغیرہ، جبکہ آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ہے"

" تفسير طبری " ( 15 / 265 )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"قاضی عیاض نے کہا: "اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ کفار کو انکے اعمال فائدہ نہیں دینگے، اور نہ ہی ان اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا، اور نہ ہی انکی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی، اگرچہ کچھ کفار کو دیگر کفار کی بہ نسبت کم یا زیادہ عذاب ملے گا"

" فتح الباری " ( 9 / 48 )

یہ بات بھی ذہن نشین رہےکہ اللہ تعالی انکے کسی بھی رفاہی کام کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ انہیں اسی دنیا میں اسکا بدلہ دے دیگا، لیکن آخرت میں کچھ ملنے والا نہیں، جبکہ مؤمن کے اعمال کا ثواب اسے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ملے گا۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک جب کافر کوئی بھی نیکی کا عمل کرتے تو اسے دنیا کی نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں، جبکہ مؤمن کیلئے اسکی نیکیاں آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کی جاتی ہیں، اور دنیا میں اطاعت گزاری کی وجہ سے اسے رزق بھی عنائت کیا جاتاہے) مسلم ( 2808 )

ایک روایت میں ہے:

(اللہ تعالی کسی مؤمن کی ایک نیکی کوبھی کم نہیں کریگا اور اسکے بدلے میں دنیا میں بھی دیگا اور آخرت میں اسکی جزا عنائت کریگا، جبکہ کافر کو دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے کھلا پلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اسکے لئے کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی جس پر اسے جزا بھی دی جائے)

یہ بھی بات یاد رہے کہ دنیا میں جزا ملنا قطعی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ وہ بھی اللہ کی مشیئت پر منحصرہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

( مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ ) الإسراء/ 18

ترجمہ: جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں ۔

شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ہم نے جس مسئلے کیلئے دلائل قرآن وسنت کی روشنی میں دئیے ہیں کہ کافر کو صلہ رحمی، مہمان نوازی، پڑوسی کا خیال، مصیبت زدہ لوگوں کی مدد وغیرہ جیسے نیک اعمال کا صلہ دنیا ہی میں مل جاتا ہے، یہ تمام کا تمام اللہ کی مشیئت پر منحصر ہےاور اللہ تعالی نے یہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں فرمایا ہے: ( مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ ) الإسراء/18

چنانچہ یہ آیت کریمہ دیگر آیات و احادیث کیلئے مقیدہ ہے، اور اصول یہ ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب حکم اور سبب دونوں ایک ہوں، جیسے یہاں پر ہے"

" تفسیر أضواء البيان " ( 3 / 450 )

اور جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالی کفار میں سے جسے چاہے اس دنیا میں اسکا بدلہ دے دیتا ہے "ٹریسا" کو یہ بھی نہیں ملے گا - اس کا اصلی نام آگنیس گونکسا بوجاکسیو (Agnes Gonxha Bojaxhiu)ہے، مقدونیا سے تعلق رکھتی ہے، اور 1997ء میں فوت ہوئی- اس لئے کہ یہ عیسائی راہبہ تھی، اور فقراء ، جلاوطن، اور بیماروں کی مدد کو عیسائی بنانے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرتی تھی، اور انہیں اپنے مذہب میں داخل کرتی تھی، اور اس قسم کے کام کو "نیکی"تصور نہیں کیا جاسکتا، اور جو کچھ اسے اس دنیا میں کھانے پینے کیلئے ملا وہ اسکے اعمال کا بدلہ نہیں تھا، بلکہ وہ سب کچھ اللہ کی طرف سے بطور کفالت تھا، جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:

( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هََذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ) البقرة/ 126

ترجمہ: اور جب ابراہیم نے یہ دعا کی کہ : ''اے میرے پروردگار! اس جگہ کو امن کا شہر بنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔'' اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ''اور جو کوئی کفر کرے گا تو اس چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسےبھی دوں گا مگر آخرت میں اسے دوزخ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے''

حاصل کلام یہ ہوا کہ کفار کے اعمال دنیا کے اعتبار سے دو اقسام کے ہیں:

پہلی قسم: دنیا میں جتنے بھی نیکی کے کام کئے، وہ انہیں بطورِ عبادت نہیں کرتا، جیسے ، صلہ رحمی، مہمان نوازی وغیرہ، تو یہی اعمال حدیث میں مراد ہیں کہ اللہ تعالی چاہے تو کافر کو دنیا میں اسکے اعمال کا بدلہ دے دے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اسے دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے میں کھلا پلا دیا جاتا ہے، یعنی: وہ کام جو اس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے کئے، اور انکی درستگی کیلئے نیت کرنے کی ضرورت نہیں، جیسے : صلہ رحمی، صدقہ، غلام آزاد کرنا، ضیافت کرنا، اور دیگر خیرات وغیرہ کرنا۔

" شرح مسلم " ( 17 / 150 )

دوسری قسم: یہ ہے کہ دنیاوی کاموں کا ہدف اپنے مذہب کی اشاعت ہو، اور مسلمانوں کو انکے دین سے پھیرنا مقصود ہو، تو ایسے اعمال مذکورہ حدیث میں داخل نہیں ہیں، بلکہ ایسا کرنے والے شخص کیلئے سخت ترین وعید ہے، اس لئے کہ وہ اللہ کے دین سے لوگوں کو روک رہا ہے، اور لوگوں کی مجبوری، تنگ دستی، اور بیماری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرر ہا ہے، بعینہ یہ کام "ٹریسا" اور اس جیسے دیگر عیسائی مشنریوں نے کیا۔

جبکہ ایسے اعمال جن کا تعلق دین سے ہو اور نیت اس میں شرط ہو، جیسے حج عمرہ اور دعا وغیرہ تو ایسے کام کرنے پر کافر کو کوئی اجر نہیں ملے گا، نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں؛ کیونکہ اسکا عمل ہی باطل ہے، اس لئے کہ قبولیت کی شرائط ہی ناقص ہیں، اور وہ ہیں: اسلام، اخلاص ، اور اتباع النبی، بلکہ کفر تو ویسے ہی تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے، جس کی وجہ سے قیامت کے دن ان کے اعمال کوئی فائدہ نہیں دینگے۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب