عقد نکاح کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ تو نماز میں سستی کرتا اورعورتوں سے میل جول رکھتا ہے
میں نے دو برس قبل xxx کی طرف سفر کیا اورمیرے والدین نے میرا عقدنکاح بھی کردیا لیکن ابھی تک خاوند نے دخول نہیں کیا ، لیکن یہ معاملہ اس لیے ہوا کہ یہاں امریکہ میں جتنا جلد ممکن ہوآیا جاسکے ، اوراس لیے بھی کہ اگر محرم نہ ہو تو ہم اکٹھے گھوم پھر سکیں ۔
لیکن کچھ سال گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ایسے پریشان کن معاملات کا علم ہو جن کا علم پہلے نہیں تھا ، شادی سے قبل مجھے یا بات بالتاکید کہی گئي تھی کہ وہ نمازی اورایک صالح شخص ہے ، لیکن مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ ایسا نہیں بلکہ وہ صرف جمعہ کی نماز ادا کرتا ہے ۔
میں یہ نہیں چاہتی کہ وہی غلطی کروں جومیں نے دوسروں کو کرتے ہوئے دیکھا ہے ، خاوند اوربیویوں کے مزاج مختلف ہونے کے باوجود میرے والدین نے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے ، اوروہ اس موضوع میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی نہیں کرتے ، مجھے یہ علم نہيں کہ میں اس شادی کو برقرار رکھوں یا کہ ختم کردوں ، اگر میں غلطی پر ہوئي تومجھے کس طرح علم ہوگا ؟
Answer
الحمدللہ
جب عقدنکاح ولی اوردوگواہوں کی موجودگی میں شرعی طور پر مکمل ہوا ہو تو عورت مرد کے لیے بیوی بن جاتی ہے ، تواس پر بیوی ہونے کے ناطے وہی حقوق ہیں جو دوسری بیویوں پر ہوتے ہیں ، اورخاوند پر بیوی کے حقوق میں سے اس کا نان ونفقہ ، رہائش ، اورلباس اوراستمتاع وغیرہ جو کہ بیوی کے لیے واجب حقوق ہيں وہ بھی خاوند کے ذمہ ہوں گے ۔
اگر خاوند بے نماز ہے اورپانچوں نمازوں کی ادائيگي نہیں کرتا تو وہ کافر ہے اوراس کا نکاح باطل ہے چاہے وہ نماز جمعہ کی ادائيگي بھی کرتا ہو ، اوراس کا غلط اوربےحیائي کی جگہ پر جانا اوراس کی کمپنی میں مرد عورت کا اختلاط پایا جانا یہ اس طرح کہ گناہ ہیں کہ ان سے اسے توبہ کرنی چاہیے لیکن اس سے نکاح فسخ نہیں ہوگا لیکن اگر اس میں بھی بیوی اوراولاد کو نقصان اور ضرر ہو تو پھر نکاح فسخ ہوگا ، کیونکہ جلب مصلحت پر درء مفاسد مقدم ہے ۔
بہر حال موضوع میں اہم چيز تو نماز ہے ، اس لیے یہ تاکید ضرور کرلینی چاہیے کہ خاوند نمازی ہے کہ نہیں کیونکہ بے نماز کافر ہے اورمسلمان عورت کے لیے کافر کی عصمت میں بیوی بن کر رہنا صحیح نہیں ۔.