دریاؤں کے گرنے کی جگھیں(سنگم)
ارشاد ربانی ھے:"و هو الذى مرج البحرين هذا عذب فرات وهذا ملح أجاج وجعل بينهما برزخاً وحجراً محجوراً."(سورة الفرقان آية53)
ترجمة:اور وہ ایسا ھے جس نے دریاؤں کوملایا جن میں ایک کا پانی شیریں پیاس بجھانے والا، اور ایک کا سور تلخ ھے اور انکے درمیان میں (اپنی قدرت سے) ایک حجاب اور ایک مانع قوی رکھ دیا ۔
سائنسی حقیقت:
آٹھویں صدی میں سمندری علوم کے متعلق جو پہلی کتاب منظر عام پر آئی اس میں ابتدائی معلومات تھی پھر بحری علوم جدید سائنس میں اپنا مقام بنانے لگے، جب برطانوی کشتی چیلنجر نے 1873ء سے 1876ء تک دنیا کاسفر کیا اس کےبعد سمندری انکشافات کیلئے مسلسل سائنسی اسفار ھونے لگے اور بیسویں صدی کے اواخر میں دور کی تصویر کشی اور سٹلائٹ کےذریعہ انسان کو سمندر کو سمجھنے کی مزید امیدیں نظر آنے لگی اور بہت سے سمندروں اور دریاؤں کے سنگموں کو تحقیق کرنے کےبعد محققین اس نتیجہ پر پھونچے کہ سنگم کی جگہ کا ما حول سمندر کے مد وجزر خشکی وسیلاب، اور پانی کا آپس میں ملنے کے با وجود اپنی طبیعی اور نمو کی صفات میں یکسر مختلف ھوتا ھے۔ گویا کہ کوئی دیوار ھے ، ارشاد ربانی ھے:"و هو الذى مرج البحرين هذا عذب فرات وهذا ملح أجاج وجعل بينهما برزخاً وحجراً محجوراً."(سورة الفرقان آية53)
ترجمة:اور وہ ایسا ھے جس نے دریاؤں کوملایا جن میں ایک کا پانی شیریں پیاس بجھانے والا، اور ایک کا سور تلخ ھے اور انکے درمیان میں (اپنی قدرت سے) ایک حجاب اور ایک مانع قوی رکھ دیا ۔
سائنسی حقیقت:
آٹھویں صدی میں سمندری علوم کے متعلق جو پہلی کتاب منظر عام پر آئی اس میں ابتدائی معلومات تھی پھر بحری علوم جدید سائنس میں اپنا مقام بنانے لگے، جب برطانوی کشتی چیلنجر نے 1873ء سے 1876ء تک دنیا کاسفر کیا اس کےبعد سمندری انکشافات کیلئے مسلسل سائنسی اسفار ھونے لگے اور بیسویں صدی کے اواخر میں دور کی تصویر کشی اور سٹلائٹ کےذریعہ انسان کو سمندر کو سمجھنے کی مزید امیدیں نظر آنے لگی اور بہت سے سمندروں اور دریاؤں کے سنگموں کو تحقیق کرنے کےبعد محققین اس نتیجہ پر پھونچے کہ سنگم کی جگہ کا ما حول سمندر کے مد وجزر خشکی وسیلاب، اور پانی کا آپس میں ملنے کے با وجود اپنی طبیعی اور نمو کی صفات میں یکسر مختلف ھوتا ھے۔ گویا کہ کوئی دیوار ھے ، جو سنگم کے ما حول کو سمندر اور دریا کےماحول سےجدا رکھتی ھے۔ اور باوجود مدوجزر اور خشکی وسیلاب کے شدید عوامل کے وہ اس جگہ کی الگ خصوصیات کو محفوظ رکھتی ھے اور زندہ کائنات کے اعتبار سے جو اس میں زندگی گزارتے ھیں ان تینوں ما حول کو تقسیم کرتے وقت معلوم ھوتا ھے کہ سنگم کی جگہ زندہ کائنات کے بیشتر حصہ کی بنیاد ھے چونکہ یہ کائنات نمایاں خصوصیات والے سنگم کے مقام پر ھی زندہ رہ سکتی ھے اور ٹھیک اسی طرح یہ مقام ان کائنات جانداروں کیلئے ممنوع ھوتا ھے جو سمندر اور دریا میں زندگی گزارتے ھیں چونکہ یہ جاندار خصوصیات کے مختلف ھونے کی وجہ سے اس میں داخل ھوتے ھی مر جائیں گے ۔
سبب اعجاز:
پانی کا ھر مجموعہ بحر کہلاتا ھے بہت میٹھے بحر کو نھر کہتے ھیں۔ اورخوب ملاحت والے بحر کو سمندر یادریا کہتے ھیں۔ اسی طرح سے سنگم کا پانی ان دونوں سے خارج ھے کیونکہ اس کے اندر ملاحت اورشیرینی دونوں چیزیں جمع ھیں ۔ لہذا اس کو نہ تو شیریں اور نہ توکھارا پانی کہا جا سکتاھے ان اوصاف سے پانی کے مجموعہ کی تین قسمیں ھوگئیں، نہر کا پانی، سمندر کا پانی، دونوں کے درمیان سنگم کا پانی، جس کیلئے آیت کریمہ میں برزخ یا حاجز کا لفظ استعمال کیا گیا ھے جو سمندر کی ملاحت کی صفت کو نھر پر یا نھر کی شیرینی کی صفت کو سمندر پرغالب نھیں آنے دیتا اور سنگم کا ما حول ممتاز ھوتا ھے چونکہ وہ ایک حجاب ھے جس میں زندہ جاندار ھیں اور جن کا نکلنا نھر یا سمندر کےجانوروں کے ساتھ ممنوع ھے اس کا مطلب یہ ھےکہ طبعی صفات اور زندہ جانداروں کے اعتبار سے تینوں ماحول مختلف ھوتے ھیں
سمندری علم کے سفر کےتاریخی ترقی سے پتہ چلتا ھے کہ چار سو سال پہلے سمندروں کے متعلق اتنی دقیق معلومات نھیں تھیں اس کے باوجود قرآن کریم نے پوری باریک بینی کے ساتھ سنگموں کا تذکرہ کیا ھے اور بتایا کہ اس کا ماحول اس کی خاص طبعی خصوصیات کی وجہ سے نھر اور سمندر کے ما حول سے مختلف ھے اور اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ باوجود پانی کے آپس میں ملنے اور سمندری جہت میں اس کے متحرک رھنے کے باوجود وہ خصوصیات باقی رھتی ھیں ، قرآن کریم میں بغیر جدید سائنس اور اس کے آلات کے ذریعہ یہ علم کہاں سے آ گیا اگر یہ قرآن اس ذات باری کی طرف سے نھیں ھے جس کا علم ھر چیز پر محیط ھے؟
© Copyright Islam land أرض الإسلام . All Rights Reserved 2017