About the fatwa

Date :

Fri, Apr 17 2015
Question

خاوند كے سامنے بلند آواز ميں بولتى تھى اب اللہ سے وعدہ كيا ہے كہ ايسا نہيں كريگى

ميں جوان لڑكى ہوں اور تين ماہ قبل ميرى شادى ہوئى ہے، ميں خاوند سے بہت زيادہ محبت كرتى ہوں اور وہ بھى مجھے بہت چاہتا ہے، ليكن افسوس كے ہمارے مابين ايك مشكل پيدا ہو چكى ہے، مجھے جب غصہ آتا ہے تو ميں سارى محبت بھول جاتى ہوں اور اسے عار دلاتى اور اس كے سامنے بلند آواز سے چيختى اور اپنے آپ كو مارتى ہوں، اور خاوند كے ليے بددعا كرنا شروع كر ديتى ہوں، اور اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم تك نہيں كہہ سكتى.
ليكن اس كے مقابلہ ميں خاوند مجھے ٹھنڈا كرنے كى كوشش كرتا ہے، اور ميں اس كا كوئى جواب نہيں ديتى اور نہ ہى ٹھنڈا ہوتى ہوں، جب چيخ چلا كر تھك جاتى ہوں تو پھر ٹھنڈا ہوتى ہوں.
ميں نے اپنے رب سے وعدہ و عہد كيا كہ اب ميں اپنے خاوند كے سامنے كبھى نہيں چيخوں چلاؤں گى، ليكن افسوس كہ ميں اپنا وعدہ پورا نہيں كر سكى پھر ايسا كرنا شروع كر ديتى ہوں، مجھے يہ بتائيں مجھ پر اپنے رب اور خاوند كے بارہ ميں كيا واجب ہوتا ہے، حالانكہ ميں نے خاوند سے معذرت بھى ليكن ميرا اسلوب وہى رہتا ہے كہ جب بھى كوئى مشكل ہوتى ہے ميں خاوند كے سامنے چيخنا چلانا شروع كر ديتى ہوں.
برائے مہربانى مجھے بتائيں اللہ سبحانہ و تعالى كى طرف رجوع كرنے كے بعد اس كا حل كيا ہے، ميں ايسا كبھى نہيں چاہتى، كيونكہ ميں نماز و روزہ كى پابند ہوں اور قرآن مجيد كى تلاوت بھى كرتى ہوں، ليكن غصہ بہت آتا ہے، ميرا اخلاق بھى اچھا نہيں، ماضى ميں اپنے والدين كى نافرمان رہى ہوں اور توبہ كر كے ميں نے والدين كو راضى بھى كر ليا ہے تو كيا كہيں يہ اس كى سزا تو نہيں يا كيا ہے ؟

Answer
Answer

الحمد للہ:

اول:

ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو بردبارى اور اخلاق حسنہ سے نوازے، اور آپ اور آپ كے خاوند كے مابين محبت و الفت اور زيادہ پيدا كرے.

دوم:

" مشروع يہى ہے كہ خاوند ايك دوسرے سے محبت و مودت اور پيار و نرمى سے مخاطب ہوں، اور آپس ميں ازدواجى روابط كو اور مضبوط كريں، اور ہر ايك دوسرے كے سامنے چيخ و پكار كرنے سے اجتناب كرے، اور ايسى كلام و بات مت كرے جو دوسرے كو ناپسند ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت سے پيش آؤ }النساء ( 19 ).

اور بيوى كو اپنے خاوند كے سامنے اپنى آواز بلند كر كے چيخ و پكار نہيں كرنى چاہيے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ان عورتوں كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ اور مردوں كو ان پر فضيلت حاصل ہے }البقرۃ ( 228 ).

ليكن خاوند كو اس كا علاج اچھے اور بہتر طريقہ سے كرنا چاہيے تا كہ جھگڑا زيادہ نہ ہو " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 247 ).

سوم:

آپ كو يہ ادراك ہونا چاہيے اور يہ مدنظر ركھيں كہ ابھى آپ كى ازدواجى زندگى كى ابتدا ہے، اور آپ كى جانب سے خاوند كے سامنے چيخ و پكار اور اس پر غصہ ہونا اور خاوند كے خلاف بددعا كرنا جيسے فعل كا صادر ہونا تو كسى بھى حالت ميں صحيح نہيں، اور خاص كر اس مرحلہ ميں جب آپ كى شادى كى ابتدا ہے ايسا نہيں ہونا چاہيے.

كيونكہ ايسا كرنے سے ہو سكتا ہے خاوند كو آپ سے ايسى نفرت پيدا ہو جائے جو كبھى ختم ہى نہ ہو، اور وہ آپ سے شادى كرنے پر نادم ہو جائے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس كا آپ كے ساتھ معاملہ بھى تبديل ہو جائے اور آپ كے بارہ ميں نظريہ بھى بدل جائے، اس ليے آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے اس ميں تكرار سے اجتناب كرنے كى كوشش كريں.

چہارم:

غصہ كا علاج چند ايك امور سے كيا جا سكتا ہے:

ـ جب غصہ محسوس ہو تو اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھا جائے.

ـ جس حالت ميں غصہ محسوس ہو تو اس حالت كو تبديل كر ليا جائے؛ جب كھڑے ہو تو بيٹھ جائيں.

ـ آپ صبر و تحمل اور بردبارى اور غصہ پينے كے اجروثواب كا شعور حاصل كريں، كہ يہ متقين كى صفت ہے جن سے جنت كا وعدہ كيا گيا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 70235 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

پنجم:

اپنے خلاف بددعا كرنا انسان كے ليے جائز نہيں ہے كيونكہ امام مسلم رحمہ اللہ نے ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث روايت كي ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنے خلاف بددعا مت كرو، اور اچھى دعا كيا كرو كيونكہ تم جو كچھ كہتے ہو فرشتے اس پر آمين كہتے ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 920 ).

اور ايك دوسرى حديث ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ روايت كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اپنے ليے بددعا مت كرو، اور نہ ہى اپنى اولاد كے ليے بددعا كرو، اور نہ ہى اپنے مال كے ليے بددعا كرو، كيونكہ اگر وہ قبوليت كا وقت ہوا تو تمہارى دعا قبول ہو جائيگى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 3014 ).

اس ليے انسان برا بولنے اور اولاد كے ليے بددعا كرنے كى بنا پر اولاد كے ليے شر و برائى كھينچ كر لے آتا ہے.

ششم:

اگر آپ نے اپنے رب سے عہد كيا تھا كہ آئندہ خاوند كے سامنے نہيں چيخ و پكار نہيں كرينگى ليكن پھر آپ نے اس عہد كو توڑ ديا تو آپ پر قسم كا كفارہ دينا لازم آتا ہے؛ كيونكہ اہل علم كى ايك جماعت كے ہاں عہد قسم كى جگہ ہے.

امام زہرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى اللہ سے كوئى عہد كيا اور پھر اس عہد كو توڑ ديا تو اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا چاہيے "

ديكھيں: المدونۃ ( 1 / 580 ).

اور ان كا كہنا ہے:

" يہ قول ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما اور عطاء بن ابى رباح اور يحى بن سعيد رحمہم اللہ كا ہے " انتہى

مزيد آپ سوال نمبر ( 20419 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: ايك غلام آزاد كيا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو كھانا كھلايا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو لباس مہيا كيا جائے، اور جو شخص يہ نہ پائے تو وہ تين روزے ركھے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اللہ تعالى تمہيں تمہارى لغو قسموں ميں مؤخذہ نہيں كرتا، ليكن ان قسموں كا مؤاخذہ كرتا ہے جو قسميں تم نے پختہ كى ہيں، اس كا كفارہ يہ ہے كہ دس مسكينوں كو اوسط درجے كا كھانا ديا جائے جو تم اپنے گھر والوں كو كھلاتے ہو يا انہيں لباس ديا جائے، يا ايك غلام آزاد كرے، اور جو كوئى نہ پائے وہ تين روزے ركھے، جب تم قسميں اٹھاؤ تو تمہارى قسموں كا كفارہ يہ ہے، اور اپنى قسموں كى حفاظت كرو، اسى طرح اللہ تعالى تمہارے ليے اپنى آيات بيان كرتا ہے تا كہ تم شكر ادا كرو }المآئدۃ ( 89 ).

ہفتم:

رہا ماضى ميں آپ كا اپنے والدين كى نافرمانى كرنا، تو اس سلسلہ گزارش ہے كہ جس گناہ سے توبہ كر لى جائے اللہ تعالى اس گناہ كى سزا انسان كو نہيں ديتا، اس ليے اگر آپ نے اپنے اس گناہ سے سچى اور خالص توبہ كر لى تھى اور آپ كے والدين نے بھى آپ كو معاف كر ديا تھا تو اللہ تعالى اپنے بندے كى توبہ قبول كرتا ہے، جب وہ توبہ كرے اور اس كى طرف رجوع كرے تو اس كى توبہ قبول ہوتى ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" توبہ كرنے والا تو اس شخص كى طرح ہے جس كا كوئى گناہ ہى نہ ہو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 4250 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

واللہ اعلم.

الاسلام سوال و جواب