Question

کیا بیوی کےساتھ سونا سوتے وقت وضوء کے متعارض ہے

سونے سے قبل وضوء کرنا سنت ہے ، خاوند اوربیوی جو کہ ایک ہی بستر پرسوئيں ان کے بارہ میں میرے خیال میں یہ سنت نہیں ہے ، اس بارہ میں میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں اللہ تعالی آپ کوجزائے خير عطا فرمائے ۔

Answer
Answer

الحمد للہ :

بلکہ ایسا کرنا سنت ہے جس پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں :

علی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اورفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کوفرمایا :

( جب تم اپنے بستر پر آؤ یا پھر تم اپنے بستر پر لیٹ جاؤ توتیتیس 33 بار اللہ اکبر ، تیتیس 33 بار سبحان اللہ ، تیتیس 33 بار الحمد للہ کہو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2945 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2727 ) ۔

اورایک دوسری روایت میں ہے کہ :

فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توہم اپنے بستر میں لیٹ چکے تھے ، میں نے اٹھنا چاہا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانےلگے دونوں ہی اپنی جگہ پر رہو ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی ٹھنڈک اپنے سینہ میں محسوس کی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3502 ) ۔

تواس حدیث کا منطوق صریح ہے جواس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خاوند اوربیوی کا ایک ہی بستر میں سونا سنت ہے ، ہوسکتا ہے کہ سائل کے ذہن میں جواشکال پیدا ہوا ہے وہ اس طرح ہو کہ جب مرد وضوء کرتا ہے تواس کے بعد وہ اوراس کی بیوی ایک ہی بستر میں سوئيں تو ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لگنا ضروری ہے جس سے وضوء ختم ہوجائے گا ، تو پھر اس وقت وضوء کا کوئي فائدہ نہ ہوا ۔

تواب عورت کوچھونے سے وضوء ٹوٹتا ہے کہ نہیں اس مسئلہ کوپیش کرنا چاہیے ؟

اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے اوراس میں کئي ایک اقوال ہيں ، اوراس میں سبب اختلاف آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے :

فرمان باری تعالی ہے :

{ یاتم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اورتمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو } النساء ( 43 ) ۔

اہل علم میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہاں پر ملامسہ سے مراد ہاتھ سے خاص ہے ، اورایک گروہ کہتا ہے کہ ملامسہ سے مراد ہم بستری اور جماع ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :

{ پھر تم انہیں چھونے سے قبل ہی طلاق دے دو }

اورایک جگہ پراس طرح فرمایا :

{ اگرتم انہیں چھونے سے قبل ہی طلاق دے دو } ۔

اورانہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ عورت کوطلاق دی جائے تواسے پورا مہر چھونے سے واجب نہیں ہوگا بلکہ اس کے ساتھ جماع اوردخول کرنے سے مکمل مہر واجب ہوگا ۔

علی بن ابی طالب ، ابی بن کعب ، ابن عباس ، رضي اللہ تعالی عنہم اورمجاھد ، طاووس ، حسن ، عبید بن عمیر ، سعید بن جبیر ، امام شعبی ، قتادہ ، مقاتل بن حیان ، اورامام ابوحنیفہ رحمہم اللہ تعالی سب سے یہی قول مروی ہے ۔

دیکھیں : نیل المرام من تفسیر آیات الاحکام تالیف نواب صدیق حسن خان ( 1 / 314 - 316 ) ۔

دلیل کے اعتبار سے بھی راجح آخری قول ہی ہے ، عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا :

نبی صلی اللہ علیہ وضوء کرتے اورپھر بوسہ لینے کے بعد وضوء کیے بغیر ہی نماز پڑھتے لیتے تھے ۔ دیکھیں نصب الرایۃ ( 1 / 72 ) نیل المرام تالیف نواب صدیق حسن خان ( حاشیہ 318 - 322 ) ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوجاتی تھی اورمیری ٹانگیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ میں ہوتی تھیں ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کرنا ہوتا تو مجھے ہاتھ لگاتے تو میں اپنی ٹانگیں اکٹھی کرلیتی ، اورجب وہ قیام میں کھڑے ہوجاتے تومیں پھر لمبی کرلیتی ۔

وہ بیان کرتی ہیں کہ اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے ۔ صحیح بخاری ( 1 / 588 ) حدیث نمبر ( 513 ) ۔

تویہ دونوں حدیثیں اس پر نص ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوتے تھے اوراس کی وجہ سے وضوء کی تجدید نہیں کرتے تھے ، اورپھر انہوں نے دوران نماز بھی چھویا تواس طرح سنت نبویہ جوکہ کتاب اللہ کی شرح اوربیان و تفسیر ہے اس پر دلالت کرتی ہے کہ صرف عورت کوچھولینے سے وضوء نہیں ٹوٹتا ، لیکن اگرچھونے سے مذی یا منی کا اخراج ہوجائے توپھر وضوء ٹوٹ جائے گا ۔

جب سائل نےاس مسئلہ میں راجح چيز کوجان لیا ہے تو پھر ان شاء اللہ اشکال بھی جاتا رہا اوروہ حیرانی کے چکروں میں سے بھی نکل جائے گا ، اللہ تعالی ہی مدد گار ہے ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد