گرے پتے

گرے پتے

گرے پتے

از

انجینئر حکم بن عادل زمو  نویری عقیلی 

تقدیم

فضیلۃ الشیخ حسن بن عبد اللہ القعود

ترجمہ

اکبر علی بن شمس الدین 

 

 

 

 

 

فإن هم ذهبتْ أخلاقهم ذهبوا

وإنما الأممُ الأخلاقُ ما بقيتْ

                                                                أمير الشعراء: أحمد شوق

       اخلاق سےہی باقی ہے قوموں کا وجود

 جوہر نہ  ہو جس میں یہ وہ  قوم ہے فانی

 

نذرانہ عقیدت

معاشرےکے ہر افراد کی خدمت میں   تاکہ(اللہ کے حکم سے) اس  کا درخت پروان چڑھے اور اس پہ برگ وبار آتے رہیں۔

 

 

فہر ست مضامین

تقدیم ..................................................................................۴

 

پیش لفظ ................................................................................۶

 

تمہید ...................................................................................۸

 

خاندان  سے متعلق   خصوصی اوراق .........................................................۹

 

نماز اور مسجدوں سے متعلق خصوصی اوراق ................................................۲۰

 

نوکری پیشہ افراد سے متعلق خصوصی اوراق .................................................۲۵

 

عام اوراق .............................................................................۳۷

 

خاتمہ .................................................................................۵۵

 

 

 

 

پیش لفظ

الحمد لله والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:

         یہ   وہ برگہائے  محبت  ہیں جو دلوں کو موم    اورتنگ  راہوں کو پرنور کر دیں گے اور معاشرے  کی بہتری اور بھلائی کے خوگروں کے قلب کو گرما دیں گے۔

یہ وہ پتے ہیں  جو معاشرے کے      ان  جڑاور  پودے  سے عبارت ہیں جن سے  خاندان کی تشکیل ہوتی ہے  جس کا عکس  باپ کے بیٹے  کی قیادت  اور بیٹوں کی  باپ کی اطاعت میں  جھلکتا ہے یہی وہ عناصر ہیں جو معاشرے کی  صحیح تشخیص کرتے ہیں جس سے  اللہ تعالی کے فضل  و کرم کے بعد معاشرے کی تقدیر سنورتی ہے۔

         یہ   وہ اوراق ہیں  جو نماز  کی بابت ہم کلام ہیں  جس  کا اللہ کے فضل کے بعد معاشرے  کی بھلائی میں   غیر معمولی کردار ہے، یہ دین    کا ستون اور مضبوط  بنیاد ہے۔

یہ  وہ پنے ہیں جو معاشرے  کے عملی   اور اخلاقی زاویوں کے سوا بہت   سےنفع بخش اوراق کوسموئے ہوئے  ہیں۔

أوراقك لربيع العلم

تمہارے پتے  بہار علم

وخريف لسبيل الظلم

اور راہ ستم کے لئے  خزاں ہیں۔

يا حكمُ سقطت أوراق

اے عقلمند  کچھ پتے گر گئے

فأتيت بأوراق الفهمِ

پھر تو فہم وفراست  کے پتے  لے آیا۔

أوراق تبني مجتمعا

ایسے پتے ہیں جو معاشرے کی بناڈالتے ہیں

مجتنبا لصفات الذم

اور بری خصلتوں  سےبچاتےہیں۔

تتناول أوصافَ فِعالٍ

جو کار آمد صفات کے حامل ہیں

وتقوِّم ما اعوجَّ باثم

جو  گناہ سے  کجرو ہوگئے ہیں ان کی اصلاح کرتے ہیں۔

تتساقط أوراق خصال 

شاخوں کی پتیاں  گر رہی ہیں

لتنظف جيلا من سمٍّ

تاکہ زہریلی نسل پاکیزہ بنائی جاسکے

أبدعت بنظمك لكتب

پہلے بھی تو نے کتابوں کی ترتیب میں انوکھا  طرز اختیار کیا تھا

من قبل وقد عدت لنظم

اور پھر ایک ترتیب پر لوٹ آیا۔

فكتبت كتابا مزدهرا

تو نے ایسی کتاب لکھی

بالعلم وآداب تحمي

جوحامی علم  اور آداب سے مزین   ہے۔

         

 

ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ ان اوراق کے ذریعہ تمام معاشرے کو فائدہ بہم پہونچائے اور ہر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائے  پھر کشتی پوری سلامتی کے ساتھ  فضلت کی ساحل پر لنگر انداز ہوجائے گی ۔ 

  کاتب 

                                                                  حسن بن عبداللہ قعود

                                                              ۱۰ شعبان ۱۴۴۳ھ  ریاض 

 

 

 

مقدمہ

تما م تعریف اللہ کے ذات کو سزاوار ہے  ایسی ثنا جو اس کی جلالت اور مرتبت کو مناسب ہے  اور اللہ کے فرستادے محمد ﷺ جو کامل خلاق اور کریمانہ صفات کا   چشمہ ہیں ان  پرر دورود سلام  ہو  ۔ امابعد:

اللہ تعالی نے   تمام انسانوں کو ایک  مردوزن سے  وجود بخشا پھر انہیں قوموں ، قبیلوں اور معاشروں  میں تبدیل  کردیا ، ان میں  رسولوں  والہامی پیغامات کے ذریعہ  ایسے دستور، اخلاق اور اقدار بھیجا  جو ان کے مابین ذاتی  برتاؤ  کا فیصلہ کرے، جن میں سب تو نہیں مگر  بعض کی  نسلیں  اور  معاشرے   وارث بنتے رہے ۔

لیکن مہ وسال  کے گذرنے کے ساتھ ساتھ مثبت اثر انگیزنمونوں کے فقدان کی وجہ سے اندرونی و بیرونی  اثرات  سے متاثر معاشرے بکھرتے گئے  اور یہ اخلاق واقدار اتنےکمزور پڑ گئےکہ خزاں میں  زرد پتوں  کی مانند   اقدار کے شجر سے  گرتے گئے  ، اور جیساکہ ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ  اس عہد میں  بہت سی جماعتوں کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے  ہم اللہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اپنی زندگی کی خزاں میں  نہ چلا جائے ۔

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ  اخلاقی قدروں کا درخت  قوم اور معاشرے  کی زندگی میں بڑی  اہمیت  کا حامل ہے، یہ بھلائی کا قطب نما اور حلقہ نجات ( لائف بوائے) ہے،  اگر اس  کی شاخیں برگ بار  اور ثمر بار ہوئیں  تو  معاشرہ   صالح  اور اصلاح پسند ہوگا  مبادا کہیں اس  کے اوراق زرد  اور خشک ہوکر زمیں بوس ہوگئے تو وہ شجر ویرانہ   اور بیکار سا ہوجائے گا۔   بعینہ یہی حال معاشرہ کا بھی ہے جس قدر اس کے بعض اخلاقی  قدریں  مسخ  اور فرسودہ  قرار پائیں گی  اسی طرح  یا اس سے زیادہ  معاشرہ پسماندگی  کی جانب  چلا جائے گا کیونکہ جب  کوئی اخلاقی  اور اقدار ی پہلو کمزور  ہوتی ہے  تو راست اس کے اثرات  باقی ماندہ  اخلاق و اقدار پر پڑتے  ہیں، اس طرح  وہ عنا صر جن میں ہوس،  کجی اور فکری انحراف  ہوتا ہے  انہیں  یہ شہ مل جاتا ہے کہ  باقی شدہ    اخلاق  واقدار  کو ملوث  اور پراگندہ   اور اس کے تقدس کو تار تار  کردیں ساتھ ہی   اسے متزلزل کرنے یا کلی طور  پر اس  سےتہی دامن ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

اور یہ بات  کسی پر پوشیدہ نہیں کہ تمام مذاہب  اور خاص طور پر ہمارے دین اسلام میں  اخلاقی قدروں  کی کیابلندشان اور اعلی مقام ہے کہ  پیکر اخلاق محمد ﷺ کی رسالت   جو اہم ترین مقصد    اورجاوداں پیغام  لےکر آئی  اس  کے  ستونوں میں سب سے اہم  اخلاق واقدار ہیں۔ جیسا  ان ﷺکے فرمودات میں ہے : میں  بھیجا ہی اسی لئے گیا ہوں کہ کریمانہ اخلاق  (اور بعض روایت میں ہے کہ) اچھے اخلاق کی تکمیل کردوں([1])۔

ان کا ﷺ  کا یہ بھی فرمان ہے کہ قیامت کے روز مؤمن کے میزان   میں بہتر اخلاق سے زیادہ باوزن کوئی چیز نہیں ہوگی، بلاشبہ اللہ  مغلظات  پکنے والوں کو ناپسند کرتا ہے([2])۔ 

اور ان کا ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو([3])۔ 

اچھا اخلاق بہشت میں داخلے کے اسباب میں سے ہے  رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ بہشت میں بکثرت کیا چیز لے جائے گی تو ارشاد ہواکہ اللہ کا خوف اور اچھا اخلاق([4])۔

انہی کے فرمودات میں سے ہے کہ مؤمن اپنے اچھے اخلاق سے روزے دار اور تہجد گذار کے مرتبہ کو پہونچ جاتا ہے([5])۔ 

قیامت کے روز اچھے اخلاق  کا حامل رسول اللہ ﷺ سے  لوگوں میں سب سے قریب ہوگا جیساکہ انہوںﷺ فرمایا کہ قیامت کے روز  مجلس کے اعتبار تم میں سے محبوب تر اور قریب تر تم  میں سے سب سے اچھے اخلاق والا ہوگا([6])۔ 

         یہ نوشتہ  ہمارے معاشرے بطور خاص اسلامی اور عربی معاشرے کے قدروں کے درخت  سے گرے پتے  اور خامیوں کے پہلو کو اجاگر کرے گا اور شاید اللہ  تعالی کی  توفیق کے بعد   یہ غیر اخلاقی  برتاؤ اور کو تاہیوں   پر روشنی ڈالے   جس سے ہم معاشرے کے  افراد کو اس سے بچا سکیں یا کم ازکم اس کے حجم کو چھوٹا کرنے پر عبور پاسکیں۔میں نے اس میں سادگی اور سہل پسندگی کا اسلوب اپنایا ہے اور وہ  اس طرح کہ قدرے امکان آسان مثالوں اور  سادہ زبان کا اختیار کیا ہے ۔

تو جو بھی صحیح اور درست ہے وہ اللہ کی توفیق  سے ہے اور جو غلط  اور کمی ہے  تو وہ عاجز اور گنہگار شخص یا مردود شیطان کے وسوسے سے ہے ۔ اور اخیر میں اللہ سے بس یہی سوال ہے کہ وہ تمام معاشرے کو اس مصیبت اور برے اخلاق سے محفوظ فرمائے  اور ہمیں  اچھی طرح سے واپس  (خیر کی طرف) لوٹا دے۔ 

                                                                                                                                         مؤلف                    

                                                                                                                        سید حکم زمو عقیلی 

                                                               ۷/ربیع الاول ۱۴۴

 

تمہید

اس کتاب   میں بہت سے  الفاظ «یونیورسٹی   پروفیسر»،« افراد»،« آدمی»، «فرد»، «مدرس»، «ذمہ دار»  اور «ملازم» بصیغہ مذکر آئے ہیں ۔ بیشتر اوقات اس سے میرا مقصود قصہ اور واقعہ کی شمولیت  اور مذکر و مؤنث دونوں جنس سے اس کے واقع ہونے کی امکانیات  ہیں ، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے قول میں ہے  ] وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ[ [آل عمران: 171] اور بیشک اللہ تعالی  مؤمنوں  کے اجر کو برباد نہیں کرتا ہے ۔ اور اللہ تعالی کا قول : ] فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ[ [هود: 115]  تو بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کے اجر کو برباد نہیں کرتا ہے۔  دونوں آیتوں  «الْمُؤْمِنِينَ» اور «الْمُحْسِنِينَ» میں جمع بصیغہ مذ کر وارد ہوا ہے  بصیغہ مؤنث «الْمُؤْمِنات» اور «الْمُحْسِنات» نہیں آیا ہے ، کیونکہ آیات  اور شرعی دلیلوں  کے مفہوم سے یہی پتہ چلتا ہے کہ  مذکر کاخطاب مؤنث کو بھی شامل ہے جب تک اس کے مخالف کوئی نص نہ آجائے ۔  جیسے کہ اللہ تعالی کے قول میں ہے : ]وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ[ [النور: 31] اور اے نبی ﷺ آپ اللہ پر ایمان لانے والی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو جھکائے رکھیں اور اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ 

 

 

خاندان سے متعلق خصوصی اوراق

اس فصل میں  ،میں نے آپ لوگوں کے لئے ایسے اوراق جمع کیا ہے جو صرف خاندان  ( فیملی) کے لئے مخصوص ہیں ۔ یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ  خاندان کی  کتنی بڑی اہمیت ہے یہ معاشرے کی  تشکیل کی پہلی اینٹ ہے  معاشرے کا  سدھار اور بگاڑ اس   کے صلاح اور فساد پر منحصر ہے اور اس میں بھی کوئی تعجب نہیں کہ دشمنان  خاندان پر غلبہ حاصل کررہے ہیں اور اپنے ترکش کے سارے تیر اسی کی جانب  چلا رہے ہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی سے سوال ہے  کہ ان کی سازشوں کو انہی کے طرف پھیر دے ساتھ ہی یہ بھی سوال ہے کہ ہمارے تمام خاندان  ( فیملیز) کی حفاظت فرمائے  اور ان کے مابین اتفاق،  یقین دہانی اور محبت کو عام کردے۔ 

 

 

پہلا: برگ   رہ نما

کئی دفعہ ایسا  ہوتا ہے کہ بچے   کسی بات  میں والدین کی نافرمانی  کر بیٹھتے ہیں، یا کسی گناہ کو سر انجام دے دیتے ہیں، یا ان کی جانب سے کسی بدخلقی کا مظاہرہ ہوتا ہے  تو ماں باپ  دعا کی بجائے ان  کے لئے بدعا کرنے میں  عجلت  کرجاتے ہیں اور رسولﷺ کی  ارشاد کو بھلا بیٹھتے کہ  انہوں ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم اپنی ذات،اولاد ،خدمت گار اور مال ومتاع پر بدعا نہ کرو کیونکہ ایسا نہ ہو کہ وہ   (بدعا) اس  گھڑی  میں (کی گئی)  ہو جس میں  جب کوئی   چیز طلب کی جاتی ہے   تو تمہارے لئے قبول کر لی جاتی ہے ([7]) ۔

کتنی بار ہم نے ایسے سانحے  ان  بچوں کے بارے میں سنا ہے  جو  اپنے گھروں سے نکلے،  اور ماں یا باپ کی بدعا کی وجہ   سےہولناک کار حادثوں کا شکار ہوئے جس  میں  موقع ہی پرانہوں نے دم توڑ دیا۔

اس لئے ہمیں  قطعی طور ہر اس سے بچنا چاہئے اور ہمیشہ  اپنے بچوں  کی ہدایت  اور بھلائی کے لئے دعا   کرتے رہنا چاہئے۔ 

 

 

دوسرا 

والدین   اپنی اولاد کو  جھوٹ  یاکسی اور  بدخو عادت  سے روک رہے ہوتے ہیں اور اس پر اس کی سرزنش بھی کررہے ہوتے ہیں  اور یہ  لائق تحسین بات ہے  مگر  اس کے بالمقابل   والدین یا ان میں سے کوئی ایک   انہی منع کردہ چیزوں کا ارتکاب  کررہا ہوتا ہے بطور مثال باپ تمباکو نوشی سے منع کرتا ہے  مگر خود ہی  اپنے  بچوں کے سامنے اس کا استعمال کرتا ہے، یہاں مناسب ہے کہ  یہاں  شاعر کا یہ  والدین  کے گوش گذار کیا جائے۔ 

لاَ تَنْهَ عن خلُقٍ وتأتِيَ مثلَه

عَارٌ عَلَيْكَ إَذَا فَعَلْتَ عَظِيمُ

آپ کسی عادت سے جب روکیں تو اس   طرح خصلت  کو نہ اپنائیں

یہ بڑے عیب کی بات ہے کہ آپ  (ایسی عادتیں ) اپنائیں

     

 

 

 

تیسرا: 

خاندان  ( فیملی)  نوکرانی اور ڈرائیور کو بہت سارے کاموں کا پابند بناتا ہے  آ پ انہیں صبح تڑکے سے نیم شب  تک    ناشتہ کی تیاری،  بچوں کو مدرسہ پہونچانے  اور وہاں سے لانے،  ،ظہرانہ  پکانے، چوبیس گھنٹے کافی   ، چائےکی تیاری، درون خانہ  اوربیرونی  آنگن کی صفائی،  کاروں کی دھلائی،  پھول پتوں کی آبیاری وغیرہ  میں  سرگرم عمل پائیں گے باوجود اس کے آپ  اسےکئی باران کے  ماہانہ مشاہرہ دینے میں  ٹال مٹول کرتا ہوا پائیں گے۔  

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ  تمہارے خدام تمہارے بھائی ہیں انہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کیا ہے  تو جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو  جو کھائے اسے بھی کھلائے، اور جو پہنیں اسے بھی پہنائے،  اور جو ان پر بوجھ بن جائے   انہیں اس کا پانبد نہ بنایا جائے  اور اگر پابند بناتے ہی ہو تو ان کا مدد کرو ([8])۔

 

 

چوتھا:  برگ معیشت

  کوئی بھی فیملی  یا دوستوں کی جماعت  کسی بھی  ہوٹل ( ریسٹورینٹ)  میں کھانا تناول کرنے ،یا کچھ  پینے والی چیز پینے،  یا کچھ مٹھائیاں کھانے  جاتی ہی  ہے مگر ان  کے فراغت کے بعد بعض دفعہ ایساپائیں گے کہ   کھانے سے زیادہ  انہوں نے چھوڑدیا ہے،خاص طور  پر شوشل میڈیا کے  ظہور کے بعد ( یہ زیادہ  ہوگیا ہے)تو  کیا یہ اس  فخر کی وجہ سے ہے جس میں ہم مبتلا ہو چکےہیں ؟!!،  یا جہالت اوراللہ کے نعمت  کی ناقدری کی بنا پر جس سے بہت سے اقوام محروم ہیں ؟!!، اللہ تعالی کا  فرمان ہے: ]وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [[الأعراف: 31]  کھاؤ اور پیو  اسراف ( برباد) نہ کرو کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ 

 

 

 

پانچواں:   برگ    بہتر برتاؤ

بچے اور بچیاں اپنے دوست واحباب سے نہایت نرم گوئی سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان کے جذبات کا بھر پور خیال رکھتے ہیں ، سوشل میڈیا پر،،خوب صورت انداز میں شیریں اورمعیاری جواب دے رہے ہوتے ہیں لیکن  جب والدین انہیں کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ ان پر  اس طرح ناگواری  اور ٖغصہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں  جیسے  کہ ان کے اہل خانہ  انہیں    کی سخاوت اور فیاضی پہ  زندگی بسر کررہے ہوں، اوراس فرمان الٰہی کو بھول جاتے ہیں:] فَلَا تقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قوْلًا كَرِيمًا[[الإسراء: 23] اپنے والدین کو اف نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو ان سے نرم لہجہ میں بات کرو۔

گویا کہ ان کا عمل شاعر کے قول کے مصداق ہے۔

تو نے میرا صلہ سخت گوئی اور بدکلامی سے  دیا جیسے  کہ مجھ پہ جود کرم کرنے والے ہو ۔

صلہ میں تیری قہر گوئیاں ملیں

زمانہ کے احساں گر لگے ہے مجھے

 

 

 

برگ محبت:

جب ازدواجی زندگی میں اختلاف رونما ہوتا ہے تو طرفین میں  نفرت اور کینہ پیدا ہو جاتا ہے  جو طلاق وفراق  کی صورت میں بدل جاتی ہے جس  سےجاندان بکھر جاتا ہے اور اولاد دربدر ہو جاتی ہے ، نبیﷺ کا فرمان انہیں یاد نہیں رہتا کہ کوئی مومن مرد (خاوند) کسی مومن عورت (بیوی) کو ناپسند نہ کرے ممکن ہے اسے اس کی ایک ادا نہ بھائی ہو تو  دوسری پسند آجائے([9]

اور رسول اللہﷺ کا یہ فرمان کوئی خاتون اگر بلا سبب اپنے خواند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پرجنت کی خوشبو حرام ہے ([10]

 

 

 

برگ احسان:   

والدین نے اپنے بچوں کی پرورش میں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،  ہر دشواریوں کو آسان بناتے ہیں، مال ،پیار، اور نگہداشت سب کچھ مہیا کرتے ہیں، یہاں تک وہ کڑیل جوان، اور راہ زندگی کے نشیب و فراز سے ہم آہنگ  اور رشتۃ ازداج  میں منسلک ہوکر ایک  خاندان  بسا لیتے ہیں ،جو کہ ہر والدین کی اپنی اولاد  تئیں خواہش ہوتی ہے ۔ 

اس وقت یہ والدین عمر رسیدہ ہوجاتے ہیں اور ضروت و نگرانی میں اپنے بچوں کے محتاج ہوجاتے  تو ہم دیکھتے ہیں بعض اولاد ان کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ نہیں کرتے بلکہ بعض تو انہیں ناتواں اور عمر رسیدہ لوگوں کے لئے بنائے گئے گھروں میں چھوڑ آتے ہیں اور وہ فرمان باری تعالیٰ کے ابدی وصیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ]وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا[  [الإسراء: 23]

ان کے لئے خاکساری اور مروت کے بازو بچھا دو اور دعا گو رہو کہ اے میرے رب تو ان پر ایسے رحمت فرما جیسے کہ انہوں پیار وشفقت کے ساتھ ہماری پرورش کیا ۔

 

 

 

برگ شعور نگہبانی 

ماں یا باپ دفتر اور آفس سے تھکے ماندے آتےہیں  ظہرانہ تناول فرمانے کے بعد کچھ گھڑیوں کے لئے سو جاتے ہیں، بیدا رہوتے ہی ساتھیوں سے ملاقات کے لئے کسی قہونہ خانہ یا آرام دہ جگہ (ریزوارٹ) میں جانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں وہاں دیر شپ تک گپ شپ کرنے کے بعد تھکے تھکائے گھر لوٹتے ہیں اور ازدواجی اور عائلی ضرورتیں  جیسے غذا رسد، پیرہن،  نصیحت، رہنمائی کی پرواہ کئے بغیر  بستر پر نیم جاں جسم کی طرح دراز ہو جاتے ہیں

اورنبی ﷺ کے قول زریں کو بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی شخص کے گناہ کے لئے یہ کافی ہے کہ جس کے ماتحت اس کی نگہبانی ہے وہ انہیں ضائع کردے ([11]

 

 

 

برگ حسن عشرت:

بیوی خاوند کی نوازش کو فراموش کردیتی  ہے اور ہمیشہ نفرت اور منھ بسوڑےاس کے روبرو ہوتی ہے اور رسول اللہ ﷺ ایک مشہور حدیث میں کیا ہی خوب اس کی تمثیل پیش کرتے ہوئے گویا  ہیں کہ اے خواتین کی جماعت صدقہ ادا کرتی رہو، اور کثرت سے استغفار کرتی رہو، کیونکہ میں نے تمہیں جہنم  میں زیادہ پایا ہے،  توان میں سے ایک صاحب فہم وفراست خا تون نے دریافت کیا  کہ اے اللہ رسولِ  ﷺ جہنم میں ہماری کثرت کی کیا وجہ ہے؟!!

نبی ﷺ جواباً ارشاد فرمایا کہ تم کثرت  سےلعنت بھیجتی اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو ([12]

پھر رسول اللہ ﷺنے خاوندوں کی ناشکری کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر توان میں سے کسی کی  زندگی بھر  نازشیں اٹھاتا رہے اور اسے  اس  میں ذرابھی کمی کا احساس  ہو جائے تو بول اٹھے گی کہ میں نے کبھی تم میں کوئی خیر نہیں پایا ([13]

 

 

 

برگ پرورش و پرداخت:

گھروں سے بہت زیادہ نکلنے اور دوسروں کے گھروں کوجانے والی  بیوی یا ماں دن کا پہلا پہر سونے میں گزارتی ہے اور سورج جب بیچ آسمان میں پڑاؤ ڈالنے والا ہوتا تو وہ بیدار ہوتی ہے  اور نوکرانی کو کھانا تیار کرنے مدرسہ سے واپسی کے  وقت بچوں کے استقبال کا حکم دے  کرسہیلیوں  اور ہمسایوں کے سنگ  رسم ملاقات پوری کرنے نکل جاتی ہے اور خاصہ وقت گذار کر جب گھر واپس لوٹتی ہے تو سوشل میڈیا میں مشغول ہو جاتی ہے ۔

پھر شام جب اپنے اندھیرے چادر کو بچھا دیتی ہے پھر یہ کسی نہ کسی سے ملاقات کے لئے نکل جاتی ہے اور تا دیر گھر سے باہر رہتی ہے  اسے اپنے خاوندکی کچھ خبر ہے، اور نہ ہی اپنے بچوں کا کچھ پتہ،  اور اس کا یہی معاملہ ہفتہ کے بیشتر دن   رہتا ہے۔

اس پر اور ساتھ ہی معاشرہ پر تعجب ہے  اس کے بچے جرائم اور نشہ اور بدخلقی میں جوان ہوگئے کیونکہ ان کی تربیت خادموں نے کیا  ہےنا کہ  ماوؤں نے۔ 

 

ختم شد

 اور اس پر اللہ کا فضل واحسان ہے

 

 

                             نماز اور مسجدوں سے متعلق خصوصی اوراق

میں نے  اس خوشہ میں ان پتوں کو آپ کے لئے یکجا کیا ہے جو نماز اور مسجدوں کے لئے خاص ہیں نماز کی اہمیت کسی پر مخفی نہیں یہ دین کا ستون اور اس کا ایک مضبوط رکن ہے شرعی اصولوں کی بنیاد پر مسجد میں نمازیں ادا کرنا یہ ان کےادائیگی  کی  کامل شکل ہے۔ 

برگ صلاہ:

کچھ لوگ ایسے ہیں  جو ٹیلی ویژن کے مشاہدے ، اور دوستوں کے ساتھ تاش کے پتے ،اور فٹبال کھیلنے میں مشغول رہتے ہیں، اسی بیچ صلاہ کا وقت ہو جاتا ہے اور متنبہ نہیں ہوتے بلکہ اپنے کھیل میں لگے رہتے ہیں یا جس بھی چیز میں مشغول ہوتے ہیں نماز کو تاخیر سے ادا کرتے  ہیں بلکہ بسااوقات ان سے فوت بھی ہو جاتی ہے ۔

یہاں میں انہیں فرمان باری سے آگاہ  کرنا چاہتا ہوں  ]فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ [مريم: 59]

تو اپنے بعد انہوں نے ایسے لوگوں کو چھوڑا  جنہوں  نےنمازیں ضائع ،  اور خواہشات کی اتباع کیا، تو عنقریب وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔

اور« ضائع» کا مطلب مکمل طورپر چھوڑ دینا  یا تاخیر سے پڑھنا 

«غی »جہنم میں ایک وادی کانام ہے  ۔

ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

 

 

 

بارہواں پتہ:

آدمی اپنے منھ  کی بو ،  کپڑوں اور موزوں کی بدبو سے نمازیوں کا تکلیف پہنچاتا ہے  اور صرف نمازیوں کو ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرشوں کو تکلیف  بھی پہنچاتا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : جو لہسن ، پیاز اور کراث ([14])کھائے ہوئے ہوں وہ ہمارئے مسجد کے قریب نہ آئے  کیونکہ جس چیز سے آدم کی اولاد کو تکلیف پہونچتی ہے فرشتوں کو بھی اس سے  تکلیف پہونچتی ہے ([15])۔

اس لئے ہمیں مسجد  یا جامع میں داخلہ سے پہلے اپنے بدن اور کپڑے کی نظافت کا جائزہ  لینا چاہئے۔ خاص طورپر ان نمازوں جس میں ایک بڑی  تعداد  جمع ہوتی ہے جیسے جمعہ اور عیدین کی نماز۔

 

 

 

تیرہواں  پتہ: 

ایک آدمی  نمازجمعہ سے  پہلے  کسی کے لیے امام کے پیچھے ، دائیں یا بائیں جگہ مخصوص کرکے رکھتا ہے یہ ایک طرح سے جگہ  قبضہ کرنا ہے اور یہ جائز نہیں ، کیونکہ جو اس سے پہلے آیا وہ اس جگہ کا زیادہ حق دار ہے([16])۔ دوسرے کہ یہ سستی اور کاہلی کا باعث ہے ،  وہ شخص جس کے لئے جگہ مخصوص کی گئی ہے  وہ  وصیت رسول ﷺ کہ نماز جمعہ کےلئے مسجد میں صبح صبح آیا جائے  کے مطابق خود کو کہاں پاتا ہے؟!! جب کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جس نے جمعہ کے دن ناپاکی کے غسل کی طرح غسل کیا  پھر مسجد آگیا   تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی پیش کیا،  اور جو اس کے بعدآیا  تو گویا  اس نے ایک گائے کی قربانی پیش کیا اور جو اس کے بعدآیا  تو گویا اس نے مینڈھے کی قربانی پیش کیا اور جو اس کے بعد آیا  تو گویا اس نے ایک انڈے کی قربانی پیش کیا([17])۔ 

 

 

چودہواں :

 ایک آدمی جمعہ کے دن پہلی صف میں پہونچنے  کے لئے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے  آتا ہے  یہاں میں اسے رسول اللہ ﷺ کا فرمان یاد  دلاتا ہوں جسے انہوں ﷺ اس شخص کے لئے فرمایا تھا جو  جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبیﷺ خطبہ دے رہے تھے انہوں نے اس سے  ارشاد فرمایاکہ  بیٹھ جائیے  آپ نے  اذیت دی ہے([18])۔

 نمازیوں کو اذیت پہونچانے میں  یہ بھی شمار ہوتا ہے کہ کوئی مسجد میں بآواز بلند قرآن پڑھے یا اپنے پڑوسی  سے دنیاوی أمور پر بات کرے۔  نبیﷺ اسے یوں منع فرمایا کہ :  اے لوگوں تم میں سے ہر کوئی اپنے رب سے   سرگوشی کرتا ہے تو  کوئی کسی  پر بآواز بلند  تلاوت نہ کرے   ورنہ تم مؤمنوں کو اذیت پہونچا دو گے([19])۔ 

 

 

پندرہواں:

ایک آدمی جمعہ کے دن تاخیر سے آتا ہے اور اپنی کار بیچ راستے میں  کھڑی کر دیتاہے نمازختم ہونے کے بعد اور نمازیوں کے نکلنے کے وقت بعض لوگ اس کی کار کی وجہ سے  آگے نہیں بڑھ پاتے کیونکہ  ہمارا ساتھی ابھی بھی مسجد کے اندر ہی ہے  اس نے  نکلنے میں جلدی نہیں کیا تاکہ وہ اپنی کار وہاں سے ہٹائے  اور لوگوں کو بھیڑاور  دم بخود ہونے سے بچائے ،اسے یہ نہیں پتہ کہ وہ بھلائی کی چاہت کی خاطر اس نےیہ  عمل کیا جوتکلیف کا سبب بنا اور گناہ پایا۔ 

 

ختم شد

 اور اس پر اللہ کا فضل واحسان ہے

 

 

نوکری اور پیشہ ور افراد سے متعلق خصوصی اوراق

 اس فصل  میں میں نے  ایسے پتوں کوجمع کیا ہے جن کا تعلق ملازمین سے ہے  خواہ ا ن کا تعلق  حکومتی  عملہ سے ہو یا خصوصی ، جو کہ  معیشت  کی بنیاد اور اس کا ستون  ہیں، ان  کی بہتری  سے ہی امت کی مالی حالت بہتر ہو سکتی ہے اور محصولات اور صلاحیتوں میں اضافہ ہو سکتاہے ۔

ہمیں یہ بات فروگذاشت نہیں کرنا چاہئے کہ مشرقی ایشیا میں  اسلام کی نشرواشاعت میں  ہمارے اوائل مسلمان سوداگروں کا  ایک زندہ   جاوید اورروشن کردار رہا ہے ، انہوں یہ   نمایاں کا رنامہ  بزور شمیشیر نہیں بلکہ  اپنےحسن اخلاق  اور دوسروں  کے ساتھ خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو  بہتر تعامل کے ذریعہ انجام دیا۔ 

 

 

سولہواں :

طلبہ کے ساتھ پروفیسر کا معاملہ  شکل و شباہت، طرفداری اور اقرباء پروری  کی بنیادوں  پرہے ، جو اسے بھا گیا اس پر نمبرات کی بارش  کردیتے ہیں  گرچہ وہ اس کا اہل نہ ہو  اور جس سے ان کی ناراضگی  ہے  اسے اپنے اس مضمون میں بسااواقات  فیل  بھی کردیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ  یہ  عام اور شائع ہے  لیکن  کتنے ایسے  بے قصور طلبہ ہیں  جو اس پروفیسر کے ظلم کے شکار ہوئے جس نےان کے   یونیورسٹی   کے اوسط  نمبرات کو کم کردیا،  یا  سال یا اس سے زیادہ  ان کی فراغت کو مؤخر کردیا۔ 

 

 

سترہواں :

پرو فیسر معلومات  کی ترسیل صحیح طرح سے نہیں  کرپاتے ہیں اور نا ہی  اچھی طرح سے وضاحت کرپاتے  ہیں باوجودکہ آپ  انہیں پائیں گے کہ وہ  مشکل سوالات کے انتخاب میں شدت برتتے ہیں اور جوابی پرچوں کے چیک کرتے وقت سختی کا مظاہرہ کرتے ہیں، بہت کم طلبہ ہوتے ہیں جن کو مکمل   نمبرات حاصل ہوتے ہیں اور عام طورپر نمبرات کا اوسط بہت  کم ہوتا ہے کیا اس پروفیسر کو پتہ نہیں کہ  اس کی اس کارستانی سے اس طلبہ  کونقصان لاحق ہوتا ہے  اور ان میں بعض  ناکامی  سے دوچار ہوجاتے ہیں  یااس پروفیسر   کے پاس  اپنے مضمون کو حذف کرنے اور دوسرے پروفیسر کے پاس اندراج کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں؟!!۔

 

 

اٹھارہواں : برگ شفافیت

سرکاری محکمہ میں   نوکریاں پانے  اور اس کے  حصول کی  کیفیت   سے متعلق کوئی رہنمائی دستیاب  نہیں،  کسی کو  باریکی طور پر یہ نہیں پتہ کہ معاملات  کی کاروائی  اور اسے   پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئے کون سے ضروری  دستاویز اور کاغذات  ہیں، شفافیت بالکل ناپید ہے ، ایک معاملہ کو مکمل کرنے میں مہینوں تک  گذر جاتے  ہیں اور کبھی تو اسے مکمل کرنے  کے لئے چھٹیاں لینے  کی نوبت آجاتی ہے  یا اسے مکمل کرنے کے لئے کسی اور کو سپرد کردیاجاتا ہے ۔

 

انیسواں :

قاضی اور منصف  فیصلوں میں  عمومی(دلیلوں )  یا بعض  نادر فقہی اقوال  پر اعتماد کرتے ہیں اور صاحب حق کے حقوق کو پامال کردیتے ہیں  اور انہیں اس بات کی پرواہ نہیں رہتی کہ شریعت کے اہم مقاصد میں  عدل وانصاف کا قیام اورمظلوموں  کے حقوق کی بازیابی ہے ۔

 

 

بیسواں: برگ انصاف

قاضی  فیصلوں  میں زیادتی کرتا  ہے  دلیلوں کی توڑ مڑورکر کسی شخص ،یاکسی ایک فریق  کی مفاد کی بنیاد  پر کرتا ہے  ، بسااوقات  انصاف کا گلہ اس لئے  گھونٹ دیا کیونکہ  تنازعہ کا ایک فریق  قاضی کا ہم قوم،یا ہم وطن، یاہم قبیلہ یا اس کے سناشاؤوں میں سے ہوتا ہے، اور نبیﷺ کے اس فرمان سے غفلت  اختیار کرجاتا ہے جس میں انہوں ﷺ نے فرمایا کہ:  قاضی   تین طرح ہوتے ہیں  دو جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا،  ایک آدمی جس نے حق کو پہچانا اور اسی کے اعتبار سے فیصلہ کیا وہ جنت میں جائے گا، ایک آدمی جو جہالت کی بنیاد پر لوگوں میں فیصلہ کرتا ہے وہ جہنم میں ہوگا، اور جو حق کو جانا اور فیصلہ میں  ناانصافی  کیا وہ جہنم  میں ہوگا([20])۔ 

 

 

اکیسواں :  برگ انصاف

کمپنیاں اور دو کانیں  اپنے ملازمین کی تنخواہیں  جان وبوجھ کر مہینوں  دیر سے ادا کرتی ہیں، اور ملازمین سے ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ  وہ اس کے بدلے  ڈیوٹی کے پورے وقت   بلند شرح پیداوار اور بھاری مقدار میں فروخت کے لئے کام کریں  ، وہ ملازمین سے اپنا پوراحق لے لیتے ہیں اور انہیں   یہ یاد رہتا ہے کہ یہ   بعینہ ظلم اور اس کی بنیاد ہے۔  تو ہم  انہیں اس بات سے آگاہ کر رہے ہیں کہ  حق کو اپنائیں اور صاحب حق کو اس کا حق دیں  ، ورنہ  وہ نبیﷺ کے اس قول   کہ :  «ظلم قیامت کے دن  اندھیروں کی شکل میں ہوگا» ([21])،کے اعتبار سے اپنے آپ کو جانچ لیں کہ وہ کہاں ہیں ؟!!۔

 

 

بائیسواں : برگ تعلیم  

مدرسہ   کے انتظامیہ کے علم      میں ہوتے ہوئےاور ایک استاد  بار بار  طلبہ کےامتحان  دوہراتا ہے اور  وہ   اس لئے  تاکہ وہ ایسے نمبرات  حاصل کرسکیں  جس کے وہ مستحق  نہیں  ہیں۔ ذرا  پیچھے ہٹ کر ہم خود سے سوال کریں کہ  امتحانات  کے مقاصد کیا ہیں؟ جس کا جواب یہ ہے کہ  امتحان کا مقصداور اس کی اصلیت یہ ہے کہ طلبہ کی قابلیت  ، فہم و فراست اور کارکردگی  کے معیار کی جانچ کی جاسکے، اس کے مقاصد میں یہ قطعی نہیں  کہ تمام طلبہ قریب قریب مکمل نمبرات  حاصل  کر لیں۔

یہی کافی ہے کہ امتحانات  کو آسان اور سہل بنادیا جائے،اور اس قدر مختصر کردیا جائے کہ  اس کی اہمیت اور ساکھ ہی مفقود ہوجائے ، جب کہ ماضی میں  امتحانات  پورے نصاب کو شامل ہوتا تھا اور راست  کتاب سے ہوتا تھا  اور اب صرف  نوٹس اور خلاصوں کو شامل ہوتا ہے  اور اس  میں بھی جو اہم ہوتا  ہےاسے خط کشیدہ کردیا جاتا ہے،  اس  طرح کی تصرفات سے سماج کو کیسی تعلیم کی امید ہے؟!!۔

 

 

تییسواں :

ذمہ دار اپنے ماتحت   سربراہوں  کو میٹنگ یا  فون پر  زبانی طور پر  احکام اور  ہدایات   دیتا ہے، اور جب  کچھ غلط ہوجاتا ہے تو الزام  اور ذمہ داری  ان  ملازمیں پر ڈال دیتا ہے جو اس کے  ادارے  کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں، اور اس غلطی  کی  ذمہ داری لینے سے مکر جاتا ہے اور وہ  یہ بھول جاتا ہے کہ  اس فیصلہ      کا اصل محرک وہی  ہے    اور یہ اس کی غلط    فیصلوں اور ہدایات کا نتیجہ ہے،  اس طرح  ظلم اور  گناہ ان پر لاد دیا جاتا ہے جو بے قصور ہوتے ہیں، اور ہم  اسے  اور اس کے ہم مثل  لوگوں  کو اس بات سے ڈاراتا ہوں جس سے ہمارے رسول ﷺ نے ڈرایا ہے  جیسا کہ وہ کہتے ہیں:  «ظلم قیامت کے دن  اندھیروں کی شکل میں ہوگا»([22])۔

 

 

چوبیسواں :

ذمہ دار  صرف   قرابت داری  اور طرفداری کی بنیاد پر ملازمت  پر رکھا جاتا ہے ، ملازمت کے لئے ضروری  اہلیت، تجربہ، لیاقت کی  تحقیق کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا ہے، اس طرح  قابلیت کے حقوق  ضائع ہوجاتی ہے ، مملکت اور معاشرہ  تنظیمی،علمی اور پیشہ وارانہ قابلیت اور تجربات سے محروم ہوجاتا ہے اور یہ ملک کی کارکردگی   کے لئے بہت نقصان دہ ہوتا ہے اور اس کے اقدار کےساتھ ایک کھیل ہے،  اور اسی طرح  سپرد کی گئی امانت  کا ضیاع بھی ہے۔   عنقریب  اللہ  تعالی سخت  حساب کے دن   اس کا محاسبہ کرے گا    چہ جائے  کہ  دنیا میں ایک بڑی رسوائی  اور شرم سے گذرنا پڑے گا اگراس کا معاملہ  لوگوں پر عیاں  اور اس کی خوشبو عام ہوجائے۔ 

 

 

پچیسواں :

ملازم   جہاں کا م کرتا ہے  سرکاری اوقات سے دیر میں آتا ہے پھر وہ اپنے تمام حقوق کا مطالبہ  کرتا ہے اور وہ ناراض ہوتا اور بسااوقات اگر اس کی تنخواہ  سےکچھ کٹ جاتا ہے تو وہ کارخانہ  کے مالک پر زیادتی اور ناانصافی کی تہمت بھی لگاتا ہے  ۔

 

 

چھبیسواں :

ملازم  قصداًمعاملات  کو نمٹانے میں تاخیر کرتا ہے  اور اس کا جائزہ    لینے میں  معاملہ کو کل پر ٹال دیتا ہے، یا ہر مرتبہ معاملہ  کی پیروی  کرتے   وقت نئے اورمعاملہ سے راست تعلق نہ رکھنے والے کاغذات کا مطالبہ کرتا ہے  جس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہوتا ہے کہ اس کے بدلے صاحب معاملہ اس ملازم کو کوئی نذارانہ  ، مٹھائی   یا  رشوت   دے جوکہ بعض بولیوں میں  تدسیم  الشارب  کے نام معروف ہے  ۔اور وہ بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر نظر اندازکردیتا ہے کہ ان تمام کا گناہ اس پر ہے کیونکہ  اس نے ہی ان کو اس کے لئے مجبور کیا ہے، اس باوجود ان تمام کو رشوت کا گناہ   ملے گا اور اللہ کی نزدیک اس کا سزا ہے۔

 

 

ستائسواں:

 ملازم  اپنی ڈیوٹی پر دیر سے آتا ہے جب اس کے  معاملہ کی پیروی کرنے والے آتے ہیں  انہیں چھوڑ کر ظہر کی نماز کے لئے چلا جاتا ہے جب اس کا وقت وہ  ہوجاتا ہے  اور نصف گھنٹے یا اس کے بعد  دفتر میں واپس لوٹتا ہے تو آپ اسے اپنے ادارے میں لاچار پائیں گے کیونکہ  وہ بہت ہی کم کام انجام دیاہے  جبکہ  پیروی کرنے اس کے دروازے پر ہجوم لگائے ہوتے ہیں۔ اور نبیﷺ کے ارشاد کو بھول جاتا ہے یا بھلا دیا ہے کہ  اے اللہ جو بھی شخص میری امت کے کسی معاملہ کا ذمہ دار بنتا ہے  پھر وہ ان پر سختی  کرتا ہے تو تو بھی اس پر سختی کر۔ 

اور اس سے بڑھ کر اور کیامشقت ہوگی کہ جو  پیروی کرنے والوں سے ٹال مٹول کرتاہو ان کے معاملات کو لٹکا کررکھتا ہو ا اسے ختم  کرنے کے لئے انہیں  کئی کئی بار پیروی کرنے کے مجبور کرتا ہو۔ 

 

 

اٹھائسواں:

ملازم اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں زیادہ تر وقت  دوستوں کے ساتھ گپ شپ  یا  دفتروں کے مابین  آمدورفت میں گذار دیتا ہے اور معمولی کام انجام دے پاتا ہے  اوراگر کام کربھی دیتا ہے  تو بہت کمزور پختگی اورجدت سے خالی ہوتاہے، پھربھی  اپنی   ترقی  اور  پورے پورےبونس کے حق کا مطالبہ کرتا ہے۔

ختم شد

 اور اس پر اللہ کا فضل واحسان ہے

 

 

 

عام اوراق

اس فصل  میں  میں نےآپ کے لئے ان تمام گرے ہو اوراق کو یکجا کیا ہے  جومعاشرے   کے طبقات میں سے ایک بڑے طبقہ سے متعلق ہے،شاید ہم میں سے کسی کا  کسی دن  ایسے لمحوں سے گذرہو  چنانچہ میری چاہت ہے کہ میں اس  سےباخبر کردوں  شاید کہ وہ  مٹ جائے یا اس کے نقصانات کم ہوجائیں۔

 

 

 

انتیسواں : 

خوشیوں اور  مناسبات  کے  وقت  دسترخوان سجانے والوں   ہمیشہ   تمہارےکھانے بڑھ جاتے ہیں جسے کوڑے دان کی تھیلیوں میں  پھینک دیا جاتا ہے  ،اے کاش اسے تم شروع سے ہی  اپنی حاجت کے مطابق پکاتے! 

آپ کو میری نصیحت ہے کہ آپ اللہ  سے ڈریں اورشروع سے ہی  میانہ رو رہیں اور ضرورت  بھر ہی  کھانا لیا جائے جب  بھی یہ  خوراک  سے زائدہوجائیں   تو آپ   رفاہی تنظیموں   جیسے   "جمعیات حفظ النعمۃ "تنظیمہائے  تحفظ نعمت  سے رابطہ کریں  تاکہ اسے فقراء اور ضرورت مندوں تک   بہتر انداز میں پہونچادیا جائے  اور اس کا بہتر وقت یہ ہے کہ وہ کھانا اچھی حالت میں ہو۔ 

 

 

تیسواں:

کچھ ایسے  لوگ ہیں جو وعدہ وفا نہیں کرتے ،آپ  مشاہدہ کرتے ہوں کہ ایک شخص  اپنے دوست  سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ کل فلاں جگہ ہم ملتے ہیں ، پھر و  ہ وہاں نہیں جاتا ،اور اگر اس کا دوست اسے سرزنش کرنے لگتا ہے تو بھول جانے کا بہانہ بناتا ہے  جبکہ  وہ دل سے جانتا ہے کہ جھوٹ بول رہاہے وہ بھولا نہیں تھا بلکہ  سستی کیا،   یا مشغول رہا  اور  بھول کو حجت بنا رہا ہے  اس سے زیادہ حیرت انگیز تو یہ ہے کہ  ان شاء   اللہ   کہہ کر وہ معاملہ کو اللہ کی مشیئت پر ڈال دیتا ہے  ،اور افسوس تو یہ کہ بعض لوگ  اسے   یعنی ان شاء   اللہ    کو وعدہ خلافی کے  لئے ایک ذریعہ کے طور پر استعما ل کرتے ہیں ۔

 میں   یہاں ہرگز اللہ کی مشیئت پر اعتراض نہیں کررہا ہوں  اور اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ ہرگز  اسے نہ کہا جائے  یا اسے چھوڑ دیا جائے، لیکن  میرا مطالبہ ہے کہ اس کااحترام کیا جائے  ہمت اور مقدور بھر  اس کے التزام کی کوشش کی جائے ۔

آئیے ہم   اپنی پچھلی مثال  سے اس کی وضاحت کرتے ہیں   جیسے وعدہ سے  کچھ پل پہلے ہمارے  نے  ان شاءاللہ  کہا  اور وہ  سبب اختیار کرتے ہوئے  اپنی گاڑی   پرسوار ہوگیا  پھر اللہ کی تقدیر غالب آگئی    ٹرافک  حادثہ  یا کسی اور وجہ سے   گاڑی        بند ہوگئی   اور اسے آنے میں تاخیر ہوگئی یا سرے سے پہونچ ہی نہیں سکا، اس پر اسے کوئی  ملامت نہیں کرے گا      تب ہم کہیں کہ اللہ  کی مشیئت نہیں تھی کہ وہ اپنے دوست  سے ملاقات کرسکے۔ اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں،  معاشرے   کا ہر زمرہ  اس میں ملوث ہے  یہ ایک  مظہر اور مشکل امر بن گیا  جو عام ہوگیا اور مصیبت بن  گیا ۔

 

 

اکتسواں 

بہت سے   افراد ایسے بھی  ہیں  جو اپنی زندگی  کے بعض زاوئیے میں  دھوکہ دھڑی  کا مظاہرہ کرتے ہیں بعض طلبہ   اپنے دوستوں  سے  ہوم ورک کی کاپی کرلیتے ہیں امتحانات  میں جواب میں  دھوکہ دیتے ہیں۔ 

کچھ  سامان فروش  اپنی پیدا وار  کا عمدہ حصہ  خریداروں کے  دکھانے کے لئے  رکھتے ہیں اور جب  خریددار  اسے مانگتا ہے تو  عمدہ اورگھٹیاں  دونوں  کو مخلوط کردیتے ہیں ۔

اور کچھ  صنعت گر اور پیشہ ور آپ کی گاڑی  یا کسی چیزکی اصلاح کرتے ہیں کچھ  ہی  دن گذر تا ہے کہ وہ پہلے کی طرح  بے کار ہوجاتی ہے۔

کچھ  طبی  خدمات پیش کرنے والے  مریض کے لئے بہت ساری دوائیں لکھتے ہیں اور غیر ضروری چانچ لکھ دیتے ہیں جس کا مقصد  اعلی  معیار کی آمدنی حاصل کرنا ہے ۔

 کچھ  انجنیئر  اور ٹھیکیدار    انجینیرنگ  ڈرائنگ اور کیمیائی        مواد  میں دھوکہ دھڑی کرتے ہیں اس لئے آپ مشاہدہ کرتے ہیں بعض  عمارتیں   تعمیر کے کچھ  مدتوں بعد   ڈھ  جاتی ہیں  یا ان  اس میں کچھ  جگہوں شگاف ہوجاتا ہے اور کہیں کہیں سے کچھ حصے گر جاتے ہیں ۔

یہ تما م تصرفات  اور اسی کی طرح دیگر چیزیں صریح دھوکہ ہے جس  سے ہمارے نبیﷺ نے ڈرایا ہے  ایک مرتبہ وہ   غلہ کے ایک ڈھیر سے گذرے تو اس میں ہاتھ ڈال دیا   ان ﷺ کی انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی  تو انہوں نے فرمایا اے غلہ کے مالک یہ کیا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ بارش کی وجہ سے ایسا ہوگیا ہے  تو نبیﷺ گویا ہوئے  کہ آپ نے اسے اوپر کیوں نہیں کردیا ؟  تاکہ  لوگ دیکھ سکیں  ،جس نے دھوکہ دیا وہ مجھ سے نہیں([23])۔ 

 

 

بتیسواں 

کچھ  افراد ایسے بھی ہیں   جو فٹبال  یا دوسرے کسی کھیل کا میچ  دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ انہیں  پائیں گے کہ وہ کسی ایک ٹیم کے لئے  کے فتح یا شکست   پرچیختے  ، چلاتے ہیں اور باہم  لڑ جاتے ہیں  ہم انہیں یہ یاد دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ  یہ صرف ایک میچ  یا کھیل ہے  اس میں آپ کو اوٹنی ملنے والی ہے  نہ اونٹ، اگر ٹیم جیت بھی گئی  اور اس کی عزت افزائی  کی جائے یا  محتنتانہ دیا جائے تو اس میں سے آپ کو کچھ بی نہیں ملنے والا ہے۔ اسی طرح اگر انہیں شکست یا ہزیمت اٹھانا پڑے  تو بھی آپ کو اس میں کچھ نہیں لاحق ہوگا۔

یہ میچ تو صرف  لطف اندواز ی اور دلاسہ کے ساماں ہیں ،ہم جسے پسند کرتے ہیں یا ان کے لئے مرتے  ہیں  اس کے لئے خواہ کتنا ہی اختلاف کریں  یہ باہم  بغض وعداوت  تک نہیں جانا چاہئے۔  ہمیں آپس میں محبت اور احترام     کرنا چاہئے کسی مسئلے میں  ہماری رائے کتنی مختلف کیوں نہ ہوں۔  سوجداگانہ رائے  یا اختلاف   جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ      چاہت میں  کسی مسئلہ کو خراب نہیں کرنا چاہئے۔ 

 

 

تیتسواں:

کچھ افراد ایسے ہیں جو ہر جگہ جہاں  سے کوچ کرتے ہیں یا وہاں اترتے ہیں گندیاں  پھینکتے ،آپ دیکھیں  گے کہ  ایک آدمی اپنے کارکا شیشہ  کھولتا ہے اور کوئی  ٹیشو،  جوس کی پیکٹ یا اس کی  مشابہ کوئی  چیز پھینک دیتا ہے،  جبکہ بعض لوگوں کو دیکھیں  ان کے دروازے کے سامنے  کوڑوں کا ڈھیر ہوتا جو  کسی مونسپلٹی کی گاڑی  کے آنے کا انتظار کررہا  ہوتاہے جب کہ ہونا یہ چاہئے کہ  اسے کوڑے دان میں ڈال دیا جائے،  آپ دیکھیں  ان  ہی میں بعض لوگ جب   عام پارک، خشکی میں کسی جگہ ،یا کسی جنگل میں اترتے ہیں اور جب وہاں سے کوچ کرتے ہیں  تو ان کی نششت گاہ کے آس پاس کی جگہیں  دیکھیں گے  بچے ہوئے کھانے، کاغذی گلاس، اور پلاسٹک کی تھیلیوں  سے  اٹے ہوتے ہیں وہ جگہ  جب تک اسے دوبارہ  صاف ستھرا نہ کیاجائے  قابل استفادہ نہیں ہوتی، یہاں  صفائی پر مامور عملہ کوہمارا تعاون  یا مدد ملنے کی بجائے  (ہمارے  خراب  تصرف سے)ان  کی بوجھ بڑھ جاتی ہے، ہمیں تمام  گندیوں کو ایک بڑی تھیلی میں بھر کر پاس کے کوڑے دان میں ڈال کر ایسے عملہ کا تعاون کرنا چاہئے۔ یہ تمام  روش اسلام کے طریقے کے باکل خلاف ہے  وہ  ہمیں صفائی پر ابھارتا ہےاور اس کا شوق دلاتا ہے ، جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ایمان کے ستر سے زیادہ شاخیں  ان میں سب سے افضل  لاالہ الا اللہ کہنا ہے  اور اس میں سب کم تر  راستے سے تکلیف دہ  چیز کو مٹا دینا ہے ۔

اور نبیﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : میں جنت میں ایسے شخص کو پہلو بدلتے دیکھا ہے جس نے اس درخت  کو کاٹ دیا تھا جو راستے میں تھا جس سے لوگوں کو تکلیف پہونچتی تھی([24])۔ 

یہ اس شخص کا بدلہ ہے جس نے تکلیف دہ چیز ہٹا دی تھی  تو آپ بتائیے کہ اس کیا سزا ہوگی جو اسے جان بوجھ کر کرتا ہے!!([25])۔

اور نبیﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ : بیشک اللہ تعالی صاف ستھرا ہے  اور صفائی کو پسند کرتا ہے کریم ہے  کرم کو پسند کرتا ہے سخی ہے سخاوت کو پسند کرتا ہے تو تم اپنے کمپاونڈ کو صاف ستھرا رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو([26])۔

 

 

چوتیسواں 

کچھ افراد ایسے ہیں جو ہمارے معاشرےمیں زندگی گذارتے ہیں  لیکن ان کا مقصد قوانین اور  رسم ورواج  کا خلاف ورزی  کرنا ہے،   بطور مثال آپ  انہیں  پائیں گے  برق رفتاری سے آتے ہیں اور سنگل  لائٹ  سے گذر جاتے ہیں اور جہاں لوگ  نظامی طور پر پہلے سے کھڑے ہوتے ہیں  وہاں بھیڑ کردیتے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ  نیشنل ڈے اور کسی اور موقع پر  گروپ (کی شکل میں) راستوں کوبلاک اور ٹرافک کو جام کردیتے ہیں، جب کہ دوسرے   لوگ بینک  یا کسی سرکاری محکمہ میں لائن میں انتظار کررہے  لوگوں   سے آگے جانے کی کوشش  کرتے ہیں، اسی طرح  آپ کچھ دوسرے لوگوں کو پائیں گے کہ جب کسی چیز کی محدود تعداد میں خریدنے کی اجازت ہوتی ہے  تو ایک سے زائد ٹکڑے خریدنے  کی کوشش کرتے ہیں۔

قوانین سے لاپرواہی اور دوسرے لوگوں کے احساسات کے قدر نہ کرنے کے  بہت سے مظاہر میں سے یہ چند مظہر ہیں۔ 
 

 

 

پیتسواں:  برگ شناسائی :

ایک ہمسایہ  اپنے آس پاس کے ہمسایوں سے تقریبا ناآشناہے ، اگر اپنے ہمسایے  کو  دور سے یا مسجد میں دیکھ لیا  تو صرف اشاروں میں ہی  سلام پر اکتفا کرلیتا ہے اور کہیں دو بدوہ ملاقات ہوگئی تو  صرف سلام ہی سلام  ہوتا ہے  ، ایسانہیں ہوتا کہ کسی دن  وہ اسے اپنے گھر کافی  یا چائے نوشی پر دعوت دے دے اور اس  کے حالات دریافت کر لے۔

یہ  مظہر میں تمام لوگوں  پر عام نہیں کررہا ہوں بلکہ صورت حال یہ ہے کہ ہر گلی اور محلہ میں یہ پھیلا ہوا ہے اور اس میں  مرد حضرات خواتین سے قدرے زیادہ ملوث ہیں  اور اسی   طرح۔۔۔

میں ہر ایک ہمسایہ سے متعلق   جبریل  علیہ السلام کی وصیت کرتا ہوں   جیساکہ رسول  اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : ہمیں مسلسل جبریل ہمسایہ  کے متعلق وصیت کرتے رہے  یہاں تک  کہ ہمیں  گمان ہوگیا کہ  عنقریب وہ اسے وارث بنادیں گے([27])۔ 

 

 

چھتیسواں :  برگ ہمسائیگی 

ایک   ہمسایہ  جس  کی اور اس کی اولادکی اذیت سے  اس کا پڑوسی محفوظ  نہیں ہے، آپ دیکھیں گے کہ  وہ اکثر اپنے پڑوسی  کے دروازے کے سامنے کاڑی کھڑی کرتا ہے، اور اس کے بچے پڑوسی کے دروازے کے پاس کھیلتے رہتےہیں اور کبھی کبھار اس کے گاڑی کے شیشے توڑ دیتے  ہیں یا اپنی گنید سے اس کی کھیتی  برباد کردیتے ہیں  ، اور شب وروز  جو شورغل مچاتے ہیں اس کی تو کوئی بات ہی نہیں، ایسے پڑوسی کو  کیا  اس کی  خطرناکی کا علم نہیں ؟!!۔ 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا،  پوچھا گیا کہ اے رسول اللہﷺ وہ کون ہے؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کی برائی سے محفوظ نہ ہو([28])۔

اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں داخل ہوسکتا جس کا پڑوسی اس کی برائی سے محفوظ نہ ہو([29])۔

یہاں مؤمن نہ ہونے  کامطلب   یہ نہیں کہ وہ کافر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ  اس کا ایمان مکمل نہیں ہے بلکہ اسے میں کمی ہے۔  

 

 

سینتیسواں:

ایک شخص    جس کے پاس جب بھی کوئی  زیارت کرنے والا آتا ہے خواہ وہ اسی شہر ہی کا کیوں نہ ہو اس کے لئے جانور ذبح کرتا ہے  میں یہاں  کرم اور سخاوت  کی مذمت نہیں کرتا یا بخالت کنجوسی کی دعوت دے رہا ہوں  لیکن آپ اس طرح کے لوگوں کو پائیں گے   کہ قرض لیتے ہیں اور اپنے کندھے پر قرض کی بوجھ لاد لیتے ہیں اور اپنی بساط سے زیادہ  تکلف کرتے ہیں جب  کہ  اس برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو  دکھاوے کی سخاوت  کو حجت بناتے ہوئے اپنے اہل وعیال  پر کنجوسی  کرتے ہیں۔

اس شخص اور اس کے نظیر لوگوں  سے میں کہتا ہوں جو میسر ہو اس سے  مہمان کی خاطر داری  کرو، سخاوت      اور حد سے زیادہ  خرچ کرنے کا تکلف نہ کرو،  مہمان کی عزت و تکریم خوش دلی ،  خوشگوار ملاقات  اور خنداں پیشانی سے کریں اور اگر مناسب  خورد نوش کی چیزیں میسر ہیں  تو اچھی اور بہتر بات ہے۔ 

 

 

اڑتیسواں: 

ایک آدمی  ہوٹل  کے خادم اور ویٹر کو ہدیہ   دیتا ہے اور جب اسے کوئی نادار  ،تنگ دست ملتا ہے  تو اسے نظر انداز کرجاتا ہے اور دیتا بھی  تو چند کوڑیاں، یا راستے پر کسی   سادہ لوح  ساماں فروش   سے کوئی چیز خریدتا ہے  تو بہت  بھاؤ تاؤ  کرتا ہے اور اس کے سامان کو بہت کمتر درجہ تک بتاتا ہے تاکہ  اسے چند سکوں میں خرید لے جو نا تو اس کی جد وجہد کے موافق ہوتا ہے  اور نا ہی  اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ضرورت  کو پورا سکتا ہے۔ 

 

انتیسواں: برگ  باہمی تعاون

ایک   عمر رسیدہ شخص اپنے ہاتھوں میں  کئی تھیلیاں لئے تنہا محلے کی گلیوں  میں چل رہا ہے  محلے کے نوجوان اسے دیکھتے ہیں تاہم اس  کی مدد کے لئے  کوئی آگے نہیں بڑھتا ہے، اور وہ   رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو بھول جاتے ہیں:  اللہ  اس وقت  تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک  وہ اپنے بھائی کی مدد  کرتا  ہے([30])۔ 

 

 

چالیسواں:  بر گ وفا

ایک آدمی  جس نے اپنے کسی قریب  کے ساتھ بھلائی کیا  اور کسی خاص   کام کے آغاز کرنے میں اس کی مدد کی ،مرور زمانہ  کے سے جب وقت کروٹ لیتا اور یہی آدمی   جب اپنےاس قریبی  شخص کے پاس  مدد کے  جاتا ہے   تو وہ   اس کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے  اور اس کی دشواریوں کو آسان بنانے کی وعدہ کرتا ہے لیکن  درحقیقت  اس کی مدد توقع سے بہت کم  اور پرامید شخص کی امید سے بہت   تھوڑی ہوتی ہے۔ 

 

 

اکتالیسواں : برگ نوازش

ایک ایسا شخص  جس پر اللہ نے  دولت اور مرتبت  جیسی  عام بھلائیوں کاانعام کیا ہے  ، پھر وہ  اپنے  پاس پڑوس میں اپنے قریبیوں  کو دیکھتا ہے  کہ  وہ مال کا سخت  ضرورت مند ہے تاکہ  وہ رہائش اور تعلیم  جیسے گھریلو  ضرورت ہو پوری کرسکے لیکن یہ  اس کی جانب مددکا ہاتھ  نہیں بڑھاتا  اور کچھ نوازشیں  کرتا بھی ہے تو اتنی کم ہوتی ہیں کہ ضرورت کے لئے ناکافی ہوتی ہیں۔

اور رسول اللہ ﷺ  کے اس فرمان سے غافل ہوجاتے ہیں یا اسے بھلادیتے ہیں  کہ مسکین کو صدقہ دینا  صدقہ ہے  اور  رحم کے رشتہ دار پر صدقہ کرنا  صدقہ اور صلہ رحمی دو چیزیں ہیں([31])۔ 

 

 

بیالسواں: 

ایک شخص  کوجسے بفرسسٹم سے جانا جاتا ہے  اس پر دعوت دی جاتی ہے تو  آپ اسے پائیں گے کہ ایک پلیٹ  میں اسٹارٹر، دوسرے میں اہم پکوان اور تیسرے مٹھائیاں  بھر لیتا ہے وہ اپنی کرسی سے اس حال میں اٹھتا ہے کہ اس میں  آدھا یا چوتھائی  مقدار بھی نہیں کھاپاتا ہے  یہ اس  کھانے  کا حساب نہیں لگاتا ہے  آپ  اسے اس جانور کی طرح گھومتا ہوا پائیں گے جوزرخیز چراگاہ میں  گھومتا ہے؟!!

وہ یہ بھول جاتا ہے یا بھلادیتا ہے کہ بہت سے فقراء اس  مزیدار پکوان  کےایک لقمہ  کی تمنا کرتے ہیں ۔

 

 

تیرالسواں: برگ   رفاقت

ایک آدمی  اپنے رشتہ دار یا دوست سے معمولی اختلاف کی وجہ قطع تعلق کرلیتا ہے، اور باہم سالوں  کے برتاؤ اور خوشگوار دنوں  کو بھلادیتا ہے  ہم یہاں ایک کہاوت ذکر کررہے ہیں جو  بہت سے عوام میں رائج ہے کہ   "يهون عليك العيش والملح "  آپ کے لئے عیش وعشرت آسان ہو۔

اسی طرح مین شاعر بشار بن برد  کی وصیت کی وصیت کرتا ہوں: 

إذا كنت في كل الأمور معاتبا

صديقك لم تلق الذي لا تعاتبه

جب آپ اپنے دوست کی ہر بات میں سرزنش کریں گے  تو آپ  جس سے ملیں گے وہ اس کی سرزنش کرے گا

فعش واحدا أو صل أخاك فإنه

مقارف ذنب مرة ومجانبه

پھر یا تو تنہا جیئو یا اپنے بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کرو کیونکہ  کبھی غلطیوں  کومعاف کردے گا تو کبھی اس سے بچا لے گا۔ 

ومن ذا الذي ترضى سجاياه كلها

كفى المرء نبلا أن تعد معايبه

کون سا وہ شخص جس کی تمام  عادتوں   سے آپ خوش ہوں  آدمی کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہےکہ اس کے عیوب شمارکئے جائیں ۔ 

 

 

چوالیسواں : 

ایک آدمی صرف  اسے سلام کرتا ہے جسے وہ اپنے دوستوں، ہمسایوں اور گذرنے والوں میں سے پہچانتا ہے،اور سلام کا جواب صرف   اپنی قوم کے لوگوں ، شناساؤں اور متعلقین کو دیتا ہے اور اللہ تعالی کے اس قول کوبھول جاتا ہے :  ]وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا [ [النساء: 86]

جب تم پر سلام پیش کیا جائے  تو تم اس سے بہتر سلام پیش کرو یا اسی کولوٹا دو،  بیشک اللہ ہر ایک چیز کا حساب کرنے والا ہے۔ 

اسی طرح رسول اللہﷺ کی اس حدیث کو بھلادیا جاتا ہے: کہ ایک آدمی نبیﷺ سے سوال کیا  کہ کون سا اسلام بہتر ہے   ، تو انہوں ﷺ نے فرمایا کھانا کھلانا، اور جسے آپ جانتے ہو اور جسے نہیں جانتے سب کو سلام کرنا([32])۔ 

 

 

پینتالسواں: 

ایک آدمی  جب بھی  کوئی اس  سےقرض مانگتا ہے   انکار نہیں کرتا خاص  طور  پرانہیں جو اس  کے رشتہ دار اور شناسا وں میں سےہیں لیکن ان میں کچھ لوگ  ادائیگی کی طاقت کے باوجود لوٹانے میں  تاخیر کرتے ہیں اور انہیں یہ نہیں پتہ  کہ ان کا یہ عمل احسان کرنے والوں کو اپنے احسان میں ہمیشگی برتنے سے روک دے، اور وہ اللہ کے رسولﷺ کے اس قول کے اعتبار سے خود کوکہاں پاتے ہیں :  مالداروں کا ٹال مٹول ظلم ہے([33])۔ 

 

 

چھیالسواں: 

ایک شخص  تیررفتاری سے آتا ہے کسی  خورد ونوش اشیاء کی دوکان یا ریسٹورینٹ کے  سامنے اپنی گاڑی کو اس طرح  کھڑی کردیتا ہےکہ دوسروں  کے لئے رکاوٹ  بن جاتی ہے منٹوں بیت جاتی ہے اسے  یہ نہیں  پتہ چلتا ہے کہ  وہ گاڑیوں  کے جام اور روڈ پہ   ٹرافک کا سبب بن  رہا ہے ، اور جب دیر سے نکلتا ہے  تو عام طورپر ایسا پائیں گے  کہ کوئی  افسوس یا معذرت کے کلمات پیش کرے۔ کیا اس کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ ٹرافک قانون کے مطابق گاڑی پارک کرتا اور لوگوں کو اذیت پہونچانے اور انہیں   روک دینے بچتا ۔ 

ختم شد

 اور اس پر اللہ کا فضل واحسان ہے

 

 

 

خاتمہ

اخیر میں  میں اللہ تعالی  کی ہر طرح  کی تعریف کرتا ہوں جس نے  ان پاکیزشگوفوں کے یکجا کرنے کو آسان بنایا، اور اللہ ہی سوال کرتے ہیں کہ اسے معاشرے کے تمام افراد کے لئےنفع بخش بنائے اور وہ ہمیشہ ہمیں ہدایت، درستگی اور اچھے اخلاق کا الہام کرتا رہے ، بیشک وہ  سخی اور فیاض ہے ۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين، وسلام على المرسلين، وصلى الله  على نبينا محمدe  وعلى آله وصحبه أجمعين.

 

                     

بحمد اللہ ختم شد 

 

 

 

 

 

 

 

                                                                             

 

                                      

 

                                                               

 

([1]) علامہ البانی نے اس پرسلسلہ صحیحہ  (۴۵) میں صحیح  کا حکم لگایا ہے۔

([2]) صحیح،  ترمذی نے اسے    کتاب البر (۲۰۰۳)، اور ابوداود نے کتاب الادب (۴۷۹۹)  میں روایت کیا ہے ،  بذی : اسے کہاجاتا ہے  برا اورگھٹیہ باتیں کرتا ہو۔ 

([3])متفق علیہ   : بخاری نے  کتاب المناقب (۳۵۵۹) اور مسلم نے کتاب الفضائل (۲۳۲۱) میں روایت کیا ہے۔

([4])صحیح،  ترمذی نے اسے    کتاب البر (۲۰۰۴)، اور ابن ماجہ نے کتاب الزہد (۴۲۴۶) میں  روایت کیا ہے

([5])صحیح،  ابوداود نے کتاب الادب (۴۷۹۸)  میں روایت کیا ہے

([6])صحیح،  ترمذی نے اسے    کتاب البر (۲۰۱۸) میں  روایت کیا ہے

([7]) صحیح ،  البانی نے اسے صحیح الجامع  (۷۲۶۷) میں روایت کیا ہے۔ 

([8]) اسے  بخاری  نے کتاب الایمان  (۳۰) میں روایت کیا ہے۔ 

([9]) مسلم نے   اپنے صحیح کتاب الرضاع   (۱۴۶۹) میں روایت کیا ہے۔ 

([10]) البانی نے اسے غایۃ المرام   (۲۶۳) میں صحیح  کہا ہے۔ 

([11]) اسے ابوداود  نے اپنے سنن کے کتاب  صلۃ البر (۱۶۹۲) میں روایت کیا ہے جسے البانی  کو حسن کہا ہے۔ 

([12]) مسلم نے اپنے صحیح میں کتاب الایمان (۷۹) میں رویات کیا ہے۔ 

([13]) بخاری  نے اپنے صحیح  میں کتاب الایمان (۲۹) میں روایت کیا ہے۔ 

([14])  ہرے پیاز کے پتے کی طرح  ہوتا ہے  جس میں ایک خاص قسم کی بو ہوتی ہے ۔ 

([15]) اسے مسلم نے اپنے صحیح  کتاب  المساجد (۵۶۴) میں روایت کیا ہے ، اس میں مسجد میں کسی ایسی حالت میں داخل ہونے سے صریح طور پر منع کیا ہے  جس   میں  ناپسندیدہ بو آتی ہو ،جیسے : پسینہ یا سگریٹ نوشی  وغیرہ۔ 

([16])   ابن باز رحمہ اللہ  اس سوال  کیا جمعہ کے دن امام کے پیچھے  جگہ  خاص کی جاسکتی ہے ؟کے جواب میں فرماتے ہیں کہ  مسجد اللہ کا گھر ہےجو اس کی  تعمیر  عبادت اور طاعت کے لئے تیار کی جاتی ہے  جیسے نماز وغیرہ، اس لئے کسی کے لئے  جائز نہیں کہ امام کے پیچھے، دائیں یا بائیں کوئی جگہ  خاص کرے   جو شخص پہلے آئے گا  اس کی جگہ ہوگی  پہلی صف  اس کے لئے جو پہلے آیا، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ  اگر لوگوں کو  اذان اور پہلے صف کی اہمیت پتہ چل جائے  اور اگر  مقام بلاقرعہ اندازی کے نہ حاصل ہو تو اس کے لئے قرعہ اندازی کریں گے۔ یعنی کہ  پہلے آنے کے لئے  اور آگے بڑھ جانے کے لئے قرعہ اندازی کریں گے، اس لئے اس کا جگہ کو خاص کرنا جائز نہیں بلکہ ایک طرح سے جگہ پر قبضہ کرنا ہوگا اور جس نے غصب کیا وہ حقدار نہیں ہے  بلکہ پہلے آنے والا اس جگہ ٹہرنے اوراس آگے بڑھ جانے کا اس سے زیادہ حق دارہے۔ 

([17]) اسے بخاری نے کتاب الجمعہ (۸۸۱) اور مسلم  کتاب الجمعہ  میں (۸۵۰) اور ابوداود نے کتاب الطہارہ  میں (۳۵۱)  میں روایت کیا ہے۔ 

من اغتسل  یوم الجمعہ غسل الجنابۃ: ای مثل غسل الجنابۃ : یعنی جنابت کے غسل کی طرح غسل کیا ۔ 

([18]) صحیح ہے ، اسے  ابود اود نے کتاب فرض الصلاۃ  (۱۱۱۸) اور  نسائی نے کتاب الجمعہ (۱۳۹۹) میں روایت کیاہے۔ 

([19]) اسے البانی نے سلسلہ صحیحہ  ( ۷/۴۵۵) میں صحیح قرار دیا  ہے۔ 

([20]) صحیح ہے ، البانی  نے اسے صحیح الجامع (۴۴۳۶)  میں روایت کیا ہے،  شیخ ابن باز رحمہ اللہ  اس حدیث کی شرح میں یہ فرماتے ہیں:  یہ خطرے کی نشاندہی کرتا ہے  کیونکہ معاملہ احتیاط اور صبر  کا متقاضی ہے ، یہاں تک  کہ وہ حق کو جان لے اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ  کرے،  جس نے حق کو جانا اور اس کی بنیاد پر فیصلہ  کیا  تو وہ جنت میں جائے گا کیونکہ  وہ اصلاح پسند ، لوگوں کے لئے نفع بخش  اور صاحب حق تک  ان کے حقوق  پہونچانے  والا ہے،   جو علم کی بنیاد پر فیصلہ  کرتا  ہے تو اس کے لئے جنت ہے  اور یہ  ایک بڑی شان ہے۔  لیکن اگر کوئی یہ جانتے ہوئے کہ یہ ظلم ہے اور  لوگوں  میں فیصلہ  ظلم کی بنیاد پر ، یا جہالت کی بنیاد  پر کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کا وعدہ ہے۔ ہم اللہ سے اس سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ 

([21]) اسے بخاری   نے کتاب المظالم  (۲۴۴۷) میں روایت کیا ہے۔ 

([22]) اسے بخاری   نے کتاب المظالم  (۲۴۴۷) میں روایت کیا ہے۔

([23]) اسے مسلم  نے کتاب الایمان (۱۰۲) میں روایت  کیا ہے ۔

([24]) متفق علیہ، اسے بخاری نے کتاب الایمان (۹) اور مسلم نے کتاب الایمان (۳۵) میں روایت کیا ہے۔

([25])  اسے مسلم نے  ازلۃ الاذی عن الطریق (۱۹۱۴) میں روایت کیا ہے۔

([26]) البانی نے اسے ضعیف الجامع (۱۶۱۶) میں ذکرکیا ہے  اس کے معنی صحیح ہونے کی وجہ سے اس سے استدلال کیا جائے گا گرچہ وہ ضعیف ہے۔ 

([27]) متفق علیہ  اسے بخاری نے کتاب الادب (۶۰۱۵) اور مسلم  کتاب البر والصلۃ   والادب (۲۶۲۴) میں روایت کیا ہے۔ 

([28])  اسے بخاری   نے کتاب الادب  (۶۰۱۶) میں روایت کیا ہے،  بوائق  یہ بائق  کی جمع ہے   جس کا معنی ہے برائی اوراذیت ۔ 

([29]) اسے  مسلم  کتاب الایمان (۴۶) میں روایت کیا ہے۔ 

([30]) اسے  مسلم   نے  کتاب الذکر والدعاء والاستغفار (۲۶۹۹) میں روایت کیا ہے۔ 

([31]) اسے  البانی  نے صحیح کہا ہے، اور نسائی نے  کتاب  فی الصدقۃ علی الأقارب (۲۵۸۲)، اور ترمذی   نےفی الزکاۃ (۶۵۸) میں روایت کیا ہے۔ 

([32]) اسے بخاری نے کتاب الاستئذان  (۶۲۳۶) میں روایت کیا ہے۔ 

([33]) بخاری  نے اسے کتاب الاستقراض  (۲۴۰۰) میں روایت کیا ہے۔

گرے پتے

ڈاؤن لوڈ کریں

کتاب کے بارے میں

مصنف :

Hakam A. Zummo Al-Aqily

پبلیشر :

www.islamland.com

قسم :

For New Muslim