قرآن کریم کس نے لکھا اوراسے کیسے جمع کیا گیا ؟
Vastus
الحمد للہ1 – اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآ ن کریم کی حفاظت اپنے ذمہ لیتے ہوۓ فرمایا ہے :{ بیشک ہم نے ہی قرآن کی نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں } الحجر ( 9 ) ۔
ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
اللہ تعالی کافرمان ہے کہ{ بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل فرمایا ہے } اور وہ ذکر قرآن ہے { اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والےہیں } اللہ تعالی نے اس میں یہ فرمایا ہے کہ ہم قرآن کی حفا ظت کرنے والے ہیں کہ کہیں اس میں باطل کا اضافہ نہ کر دیا جاۓ یا پھر اس کے احکام و حدود اور فرائض میں سے کچھ کمی نہ کردی جاۓ ۔ تفسیر الطبری ( 14 / 8 )
اور شیخ السعدی رحمہ اللہ تعالی اپنی تفسیر ميں کہتے ہیں کہ :
{ بیشک ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے } یعنی قرآن کو نازل کیا جس میں ہرچيزکے کا ذکر ہے مسائل اورواضحہ دلائل وغیرہ اور اسی طرح اس میں سے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کے لۓ نصحیت بھی ہے ۔
{ اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں } یعنی وقت نزول اور نزول کے بعد بھی ، تو نزول کی حالت میں ہم نے اسے ہر شیطان مردود سے جو کہ چوری چھپے سننے والا ہے سے محفوظ رکھا ہے ، اور نزول کے بعد اللہ تعالی نے اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے سینوں میں محفوظ کیا ، اور اللہ تعالی نے اس کے الفاظ کو زیادتی اور نقصان اور اس کے معانی کو تغیر تبدل سے محفوظ رکھا ہے ، تو اس کے معانی میں تحریف کرنے والا کوئ بھی تحریف کرتا ہے تو اللہ تعالی ایسے علماء پیدا فرما دیتا ہے جو کہ حق کو بیان کرتے ہیں ۔
تو اللہ تعالی کی یہ سب سے عظیم نشانی اور نعمت ہے جو کہ اس نےاپنےمومن بندوں پر کی ہوئ ہے ، اور قرآن کی یہ بھی حفاظت ہے کہ اللہ تعالی اس پر عمل کرنے والوں کو ان کے دشمنوں سے محفوظ رکھتا اور ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط نہیں ہونے دیتا ۔ اھـ
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن تئیس ( 23 ) برس میں تھوڑا تھوڑا کرکے بوقت ضرورت نازل کیا گیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ اور قرآن کو ہم نے تھوڑ تھوڑا کرکے اس لۓ اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائيں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا } الاسراء ( 106 ) ۔
شیخ شعدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ :
یعنی : ہم نے یہ قرآن فرق کرنے والا بنا کر نازل کیا ہے جو کہ حق وباطل اورھدایت وگمراہی کے درمیا ن فرق کرنے والا ہے ۔
{ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائيں } یعنی مہلت کے ساتھ تاکہ وہ اس کے معانی پر غوروفکراور تدبر کر سکیں اور اس کے علوم کا استخراج کریں ۔
{ اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا } تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس برس میں نازل کیا ۔ اھـ تفسیر السعدی ص ( 760 )۔
2 - : عرب میں لکھائ اور کتابت بہت ہی کم کی جاتی تھی ، اور اللہ تعالی نے انہیں اسی وصف سے نوازتے ہوۓ فرمایا ہے :
{ اللہ وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا } الجمعۃ ( 2 ) ۔
تو وہ لوگ قرآن کریم کو اپنے سینوں میں حفظ کرتے تھے اور ان میں سے بہت ہی ایسے تھے جو کہ بعض آیات اور سورتیں چمڑے اورباریک پتھروں وغیرہ پر لکھ لیا کرتے تھے ۔
3 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں قرآن کریم کے علاوہ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا ، اور انہیں اپنی کلام لکھنے سے مؤقتا روک دیا تھا حتی کہ صحابہ کرام کی ہمتیں قرآن کریم کے حفظ اور اس کی کتابت پربندھ جاۓ ، اور اس لۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا اللہ تعالی کی کلام قرآن کریم کے ساتھ اختلاط نہ ہو جاۓ اور قرآن کریم زیادتی و نقصان سے محفوظ رہے ۔
4 - : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےامین اورفقہاء صحابہ کرام کی ایک جماعت کووحی لکھنے کی ذمہ داری سونپی رکھی تھی ، اور وہ صحابہ اپنے تراجم میں کاتب وحی کے ساتھ اس طرح معروف نہیں جتنے کہ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابی سفیان اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ تعالی عنہم معروف ہیں ۔
5 - : قرآن کریم سات لغات ولہجات میں اتارا گیا جیسا کہ عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ صحیح بخاری ( 2287 ) صحیح مسلم ( 818 ) اور یہ لغات اور لہجات فصاحت میں معروف ہیں ۔
6 - : خلیفہ اول ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک قرآن کریم صحابہ کرام کے سینوں اور چمڑے وغیرہ پر باقی اور محفوظ رہا ، اس کے بعد مرتدین کے ساتھ لڑائيوں میں بہت سے حفاظ صحابہ کرام شھید ہوگۓ تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کو ڈر پیدا ہوا کہ کہیں قرآن کریم صحابہ کرام کے سینوں میں ہے نہ رہ کر ضائع ہو جاۓ ، تو انہوں نے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ مکمل قرآن کریم کو ایک کتاب میں جمع کیوں نہ کرلیا جاۓ تا کہ وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہے ، تو یہ کام انہوں نے حفاظ میں سے زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے ذمہ لگایا ۔
اس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے کچھ یوں کیا ہے :
زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ یمامہ کے بعد میری طرف پیغام بھیجا ( میں جب آیا تو ) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ عمررضی اللہ تعالی میرے پاس آ کر کہنےلگے کہ جنگ یمامہ میں قرآء کرام کا قتل ( شہادتیں ) بہت بڑھ گیا ہے ، اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوسرے ملکوں میں بھی قرآء کرام کی شہادتیں نہ بڑھ جائيں جس بنا پر بہت سا قرآن ان کے سینوں میں ان کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا ، اور میری راۓ تو یہ ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم جاری کردیں ۔
تومیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟
تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم یہ ایک خیر اور بھلائ ہے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ بار بارمیرے ساتھ یہ بات کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے اس بارہ میں میرا شرح صدرکردیا ، اور اب میری راۓ بھی وہی ہے جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے ۔
زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ تم ایک نوجوان اور عقل مند شخص ہو ہم آپ پر کوئ کسی قسم کی تہمت بھی نہیں لگاتے ، اور پھرتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ، تو تم قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو ۔
زید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قسم اگر وہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئ پہاڑ منتقل کرنے کا مکلف کرتے تو مجھ پر وہ اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا کہ قرآن کریم جمع کرنے کا کام بھاری اور مشکل تھا ، میں کہنے لگا تم وہ کام کیسے کروگے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ خیر اوربھلائ ہے ، تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے میرا بھی شرح صدر کردیا جس طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا شرح صدر ہوا تھا ، تو میں قرآن کریم کو لوگوں کے سینوں اور چھال اور باریک پتھروں سے جمع کرنا شروع کردیا حتی کہ سورۃ التوبۃ کی آخری آیات ابو خزیمۃ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کسی اور کس پاس نہ پائ { لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم ۔۔۔ } ( تمہارے پاس ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تم میں سے ہے جسے تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں کزرتی ہے ۔۔ ) ۔
تو یہ مصحف ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر ان کے بعد تاحیات عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس اور ان کے بعد حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہما کے پاس رہے ۔
العسب : کھجور کی ٹہنی کو کہتے ہیں اس کی چھید اس کی چوڑائ میں لکھتے تھے ۔
اور اللخاف ، باریک پتھر کو کہتے ہیں ۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ خود بھی حافظ قرآن تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے قرآن کریم کے ثبوت کے لۓ ایک خاص منھج اختیار کیا تو وہ اس وقت تک کوئ آیت نہیں لکھتے تھے کہ جب تک دوصحابی یہ گواہی نہ دے دیں کہ انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔
تویہ مصحف خلفاء کے ھاتھ میں خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور تک رہا ، اور صحابہ کرام مختلف ممالک میں پھیل چکے اور وہاں وہ قرآن ان سات لہجوں میں ہی پڑھتے تھے جن میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ، تواس طرح ان کے شاگرد اسی طرح پڑھتے جس طرح کہ اس کے شیخ اور استاد نے اسے پڑھایا تھا ۔
جب ایک شاگرد اپنے ہم عصر بھائ کو قرآن کسی اور لہجے میں پڑھتا ہوا دیکھتا وہ اسے غلط کہتا اور اس کا انکار کرتا یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا تو صحابہ کرام کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ تابعین اور ان کے بعد آنے والوں کے درمیان فتنہ نہ پیدا ہوجاۓ اس لۓ انہيں یہ خیال آیا کہ لوگوں کو صرف قریش کے لہجہ پر جمع کردیا جاۓ جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے تاکہ اختلاف کو مٹایا اور اس کی جڑ ہی ختم کردی جاۓ ، عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اس موافقت کردی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہما عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آۓ جو کہ آرمینیا اورآذربائجان کو فتح کرنے کے لۓ اہل عراق کے ساتھ مل کر شامیوں سے غزوہ کر رہے تھے حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قرآت ميں ان کے اختلاف نے گھبراہٹ میں ڈال دیا تھا ۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے اے امیر المؤمنین اس امت کو کتاب اللہ میں یھودیوں اور عیسائیوں کی طرح اختلاف کرنے سے پہلے ہی پکڑ لیں ، تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ام المؤمنین حفصہ رضي اللہ تعالی عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ مصحف دو تاکہ ہم اس کے نسخے تیار کرنے کے بعدیہ مصحف آّ پ کو واپس دے دیا جاۓ گا ، عثمان رضي اللہ تعالی عنہ نے زید بن ثابت ، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن عاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ھشام کو مصحف کے نسخے تیار کرنے کا حکم دیا ، اور اس گروہ میں سے تین قریشیوں کو یہ کہا کہ اگر تم اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ قرآن کی کسی چیزمیں اختلاف کرو تو اسے قریش کے لغت میں لکھو کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے ، توانہوں نے ایسے ہی کیا ۔
جب نسخے تیار ہوچکے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالی کو واپس کردیا ،اور ان نسخوں میں سے ہرایک طرف ایک نسخہ بھیج دیا اور یہ حکم دیا کہ اس نسخہ کے علاوہ ہر مصحف اور صحیفہ جلا دیا جاۓ ۔
ابن شہاب زھری کہتے ہیں کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے مصحف نسخ کرتے وقت سورۃ الاحزاب کی ایک آیت نہ ملی جو کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا جب ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ ہمیں خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے ملی ( من المؤمنین رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ ) تو ہم نے مصحف میں سورۃ الاحزاب میں ملا دیا ۔
تو اس طرح اختلاف کی جڑ کاٹ دی گئ اور ایک ہی کلمہ بن اور قرآن کریم لوگوں کے سینوں میں تواتر کے ساتھ محفوظ رہا اور قیامت تک رہے گا ، تو یہی وہ اللہ تعالی کی حفاظت ہے جو اللہ تعالی کے اس فرمان کا مصداق ہے :
{ بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں } الحجر ( 9 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .
الاسلام سوال وجواب