کیا مستقبل کے منصوبے (پلاننگ) بنانا جائز ہے
Answer
الحمدللہ
انسان کے لئے مانع نہیں کہ وہ جس چیز کا مستقبل میں محتاج ہے اور اسے کرنا چاہتا ہے تو اور اس کا منصوبہ بنائے اور اندازہ لگائے اور یہ کہے کہ میں کل یا ہفتے کے بعد یا ایک سال بعد یہ کام کروں گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسکے ساتھ ان شاء اللہ ضرور کہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
"اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگرساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ دینا"
اور ہر وہ چیز جس کا انسان ارادہ ونیت اور اس کا عزم اور اسکے حصول کی امید کرتا ہے تو یہ سب امید پر مبنی ہے اور امید ہی ایک ایسی چیز ہے جو کہ لوگوں کو عمل کی طرف کھینچتی ہے۔
لیکن مومن آدمی اس زندگی میں اس کی کوشش کرتا ہے جو اسے دینی اور دنیاوی نفع دے اور وہ اسباب کو ساتھ رکھتا اور اللہ تعالی پر توکل کرتا اور اس سے مدد لیتا ہے۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
(جو تجھے نفع دے اس کی حرص اور اللہ تعالی سے مدد طلب کر)
اور ارشاد باری تعالی ہے۔
"اسی (اللہ) کی عبادت کر اور اسی پر توکل کر"
لیکن کافر اور (دین سے) غافل وہ اسباب پر بھروسہ کرتا اور اپنے اس رب سے جس ہاتھ میں بادشاہی ہے غافل ہوتا ہے تو ہوتا وہی ہے جو کہ اللہ سبحانہ وتعالی چاہتا ہے۔ تو اگر انسان اپنی امید اور اس کے درمیان پیش آنے والی کو دیکھے اور اس پر موت وغیرہ کی فکر غالب ہو تو وہ عمل کرنے سے رک جائے اور اپنی مصلحتوں کو معطل کرکے رکھ دے۔ تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان یہ زندگی گزار ہی نہیں سکتا مگر یہ کہ وہ کچھ نہ کچھ امید لگا کے رکھتا ہے جو کہ اسے ان مصلحتوں کی طرف متحرک رکھتی ہے جن کے حصول میں طمع ولالچ کرتا ہے۔
لیکن مومن کے لئے ضروری ہے اس کی امیدیں کم از کم ہوں اور دنیا کی طرف مائل نہ ہو اور نہ ہی اس سے متاثر بلکہ آخرت کو اپنا مطمع نظر بنا کے رکھے اور وہ اعمال صالحہ کرے جس سے اسے اللہ رب العزت کا قرب حاصل ہو اور اس کی نعمتوں سے اللہ تعالی کی اطاعت کے لئے مدد حاصل کرے تا کہ وہ دنیا وآخرت میں اسے کامیابی وسعادت نصیب ہو سکے ۔ .