باپ نہ ہونے كى صورت ميں ولى كون ہو گا ؟
ميں نے ايك اسلامى ملك كى لڑكى سے شادى كى اور دو بار اسے طلاق بھى دے چكا ہوں، ہمارى يہ شادى عرفى تھى اور اسے قانونى طور پر رجسٹر نہيں كرايا گيا تھا، اور شادى ميں لڑكى كے والد كى جانب سے ايك مولانا صاحب بطور وكيل شامل تھے.
كچھ عرصہ سے اس لڑكى كا والد فوت ہو چكا ہے اور اس كے سب بھائى چھوٹے ہيں اور مجھے اس كے ولى كا كوئى علم نہيں، طلاق كو دو برس سے زائد ہو چكے ہيں اور اب ميں اسے واپس اپنے گھر لا كر گھر بسانا چاہتا ہوں، تو كيا باپ فوت ہو چكا ہو اور بھائى بھى چھوٹے ہوں تو پھر بھى ولى كى شرط ہے، يا كہ مجھے حق ہے كہ بغير ولى كے ہاں اس كو واپس لے آؤں، خاص كر وہ ميرى بيوى بھى رہے ہے ؟
الإجابة:
الحمد للہ:
جب آدمى اپنى بيوى كو طلاق دے اور اس كى عدت ختم ہو چكى ہو ( اور يہ طلاق ايك يا دو ہوں ) تو يہ بيوى اس كے ليے نئے نكاح سے ہى حلال ہو سكتى ہے اس كے بغير نہيں، اور نكاح صحيح ہونے كے ليے ولى كا ہونا ضرورى ہے، كيونكہ ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ولى كے بغير نكاح صحيح نہيں، اور عورت اپنے نكاح كى خود مالك نہيں ہے، اور ( ولى كے بغير ) نہ ہى كوئى اور اس كا نكاح كر سكتا ہے، اور عورت كا نكاح كرنے ميں كسى دوسرے كو وكيل بنانے كا حق بھى صرف ولى كو حاصل ہے كوئى اور نہيں بنا سكتا، اور اگر وہ خود اپنا نكاح كرے تو اس كا نكاح صحيح نہيں ہو گا " انتہى
ديكھيں: مغنى ابن قدامہ ( 7 / 5 ).
اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كادرج ذيل فرمان ہے:
" ولى كے بغير نكاح نہيں ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے كہ آپ نے اپنى اس بيوى كو دو برس سے طلاق دے ركھى ہے اس طرح اس كى عدت ختم ہو چكى ہے، اور طلاق شدہ عورت بالكل اس كے ليے باقى اجنبى عورتوں كى طرح ہى ہے اور وہ نئے نكاح كے بغير اس كے حلال نہيں ہو گى، اور اس كے ليے ضرورى ہے كہ نكاح عورت كا ولى كرے، يا پھر وہ كسى كو عقد نكاح كے ليے وكيل بنا دے.
باپ نہ ہونے كى صورت ميں لڑكى كا دادا ولى ہوگا، اور اگر دادا بھى نہ ہو تو پھر لڑكى كے بھائى اس كے ولى ہونگے، اور اس ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ لڑكى سے چھوٹے ہوں، صرف ولى كے ليے بالغ ہونا شرط ہے، اس ليے اگر اس عورت كا كوئى بھائى بالغ ہے چاہے وہ عورت سے چھوٹا ہى ہو تو وہ اس كا ولى بن سكتا ہے.
مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" عورت كے عقد نكاح ميں ولى وہى بن سكتا ہے جو عقلمند اور مكلف ہو، اور اگر وہ نہ ہو تو پھر قاضى ولى ہوگا، كيونكہ جس كا ولى نہ ہو تو حكمران اس كا ولى ہوتا ہے، اور اس طرح كے معاملات ميں قاضى اس كا نائب ہے.
اور انسان مكلف اس وقت ہوتا ہے جب اس كو شہوت كے ساتھ منى آنا شروع ہو جائے يعنى احتلام وغيرہ سے، يا پھر شرمگاہ كے ارد گرد سخت بال اگ آئيں، يا اس كى عمر پندرہ برس مكمل ہو جائے.
اور عقلمند وہ ہو گا جو اپنے معاملات كو بحسن خوبى سرانجام دے سكتا ہو، يعنى اپنى ماتحت اور ولايت ميں موجود عورت كے ليے مناسب اور برابر كا رشتہ تلاش كر سكے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 147 ).
اور اگر اس عورت كے سارے بھائى ہى چھوٹے ہوں اور ان ميں كوئى بھى بالغ نہ ہو تو پھر ولايت اس كے بعد والے كو منتقل ہو جائيگى اور وہ عورت كے چچا ہيں، اور اگر چچا نہ ہو تو پھر چچا كے بيٹے.
اور اگر عورت كا كوئى بھى ولى نہيں ہے تو پھر شرعى قاضى اس كى نكاح كى ذمہ دارى پورى كريگا؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور اگر وہ جھگڑا كريں تو جس كا ولى نہيں حكمران اس كا ولى ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس بنا پر اگر آپ اس عورت سے شادى كرنا چاہتے ہيں اور اس كا كوئى ولى نہيں ہے، تو آپ كو عدالت ميں جا كر شرعى قاضى سے رجوع كرنا چاہيے تا كہ وہ اس كے عقد نكاح كا انتظام كرے.
تنبيہ:
آپ نے اپنے پہلے نكاح كے متعلق كہا ہے كہ وہ قانونى طور پر رجسٹر نہيں ہوا تھا، اگر تو يہ بات صحيح ہے اور اس نكاح ميں نكاح كى شروط اور اركان پورے تھے تو پھر وہ نكاح صحيح ہے چاہے قانونى طور پر رجسٹر نہ بھى ہوا ہو، ليكن اتنا ہے كہ ہم نكاح رجسٹر كرانے كى اہميت كى طرف توجہ دلانا چاہتے ہيں كہ يہ بہت اہم ہے، اس ميں كوئى سستى نہيں كرنى چاہيے اس سے حقوق كو تحفظ حاصل ہوتا ہے، تا كہ بے وقوف اور غلط قسم كے مرد اور عورت نكاح كے ساتھ كھلواڑ نہ كرييں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 22728 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .