اسلام قبول کرنے کے لیے نصرانی عورت کا تردد اور اپنے خاندان سے اپنے تعلقات کے بارہ میں سوال
میں ایک عیسائی عورت ہوں اورایک مسلمان شخص سے محبت کرتی اوراس سے شادی کرنا چاہتی ہوں ، اس نے میری اسلام کی طرف راہنمائی کی حتی کہ میں نے اسلام کے دین صحیح ہونے کے علمی دلائل بھی دیکھے ، اب میں نہ تومسلمان ہوں اورنہ ہی عیسائی رہوں ہوں بلکہ ایک درمیانے موقف کی مالک بن چکی ہوں ۔
میں حقیقتا اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں اور حقیقی طور پر اس کی کوشش بھی کررہی ہوں ، پہلے میں حقیقتا بہت زيادہ عیسائیت پر قائم تھی لیکن اب مجھے اس کا شعور بھی نہیں رہا ، اورمیرا خاندان بھی میرے اسلام قبول کرنے پر راضی ہے اگرچہ یہ بات مجھے اچھی لگتی ہے اور میں ان شاء اللہ عنقریب اسلام بھی قبول کرلوں گی ۔
لیکن مجھے ایک پریشانی ہے جو مجھے اطمنان اورمیری رغبت پوری کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئي ہے ، اوراگر مجھے اسلام قبول کرتے وقت اطمنان محسوس نہ ہوا تومیں یہ محسوس کرونگی کہ میں نے صرف اسلام اس لیے قبول کیا ہے تا کہ اس مسلمان شخص سے شادی کرسکوں ، لیکن میں یہ نہیں چاہتی بلکہ میں تو یہ چاہتی ہوں کہ اسلام صرف اللہ تعالی کے لیے قبول کروں ، اوراب میں اپنے اس معاملہ میں گھری ہوئي ہوں تومجھے کیا کرنا چاہیے ؟
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ :
کیا میں اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے غیر مسلم خاندان سے مل سکتی ہوں ؟
میں نے ایک اسلامی ویب سائٹ پر پڑھا ہے کہ اگرخاوند اپنی بیوی کو اپنی ناپسندیدہ جگہ پر جانے سے منع کردے یا پھر جن اشیاء کووہ نہيں چاہتا ان سے اپنی بیوی کومنع کردے توبیوی کو اس کی اطاعت کرنا پڑتی ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے خاندان سے بہت زيادہ محبت کرتی ہوں اوروہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں ، اسی لیے انہوں نے میرے قبول اسلام میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی ،اورمیں بھی یہ نہیں چاہتی کہ انہيں چھوڑوں اوروہ مجھے چھوڑنا نہیں چاہتے ۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے وضاحت سے یہ بتائيں کہ کیا میرے لیے ممکن ہے کہ میں ان سے مل سکوں ، اوران کی تہواروں میں ان کے ساتھ شرکت کرسکوں ؟
اورکیا میں ان کے تہواروں پر ھدیہ اورتحفہ کا تبادلہ کرسکتی ہوں مثلا کرسمس وغیرہ کے تہواروں پر ؟
Answer
اول :
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جیسی عورت کو اسلام قبول کرنے میں کسی بھی قسم کا تردد زيب نہيں دیتا اورنہ ہی آپ کے لائق ہے کہ آپ قبول اسلام میں تردد کریں ، کہ جس کے پاس کلام کا اتنا اچھا اوربہتر اسلوب ہو ، اورعقل و حکمت بھی رکھتی ہو کہ غلط اورصحیح کیا ہے ، بلکہ آپ کوتو اپنے علاوہ جو کہ حیران اورصراط مستقیم سے ہٹ چکے ہیں ان کے ایک راہنمائي کرنے والی ہونا چاہیے ۔
آپ کویہ علم ہونا چاہیے کہ آپ کے قبول اسلام کے پختہ عزم اورآپ کے درمیان صرف اورصرف شیطان حائل ہے ، اوروہی ہے جو آپ کو اس قسم کے واہمے اوروسوسوں سے دوچار کررہا ہے کہ آپ کا مسلمان ہونا ذاتی اطمنان کی وجہ سے نہیں ، اوراس سے تم مطمئن نہیں ہوسکتی ، اوراس کے علاوہ دوسرے قسم کے وسوسے وغیرہ جوآپ کے ذہن اورعقل میں پیدا ہورہے ہیں ، جن کی بنا پر آپ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے کا فیصلہ کرنے میں تردد کا شکار ہيں ۔
آپ کا قبول اسلام صرف اورصرف اللہ تعالی کے لیے ہے ، اوروہ مسلمان توصرف اس میں ایک سبب کی حيثیت رکھتا ہے اوروہ اس طرف ایک راہ بنا ہے ، اورکسی بھی آدمی پر یہ عیب نہیں لگایا جاسکتا یہ کسی ایسی عورت کے لیے مسلمان ہوا جو کہ اسے نصیحت کرنے والی اوراس کی راہنمائی کرنے والی ہو ۔
اوراسی طرح کسی عورت پر بھی یہ عیب نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ کسی ایسے مرد کے سبب سے اسلام قبول کررہی ہے جواسے وعظ و نصیحت کرتا اوراس کی صحیح راستے ہی راہنمائي کرتا ہو ، آپ کے سامنے دین اسلام میں واقع شدہ ایک عورت کا ایسا قصہ رکھتے ہیں جس کی کوئي مثال اورنظیر نہیں ملتی ، یہ اس امت کے نوادرات میں شامل ہوتا ہے ، اس واقعہ اورقصہ میں آپ مکمل طور پر غور وفکر کریں :
انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ابوطلحہ نے ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کوشادی کا پیغام دیا توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
اے ابو طلحہ اللہ تعالی کی قسم تیرے جیسے مرد کوواپس نہیں کیا جا سکتا ، لیکن تو ایک کافر شخص ہے ، اورمیں مسلمان عورت ہوں میرے لیے یہ حلال نہیں کہ میں تیرے ساتھ شادی کرسکوں ، لیکن اگر تومسلمان ہوجائے تومیری شادی کا یہی مہر ہوگا ، اس کےعلاوہ میں کسی اور چيز کا مطالبہ نہیں کرتی ، توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ مسلمان ہوگئے اوران کی شادی کا مہر بھی اسلام ہی تھا ۔
ثابت رحمہ اللہ تعالی جو کہ انس رضي اللہ تعالی عنہ کے شاگرد ہیں کہتے ہیں کہ میں نے کسی بھی عورت کے بارہ میں نہیں سنا کہ اس کا مہر ام سلیم کے مہر سے اچھا اورقیمتی ہو ۔
ام سلیم کے ساتھ ابوطلحہ کی شادی ہوگئي اوران سے ان کی اولاد بھی ہوئي ۔
سنن نسائي حدیث نمبر ( 3341 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن نسائی میں اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔
آپ یہ جان لیں کہ آپ کے دل کی تہوں تک ایمان بہت ہی جلد داخل ہوجائے گا ، اوریہ ساری کی ساری دنیا اس عظیم نعمت میں گزری ہوئي ایک گھڑی کے برابر بھی نہیں ہوسکتی ، اسلام میں تو کچھ لوگ صرف مال حاصل کرنے کے لیے داخل ہوتے تھے لیکن ان کے دلوں میں بھی اسلام کی محبت بہت ہی جلدداخل ہوجاتی اوروہ اسلام سے محبت کرنے لگتے تھے ، اورپھر وہ اسی اسلام کی وجہ سے لڑائیاں لڑتے اوراس کے لیے اپنی سب سے قیمتی اشیاء اوراپنے آپ کوبھی قربان کرڈالتے تھے ۔
توآپ پر بھی یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے نفس سے مجاھدہ کریں اوریہ علم میں رکھیں کہ شیطان چاہتا ہے کہ آپ کووہ اس سعادت اور دین فطرت اوردین عقل سے دور رکھے ، آپ دین اسلام میں داخل ہوکر وہ دین اختیار کریں گی جوکہ آدم اورابراھیم ، اورموسی ، اور مسیح عیسی علیھم السلام جمیعا کا دین تھا ، یہ وہی دین ہے جو کہ دین فطرت کہلاتا ہے اوراسی دین پر سب لوگوں کوپیدا کیا گيا ہے ۔
اوراس سارے کے سارے جہان کا صرف اورصرف ایک ہی رب اورالہ ہے اس کا کوئي شریک نہیں ، وہی توحید اورعبادت کا مستحق ہے ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی وہی کچھ دے کر مبعوث کیا گيا ہے جو کہ پہلے انبیاء اوررسل کودے کر مبعوث کیا گيا تھا ۔
لھذا آپ بھی انبیاء اوررسل کے متبعین کے گروہ میں شامل ہوجائيں جس سے آپ کودنیا اورآخرت میں سعادت ملے گی ۔
دوم :
اسلام آپ کواپنے خاندان سے ملاقات کرنے سے نہیں روکتا ، بلکہ اسلام تو آپ کوان کی وصیت کرے گا تا کہ آپ ایک مسلمان عورت کے لیے آپ ایک اچھی مثال بن سکیں ، اوران کے قبول اسلام میں آپ ان کا تعاون کریں اورمددگار ثابت ہوسکیں ، اورپھر لوگوں میں سے سب سے اولی اس لائق توآپ کے خاندان والے ہیں کہ وہ بھی اس عظیم نعمت میں آپ کے ساتھ شامل ہوں ۔
اسماء بنت ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتی ہيں میرے پاس قریش سے معاہدہ کی مدت کے دوران( یعنی صلح حدیبیہ کی مدت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ لڑائي نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا ) میری والدہ آئيں جوکہ ابھی مشرکہ ہی تھیں ، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارہ میں سوال کرتے ہوئے ان سے کہا :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میری والدہ آئي ہیں اوروہ رغبت بھی رکھتی ہے توکیا میں اس سے صلہ رحمی کروں ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی اورحسن سلوک کرو ۔ صحیح بخاری اورصحیح مسلم حدیث نمبر ( 1003 ) ۔
تودیکھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دے رہے ہیں کہ مسلمان اپنے خاندان کے ان لوگوں سے بھی صلہ رحمی کرے دین اسلام پر نہيں ، بلکہ اگرچہ وہ لوگ اسے اپنے دین کی دعوت دیں اوراسے مشرک بنانے کی کوشش بھی کیوں نہ کریں لیکن اسلام اسے یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان کی بات تسلیم کرتے ہوئے اپنے دین کوہی بدل کر مشرک بن جائے ، بلکہ اسے یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان سے صلہ رحمی اورحسن سلوک کرے اورنرم رویہ کے ساتھ پیش آئے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ہم نے انسان کواس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے اسے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اوراس کی دودھ چھڑائي دو برس میں ہے ، کہ تو میری اوراپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر ، ( تم سب کو) میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے ۔
اوراگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کر جس کا تجھے علم بھی نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا ، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا اوراس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو ، تمہارا سب کا میری ہی طرف ہے ، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کردوں گا } لقمان ( 14 - 15 ) ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے گھراورخاندان والوں کودعوت دینے کا اہتمام کیااوران کے پاس جاتے اوردعوت دین دیتے حتی کہ آّپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کوبھی دعوت دی اوراس کے پاس گئے جبکہ وہ موت کے آخری سانس لے رہا تھا اوراس پر اسلام پیش کیا ۔
تواس لیے آپ کے لیے کوئي اپنے خاندان والوں کوملنے میں کوئي چيز مانع نہیں ، اوریہ سب کچھ آّپ اپنے خاوند کے ساتھ مل کر اور متفق ہوکر کریں ، اورآپ اس زيارت اورملنے کو انہیں خیر اورحق کی دعوت دینے میں استعمال کریں اوران کے ہاتھ پکڑ کرانہیں نجات کی راہ دکھائيں ۔
اس طرح کی زيارت اورملاقات میں حرام تو وہ ہے جس میں مرد وعورت کا اختلاط ہو اوریا پھر اجنبی مردوں سے مصافحہ وغیرہ اوریا ان کے تہواروں میں شرکت ، آپ پر یہ کوئي مخفی نہیں کہ اسلام جو احکام لايا ہے اس میں لوگوں کے لیےدنیاوی اوراخروی دونوں مصلحتیں ہيں ۔
ان کے ساتھ تحفہ تحائف کے تبادلے میں بھی کوئي حرج نہیں ، اورہوسکتا ہے کہ یہ چيز ان کی لیے تالیف قلب کا باعث اورسبب بنے اوراس کی بنا پر وہ اسلام کی طرف راغب ہوجائيں ، جب یہ تحفے ان کے دینی تہواروں پر ہوں تو ان کا قبول کرنا جائز نہیں ، اورنہ ہی ان موقعوں پر انہيں تحفے دینا ہی جائز ہیں ، اس لیے کہ ایسا کرنے میں باطل پر ان کی اعانت اورمدد ہے اوران کے اس فعل پر رضامندی کا اظہار ہے ۔
آپ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 1130 ) کے جواب کا بھی مرجعہ کریں ۔
واللہ اعلم .